30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حُضُور رِسالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حضرتِ جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ نِکاح فرمانے کی خبر جب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو پہنچی تو ان شمع نبوت کے پروانوں کو یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ جس قبیلے میں سردارِ دو جہان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نِکاح فرمائیں اس قبیلے کا کوئی فرد ان کی غُلامی میں رہے چنانچہ ان کے پاس جتنے لونڈی غُلام تھے سب کو یہ کہہ کر آزاد کر دیا کہ یہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَصہَار (سسرالی رشتے دار) ہیں۔ ([1]) چونکہ اس نِکاح کی برکت سے خاندانِ بنی مُصْطَلق کے بہت سے اَفْرَاد نے غُلامی کی زِنْدَگی سے نجات پائی اس لئے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اسے بہت زیادہ خیر وبَرَکَت والا نِکاح قرار دیتے ہوئے فرماتی ہیں: ” فَمَا رَاَیْنَا اِمْرَاَۃً کَانَتْ اَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا قوم پر خیر وبَرَکَت لانے والی کوئی عورت ہم نے حضرتِ جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بڑھ کر نہیں دیکھی۔ ([2])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! گُزَشتہ سُطُور میں مَرْقُوم (لکھے گئے) واقِعِے سے بےشمار ایمان اَفْرَوز مَدَنی پُھول حاصِل ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک دَرْج ذیل ہیں:
٭صحابہ کی جانثاری وعشق رسول
معلوم ہوا کہ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا اِطَاعَتِ رسول کا جذبہ بےمثال تھا۔ یہ جذبہ ان کے اندر اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور یہ حضرات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم کی بجاآوری کے لئے ہر وَقْت اس طرح مُسْتَعِد وتیار رہتے تھے کہ صرف ایک پکار پر کسی بھی شے کو خاطِر میں نہ لاتے ہوئے، انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں میدانِ کارزار میں کُود پڑتے اور جان کی بازی تک لگا دیتے، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنا آقا ومالِک اور خود کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مملوک وغلام جانتے نیز ان حضراتِ قُدْسِیَّہ کے دِلوں میں عشق مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شمع اس قدر فَروزاں (روشن) تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت کا بھی دل وجان سے احترام کرتے کہ وہ خاندان جس سے حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رشتۂ مُصَاہَرَت (سسرالی رشتہ) قائم ہو گیا اس کے کسی فرد کو غُلام رکھنا تک گوارا نہ کیا اور بِلاچُوں و چَرا اور کسی کے کچھ کہے بغیر ہی اس کے ہر ہر فرد کو غُلامی سے آزادی دے دی جیساکہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: ” وَاللہِ مَا کَلَّمْتُہٗ فِـیْ قَوْمِیْ حَتّٰی کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ ھُمُ الَّذِیْنَ اَرْسَلُوْھُمْ خُدائے ذُوْالْجلال کی قسم! میں نے اپنی قوم کے سلسلے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کوئی بات نہیں کی، مسلمانوں نے خود ہی انہیں آزاد کر دیا۔ “ ([3] )
٭خود ستائی کے نام نہ رکھے جائیں
یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے نا م جن سے بدفالی (بدشگونی) نکلتی ہو، نہیں رکھنے چاہئے۔ نیز ایسے نام بھی نہیں رکھنے چاہئے جن میں تزکیۂ نفس اور خُودستائی (اپنی تعریف) پائی جاتی ہو کہ ایسے ناموں کو نبیوں کے سالار، محبوبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ناپسند فرماتے تھے اور تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔
٭بوقتِ ضرورت جھوٹ بولنا...
یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بوقتِ ضرورت جھوٹ بولنا یعنی ایسی بات کہنا جو حقیقت میں واقِع کے خِلَاف ہو، جائز ہے۔ ان ضرورت کی جگہوں کا بیان کرتے ہوئے خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرِ شریعت، بدرِ طریقت حضرتِ علّامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی فرماتے ہیں: تین۳ صورتوں میں جُھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں:
٭ ایک جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مُقَابِل کو دھوکا دینا جائز ہے، اسی طرح جب ظالم ظلم کرنا چاہتا ہو اس کے ظلم سے بچنے کے لیے بھی جائز ہے۔
٭ دوسری صورت یہ ہے کہ دو۲ مسلمانوں میں اِخْتِلَاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے، مثلاً ایک کے سامنے یہ کہدے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے، تمہاری تعریف کرتا تھا یا اس نے تمہیں سلام کہلا بھیجا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تا کہ دونوں میں عداوت کم ہو جائے اور صلح ہو جائے۔
٭ تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات خِلَافِ واقِع کہدے۔ ([4])
٭فتح وکامرانی کا حُصُول
ایک بات یہ بھی سیکھنے کو ملی کہ جب کوئی بندہ خُلُوْصِ دل سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا کے حُصُول کے لئے کوشش کرتا ہے تو کامیابی ہر میدان میں اس کے قدم چُومتی ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی غیبی اِمداد اس کے شامِلِ حال ہوتی ہے اور بظاہِر اسباب نہ ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ فلاح وکامرانی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں کہ کیسے وہ بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کی بھاری تعداد پر فتح پاتے رہے...! ! تاریخ کے اَوْرَاق پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنی کمی یا کثرت پر نظر کئے بغیر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خوشنودی پانے کے لئے اور شہادت کے شوق میں میدانِ کارزار میں کُودتے تھے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کُفّار کے دلوں میں ان کا رُعْب ودبدبہ ڈال دیتا۔غزوۂ مُرَیْسِیع بھی اِنہیں میں سے ایک ہے جیسا کہ حضرتِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: جب رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے پاس تشریف لائے میں نے لوگوں اور گھوڑوں کی اس قدر کثیر تعداد دیکھی کہ بَیَان نہیں کر سکتی پھر جب میں اسلام لے آئی اور رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے نِکاح فرما لیا تو میں نے دوبارہ مسلمانوں کو دیکھا تو دَرْحقيقت وہ اتنے نہیں تھے جتنے پہلے دیکھے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ یہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کی طرف سے مُشْرِکِیْن کے دلوں میں رُعْب ڈالا گیا تھا۔ نیز قبیلہ بنی مصطلق کے ایک اور شخص نے مُشَرَّف بہ اسلام ہونے کے بعد اِظْہَار کیا کہ ہم چتکبرے (سیاہ وسفید) گھوڑوں پر سوار ایسے نُورانی اَفْرَاد کو دیکھتے تھے جنہیں نہ پہلے کبھی دیکھا تھا نہ بعد میں۔ ([5])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تَعَارُفِ سیِّدَتُنا جُوَیْرِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نام بَرَّہ تھا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبدیل فرما کر جُوَیْرِیہ رکھا۔ قبیلہ بنی مصطلق سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا تَعَلُّق ہے جو خُزَاعَہ کی ایک شاخ ہے۔ والِد کا نام حارِث ہے اور نسب اس طرح ہے: ” حارِث بن ابو ضِرَار بن حبيب بن عائِذ بن مالِك بن جَذِيْمة (مُصْطَلق) بن سَعْد بن كَعْب بن عَمْرو بن ربيعه (لُحَی) بن حارِثة بن عَمْرو (مُزَيْقيا) بن عامِر (مَاءُ السَّمَاء) ([6]) بن حارِثه (غِطْرِيف) بن اَمْرِىءُ الْقَيْس بن ثَعْلَبَه بن مازِن بن اَزْد بن غوث بن نَبْت بن مالِك بن زيد بن كَهْلَان بن سَبَاَ (عامِر) بن يَشْجُب بن يَعْرُب بن قَحْطَان بن عَابِر، کہا گیا ہے کہ یہ (یعنی عابِر) حضرتِ سیِّدُنا ہُوْد عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ “ ([7])
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع