لشکرِ اسلام کا پڑاؤ اور ایک شخص کا قبولِ اسلام
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Faizan e Ummahatul Momineen | فیضانِ اُمَّہاتُ المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عَنْہُنَّ

book_icon
فیضانِ اُمَّہاتُ المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عَنْہُنَّ

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے لشکرِ کفار کے بارے میں پوچھا اس نے کچھ نہ بتایا پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے اِسْلام قبول کرنے کی دعوت دی اس نے اس سے بھی انکار کر دیا تو مدینے کے تاجدار،  دوعالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو حکم فرمایا اور انہوں نے اس کا سر تن سے جُدا کر دیا۔ جب حارِث کو رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جنگ کے لئے کُوْچ فرمانے اور اپنے جاسوس کے قتل کا عِلْم ہوا تو وہ اور اس کے ساتھ والے بہت رنجیدہ وملول  ہوئے،  انہیں بہت زیادہ خوف لاحِق ہوا جس کی وجہ سے اس کے ساتھیوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس سے الگ ہو گئی اور انہوں نے جنگ میں شریک ہو کر اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔

مُہَاجِرین وانصار کے جھنڈے

جب لشکرِ اِسْلام مُرَیْسِیع کے میدان میں پہنچا تو وہاں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے چمڑے سے بنا ہوا ایک قبہ نصب کیا گیا،  حضرتِ عائشہ اور حضرتِ اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھیں۔ پھر مسلمانوں نے جنگ کی تیاری کی۔ سلطانِ مدینہ،  قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مُہَاجِرین کا جھنڈا حضرتِ ابوبکر صِدِّیق یا حضرتِ عمّار بن یاسِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کو اور انصار کا جھنڈا حضرتِ سَعْد بن عُبَادَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے ہاتھ میں دیا اور حضرتِ عمر بن خطّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو حکم فرمایا کہ وہ یہاں قیام پذیر لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ  کا اِقْرَار کرو  (یعنی اسلام قبول کر لو)  اس سے تم لوگ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لو گے۔

جنگ کا منظر اور نتائج

فرمانِ رسول کے مُوَافِق حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نےانہیں دعوتِ اِسْلام پیش کی لیکن انہوں نے اِسْلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی لمحے دونوں طرف سے تیر اندازی شروع ہو گئی پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اَصْحَاب کو حکم فرمایا تو انہوں نے یکبارگی حملہ کر دیا بالآخر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ مسلمانوں کی طرف سے کوئی جان ضائع نہ ہوئی ([1])  جبکہ کفار کے دس افراد ہلاک ہوئے اور بقیہ سب عورتیں،  مرد اور بچے جن کی تعداد 700 یا اس سے زیادہ تھی،  قیدی بنا لئے گئے،  ان کے جانور ہانک لائے گئے جو دو۲ ہزار اونٹ اور پانچ۵ ہزار بکریاں تھیں۔ رسولِ نامدار،  مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے غلام حضرتِ شُقْرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو ان پر نگران مُقَرَّر فرمایا۔ قیدیوں میں قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی  بھی تھی۔ رسولِ محتشم،  تاجدارِ عرب وعجم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے قیدیوں کے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ دئیے گئے اور حضرتِ بُرَیْدَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان پر نگران مُقَرَّر فرمایا،  بعد میں انہیں تقسیم کر دیا گیا۔

سردارِ قبیلہ کی بیٹی بَرَّہ بنتِ حارِث

قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی بَرَّہ بنتِ حارِث تقسیم غنیمت میں حضرتِ سیِّدُنا ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کے حصّے میں آئیں،  حضرتِ سیِّدُنا ثابِت  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے ان کے حصّے کے بدلے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے اپنے کھجوروں کے دَرَخْت انہیں دے دئیے اور پھر نو۹ اُوْقِیَہ سونے پر انہیں مُکَاتَبہ ([2]) کر دیا۔

بَرَّہ بنتِ حارِث بارگاہِ رسالت میں

اس قدر کثیر مال ادا کرنا ان کی بِسَاط سے باہر تھا چنانچہ یہ اِسْتِعانت  (مدد مانگنے)  کے لئے مدینے کے تاجدار،  دوعالَم کے مالِک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربارِ گوہر بار میں حاضِر ہوئیں اور عرض کیا:  یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!  میں نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے سِوا کسی کے معبود نہ ہونے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا رسول ہونے کی گواہی دے کر اسلام قبول کر لیا ہے۔  میں سردارِ قوم حارِث بن ابوضِرَار کی بیٹی بَرَّہ ہوں۔ ہمیں جو مُعَاملہ درپیش آیا ہے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس کا عِلْم ہے۔ تقسیم غنیمت میں،  میں حضرتِ ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کے حصّے میں آئی تھی  پھر حضرتِ ثابِت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے اپنے چچا زاد بھائی کو اپنے مدینے میں کھجوروں  کے دَرَخْت دے کر مجھے خالص اپنی مِلک میں لے لیا اس کے بعد اس قدر کثیر مال کے عِوَض مجھے مُکَاتَبہ کیا کہ جسے ادا کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں لیکن میں،  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ سے پُراُمِّید ہوں لہٰذا میرا بدلِ کِتَابَت ادا کرنے کے سلسلے میں میری اِعَانَت  (مدد)  فرمائیے...!([3])  

نِکاح کی پیشکش

حضرتِ سیِّدَتُنا بَرَّہ بنتِ حارِث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عرض ومعروض سننے کے بعد نبیوں کے سلطان،  رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کرم بالائے کرم کرتے ہوئے فرمایا:  وہ کام کیوں نہیں کر لیتی جو تمہارے لئے اس سے بہتر ہے۔ عرض کی:  یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!  وہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:  میں تمہارا بدلِ کِتَابَت اَدا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں؟ اس پر انہوں نے راضی خوشی اس پیش کش کو قبول کرتے ہوئے عرض کیا:  میں یہ ضرور کروں گی۔ ([4])  

غُلامی سے نجات اور نِکاح

ان کی رِضا مَعْلوم کرنے کے بعد شہنشاہِ ابرار،  محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بُلا کر ان سے حضرتِ بَرَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو طلب فرمایا۔ حضرتِ ثابِت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے عرض کی:  یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!  میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر قربان ہوں،  یہ آپ ہی کی ہے۔ لیکن پیارے پیارے آقا،  مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سخی وفیاض طبیعت نے بِلاعِوَض لینا گوارا نہ کیا،  چنانچہ مروی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا تمام بدلِ کِتَابَت ادا کیا اور پھر آزاد فرما کر اپنے نِکاح میں لے لیا۔ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نِکاح کے وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عمر مُبَارَک 20 سال تھی۔ ([5])  

بَرَّہ سے جُوَیریہ

سرکارِ عالی وقار،  محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ” بَرَّہ “  نام رکھنے کو ناپسند فرماتے تھے اور اگر کسی کا یہ نام ہوتا تو تبدیل فرما دیتے اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کانام بھی تبدیل فرما دیا اور رِوَایَت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا نام تبدیل فرما کر جُوَیْرِیہ  (جُ-وَیْ-رِیْ-یَہ)  رکھا۔ ([6])  پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ نام کیوں ناپسند تھا اور کیوں اسے تبدیل فرما دیا کرتے تھے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مُحَدِّثِ جلیل،  حکیمُ الْاُمّت حضرتِ علّامہ مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی فرماتے ہیں:  حُضُورِ انور  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)  نے بَرَّہ نام اس لیے بدل دیا کہ اگر آپ  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)  اپنی ان بیوی صاحِبہ کے پاس سے تشریف لائیں تو  (یہ)  نہ کہا  جاوے کہ آپ  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)   ” بَرَّہ “  یعنی نیک کے یا نیکی کے پاس سے آئے کہ اس کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ نیکی سے نکل کر آئے تو نَعُوْذُ بِاللّٰہ بُرائی میں آئے۔ ([7])  

 



[1]   ایک رِوَایَت کے مُطَابِق مسلمانوں میں سے ایک شخص جنہیں ہِشَام بن صُبَابَہ کہا جاتا تھا، شہید ہوئے۔ انہیں ایک انصاری شخص نے دشمن کا آدمی سمجھ کر غلطی سے شہید کر ڈالا تھا۔[البداية والنهاية، سنة ست من الهجرة، غزوة بنى المصطلق من خزاعة، المجلد الثانى، ۴ / ۵۴۴].

[2]

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن