30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
الحديث: ۲۰۰۲]
سیرتِ حضرت حَفْصَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بعدِ اذان دُرُود شریف کی فضیلت
حضرتِ سیِّدنا عبدالله بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُـمَا سے رِوایَت ہے کہ اُنہوں نے تاجدارِ رِسالَت، شہنشاہِ نبوت، مخزنِ جُود وسخاوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” اِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ جب تم مُؤذِّن کو اذان کہتے سنو تو ایسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے اس کے بعد مجھ پر دُرُود بھیجو۔ “ بے شک جو مجھ پر ایک دُرُود بھیجتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس پر دس رحمتیں نازِل فرماتا ہے۔ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے میرے لئے وسیلہ مانگو، وسیلہ جنت میں ایک جگہ ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بندوں میں سے ایک ہی کے لائق ہے، مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں۔ جو میرے لئے وسیلہ مانگے اس کے لئے میری شفاعت لازِم ہے۔ ([1])
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود اور سلام، بارگاہِ ربُّ الْاَنام میں کس قدر محبوب اور قاریِ دُرُود وسلام کے لئے کس قدر خیر وبرکت کا موجِب ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر جو کوئی ایک بار دُرُود بھیجتا ہے ربّ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازِل فرماتا ہے۔ نیز اس حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعدِ اذان دُرُود شریف پڑھنا نہ صرف جائز بلکہ باعِثِ ثواب بھی ہے۔
؏حکم حق ہے پڑھو دُرُود شریف
چھوڑو مت غافلو! دُرُود شریف
پڑھ کے ایک بار پاؤ دس رحمت
خوب سودا ہے لَو دُرُود شریف ([2])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شروع سے ہی اِس دنیائے آب وگِل میں بعض ہستیاں ایسی بھی ہوتی آئی ہیں جن کے علم وعمل کے نور اور زُہد وعبادت کی خوشبو سے زمانہ صدیوں تک چمکتا اور مہکتا رہتا ہے، گلستانِ ہِدایَت کی ایسی ہی عِطْر بیز (خوشبو پھیلانے والی) کلیوں میں سے ایک خوش نما کلی امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی شہزادی حضرتِ سیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت سے فضائل وکمالات عطا فرمائے تھے۔ آئیے! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پاکیزہ حیات کے چند خوش نما پہلوؤں کے بارے میں پڑھئے اور سیرت کے ان حسین مَدَنی پُھولوں سے اپنے مَشامِ جاں کو معطر کیجئے، چُنانچِہ
آفتابِ رُشْد و ہِدایَت، شہنشاہِ نبوت ووِلایَت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےجب جزیرہ نما عرب کی پاک زمین سے شرک وکفر کی نجاست دُور کرنے اور کُل عالَم کو خُوشبوئے اِسلام سے مہکانے کے لئے نبوت ورِسالت کا اِظہار واعلان فرمایا اور لوگوں کو جاہلیت کے باطِل معبودوں کی بندگی ترک کرنے اور ایک معبودِ حقیقی عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کرنے کی دعوت دی تو شرک وکفر کی فضاؤں میں پروان چڑھے ہوئے، ان معبودانِ باطلہ کے پُجاریوں نے حق کی پکار پر لبیک کہنے کے بجائے اُلٹا اس کی ترویج واشاعت کی راہ میں رُکاوٹیں حائل کرنی شروع کر دیں، ظالم ہر اس شخص کے درپے آزار ہو جاتے جو قبولِ اسلام سے مُشَرَّف ہوتا۔ اس دَور میں بعض شخصیات ایسی بھی تھیں کہ اگر وہ اسلام لے آتیں تو کفار کے قلب پر اسلام کی ہیبت اور عَظَمت کا سکّہ بیٹھ جاتا۔ اس سلسلے میں سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نظر انتخاب حضرت عُمَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر پڑی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں حضرت عُمَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو قبول اِسلام کی توفیق دئیے جانے کی دُعا کرتے ہوئے عرض کیا: ” اَللّٰھُمَّ اَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِاَحَبِّ ھٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ اِلَیْکَ بِاَبِیْ جَھْلٍ اَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ان دو۲ آدمیوں ابوجہل اور عُمَر میں سے تجھے جو محبوب ہے اس کے ذریعے اسلام کو غَلَبہ عطا فرما۔ “ ([3])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دُعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور حضرت عُمَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو اسلام لانے کی توفیق مرحمتفرمائی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، رسولِ کریم، رءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اعلانِ نبوت فرمانے کے چھٹے سال ایمان لانے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے جبکہ ابھی حضرتِ سیِّدنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو مُشَرَّف بہ اسلام ہوئے تین۳ روز ہی ہوئے تھے۔ ([4]) حضرتِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے مُشَرَّف بہ اسلام ہونے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ان کے حوصلے اور زیادہ بلند ہو گئے اور کُفَّار بُغْض وعَداوت کی آگ میں جَل کر کوئلہ ہو گئے۔ اس موقعے پر اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے یہ آیَتِ مُبارَکہ نازِل فرمائی: ([5])
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠ (۶۴) (پ۱۰، الانفال: ۶۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔
آپ کے ذریعے اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اِسلام کو غلبہ اور فتح ونصرت عطا فرمائی، چنانچہ اس کا تَذکِرہ کرتے ہوئے حضرتِ سیِّدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ” مَا زِلْنَا اَعِزَّۃً مُنْذُ اَسْلَمَ عُمَرُ جب سے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ مُشَرَّف بہ اسلام ہوئے ہیں تب سے ہم ہمیشہ غالِب رہے ہیں۔ “ ([6])
امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدنا عُمَر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے اسلام لانےکے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی کوششوں کے نتیجے میں آپ کے گھر والے بھی اسلام لے آئے اور یوں یہ پاک ومتبرک گھرانہ اسلام کے جھنڈے تلے آکر اس کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ رسولِ کائنات، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علمی و رُوحانی چشمے سے سیراب بھی ہونے لگا۔ اس وقت حضرتِ سیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکی عمر مبارک تقریباً 10 برس ہو گی کیونکہ روایت کے مطابق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت حُضُور سرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِعْلانِ نبوت سے پانچ۵ سال پہلے ہوئی۔ ([7])
حضرتِ خُنَیْس بن حُذَافہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے نِکاح
حضرتِ سیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اپنے والِدِ بُزُرْگْوَار حضرتِ سیِّدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے کاشانۂ اقدس میں پرورش پاتی رہیں حتی کہ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سِنِّ بُلُوغت کو پہنچی تو اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں سے ایک جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدنا خنیس بن حُذَافہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو حضرتِ عبدالله بن حُذَافہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بھائی ہیں اور مُجَاہِدینِ بدر میں سے بھی ہیں، کے ساتھ رشتہ اِزْدِوَاج میں مُنْسَلِک ہو گئیں۔ ([8])
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع