30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
الحمد للہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖنط
اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
کتاب پڑھنے کی نیّتیں
فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہ
مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
(اَلمُعجمُ الکبیر لِلطّبَرانی، حدیث ۵۹۴۲، جلد۶ صفحہ۱۸۵)
دو مَدَنی پھول
{۱} بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا
{۲}جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔
*ہربارحَمدوصلوٰۃ اورتعوُّذوتَسمِیہ سے آغاز کروں گا(اسی صفحہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)*رِضائے الٰہی کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخر مطالَعہ کروں گا* جہاں تک ممکن ہوا اِس کا با وضو اور قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا* قرآنی آیات اوراَحادیثِ مبارَکہ کی زِیارت کروں گا* جہاں جہاں ” اللہ “کا نام پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَل اورجہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پڑھوں گا*اگر کوئی بات سمجھ نہ آئی تو علماء سے پوچھ لوں گا *حضرتِ سفیان بن عُیَینہ رحمۃ ُاللہ علیہ کے اِس قول ’’عِنْدَذِکْرِ الصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ‘‘یعنی نیک لوگوں کے ذِکر کے وقت رَحمت نازل ہوتی ہے۔” (حلية الاولیاء ج ۷ ص۳۳۵رقم ۱۰۷۵۰) پر عمل کرتے ہوئے ذِکرِ صالحین کی بَرَکتیں لُوٹوں گا*عِندَالضَّرورت خاص خاص مقامات انڈر لائن کروں گا* (اپنے ذاتی نسخے پر) یادداشت والے صفحہ پر ضَروری نِکات لکھوں گا* کتاب مکمَّل پڑھنے کیلئے بہ نیتِ حصولِ علمِ دین روزانہ چند صفحات پڑھ کر علمِ دین حاصل کرنے کے ثواب کا حقدار بنوں گا*دوسروں کویہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا* اس حدیثِ پاک تَھَادَوْا تَحَابُّوْا یعنی ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی (موطا امام مالک ج۲ ص۴۰۷ رقم ۱۷۳۱) پرعمل کی نیّت سےیہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا*کتابت وغیرہ میں شَرْعی غَلَطی ملی تو نا شِر کو تحریری طور پر مُطَّلع کروں گا(ناشِرین ومصنّف وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا) (نیکی کی دعوت صفحہ نمبر 2ملتقطا)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
*-*-*-*-*-*-*-*-*
مطالعہ کرنے کا درست طریقہ
۱ آغاز میں حمد و صلوة کرنا
مطالعہ شروع کرنے سے پہلے تعوذ ، تسمیہ اور حمد و صلوة سے آغاز کیجئے کیونکہ جو کام اللہ تعالیٰ کی حمد و صلوة سے شروع کیا جائے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔
۲ قبلہ رو بیٹھنا
مطالعہ کے آداب میں سے ہے کہ قبلے کی طرف رُخ کر کے مطالعہ کیا جائے۔ اس لیے چاہیے کہ جب بھی مطالعہ کرنے بیٹھیں تو قبلہ کی طرف منہ کر لیں تاکہ مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ قبلہ رُخ ہونے کی برکتیں بھی نصیب ہو جائیں۔
۳ پُرسکون جگہ ہونا
مطالعہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ پرسکون جگہ پر بیٹھیں،ز یادہ شور کی وجہ سے مطالعہ میں دل جمعی نہیں رہتی۔
۴ طبیعت کا ترو تازہ ہونا
مطالعہ کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت کا ترو تازہ ہونا بھی ضروری ہے۔
۵اچھی روشنی کا ہونا
مطالعہ کرتے وقت اچھی روشنی میں بیٹھنا چاہیے، روشنی اوپر کی جانب سے ہو پیچھے کی جانب سے بھی آئے تو کوئی حرج نہیں جب کہ تحریر پر سایہ نہ پڑے ،روشنی کا سامنےسے آنا نقصان دہ ہے۔
۶ درست انداز پر ہونا
کسی بھی ایسے انداز میں نہ بیٹھیں جس سے آنکھوں پر زور پڑے مثلا مدھم روشنی میں، چلتے پھرتے یا جھک کر مطالعہ کرنے سے آنکھوں پر زور پڑتا ہے۔
۷ باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ
کسی کتاب کا مطالعہ شروع کریں تو اس کو باقاعدگی کے ساتھ مکمل کرنا چاہیے، یعنی اس کتاب کو چھوڑ کر اور کتاب نہیں پڑھنی چاہیے، پہلے اسے مکمل کریں پھر دوسری شروع کریں۔
۸ ایک وقت میں ایک ہی موضوع
ایک وقت میں ایک ہی موضوع کا مطالعہ بہتر ہوتا ہے، زیادہ موضوع پر مطالعہ کرنے سے ایک موضوع بھی اچھے طریقے سے ذہن میں نہیں بیٹھتا۔
۹ قلم ڈائری پاس ہونا
مطالعہ کرتے وقت اپنے پاس قلم کاپی کا ہونا ضروری ہے تاکہ جو بھی اہم پوائنٹ آئے اسے لکھ لیں تاکہ زیادہ دیر تک یاد رہے۔
۱۰انڈر لائن کرنا
مطالعہ کرتے وقت قلم پاس رکھیں تاکہ اہم اہم پوائنٹ انڈر لائن کرتے جائیں۔
۱۱ وقفہ کرنا
اگر مطالعہ کرنے کو زیادہ دیر ہوگئی ہو تو تھوڑا سا وقفہ کرلینا چاہیے تاکہ جسمانی اعضا (Parts of Body) كی ورزش ہوجائے اس وقفے کے دوران درود پاک پڑھ لینا چاہیے تاکہ ٹائم کا ضیاع نہ ہو۔
۱۲ مشکل الفاظ پرنشان لگانا
مطالعہ کرتے وقت مشکل الفاظ پرنشان لگا لینا چاہیے تاکہ بعد میں کسی سنی عالم سے پوچھ لینے میں آسانی ہو۔
۱۳ دوسروں کو بتانا
جو بھلائی کی بات مطالعہ کرتے وقت پڑھی ہو اسے ثواب کی نیت سے دوسروں تک پہنچائیے اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔
۱۴ خلاصہ تحریر کرنا
جب بھی مطالعہ کر لیں تو اس کے بعد جو کچھ پڑھا ہو اس کا خلاصہ تحریر کرلینا چاہئیے اس سے مطالعہ اچھے طریقے سے ذہن میں بیٹھتا ہے۔
۱۵ باوضو بیٹھنا
جب بھی مطالعہ شروع کریں تو اس سے پہلے استنجاء وضو وغیرہ کرکے بیٹھنا چاہیے تاکہ مطالعہ کے دوران کوئی خلل پیدا نہ ہو۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
*-*-*-*-*-*-*-*-*
پیش لفظ
تاجدار مدینہ ،راحت قلب و سینہ ، فیض گنجینہ ،صاحب معطر پسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک نام و ذات بابرکات نے کائنات کے ذرہ ذرہ کو اپنی برکات سے نوازا،خود کائنات کا وجود اسی ذات کی برکت ہے۔حضرت آدم علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السّلام زمین پر تشریف لائے تو اسی بابرکت نام کی برکت سے قرار حاصل کیا ،پہلے انبیاء کرام علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السّلام اور ان پر ایمان لانے والے اسی نام مبارک کا ذکر کرتے اور برکتیں پاتے، اپنے سے پہلے انبیاء کرام علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السّلام کے تبرکات کو سینے سے لگاتے،اور جنگوں میں اسی کی برکت سے فتح حاصل کرتے، صحابہ کرام علیہم الرضوان حضوراقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات مقدسہ اوروہ چیزیں کہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات والا سے کچھ تعلق ونسبت ہو ان کی تعظیم و توقیر کو بھی اپنے لئے لازم الایمان جانتے تھے۔ اسی طرح تابعین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہم اور دوسرے سلف صالحین بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تبرکات کا بے حد احترام اور ان کا اعزاز و اکرام کرتے تھے۔ تابعین کرام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے تبرکات کی حفاظت اور ان کی عزت و تعظیم کی ، اللہ پاک کے محبوب بندوں اولیاء کاملین و مشائخ عاملین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہم سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی عزت و تعظیم اور ان سے برکت حاصل کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے اور رہے گا۔
عاشقان رسول دور دراز سے سفر کرکے تبرکات مقدسہ کی زیارت کرتے،ان کے قرب میں اپنے رب عَزَّوَجَل سے دعائیں مانگتےاور اپنے من کی مرادیں پاتے ہیں۔
سارے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہونے والے قرآن مجید، فرقان حمید میں تمام انسانو ں کے خالق لم یزل اللہ رب العلمین حضرت یوسف علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ و السّلام کے قول کو حکایۃ ًبیان فرماتا ہے :
اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ
ترجمہ کنزالایمان: ميرا يہ کُرتا لے جاؤ، اسے ميرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھيں کھل جائيں گی ۔ اسی سورہ پاک کی اگلی آیت مبارکہ میں ارشاد باری تعالی ہے ۔ فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًاۚ- ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کُرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں ۔(پارہ۱۳، سورہ يوسف:آیت۹۳) اللہ جل مجدہ الکریم دوپہاڑوں صفا اور مروہ کے بارے میں فرماتاہے : اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ- ترجمہ کنزالایمان: بےشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں۔تفسیرصراط الجنان میں اس آیت کریمہ کے تحت لکھا ہے۔ جس چیز کو صالحین سے نسبت ہو جائے وہ چیز عظمت والی بن جاتی ہے، جیسے صفا مروہ پہاڑ حضرت ہاجرہ علیھا السلام کے قدم کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی نشانی بن گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مُعَظَّم چیزوں کی تعظیم و توقیر دین میں داخل ہے اسی لئے صفا مروہ کی سعی حج میں شامل ہوئی۔
(صراط الجنان فی تفسیر القرآن ، ج1ص 261)
حضرت عبداﷲ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہما حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے منبر شریف پر جس جگہ آپ بیٹھتے تھے خاص اس جگہ پر اپنا ہاتھ پھرا کر اپنے چہرے پر مسح کیا کرتے تھے۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خوش قسمتی سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیشانی مبارک کے بال میرے پاس تھے ۔ میں نے ان کو اپنی ٹوپی میں آگے کی طرف سی رکھا تھا۔ان بالوں کی برکت تھی کہ عمر بھر ہر جہاد میں فتح و نصرت حاصل ہوتی رہی۔
(شفا شریف جلد1 صفحہ331)
اس کتاب میں تبرکات مقدسہ کا ثبوت ، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تبرکات بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے موئے مبارک کی برکات ،موئے مبارک کے بارے میں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہم کے جذبات ،موئے مبارک کے آداب اور شیطان کی طرف سے دل میں پیدا ہونے والے چند سوالات کے جوابات تحریر کئے جائیں گے۔اس کتاب میں جو خوبیاں ہیں یقینا اللہ پاک کی توفیق، اس کے محبوب کریم کی عطا، اولیائے کرام کی عنایت اور امیر اہلسسنت امت برکاتہم العالیہ کی شفقتوں کا نتیجہ ہے اورخامیوں میں میری غیر ارادی کوتاہی کا دخل ہے ۔ اللہ پاک کی بارگاہ بے کس پناہ میں دعا ہے کہ اس کتاب کومسلمانوں کے لئے نافع بنائے اور مولف کے لئے ذریعہ نجات بنائے۔
آمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِالنَّبِیّٖنَ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
محمدندیم رضا عطّاری مدنی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
*-*-*-*-*-*-*-*-*
اَلْحَمد ِللہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖنط
اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
فیضان موئے مبارک
درودِ پاک کی فضیلت
معجم کبیرکی روایت ہے، پیارے اور آخری نبی، رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود پڑھو کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے۔ (معجم کبیر جلد ۳ صفحہ ۸۲، حدیث:۲۷۲۹) ایک حدیثِ پاک میں ہے:بے شک تمہارے نام مع شناخت مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں، لہٰذا مجھ پر اَحْسَن (یعنی بہترین الفاظ میں) درودِ پاک پڑھو۔
(مصنف عبد الرزاق جلد ۲صفحہ۱۱۴۰ حدیث:۳۱۱۶)
درود بارگاہِ رسالت میں پہنچتا ہے تحقیقِ رضا
اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ ُاللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ ثابت و وَاضِح ہے کہ حضورجانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ اقدس میں درود و سلام اور اَعمالِ اُمَّت کی پیشی بار بار بہ تکرار ہوتی ہے اور احادیث کی جمع اور ترتیب سے میرے لیے یہ ظاہر ہوا کہ درود پاک پاک بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں دس بار پیش ہوتا ہے ،دیگر اعمال پانچ بار پیش ہوتے ہیں،دربار نبوت میں درود پیش ہونے کے چند طریقے یہ ہیں:
(1)…تربت اطہر ( قبر منور) کے پاس ایک فرشتہ پہنچاتا ہے (2)…وہ فرشتہ پیش کرتا ہے جو درود پڑھنے والے کے ساتھ مامور و مؤکل(مقرر)ہے (3)…سیرو سیاحت کرنے والے فرشتے پہنچاتے ہیں (4)…حفاظت کرنے والے فرشتے درود پاک کو دن کے تمام اعمال کے ساتھ شام کو اور رات کے اعمال کے ساتھ صبح کو پیش کرتے ہیں (5)…ہفتہ بھر کے اعمال کے ساتھ درود شریف جمعہ کے دن پیش ہوتا ہے (6)…عمر بھر کے جملہ (تمام)درود قیامت کے دن پیش کرتے ہیں۔ (انباء الحی، ص ۲۸۷)
چند وہ مواقع جب درودِ پاک بارگاہِ رسالت میں پیش ہو چکا: وہ یہ ہیں: (7)…معراج کی رات اعمال پیش ہوئے (8)…حضورانور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز کسوف (سورج گرہن کی نماز) میں دیکھے (9)… اللہ پاک نے جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان دست مبارک (جیسا اُس کی شان کے لائق ہے) رکھا تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ہر چیز روشن ( ظاہر ) ہوگئی (10)…قرآن کریم کے نازل ہونے کے وقت تمام اشیاء کے علوم و معارف حاصل ہوئے۔
(انباء الحی، ص۳۵۷)
دکھوں نے تم کو جو گھیرا ہے تو درود پڑھو جو حاضری کی تمنا ہے تو درود پڑھو
ہر درد کی دوا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد تعویذِ ہربَلا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
موئے مبارک کے ادب سے عزّت مل گئی
بلخ کاایک تاجرتھا، جوبہت دولت مندتھا،مال ودولت کے علاوہ اس کے پاس سرورکائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تین بال مبارک بھی تھے،اس کے دولڑکے تھے،جب اس تاجر کا انتقال ہوگیاتوکل مال دونوں لڑکوں نے آپس میں تقسیم کیا،جب ایک ایک بال دونوں لڑکوں نے لے لیا تو بڑا لڑکا بولاکہ تیسرے بال کے دوٹکرے کر کے اسے بھی تقسیم کیاجائے ،اس پرچھوٹے لڑکے نے کہاکہ میں ہرگز ہرگز گوارا نہیں کروں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک کے دوٹکڑے کیے جائیں اس پر بڑا لڑکا بولا اگر تمہیں موئے مبارک سے ایسی ہی محبت ہے توایسا کرو کہ اپنے حصے کی سب دولت مجھے دے دو اور تینوں موئے مبارک تم لے لو،چھوٹا لڑکا اس تبادلے پر خوشی خوشی راضی ہوگیا اور اپناسارا مال دے کر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک لے لیے۔اب چھوٹے لڑکے کا یہ معمول بن گیاکہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک بالوں کی زیارت کرتااور کثرت سے درودشریف پڑھتا،ساتھ ساتھ کاروباربھی شروع کیا،موئے مبارک کی برکت سے روز بروز اس مال میں اضافہ ہونے لگا۔ دوسری طرف بڑے لڑکے کامال روز بروز گٹھنے لگا۔وقت گزرتا گیا، کچھ عرصہ بعدچھوٹے لڑکے کاانتقال ہوگیا،اس زمانے کے ایک بزرگ کوحضور سید عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی،حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان سے فرمایا:لوگوں سے کہہ دو کہ جس کو اللہ پاک سے کوئی حاجت ہو تو وہ اس تاجر کی قبر پر جائے اور حاجت کے لئے دعاکرے ،اس کی حاجت پوری ہوگی۔اس واقعے کے بعدلوگوں میں اس لڑکے کے مزارکی بڑی عظمت ہوگئی اورلوگ وہاں جانے لگے ،یہاں تک کہ اس مزارکی اتنی عزت ہوئی کہ بڑے بڑے لوگ بھی وہاں سے سوارہوکرنہیں گزرتے تھےبلکہ ادب کی وجہ سے سواری سے اترکرپیدل چلتے تھے۔
(سعادة الدارین ص 122)
سُبْحٰنَ اللہ ! موئے سرکار ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) کی بھی کیا نِرالی شان ہے...!! اللہ پاک اس بابرکت مزار شریف کے صدقے ہمیں بھی عشقِ رسول کی نعمت سے خوب مالا مال کرے۔ کاش! موئے مبارک کی برکات نصیب ہو جائیں...!!
سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے
چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
ہم سیہ کاروں پہ یا ربّ! تپشِ محشر میں
سایہ اَفگن ہوں ترے پیارے کے پیارے گیسو
مُوئے مبارک کا قرآن میں ذِکْر
پارہ:30، سورۂ وَالضُّحیٰ، آیت: 1-2 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲)
ترجمہ کنز الایمان: چاشت کی قسم! اور رات کی جب پردہ ڈالے
جب سورج طلوع ہو کر قدرے بلند ہو جائے، یہ چاشت کاوقت ہے، یہ وہی وقت ہے جب اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہم کلامی کاشرف عطا فرمایا تھا،اسی وقت فرعون کے بُلائے ہوئے جادو گرحضرتِ موسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ کر اللہ پاک کے حُضُور سجدہ ریز ہوئے تھے، بعض مُفَسِّرینِ کرام فرماتے ہیں: ان آیات میں چاشت سے نُورِ جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف اشارہ ہے اور رات آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے گیسوئے عنبرین سے کنایہ ہے۔ (خزائن العرفان) اب معنی یہ ہو گا: اے محبوب ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )! ہمیں آپ کے رُخِ روشن کی قسم! اورآپ کی مبارک زلفوں کی قسم! جب وہ رُخِ زیبا پر پردہ ڈالیں۔ علیہ السلام
ہے کلامِ اِلٰہی میں شمس و ضُحی، ترے چہرۂ نُور فزاکی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زُلْفِ دوتا کی قسم
وہ خُدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا،نہ کسی کو ملے، نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا! ترے شہر و کلام و بقا کی قسم
مُوئے مبارک کا وَصْفِ پاک
ہمارے آقا، جانِ عالَم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے موئے مبارک نہ گھونگھردار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔(سیرت مصطفی، ص 568)
ہمارے سرکار، دو عالَم کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیشہ سَر مبارک پر بال پُورے رکھے(یعنی کبھی ایسا نہ ہوا کہ کہیں سے ترشوائے اور کہیں رکھے ہوں، رکھے تو پُورے سر کے رکھے، حلق کروایا تو پُورے سر مبارک کا کروایا)،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زلفیں کبھی نصف کان تک ہوتیں، کبھی کان مبارک کی لَو تک اور بعض اوقات بڑھ کر مبارک شانوں (یعنی کندھوں) کو جھوم جھوم کر چومنے لگتیں۔
گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تا دوش
کہ بنیں خانہ بدوشوں کے سہارے گیسو
موئے سرکار ﷺسے متعلق تین روایات
(1):حضرت انس بن مالِک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مدینے والے آقا، شبِ اسرٰی کے دولہا، مُحَمَّد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک آدھے کانوں تک تھے۔
(ترمذی، ص۵۰۷،حدیث ۲۴)
دیکھو قراٰں میں شب قد ر ہے تا مطلع فجر
یعنی نزدیک ہیں عا رض کے وہ پیارے گیسو
(2): حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سلطان مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا قد مبارک درمیانہ تھا ، دو نوں مبارک شانوں کے درمیان فاصلہ تھااور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے گیسو مبارک مقدس کانوں کو چومتے تھے۔
(شمائل ترمذی، ص۱۷، حدیث۳)
(3): امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ افرماتی ہیں: میرے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سر اقد س پرجوبال مبارک ہوتے وہ کان مبارک کی لو سے ذرا نیچے ہوتے اور مبارک شانوں کو چومتے۔
(شمائل ترمذی، ص۳۵،حدیث۲۵)
وضاحت: بال بڑھنے والی چیز ہے، لہٰذا جس صحابی رضی اللہ عنہ نے جیسا دیکھا، وہی روایت کر دیا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع