30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
چھٹا حق
دعا مانگنا … !
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !اپنے دوست کی زندگی میں بھی اور اس کے فوت ہونے کے بعد بھی اس کے لئے دعا مانگنا اور ہر ایسی بات چاہنا جسے وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے پسند کرتا ہے بلکہ اپنے ہر متعلق کے بارے میں چاہتا ہو کیونکہ اس کے حق میں دعا مانگنا درحقیقت اپنے لئے دعا مانگنا ہے۔
نبی اکرم( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) نے فرمایا۔
اِذَا دَعَا الرَّجُلُ لِاَخِیْہِ فِی ظَھْرِ الْغَیْبِ قَالَ الْمَلَکُ وَلَکَ مِثْلُ ذٰلِکَ۔
’’جب کوئی شخص اپنے دوست کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا مانگتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اور تیرے لئے بھی اس کی مثل ہو‘‘
(سنن ابی داؤد جلد اول ص ۲۱۴ کتاب الصلوٰۃ)
ایک دوسری روایت میں یوں ہے۔
یَقُوْلُ اﷲ ُ تَعاَلٰی بِکَ اَبْدَأُ یَاعَبْدِیْ۔
’’اﷲ ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندے ! میں تجھ سے شروع کروں گا‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے۔
یُسْتَجَابُ لِلَّرجُلِ فِیْ اَخِیْہِ مَالَایُسْتَجَابُ لَہ ‘ فِیْ نَفْسِہٖ۔
’’آدمی کی دعا اس کے بھائی کے حق میں جس طرح قبول کی جاتی ہے خود اس کے حق میں نہیں کی جاتی‘‘
(سنن ابی داؤد جلد اول ص ۲۱۴ کتاب الصلوٰۃ)
ایک اور حدیث شریف میں ہے۔
دَعْوَۃُ الرُّجُلِ لِاَخِیْہِ فِیْ ظَھْرِ الْغَیْبِ لاَتُرَدُّ۔
’’کسی آدمی کی اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا رد نہیں کی جاتی ‘‘
(کنز العمال جلد ۲ ص ۹۸ حدیث ۳۳۱۶)
حضرت سیدنا ابو الدرداء ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) فرماتے تھے کہ میں اپنے ستر (مسلمان) بھائیوں کے لئے ان کے نام لے کر سجدے میں دعا کرتا ہوں۔
حضرت سیدنا محمد بن یوسف اصفہانی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )فرماتے تھے نیک دوست جیسا آدمی کہاں ہے ؟ تمہارے گھر والے (تمہارے مرنے کے بعد) تمہاری میراث تقسیم کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور جو کچھ تم نے چھوڑا اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ تنہا تمہارا غم کرے اور تمہارے گزشتہ اعمال اور تمہاری عاقبت کے بارے میں فکر کرے وہ رات کے اندھیرے میں تمہارے لئے دعا کرتا ہے جب کہ تم مٹی کے ڈھیر کے نیچے ہوتے ہو ۔
دراصل نیک دوست فرشتوں کے طریقے پر چلتا ہے۔
کیونکہ حدیث شریف میں ہے۔
اِذَا مَاتَ الْعَبْدُ قَالَ النَّاسُ مَاخَلَّفَ وَقَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ مَا قَدَّمَ۔
’’جب بندہ مرجاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کیا چھوڑ کر گیا اور فرشتے کہتے ہیں اس نے آگے کیا بھیجا‘‘
(شعب الایمان جلد ۷ ص ۳۲۸ حدیث ۱۰۴۷۵)
میں پوچھتے ہیں اور اس کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جو شخص اپنے دوست کی موت کا سن کر اس کے لئے رحمت اور بخشش کی دعا مانگے اسے اس کے جنازے میں شرکت اور نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔
ڈ وبنے والا :
نبی اکرم ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) سے مروی ہے کہ آپ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )نے فرمایا۔
’’قبر میں میت کی مثال ڈوبنے والے شخص کی طرح ہے وہ اپنی اولاد یا والد یا بھائی یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے دعا کا منتظر ہوتا ہے اور مرنے والوں کی قبروں میں زندوں کی دعائیں پہاڑوں جیسے انوار کی شکل میں داخل ہوتی ہیں۔‘‘
کسی بزرگ نے فرمایا کہ فوت شدہ لوگوں کے لئے دعا زندہ لوگوں کے لئے تحفوں کی طرح ہے‘ فرشتہ میت کے پاس اس طرح جاتا ہے کہ اس کے پاس نور کا ایک تھال ہوتا ہے جس پر نور کا ایک رومال ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ تیرے فلاں دوست کی طرف سے تیرے لئے ہدیہ ہے یا تیرے فلاں رشتہ دار کی طرف سے ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ اس پر میت خوش ہوجاتی ہے جس طرح زندہ آدمی تحفہ ملنے پر خوش ہوتا ہے۔
ساتواں حق
وفاداری اور خلوص کے ساتھ پیش آنا
وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ اس کی محبت پر ثابت قدم رہے اور اس کے مرنے تک اسے برقرار رکھے اور جب وہ مرجائے تو اس کی اولاد اور دوستوں سے دوستی رکھے کیونکہ محبت سے اُخروی فائدہ مقصود ہوتا ہے اگر وہ مرنے سے پہلے ختم ہوجائے تو عمل اور کوشش ضائع ہوجاتی ہے اسی لئے نبی اکرم ا نے جب ان سات قسم کے لوگوں کا ذکر کیا جنہیں قیامت کے دن اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا تو فرمایا ’’ وہ آدمی جو اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے ایک دوسری سے محبت کرتے ہیں اسی پر اکٹھے ہوتے ہیں اور اسی پر الگ ہوتے ہیں۔ (شرح السنۃ جلد ۳ ص ۲۸ حدیث ۳۴۶۳)
بعض حضرات نے فرمایا کہ کسی کے مرنے کے بعد اس سے تھوڑی سی وفا اس کی زندگی میں زیادہ وفا سے بہتر ہے۔
اسی لئے نبی اکرم( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) سے مروی ہے کہ آپ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کے پاس ایک بوڑھی خاتون آئیں تو آپ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) نے اس کی عزت افزائی فرمائی اس سلسلے میں آپ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) سے پوچھا گیا تو آپ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )نے فرمایا یہ خاتون حضرت خدیجہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہا) کے زمانے میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی اور گزشتہ بات کو یاد رکھنا بھی دین سے ہے۔ (کنز العمال جلد ۱۲ ص ۱۳۲ حدیث ۳۴۳۴۴)
اپنے دوست سے وفا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کے تمام دوستوں‘ رشتہ داروں اور متعلقین کا خیال رکھا جائے۔ ان کی رعایت کا اثر دوست کے دل میں اس کی اپنی رعایت سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے جب وہ محبوب سے متجاوز ہو کر اس کے متعلقین تک پہنچے حتی کہ اس کے دروازے پر جو کتا ہے اسے بھی دوسرے کتوں سے ممتاز سمجھنا چاہئے۔ اور اگرایسی محبت ہمیشہ کے لئے باقی نہ رہے تو شیطان خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ نیکی پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے والے آدمیوں پر اس قدر حسد نہیں کرتا جس قدر وہ رضائے خداوندی کے لئے باہم مواخات اور دوستی قائم کرنے والوں سے حسد کرتا ہے۔ اور وہ ذاتی طور پر ان کے درمیان فساد کا بیچ بوتا ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَقُلْ لِعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّلِتْی ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّْیْطَانَ یَنْزَعُ بَیْنَھُمْ۔
ترجمہ کنزالایمان’’اور میرے بندوں سے فرماؤ وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو بے شک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتاہے‘‘
(پارہ نمبر۱۵‘سورئہ اسراء جسے سورئہ بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے آیت ۵۳)
اور حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
مِنْ بَّعْدِ اَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ۔
ترجمہ کنزالایمان’’بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھی‘‘
(پارہ نمبر ۱۳‘ سورئہ یوسف آیت ۱۰۰)
کہا جاتا ہے کہ جب دو مسلمان‘ اﷲ تعالیٰ کے لئے ایک دوسری کے ساتھ دوستی قائم کرتے ہیں اور پھر ان کے درمیان تفریق ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ ان میں سے کسی ایک کا ارتکابِ گناہ ہوتا ہے اور حضرت بشر ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) فرماتے تھے جب کوئی بندہ اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کی فرمانبرداری میں کوتاہی کرتا ہے تو اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) اس سے اس کے انیس (محبت کرنے والے) کو لے لیتا ہے اس لئے کہ دوستوں کی وجہ سے دل کے غم دور ہوتے ہیں اور دین پر مدد ملتی ہے اسی لئے حضرت ابن مبارک ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا۔
’’سب سے زیادہ لذیذ چیز دوستوں کی مجلس اور کفایت کی طرف رجوع کرنا ہے‘‘ اور دائمی محبت وہی ہوتی ہی جو اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کی رضا کی خاطر ہو اور جو محبت کسی غرض پر مبنی ہو وہ اس غرض کے ختم ہونے سے ختم ہوجاتی ہے اور اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے محبت کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ ہے کہ اس میں دینی یا دنیاوی اعتبار سے حسد نہیں ہوتا اور وہ اس سے کیسے حسد کرے گا جب کہ جو کچھ اس کے دوست کا ہے اس کا فائدہ اسے بھی پہنچتا ہے۔
اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) نے ایسے لوگوں کی تعریف میں فرمایا :
وَلاَیَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِمَّا اُوْتُوْا وَیُوثِرُوْنَ عَلیَ اَنْفُسِھِمْ۔
ترجمہ کنزالایمان’’اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو دیئے گئے اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں‘‘
(پارہ نمبر۲۸‘ سورئہ حشر آیت ۹)
اور حاجت کا پایا جانا ہی حسد ہے۔
نیزوفا کا تقاضا ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ تواضع میں تبدیلی نہ آئے اگرچہ خود اس کا مرتبہ بلند ہوجائے وسیع اختیار اور بلند مقام حاصل ہوجائے کیونکہ ان جدید حالات کی وجہ سے اپنے بھائیوں پر بڑائی کا اظہار کمینگی ہے۔ کسی شاعر نے کہا۔معزز لوگ جب خوشحال ہو جائیں تب بھی ان لوگوں کو یاد رکھتے ہیںجنہوں نے مفلسی میں انکے ساتھ محبت کا برتائو کیا تھا۔
کسی بزرگ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ’’اے بیٹے ! لوگوں میں سے صرف ایسے شخص سے دوستی لگانا جو تمہاری محتاجی کے وقت تمہارے قریب ہو اور جب تم اس کی ضرورت محسوس نہ کرو تو وہ تم سے کوئی لالچ نہ رکھے اور اگر اس کا مرتبہ بڑھ جائے تو تجھ پر بڑائی کا اظہار نہ کرے۔‘‘
لیکن کسی دانا کا قول ہے کہ جب تمہارا کوئی دوست حکومت کا منصب سنبھال لے اور تم سے آدھی دوستی کرے تو بھی غنیمت ہے۔
حضرت سیدنا ربیع ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے نقل کیا کہ حضرت سیدنا امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے بغداد میں ایک شخص سے اخوّت قائم کی پھر ان کا وہ دوست ایک علاقے سیبین کا حاکم ہوگیا اور اس کا رویہ تبدیل ہوگیا چنانچہ حضرت سیدنا امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے اس کی طرف چند اشعار لکھے۔ (ترجمہ یہ ہے)
جاؤ تمہیں میرے دل کی طرف سے ایک طلاق ہے اور یہ طلاق بائن نہیں رجوع کی گنجائش ہے اگر تم باز آجاؤ تو یہ ایک کافی ہے اور تمہاری محبت دوطلاقوںکی گنجائش پر باقی رہے گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو ایک اور دے کر اسے جفت بنادوں گا اور یہ دو حیضوں میں دو طلاقیں ہوجائیں گی اور اگر میری طرف سے تمہیں تین طلاقیں قطعی مل گئیں تو تمہیں سیبین کی حکومت بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یہ بھی جان لو کہ دین سے متعلق کسی بات میں حق کی مخالفت پر اپنے دوست کی موافقت وفا میں شامل نہیں ہے بلکہ وفا کا تقاضا ہے کہ اس کی مخالفت کی جائے‘ حضرت سیدنا امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے حضرت سیدنا محمد بن عبد الحکم ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے اخوّت قائم کی تو وہ انہیں قریب کرتے اور ان کی طرف توجہ فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں مصر میں صرف اسی شخص کی وجہ سے ٹھہرا ہوا ہوں۔ حضرت سیدنا محمد بن عبد الحکم ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )بیمار ہوئے تو حضرت سیدنا امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے ان کی عیادت کی اور فرمایا:
دوست بیمار ہوا تو اس کی عیادت کے لئے گیا اور اس کی بیماری کے ڈرسے میں خود بیمار ہوگیا۔
اب دوستی میری بیمار پرسی کے لئے آیا اور میں اسے دیکھ کر ٹھیک ہوگیا۔
ان دونوں میں سچی دوستی کی وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) اپنی وفات کے وقت اپنے حلقہ کا معاملہ ان کے سپرد کردیں گے چنانچہ حضرت امام صاحب جب بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں انہوں نے انتقال فرمایا تو پوچھا گیا اے ابو عبد اﷲ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) ! ہم آپ کے بعد کس کے پاس بیٹھا کریں ؟ حضرت سیدنا محمد بن عبد الحکم ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سرہانے کھڑے تھے انہوں نے آگے کی طرف جھانکا تاکہ وہ ان کی طرف اشارہ کریں حضرت سیدنا امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا سبحان اﷲ ! کیا یہ شک کی بات ہے ابو یعقوب بویطی( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) موجود ہیں اس پر حضرت محمد ابن عبد الحکم( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کچھ شکستہ دل ہوئے اور حضرت سیدنا امام صاحب ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کے شاگرد حضرت بویطی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حالانکہ حضرت محمد بن عبد الحکم نے( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )آپ سے آپ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کا تمام مذہب نقل کیا تھا لیکن حضرت بویطی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) زہد و تقویٰ میں ان سے افضل و اقرب تھے۔
اسکے بعد حضرت سیدنا امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے انہیں اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) اور مسلمانوں کے بارے میں (ڈرنے کی) وصیت فرمائی نیز یہ کہ وہ مداہنت (دورنگی) اختیار نہ کریں اور اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کی رضا پر مخلوق کی رضا کو ترجیح نہ دیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !مقصود یہ ہے کہ محبت میں وفا کی تکمیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے لئے خیر خواہی کی جائے … حضرت احنف ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے کہا ہے کہ بھائی چارہ ایک لطیف جوہر ہے اگر اس کی حفاظت نہیں کروگے تو پر آفات کا قبضہ ہوگا لہٰذا غصہ پی جانے کے ذریعے اس کی حفاظت کرو حتی کہ جو دوست تم پر ظلم کرے تم خود اس کے سامنے عذر پیش کرو اور اس قدر رضا اختیار کرو کہ اپنے بارے میں زیادہ فضیلت نہ جانو۔ اور اپنے دوست کی کوتاہی نہ سمجھو۔ صدق‘ اخلاص اور تمام وفا کی علاماتِ یہ ہیں کہ جدائی سے خوب ڈرو اور اس کے اسباب سے طبیعت کو متنفر کردو جیسے کہا گیا ہے۔
’’میں نے زمانے کی تمام مصیبتوں کو احباب کی فرقت کے مقابلے میں آسان پایا۔‘‘
ان عینیہ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے یہ شعر پڑھا اور کہا کہ میں ایک قوم کے ساتھ رہا اور تیس سال ہوگئے ان سے جدا ہوا ہوں میرا خیال نہیں کہ ان کی حسرت میرے دل سے جائے گی۔
اسکے علاوہ وفا کا تقاضا ہے کہ دوست کے خلاف لوگوں کی شکایات نہ سنے خاص طور پر ایسے لوگوں سے جنکے بارے ،یں پتہ ہو کہ وہ اس کے دوست کے ساتھی ہیں تاکہ ان پر تہمت نہ لگے اور پھر یہ گفتگو کریں اور اس کے دوست کی طرف سے ایسی باتیں نقل کریں جو دل میں کینہ پیدا کردیں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور پھوٹ ڈالنے کے لئے یہ نہایت باریک تدبیر ہے۔
منقول ہے کہ ایک شخص نے کسی دانا سے کہا کہ میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں اس نے کہا اگر اس کے بدلے میں تین باتوں کو قبول کرو تو میں دوستی کرنے کے لئے تیار ہوں اس نے پوچھا وہ کیا ہیں ؟ اس نے جواب دیا میرے خلاف کوئی شکایت نہ سننا‘ کسی بات میں میری مخالفت نہ کرنا اور ناز ونخرے سے مجھے پامال نہ کرنا۔
وفا کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اپنے دوست کے دشمن سے دوستی نہ کرے حضرت سیدنا امام شافعی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا ’’جب تمہارا دوست‘ تمہارے دشمن کی بات مانے تو وہ دونوں تمہاری دشمنی میں شریک ہوگئے۔‘‘
آٹھواں حق
آسانی اختیار کرنا اور تکلیف و تکلف کو چھوڑ دینا :
یعنی اپنے دوست کو اس بات کی تکلیف نہ دے جو اس کے لئے مشکل ہو بلکہ اپنی حاجات اور مشکلات کے حل کے لئیازخود اس سے مطالبہ نہ کرے اور اس سلسلے میں اس کے دل کو آرام پہنچائے بلکہ اس کا کچھ بوجھ خود برداشت کرکے اسے سکون پہنچائے اس کے مرتبے اور مال کی وجہ سے اس سے مدد طلب نہ کرے اسے اپنے لئے تواضع اور اپنے حال کی خبرگیری پر مجبور نہ کرے اور اپنے حقوق کے قائم کرنے پر اسے پریشان نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ محبت محض رضائے خداوندی کے لئے ہو اس کی دعا سے برکت اس کی ملاقات سے اُنسیت اور اس کے ذریعے اپنے دین پر مدد حاصل کرنا مقصود ہو۔
نیز اس کے حقوق ادا کرکے اور اس کی مشقت برداشت کرکے اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کا قرب حاصل کرے۔
بعض بزرگوں نے فرمایا کہ جو آدمی اپنے دوستوں سے ایسی بات کی خواہش کرے جس کی خواہش وہ اس سے نہیں کرتے تو اس نے ان پر ظلم کیا اور جس نے ان سے اس چیز کا تقاضا کیا جس کا وہ اس سے تقاضا کرتے ہیں تو اس نے ان کو تھکا دیا اور جو ان سے کوئی مطالبہ نہ کرے وہ ان سے حسن سلوک کرنے والا ہے۔
کسی دانا کا قول ہے کہ جو شخص اپنے دوستوں کے ہاں اپنے آپ کو اپنے مقام سے بلند سمجھتا ہے وہ خود بھی گناہ گار ہوتا ہے اور ان کو بھی گناہ گار کرتا ہے اور جو کوئی اپنی حیثیت کے مطابق ان کے ساتھ رہتا ہے وہ خود بھی مشقت اٹھاتا ہے اور ان کو بھی مشقت میں ڈالتا ہے اور جو آدمی اپنے آپ کو اپنے مقام سے نیچے رکھتا ہے وہ خود بھی محفوظ ہوتا ہے اور وہ بھی محفوظ ہوتے ہیں۔
حضرت جنید ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا’’ جب دو آدمی دینی بھائی بنتے ہیں پھر اگر وہ ایک دوسرے سے اجنبیت محسوس کریں تو کسی ایک میں ضرور کوئی خرابی ہوتی ہے۔‘‘
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) فرماتے ہیںکہ سب سے برا دوست وہ ہے جو تیرے لئے تکلف کرے اور پھرے تجھے اس کا خاطر تواضع کرنا پڑے یا تجھے عذر پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔
حضرت سیدنا فضیل ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) فرماتے ہیں لوگوں کے تعلقات تکلف کی وجہ سے ٹوٹتے ہیں ایک شخص اپنے دوست کی ملاقات کو جاتا ہے اور وہ اس کے لئے تکلف کرتا ہے تو یہی ترکِ ملاقات کا باعث بنتا ہے۔
حضرت سیدتنا عائشہ( رضی اﷲ عنہا) فرماتی ہیں۔
’’مومن ‘ مومن کا بھائی ہے نہ اسے لوٹتا ہے اور نہ اس سے تکلف کرتا ہے‘‘
حضرت سیدنا جنید ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) فرماتے ہیں میں صوفیا ئے اکرام (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)کے چار طبقات کے ساتھ رہا ہوں اور ہر طبقہ میں تیس افراد تھے حضرت حارث محاسبی( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) اور ان کا طبقہ‘ حضرت حسن مسوحی( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) اور ان کا گروہ‘ حضرت سری سقطی( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )اور ان کی جماعت اور حضرت ابن کریبی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )اور ان کا طبقہ … ان لوگوں میں سے جن دو نے اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے باہم محبت کی پھر ان میں سے ایک کو دوسرے سے اجنبیت اور دوری پائی تو اس کی وجہ ان میں سے کسی ایک میں خرابی کا پایا جانا تھا۔
کسی بزرگ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے پوچھا گیا کہ ہم کس کی مجلس اختیار کریں ؟ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص تم سے تکلف کا بوجھ اٹھا لے اور تمہارے اور اپنے درمیان تکلف کو ساقط کردے۔
حضرت سیدنا امام جعفرصادق ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) فرماتے تھے میرے دوستوں میں سے مجھ پر سب سے زیادہ بھاری وہ دوست ہے جو میرے لئے تکلف کرتا ہے اور میں اُس سے حیلہ کرتا ہوں‘ اور میرے دل پر سب سے ہلکا وہ ہے جس کے ساتھ میں اس طرح رہتا ہوں جس طرح میں تنہائی میں ہوتا ہوں۔
بعض صوفیاء کرام (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہو کہ اگر تم نیکی کرو تو ان کے نزدیک زیادہ معزز نہ ہو اور اگر گناہ کرو تو تم اس کی نظروں سے نہ گرو‘ مطلب یہ کہ نیکی تمہارے اپنے فائدے کے لئے اور گناہ تمہارے ہی نقصان کا باعث ہو اس کے نزدیک تم دونوں حالتوں میں برابر رہو۔
انہوں نے یہ بات اس لئے فرمائی کہ اس طرح آدمی تکلف وحیاء سے بچ جاتا ہے ورنہ انسان کو جب معلوم ہو کہ فلاں کام کرنے سے میں اس کی نظروں سے گرجاؤں گا تو وہ طبعی طور پر شرم و حیاء محسوس کرتا ہے۔
تین ہم نشین :
کسی بزرگ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا کہ دنیاداروں کے ساتھ ادب سے رہو‘ آخرت والوں کے ساتھ علم سے اور عارفین کے ساتھ جیسے چاہو رہو۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !انسان کو چاہئے کہ ہر عقل مند دین دار آدمی سے اخوت قائم کرے اور ان شرائط کو پورا کرنے کا پکا ارادہ کرے اور دوسروں کو ان شرائط کے پورا کرنے کی تکلیف نہ دے۔ تاکہ دوستوں میں اضافہ ہو کیونکہ اس طرح اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے دوستی ہوتی ہے ورنہ وہ دوستی ذاتی فوائد کے لئے ہوگی۔
اسی لئے ایک شخص نے حضرت جنید بغدادی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے عرض کیا کہ اس زمانے میں دوست کم ہوگئے ہیں اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے دوستی قائم کرنے والے کہاں ہیں ؟ حضرت سیدنا جنید ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے اس سے منہ پھیر لیا جب اس نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی اور اصرار کیا تو آپ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )نے فرمایا ’’اگر تم ایسا دوست چاہتے ہو جو تمہاری مشقت برداشت کرے اور تیری تکلیف خود اٹھائے تو یقینا ایسے دوست کم ہیں اور اگر تم اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے دوست چاہتے ہو کہ تم اس کی مشقت برداشت کرو اور اس کی طرف سے پہنچنے والی اذیت پر صبر کرو تو میرے پاس ایک جماعت ہے میں تمہیں بتادیتا ہوں اس پر وہ خاموش ہوگیا۔‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! سیدنا امام غزالی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کے قول کے مطابق لوگ تین قسم کے ہیں ایک وہ شخص ہے جس کی صحبت سے تم نفع اٹھاسکتے ہوں‘ دوسرا وہ جسے تم نفع پہنچانے پر قادر ہو اور اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ ہی نفع پہنچتا ہے اور تیسرا شخص وہ ہے کہ جس تم نفع نہیں پہنچا سکتے لیکن اس سے تمہیں نقصان پہنچتا ہے تو ایسا شخص بیوقوف بداخلاق ہے اس تیسرے آدمی سے تمہیںبچنا چاہئے جہاں تک دوسرے آدمی کا تعلق ہے اس سے مت بچو کیونکہ وہ تمہیں آخرت میں فائدہ دے گا یعنی اس کی سفارش اور دعا اور اس کے حقوق قائم کرنے کے ثواب کا فائدہ حاصل ہوگا۔
ایک مرتبہ اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اگر لوگوںکو بتا دیں کہ اگر وہ میرا حکم مانیں تو انکے کے بہت سے دوست ہوں گے مطلب یہ کہ ان کی غمخواری کریں‘ ان سے تکلیف برداشت کریں اور ان سے حسد نہ کریں۔
اپنی مدد آپ :
کسی بزرگ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا کہ میں نے پچاس سال تک لوگوں کی مجلس اختیار کی لیکن میرے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف واقع نہیں ہوا کیونکہ میں ان کے ساتھ اپنے سہارے رہا (کسی پر بوجھ نہیں ڈالا) اور جس کا طریقِ کار یہ ہو اس کے دوست زیادہ ہوتے ہیں۔
تخفیف اور ترکِ تکلف کی ایک صورت یہ ہے کہ نفلی عبادت میں اس پر اعتراض نہ کرے صوفیاء (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم )کی ایک جماعت چار باتوں میں مساوات کی شرط پر دوستی لگاتے تھے ایک یہ کہ اگر ان میں سے ایک روزانہ کھانا کھائے تو اس کا ساتھی یہ نہ کہے کہ تم روزہ رکھو اور اگر وہ عمر بھر روزہ رکھے تو یہ نہ کہے کہ اب روزہ رکھنا چھوڑ دو‘ اگر وہ رات بھر سوئے تو یہ نہ کہے کہ اٹھو‘ اور اگر وہ ساری رات نماز پڑھے تو یہ نہ کہے کہ سوجاؤ اور اس کے نزدیک اس کے حالات کسی اضافہ اور نقصان کے بغیر ایک جیسے ہوں کیونکہ اگر ان میں تفاوت ہو تو طبیعت یقینا ریاکاری اور حیاء پر مجبور کرے گی۔
کہا گیا ہے کہ جس نے تکلف چھوڑا اس کی محبت دائمی ہوگئی اور جس کی مشقت کم ہوئی اس کی دوستی پکی ہوگئی۔ بعض صحابہ کرام(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) نے فرمایا کہ اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) تکلف کرنے والوں پر لعنت فرماتا ہے۔
نیز حدیث پاک ہے
اَنَا وَالْاَتْقِیَائُ مِنْ اُمَّتِیْ بُرَآئٌ مِّنَ التَّکَلُّفِ۔
’’میں اور میری امت کے پرہیز گار لوگ تکلف سے بیزار ہیں‘‘ (الاسرار المرفوعۃ ص ۹۸ حدیث ۳۷۶)
بعض بزرگوں(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے دوست کے گھر میں چار کام کرلے تو اس کی محبت و اُنس مکمل ہوجاتا ہے اس کے پاس کھانا کھائے‘ اس کے ہاں ضرورتاً قضائے حاجت کرے ،اس کے ہاں نماز پڑھے اور سو جائے‘ کسی بزرگ سے یہ بات بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا ’’ایک پانچویں بات باقی ہے وہ یہ کہ اپنے دوست کے گھر اپنی بیوی کو ہمراہ لے جائے اوروہاں اپنی بیوی سے ہمبستری کرے کیونکہ گھران ہی پانچ باتوں کے لئے بنائے جاتے ہیں ورنہ مساجد عبادت گزار لوگوں کے دلوں کی روحیں ہیں۔‘‘
لہٰذا جب یہ پانچ کام کرلے تو اخوت مکمل ہوگئی اور ایک دوسرے سے اجنبیت ختم ہوگئی اور بے تکلفی پکی ہوگئی۔
اہل عرب سلام کا جواب دیتے ہوئے ’’ اہلاً وسہلاً‘‘ کہتے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے یعنی تو ہمارے پاس آرام دہ اور پر سکون جگہ پر آیا ہے اور تم ہمارے اپنے ہو تمہیں ہم سے اُنس حاصل ہوگا وحشت نہیں ہوگی اور تم ہماری طرف سے سہولت پاؤگے یعنی تم جو کچھ مانگوگے ہم پر گراں نہیں گزرے گا۔
اور ترکِ تکلف کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے آپ کو اپنے دوستوں سے کم نہ سمجھے‘ ان کے بارے میں اچھا گمان کرے اور بدگمانی اپنے بارے میں ہو جب وہ ان کو اپنے آپ سے اچھا سمجھے گا تو اس وقت وہ ان سب سے بہتر ہو گا
حضرت سیدنا ابو معاویہ اسود ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) فرماتے ہیں کہ میرے تمام دوست مجھ سے بہتر ہیں پوچھا گیا وہ کس طرح ؟ انہوں نے فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک مجھے اپنے آپ سے افضل سمجھتا ہے اور جو آدمی مجھے اپنے آپ پر فضیلت دے وہ مجھ سے بہتر ہے۔
نبی اکرم ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )نے فرمایا :
اَلْمَرْئُ عَلَی دِیْنِ خَلِیْلِہِ وَلاَخَیْرَ فِیْ صُحْبَۃِ مَنْ لَّایَرَی لَکَ مِثْلَ مَاتَرَی لَہ ‘ ۔
’’انسان اپنے دوست کے طریقے پر ہوتا ہے اور اس شخص کی مجلس کا کوئی فائدہ نہیں جو تیرے لئے وہ بات جائز نہ سمجھے جو اپنے لئے جائز سمجھتا ہے‘‘ (الکامل لابن عدی جلد ۳ ص ۱۰۹۷ من اسمہ سلیمان)
یہ سب سے کم درجہ ہے یعنی دوست کو مساوات کی نظر سے دیکھنا جب کہ کمال یہ ہے کہ اپنے (مسلمان) بھائی کو افضل سمجھے۔ اسی لئے حضرت سیدنا سفیان ثوری ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا جب تمہیں کہا جائے اے لوگوں میں سے برے انسان ! اور اس پر تمہیں غصہ آئے تو تم (واقعی) برے انسان ہو یعنی اپنے بدتر ہونے کا اعتقاد ہمیشہ تمہارے دل میں ہونا چاہئے۔ تواضع اختیار کرنے اور اپنے بھائی کو افضل سمجھنے کے بارے میں یہ اشعار کہے گئے ہیں۔ (ترجمہ)
ایسے شخص کے سامنے تواضع اختیار کرو جو اس تواضع کو تمہاری فضیلت کا باعث سمجھے تمہیں احمق نہ جانے۔
ایک دوسرے شاعر نے کہا:
کتنے ہی دوست ہیں جن سے شناسائی کسی دوسرے دوست کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن وہ پہلے دوست کی نسبت زیادہ گہرے دوست بن جاتے ہیں اور وہ رفیق جسے میں نے راستے میں دیکھا میرے نزدیک وہی حقیقی دوست قرار پایا اور جب وہ اپنے آپ کو افضل سمجھے تو اس نے اپنے بھائی کو حقیر جانا اور یہ بات عام مسلمانوں میں قابلِ مذمت ہے۔
چنانچہ نبی اکرم ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) نے فرمایا :
بِحَسْبِ الْمُؤْمِنِ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یَّحْقِرَ اَخَاَہُ الْمُسْلِمَ۔
’’کسی مومن کی برائی کے لئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے‘‘
(صحیح مسلم جلد ۲ ص ۳۸۵ کتاب البروالصلۃ)
بے تکلفی کی تکمیل اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ جس کام کا ارادہ کرے اس کے لئے اپنے دوستوں سے مشورہ کرے اور ان کے مشوروں کو قبول کرے۔
کیونکہ اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) نے ارشاد فرمایا:
وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ
ترجمہ کنزالایمان’’اور کاموں میں ان سے مشورہ لو‘‘
(پارہ نمبر۴‘ سورئہ آل عمران آیت ۱۵۹)
اسی طرح ان سے اپنے راز بھی نہ چھپائے جیسا کہ مروی ہے حضرت معروف ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کے بھتیجے یعقوب نے کہا کہ اسود بن سالم( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) میرے چچا معروف کے پاس آئے اور ان کے درمیان بھائی چارہ تھا انہوں نے کہا بشر بن حارث ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کا تمہارے ساتھ بھائی چارہ تھا انہوں نے کہا وہ آْپکے ساتھ بھائی چارے کو پسند کرتے ہیں لیکن سامنے آنے سے حیاء کرتے ہیںچنانچہ انہوں نے مجھے آپ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کے پاس بھیجا ہے اورگزارش کرتے ہیں کہ آپ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) ان سے دوستی قائم کریں جو باعثِ ثواب اور قابل اعتبار ہو لیکن اس میں کچھ شرائط ہیں وہ چاہتے ہیں کہ یہ بات مشہور نہ ہو اور نہ ہی آپ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کے اور ان کے درمیان ملاقات ہو کیونکہ وہ زیادہ ملاقات کو پسند نہیں کرتے۔
حضرت معروف ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے فرمایا’’ اگر میں کسی سے ا ﷲل کی خاطر دوستی کرتا ہوںتواس سے جدا ہونا پسند نہیں کرتااور اسے ہر حال میں اپنے اوپر ترجیح دیتا ہوں پھر انہوں نے اخوت کی فضیلت اور اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے محبت کے سلسلے میں بہت سی احادیث ذکر کیں اور فرمایا رسول اکرم ا نے حضرت علی المرتضیٰ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے اخوت قائم کی تو انہیں علم میں اپنے ساتھ شریک کیا (المستدرک للحاکم جلد ۳ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) ۱۲۶ کتاب معرفۃ الصحابۃ) اونٹوں (کی قربانی) میں آپ کو حصہ دار بنایا‘ (صحیح بخاری جلد اول ص ۳۰۸ کتاب الوکالہ) اور اپنی سب سے افضل اور پیاری بیٹی آپ کے نکاح میں دی‘ (صحیح بخاری جلد اول میں ۲۸۰ کتاب البیوع) اور اسی وجہ سے آپ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کو بھائی چارے کے لئے خاص کیا۔
حضرت معروف ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )نے مزید فرمایا’’ چونکہ تم ان کا پیغام لے کر آئے ہو اور انہوں نے خواہش کی ہے اس لئے میں نے اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے لئے ان سے عقد مواخات قائم کیا ٹھیک ہے اگر وہ پسند نہ کریں تو مجھ سے ملاقات نہ کریں لیکن میں جب چاہوں گا ان سے ملاقات کروں گا اور انہیں کہیں کہ وہ اپنی کوئی بات مجھ سے نہ چھپائیں اور اپنے تمام حالات مجھے بتائیں۔
ابن سالم نے جب حضرت سیدنا بشر ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کو یہ بات بتائی تو وہ اس پر راضی ہوئے اور خوش بھی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !امام ٖغزالی ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کے مطابق یہ صحبت کے جامع حقوق ہیں ہم نے ایک دفعہ انہیں اجمالی طور پر بیان کیا اور دوسری بار تفصیلی طریقے سے ذکر کیا اور یہ بات اسی صورت میں مکمل ہوسکتی ہے جب تم اپنے نفس پر اپنے بھائیوں کا حق سمجھو ان پر اپنا حق نہ جانو اور اپنے آپ کو ان کے خادم کی حیثیت میں جانو۔ اور اپنے تمام اعضاء ان کے حقوق میں قید کردو۔ مثلاً
نگاہ :
جہاں تک نگاہ کا تعلق ہے تو انہیں محبت اور دوستی کی نظر سے دیکھو،ان کی خوبیوں کو دیکھو اور ان کے عیبوں سے اندھے بن جاؤ جب وہ تمہاری طرف متوجہ ہوں تو ان سے اپنی نگاہ کو نہ پھیرو اور نہ ان کی گفتگو سے نظریں چراؤ۔
ایک روایت میں ہے نبی اکرم( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اپنی مجلس میں بیٹھنے والے ہر شخص کو اپنی توجہ سے حصہ عنایت فرماتے اور کسی ایک کی طرف زیادہ توجہ اسی صورت میں دیتے جب یہ خیال ہو تا کہ دوسروں کی نسبت زیادہ معزز ہے حتی کہ آپ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کی گفتگو‘ لطیف انداز میں سوال اور توجہ تمام بیٹھنے والوں کی طرف ہوتی آپ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کی مجلس‘ حیائ‘ تواضع اور امانت کی مجلس ہوتی تھی ‘ نیز نبی اکرم ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) صحابہ کرام کے سامنے سب سے زیادہ تبسم فرماتے اور ان کی گفتگو کو پسند فرماتے۔ (شمائل الترمذی مع جامع الترمذی ص ۵۹۵ باب ماجاء فی تواضع الرسول علیہ السلام)
نیز صحابہ کرام (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)آپ اکے پاس بطور تبسم‘ ہنستے تھے وہ آپ اکی اقتداء کرتے ہوئے نیز آپ اکی عزت و احترام میں ایسا کرتے تھے۔
(جامع الترمذی ص ۵۲۴ ابواب المناقب)
سماعت :
اورجہاں تک سماعت کا تعلق ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اس کا کلام نہایت توجہ سے سنو اوراس پر خوشی کا اظہار کرو نیز اس پر بلاوجہ اعتراض یا مداخلت نہ کرو اوراس کی گفتگو کو نہ کاٹو اوراگر تمہیں کوئی بات پیش آجائے ( اور اٹھنا پڑے) تو معذرت کرلو۔ نیز جو کچھ تمہارے دوست ناپسند کریں اس قسم کی باتیں سننے سے پرہیز کرو ۔
زبان :
اورجہاں تک زبان کا تعلق ہے تو اس کے حقوق ہم نے تفصیلاً ذکر کردیئے ہیںالبتہ ایک بات اور یہ ہے کہ ان کے سامنے آواز بلند نہ کرے اور ان سے وہی گفتگو کرے جسے وہ سمجھ سکیں۔
ہاتھ :
ہاتھوں کے سلسلے میں یہ بات یاد رہے کہ جس چیز کا ہاتھوں سے لین دین ہوتا ہے اس میں اپنے دوستوں کی مدد کرنا نہ چھوڑے ۔
پاؤں :
ان کے لئے اپنے پاؤں کو اس طرح استعمال کرے کہ ان کے پیچھے تابع بن کر چلے ان کو اپناتابع نہ بنائے اور اسی قدر آگے ہو جس قدر وہ آگے کریں اور جس قدر وہ قریب کریں اسی قدر ان کے قریب ہو جب وہ آئیں تو کھڑا ہو اور اسی وقت بیٹھے جب وہ بیٹھیں نیز جب بیٹھے تو عاجزی کے ساتھ بیٹھے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خلاصہ یہ ہے کہ جب ذہنی ہم آہنگی ہوجاتی ہے تو ان حقوق کو برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے جیسے ان کے آنے پر کھڑا ہونا۔ عذر پیش کرنا اور تعریف کرنا یہ سب باتیں محبت کے حقوق ہیں اور ان کے پورا کرنے میں کچھ نہ کچھ اجنبیت اور تکلف ہوتا ہے لیکن جب ذہن ایک جیسے ہو ں تو تکلف ختم ہو جاتاہے اور وہ اس وقت اپنے دوست سے وہی برتاؤ کرتا ہے جو خود اپنے نفس کے ساتھ کرتا ہے کیونکہ یہ ظاہری آداب‘ باطنی آداب اور قلبی صفائی کے عنوانات ہیں اور جب دل صاف ہوجاتا ہے تو وہ دل کی بات کو ظاہر کرنے سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔
اور جس آدمی کی نظر مخلوق کی محبت پر ہوتی ہے وہ کبھی ٹیڑھا ہوتا ہے اور کبھی سیدھا۔ اور جس کی نظر خالق( عَزَّوَجَلَّ )پرہوتی ہے اس کا دل اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) اور اس کی مخلوق کی محبت سے مزین ہوتا ہے کیونکہ بندہ اچھے اخلاق کی وجہ سے رات بھر عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے کا ثواب بلکہ اس سے بھی زیادہ حاصل کرتا ہے۔
خا تمہ:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ الباری اس باب کے آخر میں گفتگو سمیٹتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :
مد ینہ :
ہم اس مقدمہ میں مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ رہنے اور ہمنشینی کے آداب ذکر کریں گے جو بعض دانا لوگوں کے کلام سے منتخب کئے گئے ہیں۔
اگر تم اچھی طرح زندگی گزار نا چاہتے ہو تو اپنے دوست اور دشمن سے خوشی خوشی ملاقات کرو انہیں ذلیل نہ کرو اور نہ خود مرعوب ہوبلکہ وقار اختیار کرو لیکن ایسا جو تکبر کی حد تک نہ پہنچے اور عاجزی اختیار کرو لیکن ایسی جوذلت تک نہ پہنچے ۔اپنے تمام کاموں میں اعتدال اختیار کرو۔ اعتدال کی دونون طرفیں (افراط و تفریط) قابل مذمت ہیںلہذا اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں بلاوجہ ادھر ادھر نہ دیکھو فضول لوگوں کی ٹولیوں کے پاس کھڑے نہ رہو اور جب بیٹھو تو حسب ضرورت اطمینان سے بیٹھو، انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالو داڑھی اور انگوٹھی کے ساتھ نہ کھیلو دانتوں میں خلال نہ کرو اور نہ ناک میں انگلی ڈالو لوگوںکے سامنے نہ تھو کو اور نہ ناک صاف کرو چہرے سے مکھیوں کو زیادہ نہ اڑاؤ لوگوں کے سامنے انگڑائی اور جمائی زیادہ نہ لو اسی طرح نماز میں بھی۔
مد ینہ---
تمہاری مجلس باعث ہدایت اور تمہارا کلام مرتب و منظم ہونا چاہئے جو آدمی گفتگو کررہا ہو اس کے اچھے کلام کو کان لگا کر سنو۔ نہ اس پر بہت تعجب کا اظہار کرو اور نہ دوبارہ کہنے کا مطالبہ کرو‘ ہنسانے والی باتوں اور قصے کہانیاں بیان کرنے سے خاموش رہو۔ اور یہ بھی بیان نہ کرو کہ مجھے اپنا لڑکا یا لڑکی یا شعر یا تصانیف یا وہ باتیں جو خاص تم سے متعلق ہیں‘ اچھی لگتی ہیں عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار نہ کرو اور نہ غلاموں کی طرح میلے کچیلے رہو‘ زیادہ سرمہ لگانے سے بچو اسی طرح تیل بھی مقدار سنت سے زیادہ نہ لگاؤ اپنی حاجتیں ہر کسی سے مت کہتے پھرو کسی ظالم کو بہادر نہ کہو اپنے گھر والوں اور بچوں کو اپنے مال کی مقدار نہ بتاؤ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا کیونکہ وہ جب تھوڑا دیکھیں گے تو تم ان کی نظروں میں خوار ہوگئے اور اگر زیادہ ہوگا تو کبھی بھی ان کو خوش نہیں رکھ سکو گے ان کی تربیت ایسے طریقے سے جونفرت نہ ہو اور نرمی اختیار کرو لیکن کمزوری نہ دکھاؤ اپنے نوکر چاکر اور ماتحتوںسے مذاق مسخری نہ کرو ورنہ تمہارا وقار ختم ہوجائے گا۔
مد ینہ---
جب کسی سے مقدمہ بازی ہو تو وقار اختیار کرو جہالت کے طریقے سے بچو‘ جلدی نہ کرو بلکہ اپنی دلیل پر پہلے ہی خوب غور کرلو اپنے ہاتھوں سے زیادہ اشارے نہ کرو اور اپنے پیچھے کی طرف مڑکر نہ دیکھو عاجزی کی کوئی صورت اختیار نہ کرو اور جب غصہ تھم جائے تو گفتگو کرو۔
مد ینہ :
اگر تمہاراحکمران تمہیں اپنے قریب کرے تو اس کے ساتھ انتہائی احتیاط کے ساتھ رہو اگر وہ تم سے خوش مزاجی کے ساتھ پیش آئے تو اس کے بدلنے سے بے خوف نہ ہو‘ اس کے ساتھ نرمی اس طرح برتو جس طرح بچوں کے ساتھ اختیار
کرتے ہیں اور اس کی خواہش کے مطابق بات کرو جب تک اس میں گناہ نہ ہو اس کے نرم سلوک کی وجہ سے اس کے ذاتی معاملات میں دخل نہ دو اگرچہ اس کے نزدیک تم اس بات کا حق رکھتے ہو۔ کیونکہ جو شخص حکمران اور اس کے گھر والوں کے مابین معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے وہ ایسا گرتا ہے کہ پھر اٹھ نہیں سکتا۔
مد ینہ :
جو دوست صرف خوشحالی کے زمانے کا دوست ہو اس سے بچو کیوں کہ وہ سب سے بڑا دشمن ہے اور اپنے مال کو اپنی عزت سے زیادہ عزیز نہ سمجھویہاں وہ اسلامی بھائی درس حاصل کریں جو معمولی رقموں پر مثلا بس و موٹرکے کرائے کی زیادتی پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور نوبت ہاتھا پائی اور گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے ۔
مد ینہ :-
جب کسی مجلس میں داخل ہو تو ادب کا تقاضا ہے کہ پہلے وہاں سلام کرو‘ دوسروں کی گردنیں نہ پھلانگو بلکہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جاؤ اور ایسی جگہ بیٹھو جو تواضع کے زیادہ قریب ہو بیٹھتے وقت اپنے پاس والوں کو سلام کہو۔
مد ینہ :%
راستے میں مت بیٹھو اگر بیٹھنا پڑے تو اس کے آداب یہ ہیں کہ نگاہ کو پست رکھو‘ مظلوم کی مدد کرو‘ فریادی کی فریاد رسی کرو‘ کمزور کی مدد کرو‘ بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھاؤ‘ مانگنے والے کو عطا کرو‘ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، البتہ فی زمانہ ان سب باتوں کے لئے اضافی سمجھداری کی ضرورت ہے ‘ تھوکنے کے لئے مناسب جگہ تلاش کرو‘ قبلہ رخ نہ تھوکو دائیں طرف بھی نہ تھوکو بلکہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوکو۔
مد ینہ :=
حکمرانوں کی مجلس اختیار نہ کرو اگر ایسا کرنا ہو تو اس کے آداب یہ ہیں غیبت نہ کرنا‘ جھوٹ سے بچنا‘ راز داری اختیار کرنا‘ حاجات کم رکھنا‘ اچھے الفاظ استعمال کرنا اور شستہ گفتگو کرنا شاہی طریقے پر گفتگو کرنا‘ ہنسی مذاق سے پرہیز کرنا ہے اگرچہ وہ تمہارے لئے محبت کا اظہار کریں۔
ان کے سامنے ڈکار نہ لو اور کھانے کے بعد ان کے سامنے خلال نہ کرو حکمران کو بھی چاہئے کہ وہ راز افشاء کرنے‘ بادشاہی میں خلل ڈالنے اور عزت کے درپے ہونے کے علاوہ دیگر باتوں کو برداشت کرے۔
مد ینہ :=
جاہل لوگوں کے ساتھ بھی نہ بیٹھو اگر ایسا کرنا پڑ جائے تو اس کے آداب یہ ہیں‘ ان کی باتوں میں غور وفکر نہ کرو ان کی بیہودہ باتوں کی طرف کم توجہ دو اور ان سے جو برے الفاظ صادر ہوتے ہیں ان پر بھی توجہ نہ دواگر ان کی حاجت بھی ہو تب بھی ان سے زیادہ ملاقات نہ کرو‘ کسی سے مزاح نہ کرو وہ عقل مند ہو یا غیر عاقل کیونکہ عقل مند آدمی اپنی بے عزتی ہونے پر تم سے کینہ رکھے گا اور بیوقوف تمہیں ہلکا سمجھ کر تمہارا مذا ق اڑائے گاکیونکہ مذاق انسان کے رعب کو ختم کردیتا ہے اس سے عزت جاتی رہتی ہے‘ کینہ پیدا ہوتا ہے تومحبت کی چاشنی ختم ہوجاتی ہے اور عالم کے علم کو دھبہ لگتا ہے بیوقوف جرأ ت کا مظاہرہ کرتا ہے اور دانا کے سامنے مرتبہ کم ہوجاتا ہے متقی لوگ اسے برا سمجھتے ہیں اور اس سے دل مرجاتا ہے اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) سے دوری ہوتی ہے‘ غفلت پیدا ہوتی ہے اور آدمی ذلت کا شکار ہوجاتا ہے اس سے باطن اندھا اور دل مرجاتا ہے عیب زیادہ ہوتے ہیں اور گناہ ظاہر ہوتے ہیں۔
مد ینہ :=
کہا گیا ہے کہ مذاق مسخری(مزاح نہیں کیونکہ یہ خوش طبعی ہے) وہی شخص کرتا ہے جو احمق یا متکبر ہو اور جو آدمی غلطی سے کسی مجلس میں مذاق یا شور وغوغا کربیٹھے وہ اٹھنے سے پہلے اﷲ ( عَزَّوَجَلَّ ) کا ذکر کرے کہ نور مجسم شاہ بنی آدم حضور نبی اکرم ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )نے ارشاد فرمایا :
’’جو آدمی کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اس نے بہت سی فضول باتیں کی ہوں تو وہ اٹھنے سے پہلے یہ کلمات پڑھ لے اس سے مجلس میں کی گئی غلط باتوں کی بخشش ہوجائے گی‘‘۔
وہ کلمات یہ ہیں۔
سُبْحَانَکَ اللَّھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ انْتَّ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ ۔
’’یا اﷲ ! تو پاک ہے اور لائق حمد بھی‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش
کا سوال کرتا ہوں اور تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں‘‘ (جامع الترمذی ص ۴۹۵‘ ابواب الدعوات)
٭٭٭٭٭{ × }٭٭٭٭٭
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع