30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
احمد صابررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو مرشد کی اس اَدَا کا علم تھالہٰذا جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کلیرجانے سے قبل بارگاہ ِ مرشد میں عرض کی : بندے کے حق میں کیا فرمان ہے ؟تو حضرت بابافریدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا : ’’زندگی راحت سے گزرے گی ۔ ‘‘پس آخر عمر تک آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی زندگی راحت سے گزری آپ بڑے خوش باش اور کشادہ پیشانی تھے ۔ ([1])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!راہِ خدا میں آنے والی تکلیفوں اور مُشکلات کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے رحمتِ الٰہی اور ربُّ الاَنام عَزَّوَجَلَّ کا انعام سمجھتے ہیں کیوں کہ مشکلات پر صبر کرنے سے درجات بلند ہوتے ہیں، اسی لیے بابا فریدُالدّین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہپر آنے والی مشکلات کو راحت کا سبب قرار دیا ۔
جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۱۰ذوالحجۃ ۶۴۶ھ یا۶۵۰ھ میں۳۳ سال کی عمر میں کلیر تشریف لائے تو یہ ایک عظیمُ الشَّان اور بارونق شہر تھا ۔ دولت کی فراوانی ، وسیع و عریض عمارتیں اور مزین و آراستہ مکانات نے اس شہر کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا لیکن اس شہر کا ظاہرجس قدرروشن تھا اس شہر کے مکینوں کا باطن اسی قدر تاریک تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حضرت سیّدنا علی احمد صابر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ انتہائی بدسلوکی سے پیش آئے ۔ ([2])
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تشریف آوری وہاں کے قاضی کو ایک آنکھ نہ بھائی ۔ اس نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے خلاف کلیر کے قیامُ الدّین نامی رئیس کو وَرْغَلایا، رئیس بھی قاضی کی باتوں میں آگیا ۔ جب حضرت سیّدنا علی احمد صابر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اس رئیس کا سامنا ہوا تو اس نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا : ”اگر آپ امامت اور خلافت کے دعوے دار ہیں تو بتائیے میری تین ماہ سے غائب خوبصورت اور قدآور سبزرنگ والی بکری کہاں ہے ؟ اگر بتا دیں گے تو ہم آپ کو اپنا امام مان کرآپ کی بیعت کرلیں گے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس رئیس کی دستگیری فرماتے ہوئے عالمِ ارواح کی جانب توجہ فرمائی اور ہاتھ اُٹھا کر فرمایا : ”اے بکر ی کے کھانے والو!نکل آؤ ۔ “لمحہ بھر میں وہ تمام کے تمام لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگا ہ میں حاضر ہوگئے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں نے رئیس کی بکری پکڑ کر کھالی ہے ، اس کی تفصیل بیان کر و ۔ رئیس کے خوف سے ان تمام لوگوں نے انکار کیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے نرمی سے ارشاد فرمایا : بہتر یہی ہے کہ خود اپنا اپنا حال بیان کردو ورنہ ذرا سی دیر میں پر دہ فاش ہوجائے گا اور پھر شرمندگی اُٹھاناپڑے گی ۔ “یہ سن کر بھی وہ لوگ مسلسل انکا ر ہی کرتے رہے تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے رئیس سے ارشاد فرمایا : آپ اپنی بکر ی کا نام پکارئیے ۔ “جیسے ہی اس نے ’’حرمنہ‘‘ کہہ کر آواز دی تو بکری کو ہڑپ کرجانے والوں کے پیٹ سے یہ آواز آئی : میں ان لوگوں کے پیٹ میں ہوں ، انہوں نے آدھی رات کو چاہِ صدرق کے کنارے پر ذبح کرکے میرا گوشت بھون کر کھایا تھا اور ہڈیاں ، کھال میں رکھ کر کنویں میں پھینک دی ہیں ۔ یہ سن کر رئیس نے عرض کی : آپ بے شک اَقْطاب میں سے ہیں ۔ آگے بڑھ کر بیعت کرنا ہی چاہتا تھا کہ قاضی نے اسے روک لیا اور اس کے کان میں کہا : ”اس کے دھوکے میں مت آنایہ بہت بڑا جادوگر معلوم ہوتا ہے ۔ “یہ سن کررئیس کا دل لمحہ بھر میں پلٹ گیا ، اس کے قدم رک گئے اوراس قدر روشن کرامت دیکھنے کے باوجود زبان سے بدگمانی کے زہر میں بجھا ہوا تیر نکلا : ”مجھے تو تم قُطب نہیں جادوگر لگتے ہو ۔ “یہ سن کرحضرت سیّدنا علی احمد صابر رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مسکرادیے اورعفوودرگزرکی معنوی کرامت کا اظہار کرتے ہوئے یوں فرمایا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ!آج یہ سنّت ِ نبوی بھی ادا ہوگئی کہ مجھے جادوگر کہا گیا ۔ ([3])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرت سیّدنا علی احمد صابر کلیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مبارک سیرت میں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے والے مبلّغین کے لیے ایک مدنی پھول یہ بھی ہے کہ نیکی کی دعوت میں جس قدر آزمائشیں آئیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفے ٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر آنے والی آزمائشوں کو یاد کیجیے کیوں کہ اس کی برکت سے حوصلہ پست نہیں ہوگا اور نہ ہی شیطان اس راہ میں رکاوٹ بن سکے گا ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ولی کی دل آزاری کا انجام
جب حضرت سیّدنا علی احمد صابر کلیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کلیرتشریف لائے اس وقت وہاں دولت مند امراء کی ایک بڑی تعداد آباد تھی ، جمعے کی ادائیگی کے لیے یہ امراء ہاتھیوں پر سوار ہوکر مسجد آتے اور اپنے غرور تکبر کی تسکین کے لیے اوّلین صفوں میں ہی بیٹھنا پسند کرتے ، کسی غریب و مسکین کو مجال نہ ہوتی کہ ان صفوں میں بیٹھ جائے اگر کوئی غلطی سے بیٹھ بھی جاتا تو اسے ڈرا دھمکا کر پیچھے کردیا کرتے ، یہ لوگ غریبوں کو اپنا غلام سمجھتے تھے یہی کیفیت شہر کے قاضی و حاکم کی بھی تھی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان کی اصلاح کے لیے خوب کوشش فرمائی لیکن حاکم و اُمراء دولت کے نشے میں چور تھے اور شہر کے قاضی کو اپنا منصب چھن جانے کا خوف تھا اس وجہ سے ان دونوں طبقوں نے اصلاح خوشی دلی سے قبول کرنے کے بجائے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مذاق اڑاناشروع کردیا ۔
حضرتسیّدناعلی احمد صابر کلیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو پنج وقتہ نمازِ باجماعت کی عادت تو بچپن ہی سے تھی ، جب آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کلیر تشریف لائے تب بھی تمام تر آزمائشوں اور مشکلات کے باوجود مسجد کی حاضری کی پیاری پیاری عادت برقرار رہی ۔ جب جمعہ آیا تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنمازجمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجدتشریف لائے اور پہلی صف میں جلوہ افروز ہوگئے
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع