30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت سیّدنا شمسُ الدّینرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بے حد محبت فرماتے ، ایک مرتبہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکومخاطب کرکے فرمایا : ”اے شمس ! تو میر ا فرزند ہے ، میں نے خدا سے چاہا کہ میر ا سلسلہ تجھ سے جاری ہو اور قیامت تک رہے ۔ “([1]) آخری عمر میں آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا خرقۂ خلافت حضرت شیخ شمسُ الدّین ترک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو عطا فرما کر پانی پت کا صاحبِ ولایت مقرر فرمایا ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے ہاتھ سے خلافت نامہ لکھ کر اِن کے حوالے کیا اور اسمِ اعظم جو مشائخ سے سینہ بسینہ چلا آرہا تھااس کی تلقین فرمائی اور یہ وصیت فرمائی : ”تین دن سے زیادہ یہاں نہ رہنا ، اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ کوپانی پت کی ولایت عطا فرمائی ہے ، وہاں جا کر سکونت اختیار کرنا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت میں کمر بستہ ہو جانا، میں ہر جگہ تمہارا معاون رہوں گا ۔ “ حضرت شیخ شمسُ الدینرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بارگاہ ِ مرشد میں عرض کی : حضور!آپ کی ولایت باقی اور پائندہ ہے اس بندے کا ارادہ یہ تھا کہ باقی عمر آستانہ عالیہ کی جاروب کشی کرتا ۔ اب آپ کا حکم ہے کہ پانی پت جاؤ ۔ لیکن وہاں شیخ شرف الدّین بو علی قلندر پانی پتیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ([2])موجود ہیں معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے کس طرح پیش آتے ہیں ؟آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : فکر مت کرو تمہارے وہاں پہنچتے ہی وہ وہاں سے چلے جائیں گے ۔ ([3])
ایک مرتبہ شیخ المشائخ خواجہ نظامُ الدّین اولیا ء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا ایک مُریدحضرت سیّدنا علاءُالدّین صابر کلیریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت شیخ شمسُ الدین ترک کے علاوہ کسی کو مرید اور خلیفہ نہیں بنایا اور میرے مرشد حضرت شیخ نظام الدّین اولیا نے آسمان پر ستاروں کی تعداد سے بھی زیادہ مرید بنائے ہیں ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواب دیا : ”میرا شمس کافی ہے جواللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل سے تمام ستاروں پر غالب ہے ۔ “دہلی آکر اس نے سارا واقعہ شیخ المشائخ خواجہ نظام الدّین اولیا ء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بیان کیا ۔ تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : تم نے حضرت کو کیوں رنجیدہ کیا دوسری مرتبہ ایسی حرکت نہیں ہو نی چاہئے بے شک انہوں نے جو کچھ فرمایا صحیح فرمایا وہ مقرَّب ِبار گاہِ ربّانی ہیں ۔ ([4])ایک موقع پر حضرت علاءُ الدّین علی احمد صابر کلیری نے حضرت سیّدنا شمسُ الدّین ترکرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے بارے میں فرمایا : ہمارا شمس اولیاء میں سورج کی طرح ہے ۔ ([5])
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک دن شمسُ الدّین ترک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے فرمایا : جب آپ سے کوئی کرامت ظاہر ہو تو سمجھ لیجیے گا کہ میر ا انتقال ہوگیا ہے ۔ ([6])جس دن حضرت سیّدنا شمسُ الدّین ترک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے کرامت ظاہر ہوئی فورا کلیرشریف حاضرہوئے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تجہیز و تکفین، تدفین خود فرمائی ۔ آپرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکاوصال ۱۳ربیع الاول ۶۹۰ھمطابق ۱۵مارچ۱۲۹۱ء ہے ۔ ([7])آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار پر انوار کلیر شریف ضلع سہارن پور (یوپی) ہندمیں نہر گنگ کے کنارے مرجع الخلائق ہے ۔
مزار کی بے حرمتی کی ہاتھوں ہاتھ سزا
ایک کافر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزار کے پاس سے گز ر رہا تھا ، اس نے جب یہ دیکھاکہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزار ِپُر انوار پرکوئی نہیں تو اس کی نیّت خراب ہوئی اور اسے آپ کا مزارِ مبارک شہید کرکے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی سوجھی لہٰذا اس نے اپنے اس ناپاک ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک تیشہ (ایک اَوزار)لیا اور اپنے ناپاک عزم کو پورا کرنے میں جُت گیا ، جب اس کی توجہ مزار کے روشن دان کی طرف گئی تو تجسس سے اس نے روشن دان سے جھانک کراندر کا منظر دیکھنا چاہا مگر اس کا سر پھنس گیا اوردم گھٹنے کی وجہ سے وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔ رات کو مزار کے خدمت گاروں کے خواب میں حضرت سیّدنا علی احمد صابررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : ”ایک شخص گستاخی کے ارادے سے ہمارے مزار پر آیا تھا اسے سزا تو مل گئی ہے اب وہ مزار کے روشن دان سے لٹکا ہوا ہے اسے آکر نکال دیا جائے ۔ “دوسری صبح و ہ خدمت گار اپنے ساتھیوں کے ساتھ مزار پر حاضر ہوئے ، اس کافر کو کھینچ کر باہرنکالا اوراس کی لاش جنگل میں پھینک دی ۔ ([8])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ولیٔ کامل کے مزارکی بے حرمتی کرنے والے کا عبرت ناک انجام آپ نے ملاحظہ فرمایا ، یہ مدنی پھول خوب ذہن نشین کرلیجیے کہ ”اولیائے کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام سے بغض و عداوت رکھنے اور ان کی گستاخی کرنے میں کوئی خیر نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی بربادی کا ذریعہ ہے ۔ “اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نیک بندوں سے عداوت کا سب سے بڑا سبب گستاخان ِ اولیاء کی صحبت بد بھی ہے اور اس کی نحوست کی وجہ سے شیطان طرح طرح کی گستاخیاں کرواتا ہے لہذا اولیائے کرام کی گستاخی کرنے والوں کی صحبت سے بچنے ہی میں عافیت ہے ۔ حُبّ ِ اولیاء باعثِ فوز و فلاح (کامیابی)ہے اس سلسلے میں امیرِاہلسنت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عَطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی مایہ ناز تالیف فیضانِ سُنَّت میں ایک حکایت نقل
[1] تذکرۂ اولیائے پاک و ہند، ص۷۶
[2] آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ امام اعظم کی اولاد سے ہیں ۔ حدیقۃ الاولیاء، ص۸۱
[3] اقتباس الانوار، ص۵۱۲ ملخصاً، تذکرۂ اولیائے پاک و ہند، ص۷۶ملخصاً
[4] سیر الاقطاب، ص۲۰۱ملخصاً
[5] تذکرۂ اولیائے پاک و ہند، ص۷۸
[6] محفلِ اولیاء، ص۳۸۶ملخصاً
[7] خزینۃ الاصفیاء ۲ / ۱۵۹، محفلِ اولیاء، ص۳۸۶ملخصاً
[8] خزینۃ الاصفیاء، ۲ / ۱۵۸ملخصاً، اقتباس الانوار ، ص۵۰۵ملخصاً، تذکرۂ اولیائے برِ ّ صغیر، ۲ / ۵ملخصاً
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع