دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Durood Aur Ayat e Durood | درود اور آیت درود

book_icon
درود اور آیت درود
            
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پیشِ لفظ حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ” جس کو میرے ذکر نے سوال کرنے سے مشغول رکھا ، میں اُسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ اور افضل عطا کروں گا۔ “ اس حدیثِ پاک پر علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اگر تو اپنے نبی مکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ پر دُرود پڑھنے کو عظیم عبادت سمجھ لے گا ، تو اللہ پاک تیرے دنیا و آخرت کے ہر غم و اَلم کے لیے کافی و شافی ہوگا اور ہر ارادے کے لیے کافی ہوگا ۔ )القول البدیع ، ص 144 ، بیروت ( گویا دُرود بھی ذکر کی طرح ہر غم سے آزاد کرنے والا اور ہر معاملے کے لیے کافی ہے۔ اور اس چیز کو حدیثِ پاک میں یوں بیان کیا گیاکہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی:”يَا رَسُولَ اللہ ! إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي؟ فَقَالَ: (مَا شِئْتَ). قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ، قَالَ: (مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ: النِّصْفَ، قَالَ: (مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ، قَالَ: (مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا قَالَ: (إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ) ترجمہ : یارسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ !میں آپ پر کثرت سے دُرودِ پاک پڑھتا ہوں ، ارشاد فرما دیں کہ کس قدر پڑھا کروں ؟ تو ارشاد فرمایا:جتنا دل چاہے ، تو آپ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض کی:کیا وقت کا چوتھائی حصہ ؟ تو ارشاد فرمایا: جتنا دل چاہے ، اگر زیادہ کرو گے تو تمہارے لیے بہتر ہوگا ( تو کہتے ہیں ، ) میں نے عرض کی: کیا آدھا وقت ؟ ارشاد فرمایا: جتنا دل چاہے ، اگر زیادہ کرو گے تو تمہارے لیے بہتر ہوگا ۔ تو آپ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض کی: کیا دو تہائی وقت ؟ ارشاد فرمایا: جتنا دل چاہے ، اگر زیادہ کرو گے ، تو تمہارے لیے بہتر ہوگا ۔ ( آپ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کہتے ہیں کہ ) میں نے عرض کی:میں اپنے تمام وقت میں سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام پر دُرود پڑھتا رہوں گا ۔ ارشاد فرمایا:تب تو یہ دُرود تمہارے رنج و اَلم کو دور کرنے کے لیے کافی ہے اور تمہارے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ (سنن ترمذی ، ج 4 ، ص 236 ، مطبوعہ مصر ) کثرتِ درود نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کو بہت محبوب ہے۔ محبوب ِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کی محبت میں اِس محبوب عمل کو عام کرنے کےلیے ہمیشہ سے بزرگان ِ دین دُرود و سلام کے فضائل و برکات پر مختصر اور تفصیلی ہر طرح کی کتابیں تحریر فرماتے رہے ہیں،ان ہی کی اتباع کی ایک کڑی مفتی محمد قاسم عطاری زِیْدَ مَجْدُہ کی خوبصورت کتاب ”رحمتوں کی برسات “ بھی ہے ۔یہ کتاب تقریباً 370صفحات پر مشتمل ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے اس کتاب کا پہلا باب ( یعنی آیتِ دُرود سے متعلق کلام ) الگ شائع کیا جارہا ہے ۔اس کےعلاوہ قبلہ مفتی صاحب کا” اِشْمَامُ الْعَنْبَرِ مِنْ اَسْمَاءِ النَّبِیِّ الْمُطَھَّرِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ “ یعنی ” دُرود و سلام بھیجنے کے دو خوبصورت انداز “ کے نام سے مختصر رسالہ بھی ہے ، جس میں قبلہ مفتی صاحب نے سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بارگاہ میں مختلف صیغوں اور الفاظ کے ساتھ دُرود و سلام بھیجنے کے دو بہت خوبصورت انداز وطریقے ارشاد فرمائے ہیں ۔ اللہ رب العزت دُرودِ پاک کی برکت سے قبلہ مفتی صاحب کو صحت و عافیت کے ساتھ درازئ عمر عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و سلم ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری مدنی 12رجب المرجب 1445ھ /24جنوری2024

فرمان ِباری تعالیٰ:

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:( اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا )’’بیشک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے درودبھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی پر۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر دُرود اور خوب سلام بھیجو۔‘‘(1) حافظ سخاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:’’درود شریف کی آیت مدنی ہے اوراس کامقصدیہ ہے کہ اللہ عزوجل اپنے بندوں کواپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ قدرومنزلت بتارہاہے ،جو ملاء اعلیٰ (عالمِ بالا یعنی فرشتوں)میں اس کے حضورہے کہ وہ ملائکہ مقربین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء کرتاہے اوریہ کہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃبھیجتے ہیں، پھرعالمِ سفلی کوحکم دیاکہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرصلوٰۃوسلام بھیجیں،تاکہ نیچے والی اوراوپروالی ساری مخلوق کی ثناء آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرجمع ہوجائے۔ پھر’’الفاکھانی ‘‘کے حوالے سے فرمایا:آیت میں صیغہ(یُصَلُّوْنَ) لایاگیا ہے، جو ہمیشگی پردلالت کرتاہے، تاکہ معلوم ہوکہ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرہمیشہ ہمیشہ درودبھیجتے ہیں،حالانکہ اولین وآخرین کی انتہائی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی ایک خاص رحمت ہی ان کوحاصل ہوجائے ، تو زہے نصیب اوران کی قسمت میں یہ کہاں،بلکہ اگر عقل مند سے پوچھاجائے کہ ساری مخلوق کی نیکیاں تیرے نامہ اعمال میں ہوں تجھےیہ پسندہے یایہ کہ اللہ عزوجل کی ایک خاص رحمت تجھ پر نازل ہوجائے؟تووہ اللہ عزوجل کی ایک خاص رحمت کو پسند کرے گا۔ اس بات سے اس ذات کے مقام کے بارے میں اندازہ لگا لوجن پرہمارارب اور اس کے تمام ملائکہ ہمیشہ ہمیشہ درود بھیجتے ہیں۔ تو اس بندۂ مومن کی تعریف کیسے کی جاسکتی ہے ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سےدُرودنہیں بھیجتا یا غفلت برتتا ہے؟ حضر ت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر کیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا حکم 2 ؁ ہجری میں نازل ہوا۔ بعض علماء نے فرمایا کہ معراج کی رات یہ حکم نازل ہوا۔ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ شعبان احمدِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا مہیناہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی آیت اسی مہینے میں اُتری تھی۔(2)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے فرشتوں کی تعداد :

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردُرودبھیجتے ہیں،کتنےفرشتےدرودبھیجتے ہیں؟اس کی تفصیل جاننا انتہائی دشوار ہے۔ فرشتوں کی تعداد بے حدوحساب ہے ۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے(وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ) اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ (3) ملائکہ کی تعداد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی شمار نہیں کر سکتا، ان کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ان تمام فرشتوں کی تعداد کو سامنے رکھ کر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے میں مصروف کیا ہوا ہے اور یہ سب ہر وقت ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔فرشتوں کی ہزاروں اَقسام ہیں اوروہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودپڑھتے ہیں ۔ایک عام قسم کا اندازہ لگانے کے لیے ان میں سے چند ایک کی تفصیل نیچے بیان کی جاتی ہے۔

ملائکہ مقربین:

*۔۔۔حاملینِ عرش (عرش اٹھانے والے فرشتے)۔ *۔۔۔ساتوں آسمانوں میں رہنے والے اربوں سے زائد فرشتے۔ *۔۔۔جنت کے پہرے دار۔ *۔۔۔دوزخ کے داروغے۔ *۔۔۔انسانوں کی حفاظت کرنے والے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے( یَحْفَظُوۡنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہ ) اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔(4) *۔۔۔سمندروں پر مقرر فرشتے۔ *۔۔۔پہاڑوں پرمامور فرشتے ۔ *۔۔۔بادلوں پرمامور فرشتے۔ *۔۔۔بارشوں پرمامور فرشتے۔ *۔۔۔پیدا ہونے سے پہلے پیدا ہونے والوں کی شکلیں بنانے کے کام پر مامور فرشتے۔ *۔۔۔جسموں میں روح پھونکنے والے ۔ *۔۔۔نباتات اُگانے والے۔ *۔۔۔ہواؤں کے چلانے والے۔ *۔۔۔بادلوں کو چلانے پر مامور فرشتے۔ *۔۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارے دُرود پہنچانے والےفرشتے ۔ *۔۔۔نمازِ جمعہ کے لیے آنے والوں کو لکھنے والے۔ *۔۔۔نمازیوں کی تلاوت پر آمین کہنے والے۔ *۔۔۔(رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہنے والے ۔ *۔۔۔نماز کے منتظرین کے لیے دعا کرنے والےفرشتے ۔ *۔۔۔اس عورت پر لعنت کرنے والے فرشتے ، جو اپنے خاوند کا بستر چھوڑ کر غیر کے پاس جاتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی فرشتوں کا ذکر ملتا ہے ،جن کے متعلق احادیث وارد ہیں ۔ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مزید فرماتے ہیں:حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہامیں ہے کہ : ’’ساتوں آسمانوں میں ایک قدم ،بالشت اور ہتھیلی کی مقدار کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ قیام، رکوع یاسجود میں نہ ہو۔‘‘ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اللہ عزوجل کے فرمان پر غور کریں کہ بیشک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے غیب بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات قرآنِ پاک سے معلوم ہوئی کہ تمام فرشتے جہاں بھی ہوں،وہ سب ہمارے آقا و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجتے ہیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس کے ساتھ تما م انبیاء ومرسلین میں سے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے خاص فرمایا ہے۔‘‘(5) فرشتوں کی تفصیل کے بارے میں امام نبہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب ’’سعادت الدارین‘‘ میں فرماتے ہیں :’’ فرشتے اللہ عزوجل کاسب سے بڑا لشکرہیں۔ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:’’آسمان چرچرایا اوراس کوچرچرانے کاحق ہے، قدم بھر بھی جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ رکوع یا سجدے یاقیام میں نہ ہو۔‘‘ بیان کیاجاتاہے کہ انسان جنّات کادسواں حصہ ہیں اور جن وانسان خشکی کے جانوروں کا دسواں حصہ ہیں اور یہ سب پرندوں کا دسواں حصہ ہیں اور یہ سب مل کر بحری جانوروں کا دسواں حصہ ہیں اوریہ سب مل کرزمین پر مقر ر فرشتوں کادسواں حصہ ہیں اوریہ سب پہلے آسمان کے فرشتوں کا دسواں حصہ ہیں اوریہ سب مجموعہ دوسرے آسمان کے فرشتوں کادسواں حصہ ہے، پھر اسی ترتیب سے ساتویں آسمان تک چلیں، پھریہ سب کرسی کے فرشتوں کے مقابلہ میں معمولی سی جماعت بنتے ہیں، پھریہ سب عرش کے ایک پردے کے فرشتوں کادسواں حصہ ہیں اور عرش کے پردوں کی تعد اد چھ لاکھ ہے۔ایک پردے کی لمبائی، چوڑائی اور وسعت اتنی عظیم ہے کہ آسمان و زمین اورجوکچھ ان کے درمیان ہے اس کے سامنے معمولی حیثیت رکھتے ہیں اور ان پر قدم برابر جگہ بھی نہیں جس پرکوئی فرشتہ رکوع،سجودیاقیام میں نہ ہو، ان کامشغلہ اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے۔ پھریہ تمام فرشتے ان فرشتوں کے مقابلہ میں جو عرشِ الٰہی کے ارد گرد عبادت میں مصروف ہیں، ایسے ہیں جیسے سمندرکے مقابلہ میں قطرہ، ان کاشمار اللہ عزوجل ہی جانتاہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرش کے ارد گرد فرشتوں کی ستر ہزار صفیں طواف میں مشغول ہیں اور اللہ عزوجل کی بڑائی اور وحدانیت بیان کرتی ہیں اوران کے پیچھے مزید ستر ہزارصفیں ان کے کندھوں پرہاتھ رکھے بلند آواز میں اللہ عزوجل کی بڑائی اور وحدانیت بیان کرنے میں مصروف ہیں اوران کے پیچھے ایک لاکھ صفیں دائیں ہا تھ بائیں پررکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف تسبیح پڑھتاہے، پھریہ تمام فرشتے لوحِ محفوظ کے فرشتوں کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔ عرش کی وسعت کے بارے میں کہاگیاہے کہ اس کے تین سوچھیاسٹھ پائے ہیں۔ ہر پائے کی مقدار دنیاسے ساٹھ ہزار گُنابڑھ کر ہے اور عرش سے اوپر ستر حجاب ہیں۔ ہر حجاب ستر ہزار سال کا ہے اور ہر دو حجاب کے درمیان ستر ہزا ر سال کی مسافت ہے اور یہ تمام مقامات معزز فرشتوں سے بھرے ہوئے ہیں، اسی طرح ستر پردوں کے اوپر عالمِ بالا ہے۔(6) ان تمام فرشتوں کی تعداد کو سامنے رکھ کر غور کریں کہ اللہ عزوجل نے ان سب کو اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پردرود وسلام پڑھنے میں مصروف کیا ہوا ہےاور یہ سب ہر وقت ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ایک مفید وظیفہ :

اس آیتِ مبارکہ کے حوالے سے بزرگوں نے مشکلات کے حل کا ایک وظیفہ بھی ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ علامہ سخاویرحمۃ اللہ علیہ نے کہا:’’اس آیتِ کریمہ کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس کھڑے ہو کریہ آیت پڑھے( اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ) اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی پر۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔‘‘ (7)پھرکہے’’صَلَّی اﷲُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدْ ‘‘یہاں تک کہ ستّر مرتبہ یہی کہتا چلا جائے، تو فرشتہ اس کو پکارتا ہے’’صَلَّی اﷲُ عَلَیْکَ یَا فُلَانْ‘‘ آج تیری کوئی حاجت پوری ہوئے بغیر نہ رہے گی۔‘‘(8)

درود پڑھنے کا مقصد :

اللہ عزوجل کے حکم پر عمل کرتے ہوئے درود شریف پڑھنا ایک عظیم عبادت ہے ،اس کے ساتھ بزرگوں نے درود شریف پڑھنے کی حکمتیں بھی بیان فرمائی ہیں ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےبعد جملہ مخلوقات میں سب سے زیادہ کریم، رحیم، شفیق، عظیم اور سخی ہیں اور حبیبِ خدا ، تاجدارِ انبیاء ، سرور، ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وسلم کے مومنوں پر سب سے زیادہ احسانات ہیں،اس لیے محسنِ اعظم کے احسان کے شکریہ میں ہم پر درود پڑھنا مقرر کیا گیاہے ۔ چنانچہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپڑھنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کےحکم کی پیروی کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو ادا کرنا ہے۔ بعض بزرگوں نے مزید فرمایا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ہماری طرف سے آپ کے درجات کی بلندی کی سفارش نہیں ہو سکتا، کیونکہ ہم جیسے ناقص بندے،آپ جیسے کامل و اکمل کے لیے شفاعت نہیں کر سکتے، لیکن اللہ عزوجل نے ہمیں اس کا بدلہ چکانے کا حکم فرمایا جس نے ہم پر احسان وانعام کیا اور اگر ہم احسان چکانے سے عاجز ہوں، تو محسن کے لیے دعا کریں ،لیکن چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو معلوم ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کا بدلہ دینے سے عاجز ہیں ، تو اس نے درود پڑھنے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی تاکہ ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کا بدلہ بن جائیں،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےاحسان سے افضل کوئی احسان نہیں۔‘‘ ابو محمد فرماتے ہیں:’’ اے مخاطب!نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا نفع حقیقت میں تیری طرف لوٹتا ہے،گویا کہ تو اپنے لیے دعا کر رہا ہے۔‘‘ ابن عربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا فائدہ درود بھیجنے والے کی طرف لوٹتا ہے، کیونکہ اس کا درود پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ درود شریف پڑھنے والے کا عقیدہ صاف ہے اور اس کی نیت خالص ہے اور اس کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی پر مدد حاصل ہے اور اس کے اور اس کے آقا و مولا، دوعالم کے دولہا صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک مبارک اور مقدس نسبت موجود ہے۔ ‘‘ کسی اور عارف نے فرمایا :’’تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کی ادائیگی کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی نیت سے درود پڑھنا ایمان کا ایک بڑا حصہ ہے اور درود شریف پر ہمیشگی اختیار کرناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم و جلیل احسانات کا شکریہ ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہم پر بہت بڑا انعام ہوا ہے۔ شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے دوزخ سے نجات ، جنت میں دخول، آسان ترین اسباب کے ذریعے کامیابی کے حصول، ہر طرف سے سعادت کے وصول اور بلند مرتبوں اورعظیم فضیلتوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:(لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ)”یقیناً اللہ نےمومنوں پر احسان فرمایا جب اس نے ان میں سے ایک مکرم رسول بھیجا جو مومنوں پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت سکھاتا ہے، اگرچہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘(9) اللہ عزوجل کے ارشاد( اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا )میں چند نکات ہیں: یہ آیت مدنی ہے ،اس کا مقصود یہ تھا کہ اللہ عزوجل اپنے بندوں کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وشان سے آگاہ فرمائے کہ اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں میں اس کے پاس کتنی قدر و منزلت ہے،وہ ملائکہ مقربین کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف فرماتا ہے اور ملائکہ ان پر درود بھیجتے ہیں، پھر عالم سفلی کے مکینوں کو درود وسلام کا حکم دیا تاکہ عالم علوی وسفلی کے مکینوں کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثناء و تعریف کرنا جمع ہو جائے ۔ امام سہل بن محمد علیہ الرحمۃ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ عزوجل نے اس ارشاد( اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ )(الآیہ)کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شرف بخشا، وہ اس شرف سے زیادہ بڑا ہے جو فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر آدم علیہ السلام کو بخشا تھا،کیونکہ اللہ عزوجل کا فرشتوں کے ساتھ سجدے میں شریک ہونا ممکن ہی نہیں،جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجنے کی خود اللہ عزوجل نے اپنے متعلق خبر دی ہے اور پھر فرشتوں کے متعلق خبر دی ہے ۔پس اللہ عزوجل کی طرف سے جو شرف حاصل ہووہ اس شرف سے بڑھ کرہے ،جو صرف فرشتوں سے حاصل ہو اور اللہ عزوجل اس شرف عطا فرمانے میں شریک نہ ہو ۔(10) علامہ سخاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک بزرگ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ’’ اگر سوال کیا جائے کہ اس میں کون سی حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ عزوجل نے توہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپڑھنے کا حکم دیااورہم اللہ تعالیٰ ہی سےکہہ دیتے ہیں،اے اللہ عزوجل ! تو درود بھیج ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ یعنی ہم اللہ عزوجل سے سوال کرتے ہیں کہ وہ درود بھیجے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم درود نہیں پڑھتے۔ یعنی بندہ کو "اصلی علی محمد ''میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درودبھیجتا ہوں''کہنا چاہیے تھا (مگر وہ ایسا نہیں کرتا )۔ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر نفیس اور پاکیزہ ہیں کہ وہاں کسی نقص کا گمان ہی نہیں جبکہ ہم سراپا نقص وعیب ہیں،پس طیب و طاہر ذات کی تعریف وہ کیسے کرے جوخود سراپا عیب ہے۔ اس لیے ہم اللہ عزوجل سے عرض کرتے ہیں کہ وہ درود بھیجے اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تاکہ ربّ ِطاہر کی طرف سے نبی طاہر صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ہو۔“(11) علامہ شیخ علی فارسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب''جَوَاھِرُالْمَعَانِیْ''کے آخر میں فرمایا کہ میں نے اپنے شیخ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوثواب ہدیہ کرنے کے بارے میں پوچھا ، تو آپ نے اس کا جواب دیا:’’ تم کومعلوم ہوناچاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے بالکل بے پرواہ ہیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی کے صلوۃوسلام کی ضرورت ہے، نہ ہدیہ وایصالِ ثواب کی اور وجہ اس کی ایک تویہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ربّ کےسواکسی کے محتاج ہی نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ بے پایاں فضل فرما دیاہے،جس کی بناء پر آپ فضل وکمال کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو چکے ہیں،جس تک کسی اورکی رسائی ممکن ہی نہیں۔ اللہ عزوجل کا یہ فرمان اس پر گواہ ہے:(وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی)اور عنقریب تمہارارب تمہیں اتنادے گا کہ تم راضی ہوجاؤگے ۔(12) اوریہ عطائے الٰہی اگرچہ آپ کوبڑی آسانی سے حاصل ہو گئی (مگراسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے )کیونکہ اس کی حقیقت وانتہا کے ادنیٰ درجے کومعلوم کرنے کے لیے عقلیں قاصر ہیں ، اعلیٰ ترین درجے کاخوداندازہ کرلیں۔بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحق تعالیٰ اپنی ربوبیت کے شایانِ شان فضل عطاکرتاہےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ ومرتبہ پراتنا فیضان کرتاہے،جتنی اس کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ومنزلت ہے۔اب اس عطا کے بارے میں تمہاراکیاخیال ہے ،جومرتبہ لا محدودسے وارد ہوتی ہے اور جتنا زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ عزوجل کافضل وکرم ہے،اتنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ہے۔اب اس انعامِ الہٰی کا کیااندازہ ہوسکتاہے اوراس کی وسعت کوعقلیں کیونکرپاسکتی ہیں؟اسی لیے تو اللہ عزوجل فرماتاہے:(وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْماً)اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے۔‘‘(13) علامہ نبہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودپڑھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ثواب پیش کرنے کو ایک مثال کے ذریعے بیان فرماتے ہیں:’’ایک مثال سمجھئےجوآپ کی خدمت میں ثواب کا نذرانہ پیش کرنے کے سلسلہ میں بیان کی جاتی ہے،وہ یہ کہ ایک عظیم الشان، وسیع وعریض سلطنت کابادشاہ ہو،اس کی سلطنت میں مال ودولت کی ریل پیل ہو، خزانے لامحدوداوربے شمار ہوں ، ہر خزانے کاطول وعرض آسمان سے زمین تک ہو،ایساہرخزانہ یاقوت،سوناچاندی ،غلّہ وغیرہ مالیت سے بھرا ہوا ہو۔پھرایک فقیرفرض کیجئے جس کے پاس اس کی ساری حکومت میں مثلاً :دو روٹیوں کے سواکچھ نہیں ۔ اس نے بادشاہ کی عظمت اور شان و شوکت کے بارے میں سنا،تواس کے دل میں بادشاہ کی محبت وعظمت شدت سے جاگزیں ہوئی۔ اس نے اس بادشاہ کی تعظیم ومحبت سے سرشارہوکرایک روٹی بادشاہ کی خدمت میں پیش کردی، وہ بادشاہ بڑے کرم والاہے۔سواس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہ کے سامنے جب مال ودولت کی کوئی حدنہیں اس ایک روٹی کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے؟اس کے ہا ں تواس روٹی کاہونا نہ ہونابرابرہے، پھربادشاہ کو اپنے وسیع کرم سے فقیر کی غربت اور اس کی تگ ودوکی غرض وغایت معلوم ہوئی اوراسے اس فقیر کی سچی محبت اوراس فقیر کے دل میں اپنی عظمت کاعلم ہوااوریہ بھی کہ اس نے اسے ایک روٹی کانذرانہ صرف اسی مقصد کے لیے پیش کیاہے اوراگر اس کے پاس کچھ زیادہ ہوتا،تووہ اسے بھی نذرکر دیتا۔ اس وجہ سے بادشاہ اس فقیرسے بھی خوشی ومسرت کااظہارکرتاہے اوراس کے نذرانے سے بھی کہ اس کے دل میں بادشاہ کی عظمت اورسچی محبت ہے ، یہ خوشی کچھ اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ بادشاہ کو اس روٹی سے فائدہ ہواہے۔ بہرحال اب وہ اس روٹی کے عوض اس کواتناکچھ دے گاکہ وہ اس کاشمارنہ کرسکے گا۔(یہ سب کچھ)اس کی سچی محبت اورتعظیم کی وجہ سے ہوا، اس لیے نہیں کہ بادشاہ نے روٹی سے فائدہ حاصل کیا۔اسی مثال سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیۂ ثواب کامسئلہ سمجھ لیجئے ۔‘‘(14) علامہ نبہانی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:’’جان لیجئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی بھی اُمتی نیک کام کرے اس کے لیے ثواب میں کمی کیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کام کا اجرملے گا۔اس بات کی ضرورت نہیں کہ اس کی ابتداکے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلمکوہدیۂ ثواب پیش کرنے کی نیت کرے۔“ علامہ قسطلانیرحمۃ اللہ علیہنے’’مواہب اللدنیہ‘‘میں امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کایہ قول نقل کیا ہے :’’ کوئی بھی امتی نیک کام کرے ،اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی اصل ہیں۔‘‘ ایک اور محقق نے لکھا ہے:’’اہل ایمان کی تمام نیکیاں اوراعمال صالحہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں اوران کے اجروثواب میں اس قدراضافہ کیا جاتا ہے، جس کااندازہ صرف اللہ ہی جانتاہے ۔کیونکہ قیامت تک جوشخص ہدایت پاتا اورعملِ صالح کرتا رہے گا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کاثواب ملتارہے گااوراس کے شیخ کوبھی یونہی اجرملتارہے گا(جس نے اسے نیک کام پہ لگایا)،اورشیخ کواس کادُگناثواب ملے گا،تیسرے شیخ کو چارگُنااور چوتھے شیخ کوآٹھ گُنا، یوں درجہ بہ درجہ ثواب بڑھتاجائے گا،اسی سے پہلے بزرگوں کے اپنے بعد آنے والے بزرگوں پرفضیلت معلوم ہو جاتی ہے۔پس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعددس مرتبے فرض کیے جائیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجر میں ایک ہزارچوبیس درجے اضافہ ہوگا،پھرجب دسویں آدمی کی وجہ سے گیارہویں نے ہدایت حاصل کی،تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کااجردوہزار اڑتالیس درجے تک پہنچ جائے گا۔اسی طرح جوں جوں ایک امتی بڑھتا جائے گاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا اجر دگنا ہوجائےگا،یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ تک اسی طرح چلتا رہے گا،جیساکہ بعض محققین نے فرمایاہے۔‘‘ خدااجرِجزیل عطاکرے سیدی علی وفاکوجنہوں نے فرمایا ؎ فَلَا حُسْنَ اِلَّا مِنْ مَحَاسِنِ حُسْنِہٖ وَلَا مُحْسِنَ اِلَّا لَہ حَسَنَا تُہ ’’جہاں کہیں حُسن پایاجاتاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حُسن کاپَرتوہے اور نیکی کرنے والاکوئی بھی ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی نیکیاں ملیں گی۔‘‘(15) سیّدی عبدالعزیز الدباغ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب الابریزکے باب سوئم میں ایک سلسلۂ کلام کے بعد فرمایا:’’ اسی لیے تم دیکھوگے کہ دوشخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودشریف پڑھتے ہیں،ایک کو توتھوڑاسااجر ملتاہے جبکہ دوسرے کو اتنا زیادہ ثواب ملتا ہے جس کانہ تو بیان کیا جاسکتااور نہ شمار کیا جاسکتاہے۔ اس کاسبب یہ ہے کہ پہلے شخص کی زبان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کالفظ غفلت کے ساتھ نکل رہاہے اس کادل اور بہت سی باتوں سےبھراپڑاہے،گویااس کی زبان سے درورشریف محض ایک عادت کی بناء پر نکل رہاہے،اسی لیے اسے کم اجرملا۔اوردوسرے کی زبان سے درودشریف محبت وتعظیم کے ساتھ نکلاہے ،محبت اس لیے کہ وہ اپنے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت وعظمت کاتصورکرتاہے اوریہ تصور بھی کرتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے وجود میں آنے کاسبب ہیں اورہرنورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نور سے ہے اوریہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے لیے رحمت اورہدایت ہیں اوریہ کہ اگلوں، پچھلوں سب کے لیے رحمت اورمخلوق کی ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف سے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے صدقے سے ہے۔ پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کے پیشِ نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف پڑھتاہے،نہ کہ کسی اوروجہ سے جس کا تعلق آدمی کے اپنے ذاتی مفادسے ہو۔ اورتعظیم اس لیے کہ انسان اس عظمت وشان کی طرف دیکھے اوریہ بھی سوچے کہ ایسی عظمتوں والے کی مدح وثناء کیسے ہونی چاہیے اوریہ بھی سوچے کہ تمام مخلوق ان میں سے ایک عظمت و خصلت کے بیان کرنے سے قاصرہے، کیونکہ لائقِ تعریف خوبیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک میں اس عروج وترقی پر ہیں کہ ان کیفیات کاادراک بھی فکرِانسانی سے ممکن نہیں،چہ جائیکہ بالفعل ان کابیان کرسکے ۔ پس جب آدمی کی زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرودشریف نکلتاہے،تواس کا اجرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدرومرتبہ اور اللہ عزوجل کے فضل وکرم کے مطابق ہی ملتاہے ، کیونکہ اس درود شریف پڑھنے کاسبب اوراس پرآمادہ کرنے والی چیز محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی قدرومنزلت ہے،لہٰذادرودشریف پرجواجروثواب ملتاہے،اس کادارومدار بھی اسی محبت کے جذبے کے مطابق ہوگا ، پہلے شخص کے دُرود پڑھنے میں جذبہ اس کا ذاتی مفاد ہے ، لہٰذااس کاثواب بھی اسی کے مطابق ملے گا،یہی حال اس عمل کاہے جو بندہ اپنے رب کے لیے بجا لاتاہے ۔جب اس نیک عمل پر ابھارنے والاجذبہ رب کی عظمت ، جلال اور رفعت وکبریائی ہو، تواس کااجربھی رب کی عظمت کے مطابق ہوگااورجب اس عمل پرآمادہ کرنے والی صرف بندے کی اپنی غرض ہو اوراس کی اپنی ذات کی طرف لوٹنے والا مفاد ہو، تو اجر و ثواب بھی اسی کے مطابق ہوگا۔ عارف ب اللہ سیّدمحمودالکردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ’’ادلّ الخیرات‘‘ میں فرمایا: ’’جان لیجئے کہ جوشخص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پرحالت ِاستغراق ، نیند ، اونگھ ، غفلت یاکسی حال میں اس طورپردرودشریف پڑھے کہ اسے پتہ ہی نہ چلے کہ وہ کیاکہہ رہاہے،تو ان حالات میں بھی اس کو ثواب ملتاہے۔ یہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم،احترام اور رفعتِ شان کے پیشِ نظر ہے۔‘‘ اورسیّدعبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ’’طبقات‘‘ میں سیّدی ابوالمواہب شاذلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات میں ان کایہ قول نقل فرمایاہے: ’’میں نے سیّدالعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کو(خواب میں)دیکھاتوعرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ عزوجل اس شخص پردس رحمتیں نازل فرماتاہے جوایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجے۔کیایہ بشارت اس کے لیےہے،جوحضورِقلب سے درودشریف پڑھے؟فرمایا،نہیں!یہ توہراس شخص کے لیے ہے،جو مجھ پردرودبھیجے اگرچہ غفلت سے ہو اور اللہ اسے بھی ایسے فرشتے عطا فرماتا ہے، جواس کے لیے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ہاں جو پوری توجہ سے دل لگا کر درود پڑھے تواس کاثواب اللہ کےسواکوئی نہیں جانتا ۔‘‘(16) مسالک الحنفاء میں ہے : ’’ اللہ نےحضور صلی اللہ علیہ وسلم پرپہلے خود درود پڑھنے کا ذکر فرمایا تاکہ پڑھنے والے مسلمان کواس سے ترغیب ہواورنہ پڑھنے والوں کوتنبیہ ہو۔گویا اللہ عزوجل نے مومنوں سے فرمایاکہ میں اپنے اس جلال و عظمت ،بلندمرتبے اورمخلوق سے غنی ہونے کے باوجوداپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجتاہوں اورفرشتے باوجودیکہ اللہ عزوجل کے ذکرمیں مصروف ہیں اور اس کی بارگاہ میں عظیم الشان مرتبہ پرفائزہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجتے ہیں،تو تمہارا توزیادہ حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود وسلام بھیجا کرو،کیونکہ تم سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محتاج ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ عزوجل کی رحمتیں اورسلام ہو،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری شفاعت فرمائیں گے اوربیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی برکت سے ہم دنیاوآخرت کاشرف پائیں گے۔ اللہ عزوجل ہماری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کووہ جزا دے جس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستحق ہیں۔“ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تفسیرکبیرمیں ہے:’’اگریہ کہاجائے جب اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجتے ہیں،توہمارے درود کی کیاضرورت ہے؟ہم کہتے ہیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پراس لیے درود نہیں بھیجتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حاجت ہے،نہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہمارے درود کی حاجت ہے،نہ فرشتوں کے درود کی، کیونکہ خود اللہ عزوجل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجتاہے،ہاں ہم محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے اظہار کی خاطردرود و سلام پڑھنے پر مامور ہیں ، جیسے اللہ نے ہم پر اپنا ذکر واجب کر دیا ہے ، حالانکہ اس کو ہمارے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں،وہ تو محض اظہارِ عظمت کے لیے ہم پر واجب ہے اوریہ بھی ہم پراس کی شفقت ہے،تاکہ ہم اس کاذکرکریں اورثواب پائیں ،اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے اللہ عز و جل اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرمائے گا۔“ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تفسیر میں آیت( اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ )کے تحت فرمایا: اللہ عزوجل کی چاہت یہ ہے کہ اُمت کی طرف سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی نہ کوئی خدمت ہو،جس کے عوض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اسے نعمتِ شفاعت نصیب ہو،اس لیے اللہ عزوجل نے ان کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپڑھنے کاحکم دیا۔پھر اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک مرتبہ درودبھیجنے کے عوض دس رحمتیں نازل فرمانے کااعلان فرمایا۔اس میں اشارہ یہ ہے کہ بندہ اللہ عزوجل کی مزیدعنایت کامحتاج رہتاہے اور کسی وقت بھی اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا ۔“(17)
1…۔ ( پارہ 22، سورۃ الاحزاب ،آیہ 56) 2…۔ ( القول البدیع، ص:43،دارالکتاب العربی بیروت) 3…۔ ( پارہ 29، سورۃ المدثر،آیہ31) 4…۔ ( پارہ 13، سورۃ الرعد ،آیہ11) 5…۔ (القول البدیع، ص:41،دارلکتاب العربی، بیروت ) 6…۔ ( سعادت الدارین، ص:112،دارالکتب العلمیہ،بیروت ) 7…۔ ( پارہ 22، سورۃ الاحزاب ،آیہ56 ) 8…۔ ( سعادت الدارین، ص:72،دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ) 9…۔ (پارہ 4، سورہ آل عمران ، آیت164) 10…۔ (القول البدیع، ص:36،دارالکتاب العربی، بیروت) 11…۔ (القول البدیع، ص:72،دارالکتاب العربی، بیروت) 12…۔ ( پارہ 30، سورۃ الضحیٰ ،آیہ05) 13…۔ ( سعادت الدارین، ص:45،دارالکتب العلمیۃ بیروت ) 14…۔ ( سعادت الدارین، ص:46،دارالکتب العلمیۃ بیروت ) 15…۔ ( سعادت الدارین، ص:47،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت ) 16…۔ ( سعادت الدارین، ص:56،دارالکتب العلمیۃ بیروت ) 17…۔ ( سعادت الدارین، ص:66،دارالکتب العلمیۃ ، بیروت )

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن