30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دِیوانِ سالک
(تاریخی نام : مَحَامِدِ پیغمبری)
۱۳۵۷ ھ
حکیم الامت مولانا مُفتی احمد یار خاںنعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ
پیش کش :
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ ‘‘ مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
(معجم کبیر طبرانی ، ۶ / ۱۸۵ ، الحدیث۵۹۴۲ ، داراحیاء التراث العربی بیروت)
مَدَنی پھول : * جتنی اچھی نیتیں زیادہ ، اُتنا ثواب بھی زیادہ۔
’’محامدِ پیغمبری‘‘ کے 12حروف کی نسبت سے کتاب پڑھنے کی 12نیتیں
ہربار* حمدو* صلوٰۃ اور* تعوُّذو* تَسمِیہ سے کتاب کا آغاز کروں گا (اسی صَفْحہ پر اُوپر دی ہوئی عربی عبارت پڑھ لینے سے چاروں نیتوں پر عمل ہوجائے گا)* اللّٰہاور * رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کیلئے * حتی الوسع باوضو اور* قبلہ رو اس کا مطالعہ کروں گا* اس کاثواب آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ساری امت کو ایصال کروں گا* اس حدیث پاک تَھَادَوْا تَحَابُّواایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔ (موطا امام مالک ، ۲ / ۴۰۷ ، حدیث : ۱۷۳۱)پر عمل کی نیت سے (ایک یا حسبِ توفیق)یہ کتاب دوسروں کو تحفۃً دوںگا * (اپنے ذاتی نسخے کے) یادداشت والے صفحہ پر ضروری نکات لکھوں گا * کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پر مطلع کروںگا۔ اِنْ شَآ ءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ (ناشرین کو کتابوں کی اَغلاط صرف زبانی بتا دینا خاص مفید نہیں ہوتا)۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
المد ینۃ العلمیۃ
از شیخ ِ طریقت ، امیراہل سنت ، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَۃ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ وَبِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عاشقانِ رسو ل کی مَدَنی تحریک’’دعوتِ اسلامی‘‘ نیکی کی دعوت ، اِحیائے سنت اور اشاعت علم شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے ، اِن تمام اُمور کو بحسن خوبی سر انجام دینے کے لئے متعد د مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’ المد ینۃ العلمیۃ ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے علماء و مفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی پر مشتمل ہے جس نے خالص علمی ، تحقیقی اور اشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں :
{1}شعبۂ کتب اعلیٰ حضرت{2}شعبۂ درسی کتب {3}شعبۂ اصلاحی کتب {4}شعبۂ ترا جم کتب{5}شعبۂ تفتیش کتب{6}شعبۂ تخریج (1)
’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنّت ، عظیم البرکت ، عظیم المرتبت ، پروانۂ شمع رِسالت ، مجدددین وملت ، حامی سنت ، ماحی بدعت ، عالم شریعت ، پیر طریقت ، باعث خیر و برکت ، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گراں مایہ تصانیف کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْع سہل اُسلوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس علمی ، تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کتب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں۔
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بشمول ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عمل خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرما کر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ ہمیں زیر گنبد خضرا شہادت ، جنت البقیع میں مدفن اور جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
پیش لفظ
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ خدا داد علمی صلاحیتوں کے مالک اور زبردست عالم دین تھے ، آپ علوم و فنون میں کامل دسترس کے ساتھ نعتیہ شاعری میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے۔ عشق رسول کی چاشنی سے لبریز آپ کے نعتیہ کلام کا نام دیوانِ سالک ہے۔ (اور تاریخی نام محامِدِ پیغمبری ہے) اس نعتیہ دیوان کو دعوتِ اسلامی کا شعبۂ تصنیف و تالیف ’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘ دور ِ جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے ، اس کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں : * کمپیوٹر کمپوزنگ کا دو نسخوں سے تقابل کیا گیا ہے * ہر کلام کی ابتداء نئے صفحے سے اور * کلام کے پہلے مصرعے کو ہیڈنگ کے طور پرلکھا گیا ہے * جا بجا الفاظ پر اعراب کا اہتمام کیا گیا ہی* ابتداء میں تمام کلام کی فہرست شامل کی گئی ہے اور* حواشی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے کیونکہ بعض اشعار میں کتابت کی غلطی کی وجہ سے سقم(نقص ) محسوس ہوا لہٰذا فن عروض کے اعتبار سے تفتیش کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ کہیں مصرعے میں الفاظ کی زیادتی ، کہیں کمی اور کہیں الفاظ میں اور کہیں ان کی ترتیب میں غلطی ہے لہٰذا جو تصحیح ممکن تھی وہ کرکے حاشیہ میں اس کی وضاحت کی گئی ہے (یہ وہ کام ہے جو اس سے پہلے کسی بھی نسخے میں کیا جانا منظر عام پر نہیں آیا واللّٰہ تعالٰی اعلم ) ، ایسے مقامات کی تعداد کم و بیش 35ہے بعض حواشی ملاحظہ فرمائیے! مثلاًجہاں الفاظ کی زیادتی تھی وہاں حاشیہ میںیوں وضاحت کی گئی ہے : {1}دیوانِ سالک کے نسخوں میں یہ مصرع یوں ہے : ’’ ہم گو ہیں برے قسمت ہے بھلی جب پشت و پناہ ان کا سا پایا ‘‘ فن عروض کے اعتبار سے یہ غیرموزون ہے جس کی وجہ یقینا کتابت کی غلطی ہے۔ صحیح مصرع یوں ہو سکتا ہے : ’’ ہم گو ہیں برے قسمت ہے بھلی جب پشت پناہ ان سا پایا ‘‘ لہٰذا ہم نے اسی طرح لکھا ہے۔ المدینۃ العلمیۃ {2} دیوانِ سالک کے نسخوں میں یہ مصرع یوں ہے : ’’ دنیا سے بچالو سالک کو کام اپنی رضا کے اس سے لے لو ‘‘ فن عروض کے اعتبار سے یہ غیرموزون ہے جس کی وجہ یقینا کتابت کی غلطی ہے۔ صحیح مصرع یوں ہو سکتا ہے : ’’ دنیا سے بچالو سالک کو کام اپنی رضا کے اس سے لو ‘‘ لہٰذا ہم نے اسی طرح لکھا ہے۔ المدینۃ العلمیۃ ۔ جہاں الفاظ کی کمی تھی وہاں حاشیہ میںیوں وضاحت کی گئی ہے : {1} دیوانِ سالک کے نسخوں میں یہ مصرعہ یوں ہے : ’’ کرو لطف مجھ پہ خسروا کہ چھڑا دو غیر کا آسرا ‘‘ فن عروض کے اعتبار سے یہ غیرموزون ہے جس کی وجہ یقینا کتابت کی غلطی ہے۔ صحیح مصرع یوں ہو سکتا ہے : ’’ کرو لطف مجھ پہ یہ خسروا کہ چھڑا دو غیر کا آسرا ‘‘ لہٰذا ہم نے اسی طرح لکھا ہے۔ المدینۃ العلمیۃ{2}دیوانِ سالک کے نسخوں میں یہ مصرع یوں ہے : ’’نمایاں آپ کی ہر ادا سے شانِ فاروقی ‘‘ فن عروض کے اعتبار سے یہ غیر موزون ہے جس کی وجہ یقینا کتابت کی غلطی ہے صحیح مصرع یوں ہو سکتا ہے : ’’نمایاں آپ کی ہر اک ادا سے شانِ فاروقی ‘‘ لہٰذا ہم نے اسی طرح لکھا ہے۔ المدینۃ العلمیۃ ۔ جہاں الفاظ میں یا ان کی ترتیب میں غلطی تھی وہاں حاشیہ میںیوں وضاحت کی گئی ہے : {1} دیوانِ سالک کے نسخوں میں یہ مصرع یوں ہے : ’’دے آرام مجھ گندے بشر کو‘‘ فن عروض کے اعتبار سے یہ غیر موزون ہے جس کی وجہ یقینا کتابت کی غلطی ہے صحیح مصرع یوں ہو سکتا ہے : ’’دیا آرام مجھ گندے بشر کو‘‘ لہٰذا ہم نے اسی طرح لکھا ہے۔ المدینۃ العلمیۃ {2} دیوانِ سالک کے نسخوں میں یہ مصرع یوں ہے : ’’اے باغِ بہارِ اِیماں مرحبا صد مرحبا‘‘ فن عروض کے اعتبار سے یہ غیر موزون ہے جس کی وجہ یقینا کتابت کی غلطی ہے صحیح مصرع یوں ہو سکتا ہے : ’’اے بہارِ باغِ اِیماں مرحبا صد مرحبا ‘‘ لہٰذا ہم نے اسی طرح لکھا ہے۔ المدینۃ العلمیۃ ۔ اللّٰہپاک دعوتِ ِاسلامی اور ’’المدینۃ العلمیۃ ‘‘ سمیت اس کے تمام شعبوں کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہِ وَسَلَّم
حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ
حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات۴جمادی الاولیٰ ۱۳۱۴ھ / یکم مارچ ۱۸۹۴ء محلہ کھیڑہ بستی اوجھیانی )ضلع بدایوں ، یو.پی ، ہند( میں صبح صادق کے وقت ہوئی۔ والد محترم مولانا محمد یار خان بدایونی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ ایک دین دار ، تقویٰ شعاراور شب زندہ دار بزرگ تھے۔ دادا جان مولانا منور خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ بھی ایک دیندار شخصیت تھے ، آپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور پٹھان قبیلے یوسف زئی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز والد گرامی کی سرپرستی میں ہوا ، پانچ سال کی عمر میں ناظرہ مکمل کیا ، گیارہ سال کی عمر تک دینیات ، فارسی اور درسِ نظامی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ، پھر مدرسہ شمس العلوم بدایوں میں تین سال حضرت علامہ عبدالقدیر بخش بدایونی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے سایۂ عاطفت میںرہے ، تین یا چار سال مینڈوا )ضلع علی گڑھ ، یو.پی ، ہند(میں ، اس کے بعد جامعہ نعیمیہ مراد آبادمیںمولانا عاشق علی ، مولانا مشتاق احمد میرٹھی اور صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ مکی صحبت فیض اثر میںرہ کر خوب اِکتساب فیض کیا ، آپ نے اپنے اَساتذہ سے چوبیس علوم میں مہارت حاصل کی ، اُنیس سال کی عمر میں اَسناد اور دستارِ فضیلت سے مشرف ہوئے۔ تدریس کا آغاز آپ نے جامعہ نعیمیہ سے فرمایا ، جہاں ایک سال تدریس فرمائی اور ساتھ میں خدمت اِفتا بھی سرانجام دیتے رہے ، پھر دارالعلوم مِسکِینِیَہ )دھوراجی ، گجرات ، ہند( میں نو سال ، دوبارہ جامعہ نعیمیہ میں ایک سال ، دارالعلوم اَشرفیہ کچھوچھہ شریف میں تین سال ، کچھ عرصہ دار العلوم جلال الدین شاہ بھکھی شریف )تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاؤالدین پاکستان( ، بارہ یا تیرہ سال دار العلوم خدام الصوفیہ )گجرات ، پاکستان( اور دس سال انجمن خدام الرسول میں تدریس فرمائی اور وصال مبارک سے چھ سال قبل جامعہ غوثیہ نعیمیہ میں تدریس کے ساتھ تصنیف اور اِفتاء کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ اپنے محسن اور اُستاذِ محترم صدر الافاضل کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور آپ کے بارے میں فرمایا کرتے : میرے پاس جو کچھ ہے سب حضرت صدر الافاضل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کا عطا کردہ ہے ، اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ سے بھی بڑی محبت اور عقیدت تھی ، پہلی ملاقات میں صدر الافاضل نے امام اہلسنت کا مبارک رسالہ ’’ العطایا القد یر فی حکم التصویر‘‘ مطالعہ کے لیے عنایت فرمایا جسے پڑھ کر آپ امام اہلسنت کی جلالت علمی دیکھ کر حیران رہ گئے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی عقیدت دل میں گھر کر گئی ۔ پھر آپ نے بریلی شریف جاکر بارگاہِ عالی میں باریابی کا شرف بھی پایا۔
حکیم الامت ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ، آپ محدث ، محقق ، مفسر ، مفتی ، مدرس ، مصنف ، مناظر ، مقرر ، مفکر اورنعت گو شاعرتھے ، آپ کی ذات حسن اَخلاق ، سادگی ، عاجزی ، حلم ، تقویٰ و پرہیز گاری ، پابندیٔ وقت ، جرأت اور شجاعت جیسی گوناں گوں صفات سے متصف تھی۔ آپ نے اپنی زندگی پابندی شریعت اور اتباعِ سنت میں گزاری ، آپ کے شب و روز دین کی خدمت اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت سے عبارت ہیں ، حکمت اور دانائی سے آپ نے اصلاحِ اُمت کے کام کو آگے بڑھایا ، جید علمائے کرام رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْھِم نے متفقہ طور پر آپ کو حکیم الامت کا لقب عطا فرمایا۔ آپ کی تصانیف میں سے چند یہ ہیں : تفسیر نعیمی ، تفسیر نور العرفان ، علم القرآن ، مراٰۃ المناجیح ، نعیم الباری ، جاء الحق ، اسلامی زندگی ، شانِ حبیب الرحمن ، فتاویٰ نعیمیہ ، سلطنت مصطفیٰ اور اَسرار الاحکام۔ ۳رمضان المبارک ۱۳۹۱ھ / ۲۴اکتوبر ۱۹۷۱ء بروز اتوار آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار پر اَنوار گجرات پاکستان میں ہے۔ اللّٰہپاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِین ِبجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَم ۔
(ماخوذ از : حیاتِ حکیم الامت ، حالاتِ زندگی حکیم الامت ، فیضانِ مفتی احمد یار خان نعیمی)
تو رب ہے مرا میں بندہ ترا
تورب ہے مرا میں بندہ ترا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
اے خالق و مالک ربِ ُعلیسُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
ہم منگتے ہیں تو مُعْطی ہے ہم بندے ہیں تو مولیٰ ہے
محتاج ترا ہر شاہ و گدا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
ہم جرم کریں تو عفو کرے ہم قہر کریں تو مہر کرے
گھیرے ہے جہاں کو فضل ترا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
تو والی ہے ہر بیکس کا تو حامی ہے ہر بے بس کا
ہر اِک کے لیے دَر تیرا کھلا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
رازِق ہے مورومگس کا تو غفار ہے نیک و بد کا تو
ہے سب پر تیری جودو عطا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
ہم عیبی ہیں ستار ہے تو ہم مجرم ہیں غفار ہے تو
بدکاروں پر بھی ایسی عطا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
ترے عشق میں روئے مرغِ سحر ترا نام ہے مرہمِ زخمِ جگر
ترے نام پہ میری جان فدا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
یہ سالکِؔ مجرم آیا ہے اور خالی جھولی لایا ہے
دے صدقہ رحمتِ عالم کا سُبْحٰنَ اللّٰہ سُبْحٰنَ اللّٰہ
[1 اب ان شعبوں کی تعداد 15ہو چکی ہے : {7 } فیضانِ قراٰن {8} فیضانِ حدیث {9}فیضانِ صحابہ واہل بیت {10} فیضانِ صحابیات و صالحات {11}شعبہ امیراہلسنّت {12}فیضانِ مَدَنی مذاکرہ {13}فیضانِ اولیا و علما {14}بیاناتِ دعوتِ اسلامی {15}رسائلِ دعوتِ اسلامی۔ (مجلس المدینۃ العلمیۃ)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع