30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
خوشبوئیں سونے اور چاندی کے برتنوں میں لائی گئیں ۔ جب برتن اٹھائے جانے لگے تو آنے والوں میں سے کسی نے سونے کا ایک گلاس اٹھا لیا جس کا وزن ایک ہزار مثقال تھا اور اسے اپنے کپڑوں میں چھپا لیا۔ نوشیرواں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔جب شراب پلانے والے نے ایک برتن گم پایا تو وہ بلند آواز سے بولا: کوئی ایک بھی یہاں سے نہیں جائے گا جب تک کہ سب کی تلاشی نہ لے لی جائے۔ نوشیرواں نے کہا: کس لئے؟ خادم نے اسے واقعہ کی خبر دی تو نوشیرواں نے کہا: جس نے گلاس اُٹھایا ہے وہ اسے واپس نہیں کرے گا اور جس نے اسے دیکھا ہے وہ اس کی چغلی نہیں کھائے گالہٰذا کسی کی بھی تلاشی نہ لی جائے۔ اس شخص نے گلاس لے لیا اور کچھ عرصے بعد اسے توڑا اور اسے پگلا کر پیٹی بنالی اور اپنی تلوار کو اس سے آراستہ کر لیا۔ پھر جب نوشیرواں نے گزشتہ محفل کی طرح محفل سجائی اور خود بھی بیٹھا تو یہی شخص اسی سونےکےساتھ آراستہ ہوکر آیا تو بادشاہ نے اسے قریببلایا اور کہا: یہ اسی گلاس کا سونا ہے۔ اس شخص نے زمین کو چومتے ہوئے کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا بھلا کرے! جی ہاں یہ وہی ہے۔
عبداللہ بن طاہرکہتے ہیں : ہم ایک دن خلیفہ مامون کے پاس تھے کہ اس نے خادم کو آواز دی: اے غلام! کسی بھی غلام نے جواب نہ دیا۔ پھر دوسری مرتبہ خلیفہ نے زور سے آواز دی: اے غلام! تو ایک ترکی غلام یہ کہتے ہوئے داخل ہوا: کیا غلام کھاپی بھی نہیں سکتا، ہم جب بھی آپ کے پاس سے جاتے ہیں آپ اے غلام! اے غلام! کہنا شروع کردیتے ہو، کب تک اے غلام پکارو گے؟ مامون نے اپنا سر کافی دیر تک جھکائے رکھا اور مجھےیقین ہوگیا کہ مامون مجھے اس کے قتل کا حکم دے گا۔ پھر مامون نے میری طرف دیکھا اور کہا: اے عبداللہ! جب بندے کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کے خادم کے اخلاق بُرے ہوتے ہیں اور جب بندے کے اخلاق بُرے ہوں تو اس کے خادم کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں اور ہم اس بات کی سَکَت نہیں رکھتے کہ ہمارے خادم کے اچھے اخلاق کی وجہ سے ہمارے اخلاق بُرے ہوں۔
سیِّدُناولید بن عتبہ عَلَیْہِ الرَّحْمَہکا حُسنِ اخلاق:
حضرت سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت ولید بن عتبہ بن ابو سفیان رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام ہمارے شہر مدینہ پر حاکم مقرر ہوئے۔ ان کا چہرا گویاکہ قرآن کے اوراق میں سے ایک ورق تھا اور خدا کی قسم! انہوں نے ہمارے فقرا کو غنی کردیا اور ہمارے مقروضوں کا قرض اپنے پاس سے ادا کردیا۔ وہ ہماری طرف بڑی میٹھی نظر سے دیکھتے اور شہد سے میٹھا کلام کرتے تھے ۔ اس بات کا مشاہدہ میں نے خود کیا ہے اور اگر حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہوتے تو میں ان سے اس معاملے کو ضرور ذکر کرتا۔ ایک دن ہم حضرت ولید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھےاتنے میں ایک غلام پلیٹ لے کر آیا کہ تکیے سے اُلجھ کر گرگیااور پلیٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرپڑی اور پلیٹ میں جو کچھ تھا سب کا سب ان کی جھولی میں اُلٹ گیا۔ غلام ان کے سامنے اس طرح کھڑا تھا گویا اس کے جسم میں روح ہی نہیں ہے۔حضرت ولید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کھڑے ہوئے اور کمرے میں جاکر لباس تبدیل کرلیا اور جب واپس ہماری طرف آئے تو ان کی پیشانی چمک رہی تھی۔ آکر غلام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے غلام! ہم تمہارے چہرے پر خوف کے آثار دیکھتے ہیں ، جا ، تو اور تیری اولاد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔
سیِّدُنا قیس بن عاصم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی بُردباری:
حضرت سیِّدُنا اَحْنَف بن قیس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی گئی: آپ نے حسن اخلاق کس سے سیکھا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: حضرت سیِّدُنا قیس بن عاصم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے، ایک دن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ ایک لونڈی سیخ لائی جس پر بھنا ہوا گرم گوشت تھا، اس نے گوشت اتار کر سیخ اپنے پیچھے کی جانب پھینکی تو وہ آپ کے بیٹے کو لگی جس سے وہ اسی وقت انتقال کرگیا۔لونڈی اِس واقعے سے خوفزدہ ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: خوف نہ کر تُو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔
سیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاکا انداز:
حضرت سیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب اپنے کسی غلام کو اچھے انداز میں نماز پڑھتا دیکھتے تو اُسے آزاد کردیتے، غلاموں کوآپ کے اِس اخلاق کے بارے میں پتا چلا تو اُنہوں نے آپ کو دکھانے کے لئے اچھے انداز میں نمازیں پڑھنا شروع کردیں اور آپ نے اُنہیں آزاد کرنا شروع کردیا۔ جب اِس بارے میں آپ کو بتایا گیا تو ارشاد فرمایا: جو ہمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے معاملے میں دھوکا دیتا ہے ہم اُس سے دھوکاکھا جاتے ہیں ۔
راکھ پھینکی جائے تو ناراض نہ ہو:
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا ابو عثمان زاہد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد دوپہر کے وقت کسی راستے سے گزرے تو کسی نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہپر راکھ کا تھال پھینک دیا۔ آپ کے مریدین کو ناگوار گزرا اور وہ راکھ پھینکنے والے کو بُرا بھلا کہنے لگے۔ حضرت سیِّدُنا ابو عثمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: اُسے کچھ نہ کہو اِس لئے کہ جو شخص اِس بات کا مستحق ہو کہ اُس پر آگ پھینکی جائے اور راکھ پر اکتفا کر لیا جائے تو اُس کے لئے غصّہ کرنا جائز نہیں ۔
سیِّدُناعلیرَضِیَ اللہُ عَنْہکا اخلاق:
منقول ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے غلام کو آواز دی، اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دوسری اور تیسری مرتبہ آواز دی لیکن اُس نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا تو آپ نے جا کر دیکھا کہ وہ لیٹا ہوا ہے۔ پوچھا: اے غلام! کیا تو نے آواز نہیں سُنی؟ غلام نے جواب دیا: جی سُنی ہے۔ فرمایا: تو پھر تجھے جواب نہ دینے پر کس بات نے اُبھارا؟ غلام نے جواب دیا: مجھے آپ سے سزا کا ڈر نہیں تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: جا تُواللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا استادابوعثمان حیری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو ایک شخص نے دعوت دی۔ جب آپ اُس کے گھرکے دروازے پر پہنچے تو اُس نے کہا: ”اے استاد! آپ کے آنے کا ابھی وقت نہیں ہے لہٰذا تشریف لے جائیے اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ پررحم فرمائے۔“آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہواپس تشریف لےگئے۔جب آپ اپنے گھرپہنچےتووہ شخص آیااورکہنے لگا: ”اےاستاد!میں نادم ہوں اورمیری معذرت قبول فرمائیےاوراب تشریف لےآئیے۔“ آپ اُس کےساتھ چل پڑے۔ جب دروازے پر پہنچے تو اُس شخص نے پھر ویسا ہی کہا جیسا پہلی مرتبہ کہا تھا۔ اُس شخص نے چار مرتبہ آپ کے ساتھ ایسا کیا اور آپ آتے جاتے رہے۔ پھر اُس شخص نے کہا: ”اے استاد! آپ کو آزمانے اور آپ کے اخلاق سے باخبر ہونے کے لئے میں نے یہ معاملہ کیا ہے۔“ پھر اس شخص نے آپ سے معذرت کرنا اور آپ کی تعریف کرنا شروع کردی، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ”ایسی خصلت پر میری تعریف مت کرو جو کتے میں بھی پائی جاتی ہے کہ اس کو بُلایا جائے تو وہ آجاتا ہے اور ڈانٹ کر بھگایا جائے تو چلا جاتا ہے۔“
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع