30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مؤمنوں کو تکلیف دینے کا انجام:
حضرت سیِّدُنا امام مجاہد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد فرماتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ جہنمیوں پر خارش کا عذاب مُسلّط فرمائے گا تو وہ اس قدر کھجائیں گے کہ ان کی ہڈیاں ظاہر ہو جائیں گی۔ ان سے کہا جائے گا: کیا تمہیں اس سے تکلیف ہو رہی ہے؟ وہ کہیں گے: خدا کی قسم!ہو رہی ہے۔ ان سے کہا جائے گا: یہ بدلہ ہے اس کا جو تم مؤمنوں کو تکلیف دیتے تھے۔
حضرت سیِّدُنا ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پر عذاب ظاہر فرمایا تو انہوں نے آپس کے مظالم کو ترک کردیا حتّٰی کہ اگر کسی نے کسی کا پتھر بنیاد سے نکالا تھا تو وہ بھی اس کے مالک کو لوٹا دیا۔
ابو ثور بن یزیدکہتے ہیں : عمارت میں حرام پتھرلگانا اسے خراب کرنے کا پیش خیمہ ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عدل کو یاد کرو:
کسی دانا کا قول ہے کہ ظلم کرتے وقت خود پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عدل کو یاد کرو اورکسی پر قدرت پاکر خود پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےقادر ہونےکو یاد کرو۔تمہیں کوئی طاقتور اور خون ریزی کرنے والا تعجب میں نہ ڈالے بے شک اُسے بھی ایک مارنے والا ہے جومرتا نہیں ۔
حضرت سیِّدُناسَحْنُون بن سعیدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَبِیْر بیان کرتے ہیں کہ یزید بن حاتم نے کہا: میں کبھی کسی چیز سے خوف زدہ نہیں ہوا لیکن میں ایسے شخص پر ظلم کرنے سے ڈرتا ہوں جس کے بارے میں مجھے معلوم ہو کہ اس کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے اور وہ کہے : اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہیں کافی ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔
حضرت سیِّدُنا بلال بن مسعود رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : اس شخص کے معاملے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرو جس کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی مددگار نہیں ۔
ایک دن حضرت سیِّدُناعلی بن فضل عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم رو رہے تھے تو ان سے کہا گہا: کیوں روتے ہو؟ فرمایا: میں اُسپر رو تا ہوں جس نے مجھ پر ظلم کیا کہ کل بروز قیامت جب وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حضور کھڑا ہوگا تو اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی۔
حُضور اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ”میں اس شخص پر بہت زیادہ غضب کرتا ہوں جو ایسے شخص پر ظلم کرے جس کا میرے سوا کوئی مددگار نہ ہو۔“ ([1])
خلیفہ سلیمان بن عبدالملک منبر پر بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے آواز دی: اے سلیمان! منادی کی پکاروالے دن کو یادرکھو۔ سلیمان منبر سے اترااوراُسے قریب بلاکرپوچھا: منادی کی پکاروالا دن کیا ہے؟ اس شخص نے کہا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ (۴۴) (پ۸، الاعراف: ۴۴)
ترجمۂ کنز الایمان: اور بیچ میں منادی نے پکار دیا کہ اللہ کی لعنت ظالموں پر۔
خلیفہ سلیمان نے کہا: تجھ پر کیا ظلم ہوا ہے؟ اس شخص نے کہا: میری فلاں علاقے میں ایک زمین تھی جسے تمہارے وکیل نے غصب کر لیا ہے۔خلیفہ سلیمان نے اپنے وکیل کو لکھا: اس کی زمین اس کے حوالے کر دو اور جو زمین اس کی زمین کے ساتھ ہے وہ بھی اس کو دے دو۔
منقول ہے کہ ایرانی بادشاہ نوشیرواں کا ایک استاد تھا جو اسے اچھے طریقے سے علم سکھاتا تھا حتّٰی کہ نوشیرواں علوم میں فائق ہو گیا۔ ایک دن استاد نے بلا وجہ نوشیرواں کو مارا جس سے نوشیرواں کو سخت تکلیف ہوئی اور اس نے ارادہ کیا کہ اس سے بدلہ لے گا۔ جب نوشیرواں بادشاہ بنا تو اس نے استاد سے کہا: تم نے مجھے فلاں دن ظلماً کیوں مارا تھا؟ استاد نے کہا: جب میں نےدیکھاکہ توعلم میں رغبت رکھتاہےاوربادشاہت تیرےباپ کےبعدتیرےپاس آئےگی، میں نےتیرے ساتھ یہ سلوک اس لئےکیاتاکہ تو کسی پر ظلم نہ کرے ([2]) ۔یہ سن کر نوشیرواں نے کہا: تم نے اچھا کیا۔
منقول ہے کہ کسی بادشاہ نے اپنے بچھونے پر یہ تحریر لکھی ([3]) :
لَا تَظْلِمَنَّ اِذَا مَا كُنْتَ مُقْتَدِرًا فَالظُّلْمُ مَصْدَرُهٗ يُفْضِي اِلَي النَّدْمِ
تَنَامُ عَيْنَاكَ وَالْمَظْلُوْمُ مُنْتَبِهٌ يَدْعُوْا عَلَيْكَ وَعَيْنُ اللهِ لَمْ تَنَمِ
ترجمہ: اگر تجھے طاقت حاصل ہو تو ہرگز ظلم نہ کر کیونکہ ظلم کا انجام ندامت ہے۔تیری آنکھیں سو جاتی ہیں مگر مظلوم بیدار رہتااورتجھے بددعا دیتا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نہیں سوتا۔
حضرت سیِّدُنا ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : یتیم کے آنسو اور مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ یہ راتوں کو جاگتے ہیں اور لوگ سو رہے ہوتے ہیں ۔
بنو سامہ بن لؤی سے تعلق رکھنے والے ہیثم بن فراس سامی نے فضل بن مروان کو کہا:
تَجَبَّرْتَ يَا فَضْلَ بْنَ مَرْوَانَ فَاعْتَبِر فَقَبْلَكَ كَانَ الْفَضْلُ وَاْلفَضْلُ وَالْفَضْلُ
ثَلَاثَةَ اَمْلَاكٍ مَضَوْا لِسَبِيْلِهِمْ اَبَادَهُمُ الْمَوْتُ المُشَتِّتُ وَالْقَتْلُ
ترجمہ: اے فضل بن مروان! تو تکبر کرتا ہے تو ذرا سوچ! تجھ سے پہلے بھی فضل نامی تین بادشاہ تھے جو اپنی راہ لے چکے ، جدا کردینے والی موت اور قتل نے ان کو ہلاک کر دیا۔
ہیثم بن فراس کی تین فضل سے مراد فضل بن ربیع، فضل بن یحییٰ اور فضل بن سہل ہیں ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع