30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! شرک اصغر کیا ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ریاکاری۔ ([1])
ایک عابد چلتے ہوئے جارہا تھا اور اس کے سرپر بادل سایہ کئے ہوئے تھا ۔ایک شخص آیا اور اُس نے عابد کے ساتھ سایہ حاصل کرنا چاہالیکن عابد نے منع کردیا اورکہا: اگر تو میرے ساتھ کھڑا ہو گا تو لوگوں کو علم نہیں ہو گا کہ بادل مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے۔ اس شخص نے کہا: لوگ جانتے ہیں میں ایسا نہیں کہ بادل میرے لئے سایہ کریں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے بادل کو اس شخص کے ساتھ کر دیا۔
ایک دن عبدالاعلی سلمی نے کہا: لوگ مجھے ریاکار سمجھتے ہیں اور خدا کی قسم! میں گزشتہ کل سے روزے سے ہوں اور کسی ایک کو بھی اس کی خبر نہیں ۔
اَللّٰهُمَّ اَصْلِحْ فَسَادَقُلُوْبِنَاوَاسْتُرْ فَضَائِحَنَابِرَحْمَتِكَ يَااَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ وَصَلَّى اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَامُحَمَّدٍوَّعَلٰی اٰلِهٖ وَ صَحْبِهٖ وَسَلِّمیعنی اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!ہمارے دلوں کے فساد کی اصلاح فرما اور اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے اپنی رحمت سے ہماری خطاؤں پر پردہ ڈال اوردرود و سلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پر ۔
باب نمبر19: عدل، احسان اور انصاف وغیرہ کا بیان
اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہیں ہدایت دےجان لوکہاللہ عَزَّ وَجَلَّنےعدل کاحکم دیااوراللہ عَزَّ وَجَلَّ یہ بھی جانتاہےکہ ہر بندہ عدل کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ احسان کا طالب ہے اور احسان عدل سے بڑھ کر ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (۹۰) (پ۱۴، النحل: ۹۰)
ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتاہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔
اگر مخلوق عدل کرنے کی وسعت رکھتی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ احسان کوعدل کے ساتھ نہ ملاتا اور عدل زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا میزان ہے جس کے ذریعے کمزور کے لئے طاقتور سے اور حق کے لئے باطل سے انصاف لیا جاتا ہے۔
جان لو کہ بادشاہ کا عدل اس سے محبت کا باعث ہے اور ظلم اس سے دوری کا سبب ہے اور زمانے میں سب سے زیادہ افضل ایام عدل والے ہیں ۔
حضرت سیِّدُنا ابو ہُرَیْرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضورپُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: عادل حکمران کا اپنی رعایا میں ایک دن کام کرنا عابد کے اپنے اہل میں 50یا100 سال کام کرنے سے افضل ہے۔ ([2])
رحمتِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک گھڑی کا عدل 70سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ ([3])
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتےہیں کہ سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخصوں کی دعاردنہیں ہوتی: (۱) …عادل بادشاہ (۲) … روزہ دارجب افطارکرےاور (۳) … مظلوم کی دعا۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کی دعا بادلوں سےاوپر اُٹھاتا ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ([4])
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےحضرت سیِّدُناکَعْبُ الْاحبارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے فرمایا: مجھے جنت ِعدن کے بارے میں بتاؤ؟ عرض کی: اے امیرالمؤمنین! جنت عدن میں نبی، صدیق، شہید اور عادل حکمران ہی رہیں گے۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نبی تونہیں ہوں ، البتہ رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تصدیق ضرور کی ہےاور جہاں تک عادل حکمران ہونے کاتعلق ہے تو مجھےامید ہے کہ ظلم نہیں کروں گااوررہی شہادت تو وہ مجھے کہاں نصیب ہوگی؟ ([5])
حضرت سیِّدُناحسن بصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیحضرت سیِّدُناعمرفاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکےبارےمیں فرماتےہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے انہیں صدیق ، شہیداورامام عادل بنادیا۔
اہل بابل کےدانشوروں سے سکندر نے سوال کیا: بہادری اور عدل میں سے تمہارے نزدیک کیا چیز بڑھ کر ہے؟
انہوں نے جواب دیا: ہم نے عدل کا استعمال کیاتو ہمیں بہادری کی حاجت نہ رہی۔
کہا جاتا ہے : سلطان کا عدل کرنا خوشحال زمانے سے زیادہ نفع مند ہے۔
منقول ہے کہ جب سلطان عدل وانصاف سے روگردانی کرتا ہے تو رعایا اس کی اطاعت سے روگردانی کرتی ہے۔
کسی گورنر نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کو خط لکھا اور شہر کی خستہ حالی کی شکایت کی اور کچھ مال طلب کیاتوآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ان کو جواب لکھا: میں تمہارے خط کو سمجھ گیا ہوں لہٰذا جب تم میرا یہ خط پڑھو تو اپنے شہر کو عدل کے ذریعے مضبوط کرو اور اس کے راستے ظلم سے پاک و صاف کر دو یہی اس کی تعمیر ہے۔ وَالسَّلَام
کہا جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور خلافت میں عراق سے متصل آبادیوں سے حاصل ہونے والا خراج13کروڑ 70 لاکھ تھا اور پھر حجاج کے زمانے میں کمی ہونے لگی حتّٰی کہ ایک کروڑ 80 لاکھ ہو گیا پھر جب امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز خلیفہ بنے تو پہلے سال میں تین کروڑ ہوا اور دوسرے سال میں چھ کروڑ ہوا۔ ایک قول کے مطابق اس سے بھی زیادہ ہوااور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز حیات رہتے تو اس خراج کو اسی مقدار پر پہنچا دیتے جس مقدار پر امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور میں تھالیکن اُسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔
کسرٰی کا قول ہے کہ عدل کےبغیر رعایا نہیں ، رعایا کےبغیر شہر نہیں ، شہرکےبغیرمال نہیں ، مال کےبغیرلشکر نہیں اور لشکر کےبغیر ملک نہیں ہوتا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع