30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دوسری فصل: فیصلے پر رشوت و تحفہ لینے اور قرض کا بیان
حُضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”لَعَنَ اللهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِي یعنی رشوت دینے اور لینے والے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّنےلعنت فرمائی ہے۔“ ([1])
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمرفاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : یہود و نصاری ٰکو والی نہ بناؤ کہ وہ رشوت لیتے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دین میں رشوت حرام ہے۔
شہیدی کہتے ہیں کہ آج ہمارے اصحاب ان یہودو نصارٰی سے رشوت لینے کے لئے آتےہیں ۔
نوابغ الحکم میں ہے کہ رشوت خور بیہودہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔
امامُ النَّحومُبَرَّد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شعر کہا:
وَكُنْتُ اِذَا خَاصَمْتُ خَصْمًا كَبَبْتُهٗ عَلَى الْوَجْهِ حَتّٰى خَاصَمَتْنِي الدَرَاهِمُ
فَلَمَّا تَنَازَعْنَا الْخُصُوْمَةَ غَلَبَتْ عَلَیَّ وَقَالَتْ قُمْ فَاِنَّكَ ظَالِمُ
ترجمہ: میں جب بھی جھگڑا تو اپنے فریق کو پچھاڑ دیا حتّٰی کہ دراہم میرے آڑے آگئے ، پس جب ہم نے مقدمہ جیتنا چاہا تو دراہم مجھ پر غالب آگئے اور بولے: اٹھو یہاں سے تم ظالم ہو۔
ہم قرض اور ظالم لوگوں کے غلبہ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی پناہ مانگتے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرضہ لے اور اس کے دل میں اس کی ادائیگی کا ارادہ ہوپھر وہ ادا کئے بغیر مر جائےتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کو معاف کر دے گا اور اس کے قرض خواہ کو اس کی خواہش کے مطابق راضی کر دے گا اور جو قرض لے اور اس کے دل میں اس کی ادائیگی کا ارادہ نہ ہو اور وہ بغیرادا کیے مر جائےتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اس کے قرض خواہ کو اس سے بدلہ دلوائے گا۔ ([2])
میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کی فضیلت:
حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتےہیں کہ بارگاہِ رسالت میں جب کوئی جنازہ لایاجاتاتورسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس کےعمل کےبارےمیں کچھ نہ پوچھتے، صرف قرض کےمتعلق پوچھتے، اگرکہا جاتاکہ اس پر قرض ہےتوآپ اس کی نماز جنازہ پڑھنےسےرُک جاتےاوراگرکہاجاتاکہ اس پرقرض نہیں ہےتواس کی نمازجنازہ پڑھتے۔ ایک مرتبہ ایک جنازہ لایاگیاجب آپ اس پرجنازےکی تکبیرکہنےکےلئےکھڑےہوئےتوارشادفرمایا: کیاتمہارے ساتھی پرقرض ہے؟ لوگوں نےعرض کی: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!دودینارہیں ۔آپ ایک طرف ہوگئےاورارشاد فرمایا: اپنےساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نےعرض کی: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَوَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اس کےدودینارمیرےذمہ ہیں اوروہ اس سےبَری ہے۔چنانچہ آپ آگےبڑھےاور اس کی نمازجنازہ پڑھی۔ پھرحضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہیں اس کی بہتر جزا دے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہیں آگ سے آزاد کرے جس طرح تم نے اپنے بھائی کوآزاد کروایا، ہر مرنے والا مقروض اپنے قرض میں قیدرہتا ہےاور جو کسی میت کو قرض سے خُلاصی دے اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اس کی جان کو خلاصی دے گا۔ ([3])
کسی دانا کا قول ہے کہ قرض رات کو بے چین کرتا ہے اور دن کو ذلیل کرتا ہے اور یہ ایک طوق ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے زمین میں بنایا ہے اور جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی بندے کو ذلیل کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی گردن میں یہ طوق ڈال دیتا ہے۔
حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہایک شخص سےاپنےقرض کامطالبہ کرنےآئے تو اُس کےگھر والوں نےعرض کی: وہ توجہادکےلئےنکل گیا۔آپرَضِیَ اللہُ عَنْہنےفرمایا: میں گواہی دیتا ہوں بے شک حُضور نبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے راستے میں شہید ہو جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید ہو جائے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا حتّٰی کہ قرض ادا کردے۔ ([4])
حضرت سیِّدُنا امام زُہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : حضورنبیِّ رحمت، شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجس پر قرض ہوتااس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے پھر بعد میں (جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ پر کشائشیں فرمائیں تو) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں مؤمنوں کاان کی جانوں سے زیادہ والی ہوں تو جو بھی اس حال میں مرے کہ اس پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے۔“ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے لگے۔ ([5])
سیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : کوئی غم قرض کے غم سے زیادہ نہیں اور کوئی درد آنکھ کے درد سے زیادہ نہیں ۔
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی عورت سے مہر کے عوض نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جو شخص قرض لے اور نیت یہ ہو کہ ادا نہیں کرے گا تو وہ چور ہے۔ ([6])
حضرت سیِّدُناحبیب بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ”مجھے جب قرض کی حاجت ہوئی تو میں نے اپنے آپ ہی سے قرض طلب کیا ۔“آپ کی مراد یہ ہے کہ میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اس شے کا حصول
[1] معجم کبیر، ۲۳/ ۳۹۸، حدیث: ۹۵۱۔
[2] مستدرک حاکم، کتاب البیوع، باب من تداین بدین الخ، ۲/ ۳۱۹، حدیث: ۲۲۵۳
[3] سنن کبری للبیھقی، کتاب الضمان، باب وجوب الحق بضمان، ۶/ ۱۲۱، حدیث: ۱۱۳۸۹
[4] مسند امام احمد، حدیث محمد بن عبداللّٰہ ،۸/ ۳۴۸، حدیث: ۲۲۵۵۶
[5] بخاری، کتاب الکفالة، باب الدین، ۲/ ۷۷، حدیث: ۲۲۹۸
[6] کنزالعمال
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع