30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دروازہ ظاہر ہوا اور ہم نے گمان کیا کہ اس میں خزانہ ہے تو ہم نے امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو خط لکھا۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہمیں جواب دیا: اس دروازے کو نہ کھولنا جب تک کہ میرا خط تمہیں نہ مل جائے۔ پھر ہم نے اس دروازے کو کھولا تو چارپائی پر ایک شخص تھاجس کےجسم پرسونےبُنے 70 حُلّے تھے، اس کے سر کے پاس انتہائی سبز رنگ کی ایک تلوار رکھی تھی جس پر لکھا تھا یہ تلوار عاد بن ارم کی ہے اور اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک تختی تھی جس پر یہ دو شعر لکھے تھے:
اِذَا خَانَ الْاَمِيْرُ وَكَاتِبَاهٗ وَقَاضِيُ الْاَرْضِ دَاهِنٌ فِي الْقَضَاءِ
فَوَيْلٌ ثُمَّ وَيْلٌ ثُمَّ وَيْلٌ لِقَاضِيِ الْاَرْضِ مِنْ قَاضِيِ السَّمَاءِ
ترجمہ: جب امیر اور اس کا کاتب خیانت کریں اور زمین کا قاضی فیصلہ کرنےمیں نرمی برتےتو ہلاکت ہے پھر ہلاکت پھر ہلاکت زمین کے قاضی کے لئے آسمان کے قاضی کی جانب سے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ساتھ:
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن ابو اوفٰیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَر وَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے اور جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے بَری ہوتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ ([1])
حضرت سیِّدُنا محمد بن حُریث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : مجھے خبر ملی کہ حضرت سیِّدُنا نصر بن علی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی کو دھوکے سے بصرہ کا قاضی بنادیا گیا تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے اور وہ ان کو کوئی جواب نہ دیتے جب لوگوں کااصرار بڑھ گیا تو وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے اورچت لیٹ کر منہ پر چادر ڈال لی اور دعا مانگنے لگے: اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!توجانتاہےکہ مجھ پریہ معاملہ بوجھ ہےلہٰذاتومیری روح قبض فرمالے، پس ان کا انتقال ہو گیا۔
حضرت سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ سَیِّدِعالَم، نُورِ مُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: قاضی لوگوں کے لئے پُل ہوں گے اور لوگ قیامت کے دن ان کی پیٹھوں پر سے گزریں گے۔ ([2])
حضرت سیِّدُنا حَفْص بن غیاث رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے قضا کے مسائل پوچھنے والے شخص سے کہا: شاید تم قاضی بننا چاہتے ہو، بندہ اپنی انگلی اپنی آنکھوں میں ڈالے اور ڈھیلوں کو نکال کر پھنک دے یہ کام قاضی بننے سے بہتر ہے۔
منقول ہے کہ سب سے پہلے قضا میں جس نے ظلم ظاہر کیا وہ بلال بن ابو بُردہ ہے یہ بصرہ کا امیر اور قاضی تھا اور کہا کرتا تھا: میرے پاس جو بھی دو شخص فیصلہ لے کر آئیں گے ان میں سے میں جس کے لئے اپنے دل میں آسانی پاؤں گا اس کے حق میں فیصلہ دوں گا۔
قاضی یحییٰ بن اکثمعَلَیْہِ الرَّحْمَہکی انصاف پسندی:
ایک مرتبہ مامون الرشید حضرت سیِّدُنا قاضی یحییٰ بن اَکْثَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی عدالت میں ایک شخص کے ساتھ پیش ہوا جس نے مامون پر 30 ہزار دینار کا دعوٰی کیا تھا۔وہاں مامون کے بیٹھنے کے لئے مصلّی بچھایا گیا توحضرت سیِّدُنا قاضی یحییٰرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مامون سے کہا: اپنے فریق کے مقابل مجلس میں بَرتری حاصل نہ کرو۔اس شخص کے پاس چونکہ کوئی گواہ نہ تھا لہٰذا قاضی نے چاہا کہ مامون قسم اٹھائے۔پس مامون نے اُسے 30ہزار دینار دے دیئے اور کہا: بخدا! یہ دینار میں نے تجھے اس وجہ سے دیئے ہیں کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ میں نے تجھ سے یہ دینار اپنی طاقت کے سبب لئے ہیں ۔پھر مامون نے قاضی یحییٰرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے لئے مال کا حکم دیا اور خوب انعام واکرام سے نوازا۔
خلیفہمُعْتَضِدبِاللہکاایک معززغلام حضرت سیِّدُناابویوسف بن یعقوبرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےپاس فیصلہ کے لئے آیااور اپنے مخالف سے بلند جگہ پر بیٹھ گیا تو دربان نے اسے اس کام سے روکا لیکن اس نے قبول نہ کیا۔ حضرت ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےفرمایا: کھڑے ہوجاؤ، تمہیں کہا جاتا ہے کہ مجلس میں اپنے فریق کےساتھ بیٹھو اور تم منع کرتے ہو۔ اے لڑکے! عَمْرو بن ابو عَمْرو نَحاس کو جلدی سے میرے پاس لے آؤ اور اگر وہ اسی وقت آجاتا ہے تو اسے میرا یہ حکم ہے کہ وہ اس غلام کو بیچ دے اور اس کی قیمت خلیفہ کو بھیج دے۔ پھر دربان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کوفریق مخالف کے برابر کھڑا کر دیا۔ جب فیصلہ ہو گیا تو وہ خادم خلیفہ کے پاس گیا اور اس کے سامنے رونے لگا اور واقعہ کی خبر دی۔ خلیفہ نے کہا: اگر وہ تجھے بیچ دیتے تو میں یہ بیع جائز قرار دے دیتا اور تجھے اپنی ملکیت میں نہ لوٹاتا۔تیرا مقام میرے نزدیک فیصلے میں فریقین کے مساوی ہونے کے رُتبہ کے برابر بھی نہیں ۔کیونکہ یہ معاملہ دین و سلطنت کو قائم رکھتاہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ بہتر جانتا ہے۔
امام شعبیعَلَیْہِ الرَّحْمَہ اور اشجعی شاعر:
ایک خوبصورت عورت امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے پاس آئی اور دعوٰی کیا، آپ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تو ہُذیْل اَشجَعِی شاعر نے کہا:
فَتِنَ الشَّعْبِي لَمَّا رَفَعَ الطَّرْفَ اِلَيْهَا
فَتَنَتْهُ بِبَنَانٍ كَيْفَ رُؤْيَا مِعْصَمِيْهَا
وَمَشَتْ مَشْيًا رُوَيْدًا ثُمَّ هَزَّتْ مَنْكِبَيْهَا
فَقَضٰي جَوْرًا عَلَى الْخَصْمِ وَلَمْ يَقْضِ عَلَيْهَا
ترجمہ: (۱) … شعبی نے جب اس کی طرف نگاہ اٹھائی تو فتنہ میں مبتلا ہوگئے۔ (۲) …ابھی تو انگلی کا پورا دیکھا ہے اگر کلائی دیکھ لیتے تو کیا حال ہوتا۔ (۳) …وہ آہستہ سے چلتی ہوئی آئی پھر اپنے کندھوں کو ہلایا۔ (۴) …قاضی نے ظلم سے کام لیتے ہوئے مدمقابل کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور اس عورت کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔
یہ اشعار لوگوں میں پھیل گئے اورلوگ اسے ایک دوسرے کو سنانے لگے حتّٰی کہ امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے ہذیل اشجعی کو 30کوڑے لگائے۔
امام عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے منقول ہےکہ ایک دن امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ہمارے ساتھ مجلس قضا سے لوٹےتو ایک خادمہ کے پاس سے گزرے جو کپڑے دھوتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی: ”فَتِنَ الشَّعْبِي لَمَّا“اور اس کا تکرار کر رہی تھی باقی شعر اسے یاد نہیں تھا ، یہ سن کر امام شعبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس سے قریب ہوئے اور کہا: ”رَفَعَ الطَّرْفَ اِلَيْهَا“ پھر کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس شاعر کو ہلاک کرے میں نے ہمیشہ حق کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع