30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
عزت و ثروت تو ہے لیکن ساتھ میں خطرہ بھی بہت بڑا ہے۔
عتابی سے کہا گیا: ”تم ادیب ہونے کے باوجود سلطان کی صحبت میں کیوں نہیں رہتے؟ “ عتابی نے جواب دیا: ”کیونکہ میرا مشاہدہ ہے سلطان بغیر کسی وجہ کے کسی کو 10 ہزار درہم بھی دے دیتا ہے اور بلا وجہ قید میں بھی ڈلوا دیتا ہے اور میں نہیں جانتا کہ ان میں سے میں کس میں ہوں (یعنی انعام والوں میں یا قید والوں میں ) ۔“
حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے قریش کے ایک شخص سے فرمایا: ”سلطان سے دور رہو کہ وہ بچے کی طرح ناراض ہو جاتا ہے اور شیر کی طرح حملہ کرتا ہے۔“
حضرت سیِّدُنا میمون بن مہران عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے فرمایا: ”اے میمون! میری چار باتوں کو یاد کر لو: (۱) …سلطان کی صحبت اختیار نہ کرنا اگرچہ تو اس کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے (۲) … عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرنا اگرچہ تو اس کو قرآن پڑھائے (۳) …رشتے داروں سے قطع تعلقی نہ کرنا کیونکہ یہ تیرے لئے محرومی ہے (۴) … اور ایسا کلام نہ کرنا جس کی تجھے کل معافی مانگنی پڑے۔“
سلطان کی اصلاح کی غرض سے اس کی صحبت اختیار کرنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی جھکی ہوئی دیوار کو سیدھا کرنے کے لئے اسے ٹیک دے اور وہ دیوار اس پر گر جائے اور وہ ہلاک ہو جائے۔
کتاب”کَلِیْلَہ وَدِمْنَہ“میں ہے: جو بادشاہوں کے ساتھ رہتا ہے وہ خوش بخت نہیں ہوسکتا کیونکہ بادشاہوں کا کوئی عہد ہے نہ ان میں وفا ہےاورکوئی ان کا قریبی اور دوست نہیں ۔یہ تم میں رغبت نہیں رکھتے بلکہ جو تمہارے پاس ہے اس کی طمع میں تمہیں اپنے قریب رکھتے ہیں اور جب ان کی حاجت پوری ہو جاتی ہےتو تمہیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں ۔انہیں کسی سے محبت وبھائی چارہ نہیں ہوتااور کسی جرم پر ان کے ہاں کوئی مُعافی نہیں ہوتی۔
کسی دانا کا قول ہے کہ سلطان کا ساتھی بننا شیر پر سوار ہونے کی طرح ہے کہ لوگ تو اس سے ڈرتے ہیں لیکن وہ ان سےزیادہ خود ڈرا ہوا ہوتا ہے ۔
حضرت سیِّدُنا محمدبن واسعرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتےہیں : خداکی قسم! خاک اڑانا اور ہڈی چبانا بادشاہوں کے دروازے کے قریب جانے سے بھی بہتر ہے۔
حضرت سیِّدُنامحمدبن سماک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّاب فرماتے ہیں کہ مکھی کا گندگی پر بیٹھنا مسافر کے بادشاہوں کے دروازے پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔
منقول ہےکہ ادب سیکھنے سےقبل جو سلطان کی صحبت اختیار کرتاہے وہ یقیناً خود کو دھوکے میں ڈالتا ہے۔
ابنِ مُعتزکہتے ہیں : جو سلطان کے ساتھ دنیا کی عزت میں شریک ہوا وہ آخرت کی ذلت میں شریک ہوا۔
ابنِ مُعتزسے منقول ہے کہ جب سلطان تجھ سے محبت و اکرام میں اضافہ کرے تو تم اس سے ڈرنے میں اور اس کی عزت کرنے میں اضافہ کر دو۔
ابو علی صغانی کہتے ہیں : بادشاہوں سے بچو کہ یہ جس کے دوست بنتے ہیں اس کا مال لیتے ہیں اور جس کے دشمن بنتے ہیں اس کی جان لیتے ہیں ۔
منقول ہے کہ بلخ کے ایک گاؤں ”بہار“ کے دروازے پر لکھا تھا کہ بادشاہوں کے دروازے تین چیزوں کے محتاج ہیں : (۱) عقل (۲) صبراور (۳) مال۔اس کےنیچےکسی نے لکھا تھا: دشمَنِ خدانے جھوٹ کہاکیونکہ جس کے پاس ان تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی ہو گی وہ بادشاہ کے دروازے کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
حسان بن ربیع حِمْیَری کہتے ہیں : بادشاہ، عورت اور جانور پر زیادہ اعتماد نہ کرو کہ بادشاہ تکلیف دے گا، عورت خیانت کرے گی اور جانور سرکشی کرے گا۔
سیِّدُنا عُبَیْدبن عمیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : جوبادشاہ سے جتنا قریب ہوگا اتنا ہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دور ہوگا اورجس کےپیروکارزیادہ ہوں گے اُسے بہکانے والے بھی زیادہ ہوں گےاور جس کا مال کثیر ہو گا اس کا حساب بھی زیادہ ہوگا۔
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :
اَرَى الْمُلُوْكَ بِاَدْنَی الدِّيْنِ قَدْ قَنَعُوْا وَلَا اَرَاهُمْ رَضُوْا فِي الْعَيْشِ بِالدُّوْنِ
فَاسْتَغْنِ بِالدِّيْنِ عَنْ دُنْيَا الْمُلُوْكِ كَمَا اسْتَغْنَی الْمُلُوْكُ بِدُنْيَاهُمْ عَنِ الدِّيْن
ترجمہ: میں بادشاہوں کو تھوڑے دین پر قناعت کئے دیکھتا ہوں جبکہ دنیا کے تھوڑے حصے پر رضامند نہیں دیکھتا ۔لہٰذا جس طرح بادشاہ اپنی دنیا میں مگن ہوکر دین سے بے پروا ہیں اسی طرح تم دین پر قناعت کرتے ہوئے بادشاہوں کی دنیا سے بے پروا ہوجاؤ۔
حکماء نے بادشاہوں کی نوکری کرنے سے منع کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ اچھا صلہ دینے میں مغرور ہوتے ہیں اور سزا کے طور پر قتل کروا دینے میں خود مختار ہوتے ہیں ۔
منقول ہے کہ بادشاہ کے شر سے جو امن میں ہے وہ جری ہے اور جو خوف زدہ ہے وہ بری ہے۔
وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَاِلَيْهِ الْمَرْجِعُ وَالْمَاٰبُ وَحَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِيْرُ وَصَلَّي اللهُ عَلٰی سَيِّدِنَامُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّبہتر جانتا ہےاوراسی کی طرف لوٹنا ہےاوراسی کےپاس ٹھکانا (یعنی جنت) ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں کافی ہے اور کیا ہی اچھا کار ساز کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مدد گار اور درود وسلام ہو ہمارے سردار حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اور آپ کی آل واصحاب پر۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
باب نمبر16: وزیروں کی صفات اور احوال وغیرہ کا بیان
حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام کی حکایت بیان کرتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ (۲۹) (پ۱۶، طٰہٰ: ۲۹) ترجمۂ کنز الایمان: اور میرے لئے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔
اگر سلطان وزیر سے بے پرواہ ہو تو لوگ حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام کے اس قول کے سبب وزیر رکھنے پر اصرار کرنے کے حق دار ہیں ۔پھر وزیر رکھنے کی حکمت بیان ہوئی:
اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ (۳۱) وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ (۳۲) (پ۱۶، طٰہٰ: ۳۱، ۳۲ )
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع