30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
تنگ ہوجائےگی۔“ ([1])
بادشاہوں کوگالیاں نہ دو:
حضرت سیِّدُنامالک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارفرماتےہیں کہ میں نےبعض کتابوں میں پڑھاہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتاہے: میں بادشاہوں کابادشاہ ہوں اوربادشاہوں کی گردنیں میرےہاتھ میں ہیں جومیری اطاعت کرے گامیں اُس پراپنی رحمت کروں گااورجومیری نافرمانی کرےگامیں اُس پرغضب فرماؤں گا۔لوگو!تم بادشاہوں کو اپنی زبان سے گالیاں نہ دو بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں توبہ کرو اللہ عَزَّ وَجَلَّان کو تم پر مہربان کرے گا۔
سیِّدُناامام جعفرصادقرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : بادشاہ کے عمل کا کفارہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ احسان کرنا ہے۔
کسرٰی نے سیرین سے کہا: کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ باشاہت ہمیشہ رہتی۔سیرین نے کہا: اگر یہ ہمیشہ رہتی توپھر ہماری طرف منتقل نہ ہوتی۔
ایک دن سکندر بیٹھا تو اُس کے پاس کوئی حاجت پیش نہ ہوئی تو اُس نے کہا: میرے ایام سلطنت میں مجھے دوبارہ ایسادن دیکھنا نصیب نہ ہو۔
جاحظ نے کہا: حکمرانی کی عزت، دشمنوں پر کامیابی اور لوگوں کی گردنوں پر احسان کا بوجھ ڈالنے سے بڑھ کر کوئی شے لذیذ اور مسرت کا باعث نہیں ۔
کہا گیاہےکہ بادشاہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے بندوں کے درمیان اُس کا خلیفہ ہوتا ہے اور وہ اُس کی مخالفت سے اپنے امر خلافت کو درست نہیں رکھ سکتا۔
حجاج نے کہا: وہ سلطان جسے رعایا خوف زدہ کرےاُس سلطان سے بہتر ہے جو رعایا کو خوف زدہ کرے۔
اردشیر نے اپنے بیٹے سے کہا: بادشاہت اور دین دونوں بھائی ہیں جن میں سے ایک کو دوسرے سے بے نیازی نہیں ۔ دین بنیاد ہے اور بادشاہت نگہبان، جس چیزکی بنیادنہ ہووہ قائم نہیں رہ سکتی اورجس کی نگہبانی نہ ہووہ ضائع ہوجاتی ہے۔
”ذُوالْاَکْتَاف“لقب کی وجہ تسمیہ:
منقول ہے کہ جب ہُرْمُز کے مرنے کا وقت قریب آیا تو اُس کی بیوی حاملہ تھی ۔اُس نے شاہی تاج اپنی بیوی کے پیٹ پر رکھا اور وزرا کو مملکت چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ اُس کا بیٹا پیدا ہوا۔ جب ہرمز کا بیٹا بادشاہ بن گیا تواس کی چھوٹی عمر میں اہل عرب نے فارس کے نواح میں غارت گری کی پھر جب یہ بالغ ہوا تواس نے بہادروں کا انتخاب کیا اور اہل عرب پر یلغار کردی اور ان کو خوب قتل کیااور سترہزار لوگوں کے کندھے اتار دیئے ، اسی وجہ سے اسے ذُوالْاَکْتَاف (کاندھوں والا) کہاگیا۔اس نے اہل عرب کو بال کھلے رکھنے ، رنگے ہوئے کپڑے پہننے ، خیموں میں رہنے اورانہیں بغیر زین کے گھوڑے پر سواری کا حکم دیا۔
بادشاہوں کا منفرد رہنے کو پسند کرنا:
بادشاہوں کے اخلاق میں سے ہے کہ وہ منفرد رہنے کو پسند کرتے ہیں ۔جب اردشیر اپنے سر پر تاج رکھتا تو اُس کی رعایا میں سے کوئی بھی اپنے سر پر پھول کی شاخ بھی نہ رکھتااور جب وہ کوئی عمدہ پوشاک پہنتا تو اس کی مثل کوئی بھی ایسی پوشاک نہ پہنتااور جب وہ انگوٹھی پہنتا تو اس کی مملکت کے لوگوں پر حرام ہوتا کہ وہ اس کی مثل انگوٹھی پہنیں ۔کفارِ مکہ کا سردار سعید بن عاص جب عمامہ باندھتا تو جب تک اُس کے سر پر عمامہ رہتا کوئی اس کی مثل عمامہ نہ باندھتا ۔ حجاج بن یوسف جب اپنے سر پر عمامہ باندھتا تو کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ اُس جیسا عمامہ پہن کر اُس کے پاس آئے۔عبد الملک بن مروان جب پیلے رنگ کا موزہ پہنتا تو جب تک وہ اُتار نہ دیتا اُس وقت تک کوئی اُس جیسا موزہ نہ پہنتا۔ (صاحبِ کتاب) کہتے ہیں : مجھے ایک شخص نے بتایا جو یمن کی طرف گیا تھا کہ وہاں بادشاہ کے علاوہ کوئی بطخ نہیں کھاتا۔
بادشاہ کے حقوق میں سے ہے کہ جس طرح دودھ پلانے والی اپنے بچے کی دیکھ بھال کرتی ہے یونہی بادشاہ کو چاہئے کہ وہ اپنی رعایا کے چھپے ہوئے معاملات کی خبر گیری کرے۔اردشیر جب چاہتا اپنی مملکت کے رؤسا سے کہتا : آج کی رات تم نے یہ یہ کیا۔حتّٰی کہ لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ بادشاہ کے پاس آسمان سے کوئی فرشتہ آکر یہ خبریں دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ سب کچھ رعایا کے احوال کی خبر گیری اور چھان بین کی وجہ سے تھا۔
حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے سے دور شخص کے بارے میں بھی اسی طرح خبر رکھتے تھے جس طرح اپنے پا س موجود شخص کے بارے میں رکھتے تھے اور حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بھی ان کی پیروی کی۔
ایک شخص نےعُبَـیْدُاللہبن زیادسےاپناتعارُف کرایاتواس زیادنےکہا: کیاتم مجھ سےاپناتعارف کراتے ہو جبکہ میں تمہیں تمہاری ماں اور باپ سے زیادہ جانتا ہوں اور تم نے جو یہ چادر اوڑھ رکھی ہے اس کے بارے میں بھی جانتا ہوں ۔یہ سن کر وہ شخص گھبراگیا۔
مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بیان
اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اپنی کتاب میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ۵، النساء: ۵۹)
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والوحکم مانو اللہکا اورحکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔
”صحیح بخاری“ میں حضرت سیِّدُناجابر بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ میں نے سرورِ کونین، شہنشاہِ دارین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسےاس بات کی گواہی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنے، زکوۃ دینے ، (حاکم اسلام کی ) سننے اور اطاعت کرنے اور ہر مسلمانکی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔ ([2])
حضرت سیِّدُناکعب الاحبارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسےسلطان کے متعلق پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا: سلطان زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا سایہ ہے جس نے اس کی خیرخواہی کی اس نے راہِ ہدایت حاصل کی اورجس نے اسے دھوکا دیا تووہ راہ سے بھٹک گیا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع