30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اب میں انہیں ساتھ لئے حضرت سیِّدُنا عبدالرزاق بن ہَمَّام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر جاپہنچا۔ان سے کچھ دیر مکالمے کے بعد خلیفہ نے مجھے ان کے قرض کی ادائیگی کا حکم دیا اور وہاں سے باہر آکر کہا: ان کے پاس آنے سے بھی میرا مسئلہ حل نہیں ہوا، مجھے کسی اور بزرگ کی بارگاہ میں لے چلو۔
اب کی بار ہم حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر حاضر ہوئے، اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے اور قرآن پاک کی ایک آیت کی تکرار فرمارہے تھے۔میں نے دروازےپردستک دی اور استفسار پر بتایا کہ امیرالمؤمنین تشریف لائے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: مجھے امیرالمؤمنین سے کیا غرض ؟ میں نے کہا: سُبْحٰنَ اللہ! کیا آپ پران کی اطا عت واجب نہیں ہے؟ یہ سن کر آپ نے دروازہ کھولا ، پھر اوپر کے کمرے میں جاکر چراغ بجھا دیا اور کمرے کے ایک کونے میں جاکر چھپ گئے۔ہم اس کمرے میں داخل ہوئے اورآپ کو ڈھونڈنے لگے، اچانک خلیفہ کی ہتھیلی آپ کے جسم سے ٹکرائی تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ ہتھیلی کتنی نرم ونازک ہے ، اے کاش! یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےعذاب سے بچ جائے۔ یہ سن کر میں نے دل میں کہا : آج تو حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خلیفہ کوخوب وعظ ونصیحت فرمائیں گے۔
اس کے بعد خلیفہ ہارو نُ الرشید نے حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے! ہم آپ کی خدمت میں ایک مسئلہ لے کر حاضر ہوئے ہیں ۔آپ نےارشاد فرمایا: کس مسئلے کے حل کے لئے؟ آپ نے تو بہت بھاری بوجھ اُٹھا رکھا ہے جبکہ آپ کے تمام ہمراہیوں نے اپنا بوجھ بھی آپ پر لاد دیا ہے یہاں تک کہ اگر آپ اپنے مصاحبین سے اپنے ایک گناہ کا معمولی ٹکڑا اُٹھانے کی درخواست کریں تو وہ اتنا بھی نہ کریں گے اوران میں سے آپ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والا روزِ قیامت آپ سے سب سے زیادہ دور بھاگنے والا ہوگا۔
اس کے بعد حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: جب حضرت سیِّدُنا عمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز خلیفہ بنے توآپ نے حضرت سیِّدُناسالِم بن عبداللہ، حضرت سیِّدُنا محمدبن کعب قُرَظِی اورحضرت سیِّدُنارجاء بن حَیْوَہ رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کو اپنے پاس بُلاکر ارشاد فرمایا: مجھے خلافت کی ذمہ داری کی مصیبت میں مبتلا کیا گیا ہے لہٰذا آپ حضرات مجھے مشورہ دیں ۔اے امیر المؤمنین!حضرت سیِّدُناعمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے خلافت کو مصبیت سمجھا لیکن آپ اور آپ کے ساتھی اسے نعمت سمجھتے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا سالم بن عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مشورہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا: اگر آپ کل روزِ قیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عذاب سےنجات پانا چاہتے ہیں تو دنیا سے روزہ رکھیں اور موت کے آنے پر افطار کریں ۔ حضرت سیِّدُنا محمدبن کعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اگر آپ عذابِ آخرت سے نجات کے خواستگار ہیں تو مسلمانوں میں سے بوڑھے کو اپنے باپ کی طرح، درمیانی عمر والے کو بھائی جیسا جبکہ چھوٹوں کو اولاد کی مثل سمجھیں اور پھر اپنے باپ کے ساتھ اچھا سلوک، بھائی کے ساتھ صلہ رحمی اور اولاد کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کریں ۔ حضرت سیِّدُنا رجاء بن حَیْوَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اگرآپ قیامت کے دن عذابِ الٰہی سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر دیگر مسلمانوں کے لئے وہی پسند کریں جو اپنے لئے کرتے ہیں ، ان کے لئے اسی چیز کو ناپسند جانیں جسے اپنے لئے برا سمجھتے ہیں اور پھر جب چاہیں مرجائیں ۔
اس کے بعدحضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہارون الرشید سے فرمایا: میں بھی آپ کو یہی نصیحتیں کرتا ہوں اور روزِ قیامت جبکہ لوگوں کے قدم پھسل رہے ہوں گے مجھے آپ کے بارے میں شدید خوف لاحق ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ پر رحم فرمائے!کیا آپ کے ساتھ بھی ایسے افراد ہیں جو آپ کو اس طرح کی نصیحت کرتے ہوں ۔یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید اتنا رو ئے کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ میں نے کہا: خلیفہ پر کچھ نرمی فرمایئے۔میری یہ بات سن کر انہوں نے جواب دیا: اے ابن ربیع !تم نے اور تمہارے جیسے دیگر لوگوں نے خلیفہ کو برباد کردیا ہے اور میں ان پر نرمی کروں ۔
جب خلیفہ کوہوش آیا تو انہوں نے کہا: مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے۔حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اے امیر المؤمنین!مجھےیہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کے ایک گورنر نے بے خوابی کی شکایت کی تو آپ نے جوابی مکتوب میں تحریر فرمایا: اے میرے بھائی! دوزخیوں کے جہنم میں ہمیشہ بیدار رہنے اور ان کے جسموں کے باقی رہنے کو یاد کرو، ایسا کرنے سے تم نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف متوجہ رہوگے۔اس بات سے ہوشیار رہنا کہ کہیں تمہارے قدم پھسل نہ جائیں اور پھر اسی حالت پر تمہارا خاتمہ ہوجائے۔
جب اس گو رنر نے یہ خط پڑھا تو فوراً سفر کرکے حضرت سیِّدُنا عمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔آپ کے استفسار پر اس نے جواب دیا: آپ کے مکتوب نے میرا دل پارہ پارہ کر دیا ہے ، اب میں مرتے دم تک کوئی عہدہ قبول نہیں کروں گا۔ یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشیدپھرزورزورسے رونے لگے اورکہا: مزید نصیحت فرمائیے۔
حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےارشادفرمایا : اےامیرالمؤمنین!سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےچچاجان حضرت سیِّدُناعباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبارگاہِ رسالت میں حاضرہوکرعرض گزار ہوئے: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے کسی شہر کا حاکم بنا دیں ۔رحمَتِ عالَم، نُورِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اے عباس!کسی کی جان بچانا اس حکومت سے بہتر ہے جس کی ذمہ داریوں کو آپ پورا نہ کر سکیں ۔بے شک حکومت قیامت کے دن حسرت وندامت کا باعث ہے، اگر آپ سے ہوسکے تو کبھی بھی حاکم نہ بنیں۔ ([1]) یہ سن کرخلیفہ ہارونُ الرشیدپھرسے رونے لگے اورکہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے!مجھے مزید نصیحت فرمائیے ۔
حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : اے حسین وجمیل چہرے والے! اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن تم سے اس مخلوق کے بارے میں سوال فرمائے گا، اگر تم سے یہ ہوسکے کہ اس چہرے کو دوزخ کی آگ سے بچاؤتو ایسا ہی کرنا۔خبردار!اس حال میں صبح یا شام مت کرنا کہ تمہارے دل میں اپنی رعایا کے لئے دھوکا ہو کیونکہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے دل میں اپنی رعایا کے لئے دھوکا ہے تو وہ جنت کی خوشبوبھی نہ سونگھ سکے گا۔ ([2]) یہ باتیں سن کر خلیفہ ہارون الرشیدپر ایک بار پھر گریہ طاری ہوا، افاقہ ہونے پر انہوں نے پوچھا: کیاآپ پرکسی کاقرض ہے؟ حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےارشادفرمایا: مجھ پر میرےربّ عَزَّ وَجَلَّ کا قرض ہے جس کا وہ مجھ سے حساب لے گا۔ اگر اس نے مجھ سے تفصیلی حساب لیا تو میرے لئے ہلاکت ہے، اس بارے میں مجھ سے سوال کیا تو میرے لئے ہلاکت ہے اور اگر مجھے میری حجت نہ سکھائی تو میرے لئے ہلاکت ہے۔خلیفہ نے کہا : قرض سے میری مراد بندوں کا قرض ہے ۔حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : میرے رب عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس کا حکم نہیں دیابلکہ اس نے تو مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس کے وعدے کی تصدیق اور اس کے حکم کی پیروی کروں ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶) مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ (۵۷) اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ (۵۸) (پ۲۷، الذٰریٰت: ۵۶ تا ۵۸)
ترجمۂ کنزالایمان: اورمیں نےجِنّ اورآدمی اتنےہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں میں ان سے کچھ رزق نہیں مانگتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا دیں بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے۔
ہارونُ الرشیدنےایک ہزاردینارپیش کرتے ہوئے کہا: انہیں قبول فرماکر اپنے اہل وعیال پر خرچ کریں اوران کے ذریعے عبادت پر قوت حاصل کریں ۔ یہ سن کر حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشادفرمایا : سُبْحٰنَ اللہ! میں آپ کو نجات کا راستہ بتارہاہوں اور آپ مجھے اس کا یہ بدلہ دے رہے ہیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو اچھے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔اس کے بعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خاموش ہوگئے اور مزید
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع