30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
فرمایا: ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں ۔حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ اس دن مجھے حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مقام ومرتبے کا احساس ہوا۔
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار سے ارشادفرمایا: اے کعب!ہمیں ڈر والی کچھ باتیں سنائیں ۔آپ نے عرض کی: کیا آپ کے پاس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی کتاب اور اس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت موجود نہیں ؟ ارشاد فرمایا: اے کعب! ایسا ہی ہے لیکن پھر بھی آپ ہمیں خوف دلائیں ۔حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نےکہا: اے امیرالمؤمنین!عمل کیجئے!آپ قیامت کے دن اگرچہ ستر انبیائے کرام کے اعمال لے کر آئیں لیکن اس دن کی ہولناکیاں دیکھ کر اپنے عمل کو معمولی سمجھیں گے۔یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سر جھکالیا ، پھرکچھ دیر کے بعد سر اٹھاکر فرمایا: اے کعب! ہمیں خوف دلائیں ۔انہوں نے فرمایا: اے امیرالمؤمنین!اگر جہنم میں سے بیل کےنتھنے جتنا حصہ مشرق میں کھول دیا جائے تو مغرب میں موجود شخص کا دماغ اس کی گرمی کی وجہ سے اُبل کر بہہ جائے۔یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپناسرجھکالیا، جب کچھ افاقہ ہواتوفرمایا: اے کعب!مزید کچھ سنائیں ۔انہوں نے پھر عرض کی: اے امیرالمؤمنین!قیامت کےدن جہنم اس طرح بھڑکےگاکہ ہرایک مقرَّب فرشتہ اورنبئ مرسَل گھٹنوں کےبل گرکریہ کہےگا: اےمیرے رب! آج کے دن میں تجھ سے صرف اپنی جان کا سوال کرتا ہوں ۔
حضرت سیِّدُناشیخ ابوبکرطرطوشیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِیکابیان ہےکہ میں مصرکےحاکم افضل بن امیرالجیوش کےدربار میں گیااوراسےسلام کیاتواس نےاچھی طرح میرےسلام کاجواب دیا، میری خوب عزت افزائی کی اورمجھےاپنی مجلس میں بٹھالیا۔
میں نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بادشاہ!اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو ایک بلند و بالا مرتبہ اور عزت کا مقام عطا فرمایا ہے، آپ کو بادشاہت سے نوازا اور فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے نیز وہ اس بات پر راضی نہیں ہوا کہ کسی اور کا مقام آپ کے مقام سے بلند ہو اس لئے آپ بھی اس بات پر ہرگز راضی نہ ہوں کہ آپ سے بڑھ کر کوئی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکرادا کرنے والا ہو۔یاد رکھیے کہ شکر صرف زبان سے نہیں ہوتا بلکہ حقیقی شکر تو نیک اعمال اور احکامِ خداوندی کی بَجاآوری کا نام ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ- (پ۲۲، سبا: ۱۳)
ترجمۂ کنز الایمان: اے داود والو شکر کرو۔
اس بات کو جان لیجیے کہ آپ کو جو بادشاہت ملی ہے یہ آپ سے پچھلے بادشاہ کی موت کے سبب ملی ہے اور آپ کے مرنے پر یہ کسی اور کو مل جائے گی لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو جو اس اُمّت کا نگہبان بنایا ہے اس بارے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈریے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ سے دھاگے، تِل اور کھجور کی گٹھلی کے چھلکےکے بارے میں بھی سوال فرمائے گا۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ (۹۲) عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۹۳) (پ۱۴، الحجر: ۹۲، ۹۳)
ترجمۂ کنز الایمان: تو تمہارے رب کی قسم ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے جو کچھ وہ کرتے تھے۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:
وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ (۴۷) (پ۱۷، الانبیاء: ۴۷)
ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔
اے بادشاہ!جان لیجیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا سلیمان بن داود عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوری دنیا کی بادشاہت عطا فرمائی تھی، جن و انس، شیاطین، پرندوں ، درندوں اور وحشی جانوروں کو بھی ان کے لئے مسخرفرمادیا تھا اور ہوا کو ان کے قابو میں کردیا تھا کہ وہ جہاں چاہتے ہوا انہیں وہاں لے جاتی، اس کے ساتھ ساتھ ان سے ان تمام نعمتوں کا حساب کتاب بھی اُٹھالیا گیا تھا۔چنانچہ ان سے ارشاد فرمایا گیا:
هٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (۳۹) (پ۲۳، ص: ۳۹)
ترجمۂ کنزالایمان: یہ ہماری عطاہےاب توچاہےتواحسان کر یا روک رکھ تجھ پر کچھ حساب نہیں ۔
لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!حضرت سیِّدُنا سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے اس عظیم الشان بادشاہت کے ملنے کو نعمت یا عزت نہ سمجھا جیسا کہ آپ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس بات کا خوف کیا کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ڈھیل یا خفیہ تدبیر نہ ہو۔قرآنِ پاک میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ قول مذکور ہے:
هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ- (پ۱۹، النمل: ۴۰)
ترجمۂ کنز الایمان: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔
اپنےدروازےکو کُھلّارکھیے، فریادیوں کی رسائی کوآسان بنائیے، مظلوم کی مدداورمصیبت زدہ کی مددکیجئے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ مظلوم کی مدد کرنے میں آپ کی مدد فرمائے اور آپ کو مصیبت زدوں کی پناہ گاہ اور خوفزدوں کے لئے امان بنائے۔پھر میں نے مجلس کے اختتام پر کہا: میں نے مشرق و مغرب کے شہروں کا سفر کیا ہے لیکن کوئی ایسی مملکت نہیں دیکھی جس میں رہنامجھے آپ کے ملک میں رہنے سے زیادہ پسند ہے۔ پھر میں نے یہ شعر پڑھا:
وَالنَّاسُ اَكْيَسُ مِنْ اَنْ يَحْمِدُوْا رَجُلًا حَتّٰى يَرَوْا عِنْدَهٗ اٰثَارَ اِحْسَان
ترجمہ: لوگ اتنے عقل مند ہیں کہ اس وقت تک کسی کی تعریف نہیں کرتے جب تک اس میں بھلائی کے آثار نہ دیکھ لیں ۔
فضیل بن عیاض عَلَیْہِ الرَّحْمَہ کی خلیفہ کونصیحتیں :
فضل بن ربیع کابیان ہےکہ خلیفہ ہارون الرشید ایک سال حج کی ادائیگی کے لئے مَکۂ مکرمہ حاضر ہوئے۔ ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ کسی نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔پوچھنے پر جواب ملا کہ امیرالمؤمنین تشریف لائے ہیں ۔میں فوراً حاضرِخدمت ہو ااور عرض کی: آپ نے کیوں زحمت فرمائی، حکم فرماتے تو میں خود حاضرہوجاتا ۔خلیفہ نے کہا: میرے دل میں ایک بات کھٹک رہی ہے جسے کوئی عالِم ہی دور کرسکتا ہے، تم مجھے کسی ایسے بزرگ کے پاس لے چلو جن سے میں اس بارے میں سوال کرسکوں ۔میں خلیفہ کو ساتھ لے کرحضرت سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےگھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔اندرسےپوچھا گیا: کون ہے؟ میں نے کہا : امیرالمؤمنین تشریف لائے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فوراًباہرآئے اور کہا: امیرالمؤمنین! آپ مجھے طلب فرمالیتے۔خلیفہ نے کہا : ہم جس مقصد کےلئے آئے ہیں اس کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیے، پھرخلیفہ نے ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا اور کچھ دیران سے گفتگو کرتے رہے۔اس کے بعدخلیفہ نےان سے پوچھا: کیا آپ پر کسی کا قرض ہے؟ حضرت سیِّدُنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےجواب دیا: جی ہاں ! میں مقروض ہوں ۔خلیفہ نے مجھ سے فرمایا: اےابوالعباس ! ان کا قرض ادا کر دینا۔جب ہم وہاں سے باہر نکلے توخلیفہ نے کہا: ابھی میری تشفی نہیں ہوئی، مجھے کسی اور بزرگ کے پاس لے چلو۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع