30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پھراپنےبیٹےحضرت سیِّدُنامحمدبن حنفیہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکوبلاکرپوچھا: میں نےتمہارےدونوں بھائیوں کوجونصیحت کی کیاتم نےاسےسناہے؟ انہوں نےعرض کی: جی ہاں ۔فرمایا: میں تمہیں بھی ان باتوں کی وصیت کرتا ہوں ، اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ حسْنِ سلوک، ان کی تعظیم و توقیر اور ان کی فضیلت کی معرفت کو لازم پکڑلواوران دونوں کےبغیرکوئی کام نہ کرنا۔پھر حسنین کریمینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: میں تم دونوں کو اس کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے، تم جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے پیار کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے پیار کرو۔
اے میرےبیٹو!میں تمہیں خلوت و جلوت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے، خوشی اور ناراضی میں حق بات کہنے، مال داری و تنگدستی میں میانہ روی اختیار کرنے، دوست اور دشمن دونوں کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لینے، مستعدی اور سستی دونوں میں عمل کرنے اور تنگی وفراخی دونوں حالتوں میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی رہنے کی وصیت کرتا ہوں ۔
اے میرے بیٹو!جس تکلیف کے بعد جنت ملنے والی ہو وہ تکلیف نہیں ہے اور جس راحت کا انجام دوزخ پر ہو وہ راحت نہیں ہے، جنت کے مقابلے میں ہر نعمت حقیر ہے جبکہ دوزخ کی بنسبت ہر تکلیف عافیت ہے۔
اے میرے بیٹو!جو شخص اپنے عیبوں کو جان لیتا ہے وہ دوسروں کے عیوب سے بے نیاز ہوجاتا ہے، جو بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تقسیم پر راضی ہوجائے وہ نہ ملنے والی چیزوں پر غمزدہ نہیں ہوتا ، جو بغاوت کی تلوار کو بے نیام کرے وہ اسی سے قتل کیا جاتا ہے۔اپنے بھائی کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اس میں گرتا ہے، اپنے بھائی کی پردہ دری کرنے والے کے اپنے عیوب بے نقاب ہوجاتے ہیں ، جو اپنی خطاؤں کو بھول جائے وہ دوسرے کی غلطی کو بڑا سمجھتا ہے جبکہ اپنی رائے کو اچھا سمجھنے والاگمراہ ہوجاتا ہے۔جو شخص اپنی عقل کو کافی سمجھے وہ ٹھوکر کھاتا ہے، لوگوں کو حقیر جاننے والا ذلت اٹھاتا ہےجبکہ گھٹیالوگوں کے ساتھ رہنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔جو شخص برائی کے مقامات پر جائے اسے تہمت لگائی جاتی ہے، علما کے ساتھ بیٹھنے والے کو عزت حاصل ہوتی ہےاورہنسی مذاق کرنے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔جو اکثر کسی کام کو کرے اس کی پہچان اسی سے ہوتی ہے، زیادہ باتیں کرنے والے کی غلطیاں زیادہ اور شرم وحیا کم ہوجاتی ہے، جس میں حیا کی کمی ہو اس میں پرہیز گاری بھی کم ہوتی ہے، جس میں پرہیز گاری کم ہو اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کا دل مرجائے وہ داخِلِ جہنم ہوگا۔
اے میرے بیٹو!ادب مرد کے لئے ترازو ہے جبکہ حسنِ اخلاق بہترین رفیق ہے۔اے میرے بیٹو! خیرو عافیت کے دس حصے ہیں جن میں سے نو حصے ذکرِ خداوندی کے علاوہ خاموش رہنے میں ہیں جبکہ ایک حصہ بے وقوفوں کی صحبت کو ترک کردینے میں ہے۔
اے میرے بیٹو!فقر کی زینت صبر جبکہ مالداری کی زینت شکر ہے۔اے میرے بیٹو!اسلام سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ، تقویٰ سے بہتر کوئی سخاوت نہیں ، توبہ سے زیادہ کوئی شفاعت کرنے والانہیں اور کوئی لباس عافیت سے زیادہ خوبصورت نہیں ۔اے میرے بیٹو!لالچ مشقت کی چابی اور دکھ کی سواری ہے۔
خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا جب آخری وقت آیا تو اس نے اپنے پاس اہلِ خانہ کو روتا دیکھ کر کہا: ”ہشام نے تمہیں دنیا کا تحفہ دیا جبکہ تم اسے رونے کا تحفہ دے رہے ہو، اس نے اپنا جمع کردہ تمام مال تمہارے لئے چھوڑ دیا جبکہ تم اس کے لئے اپنے گناہوں کا بوجھ چھوڑ رہے ہو جو اسے اٹھانا پڑے گا۔اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہشام کی مغفرت نہ فرمائی تو اس کا کتنا بُرا انجام ہوگا۔“
حضرت سیِّدُنا امام اوزاعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ایک مرتبہ خلیفہ منصور سےفرمایا: اے امیرالمؤمنین! کیاآپ نہیں جانتے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دستِ مبارک میں ایک درخت کی خشک ٹہنی تھی جس سےآپ مسواک فرماتےاورمنافقین کوڈراتےتھے، حضرت سیِّدُناجبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نےبارگاہِ رسالت میں حاضرہوکرعرض کی: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ کےہاتھ میں جوٹہنی ہےاسےپھینک دیجئےاوران کے دلوں کومرعوب نہ فرمائیے۔ (جب انہیں اتنی سی بات سے منع کردیا گیا) تو بھلا اس شخص کا کیا حال ہوگا جو مسلمانوں کا خون بہائے اور ان کے مال کو لوٹ لے۔
اےامیرالمؤمنین!رحمَتِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جن کےطفیل ان کی اُمَّت کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے جب غیر ارادی طور پر ان سے ایک اعرابی کو خراش آگئی تو انہوں نے اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش فرمادیا۔
اے امیرالمؤمنین!اگر دوزخ کے پانی کا ایک ڈول دنیا میں انڈیل دیا جائے تو وہ پوری دنیا کو جلاکر رکھ دے تو بھلا اس کا کیا حال ہوگا جو اسےناگواری کے ساتھ پئے گا، دوزخ کا ایک کپڑا اگر زمین پر رکھ دیا جائے تو وہ اسے جلاکر رکھ دے تو اس کپڑے کو پہننے والے کا کیا بنے گا، جہنم کی زنجیروں کی ایک کڑی اگر پہاڑ پر رکھ دی جائے تو وہ پگھل جائے تو پھر اس شخص کا کیا حال ہوگا جسے اس زنجیر سے جکڑا جائے گا اور اس کا بقیہ حصہ اس کے کندھوں پر ڈال دیا جائے گا۔
حضرت سیِّدُنازیدبن اسلمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَماپنےوالدسےروایت کرتےہیں کہ انہوں نےمدینہ منورہ کے گورنرسےکہا: اس بات سےڈریئےکہ کل بروزِقیامت ایک ایساشخص جس کاکوئی عالی نسب نہ ہووہ آپ سےزیادہ رحمَتِ عالَم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےقریب ہوجائےجیساکہ فرعون کی بیوی حضرت سیِّدَتُناآسیہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَاحضرت سیِّدُناموسٰیکَلِیْمُاللہعَلَیْہِ السَّلَام سےقریب تھیں اورجیساکہ حضرت سیِّدُنا نوح اورحضرت سیِّدُنالوطعَلَیْہِمَا السَّلَامکی بیویاں فرعون کےقریب۔
حضرت سیِّدُناامام مالکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکابیان ہےکہ خلیفہ ابوجعفرمنصورنےمجھےاورحضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو بُلا بھیجا۔جب ہم اس کے دربار میں پہنچے تو وہ اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا، اس کے سامنے چمڑے کا فرش بچھا ہوا تھا اور جلاد ہاتھوں میں تلواریں پکڑے کچھ لوگوں کی گردنیں اڑا رہے تھے۔ابوجعفر نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے۔
ابوجعفر کافی دیر تک سرجھکا ئے خاموش بیٹھا رہا، پھر سر اُٹھا کر حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا: اپنے والد کی سند سے مجھے کوئی حدیث سنائیے۔انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا: قیامت کےدن سب سےسخت عذاب اس شخص کو ہوگاجسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ حکومت عطا فرمائے اور وہ فیصلہ کرنے میں ظلم سے کام لے۔ ([1]) یہ سن کر ابوجعفر کچھ دیر خاموش رہا یہاں تک کہ ہمارے اور اس کے درمیان ایک چٹائی بچھا دی گئی۔ حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ یہ دیکھ کر میں نے اس خوف سے اپنے کپڑے سمیٹ لئے کہ کہیں ان پر حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا خون نہ لگ جائے۔
پھر ابوجعفر نے کہا: اے ابن طاؤس!یہ دوات مجھے پکڑادیں ، لیکن حضرت ابنِ طاؤسرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایسا نہ کیا۔ابوجعفر نے پوچھا: کس چیز نے آپ کو ایسا کرنے سے روکا؟ ارشاد فرمایا: مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اس دوات کے ذریعے آپ کوئی گناہ کی بات لکھیں اور میں بھی اس میں آپ کا شریک ٹھہروں ۔ یہ سن کر ابوجعفر نے کہا: آپ دونوں یہاں سے چلے جائیے۔ حضرت ابنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع