30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کہا: مالک و مولیٰ!تو پاک ہے!کل ہم نے بھوکے پیٹ رات گزاری اور آج امیرِ شہر ہمارے دروازے پر کھڑا پانی مانگ رہا ہے۔پھر انہوں نے ایک نیا پیالہ لے کر اسے پانی سے بھرا اور پانی لے جانے والے سے کہا : ہماری طرف سے معذرت کرنا (کہ ہم آپ کی زیادہ خدمت نہ کرسکے) ۔امیر نے وہ پیالہ لے کر پانی پیاتو اسے بہت عمدہ پایا، اس نے پوچھا: کیا یہ کسی امیر شخص کا گھر ہے۔لوگوں نے جواب دیا: نہیں ، بخدا!یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ایک نیک بندے کا گھر ہے جو کہ حاتم اصم کے نام سے مشہور ہے۔امیر نے کہا: ان کا نام تو میں نے بھی سنا ہے۔اتنی دیر میں امیرِ شہر کا وزیر اور اس کے ساتھی بھی آگئے تو وزیر نے عرض کی: میرے آقا!میں نے سنا ہے کہ وہ کل حج کے لئے تشریف لے گئے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا اور مجھے یہ خبر بھی پہنچی ہے کہ اہْلِ خانہ نے کل بھوکے پیٹ رات گزاری ہے۔امیرِ شہر نے کہا: آج ہم بھی ان پر بوجھ بن بیٹھے ہیں اور یہ بات مروت کے خلاف ہے کہ ہم جیسے لوگ ان جیسوں پر بوجھ بن جائیں ۔اس کے بعد امیرِ شہر نے اپنی کمر کی پیٹی اتارکر حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے گھر میں پھینک دی اور اپنے ہمراہیوں سے کہا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ بھی اپنی پیٹی گھر میں پھینک دے، یہ سن کر اس کے تمام ساتھیوں نے اپنی اپنی پیٹیاں اتار کر گھر کے اندر پھینک دیں ۔پھر جب وہ واپس جانے لگے تو وزیر نے کہا: اے گھر والو!تم پر سلامتی ہو میں کچھ دیر میں ان پیٹیوں کی قیمت لے کر آؤں گا، جب امیر اپنے محل میں واپس پہنچ گیا تو وزیر واپس آیا اور پیٹیوں کی قیمت کے طور پر کثیر رقم دے کر پیٹیاں واپس لے لیں ۔حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی مدنی منی نے جب یہ معاملہ دیکھا تو زاروقطار رونے لگی۔گھر والوں نے اس سے کہا: یہ رونا کیسا؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہم پر وسعت وکشائش فرمادی ہے۔بچی نے جواب دیا: امی جان! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!میرے رونے کا سبب یہ ہے کہ کل ہم نے بھوکے پیٹ رات گزاری لیکن جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ایک بندے نے ہم پر نظر کی تو فقر وتنگدستی کے بعد ہمیں غنی کردیا تو پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ جو کہ کریم ہے جب وہ ہماری طرف نظرِ کرم فرمائے گا تو ہمیں پلک جھپکنے کی مقدار بھی کسی کے حوالے نہیں فرمائے گا۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے والد کی طرف نظرِ رحمت فرمااور ان کے لئے بہترین انتظام فرمادے۔
یہ تو گھر والوں کا حال تھا، ادھرحضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا حال یہ تھا کہ جب احرام باندھ کر سفر پر روانہ ہوئے تو قافلے کا امیر بیمار ہوگیا، لوگوں نے کسی طبیب کو تلاش کیا لیکن نہ ملا۔امیرِ قافلہ نے پوچھا : کیا قافلے میں کوئی نیک بندہ موجود ہے، لوگوں نےحضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا تذکرہ کیا۔جب آپ امِیرِ قافلہ کے پاس تشریف لائے ، اس سے گفتگو کی اور اس کے لئے دعا فرمائی تو وہ اسی وقت صحت یاب ہوگیا۔امیرِ قافلہ نے حکم دیا کہ حضرت سیِّدُنا حاتم اصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے کھانے پینے اور سواری کا انتظام اس کی طرف سے کیا جائے۔اس رات آپ اپنے اہل وعیال کی فکر میں سوئے تو خواب میں آپ سے کہا گیا: اے حاتم!جو ہمارے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرلیتا ہے ہم بھی اس کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرلیتے ہیں ، اس کے بعد آپ کو خبر دی گئی کہ کس طرح آپ کے اہْلِ خانہ مالا مال ہوچکے ہیں ، یہ سن کر آپ نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خوب حمد وثنا کی۔ جب آپ حج سے فارغ ہو کر واپس آئے اور اپنے بچوں سے ملے تو اپنی چھوٹی بچی کو گلے لگا کر روئے اور ارشاد فرمایا: ایک قوم کے چھوٹے دوسری قوم کے بڑے ہوتے ہیں ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ
تمہارے بڑوں کی طرف نہیں بلکہ تم میں سے زیادہ معرفت رکھنے والوں کی طرف نظر فرماتا ہے اس لئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی معرفت اور اس پر توکل کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔
عقل مندوں کا کہنا ہے : جسے اس بات کا یقین ہو کہ جو رزق اس کے مقدر میں لکھا ہے وہ اسے مل کر رہے گا تو وہ جلد راحت پالیتا ہے، جو اس بات کو جان لے کہ جو مصیبت اس کی قسمت میں لکھی ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا تو ایسا شخص گھبراہٹ اور پریشانی سے نجات پالیتا ہے، جو اس بات کو جان لے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لئے بندوں سے بہتر ہے اور اسی کی رضا کا ارادہ کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی فکروں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور اس کے معاملات کو درست فرمادیتا ہے۔
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا بیان ہے کہ میں ایک دن سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضرتھاکہ آپ نےارشادفرمایا: بیٹا!حقوقِ الٰہی کی حفاظت کرواللہ عَزَّ وَجَلَّتمہاری حفاظت فرمائے گا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکام کی پاسداری کروتم اسے اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم مانگو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مانگو اور جب مدد کی ضرورت ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سےمدد طلب کرو۔اس بات کا یقین رکھو کہ اگرسب لوگ اس پر متفق ہوجائیں کہ تم کو نفع پہنچادیں تو وہ تم کو کچھ نفع نہیں پہنچاسکتے مگر اسی قدر جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہےاور اگر سب لوگ اس پر متفق ہو جائیں کہ تمہیں کچھ نقصان پہنچا دیں تو ہر گز نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر اس چیز سے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہارے بارے میں لکھ دی۔صحائف اٹھائے جاچکے ہیں اور قلم خشک ہوچکے ہیں ۔ ([1])
خلیفہ بغداد مامون الرشید کو یہ خبر پہنچی کہ دمشق میں بنو امیہ کا ایک شخص ہے جو بہت زیادہ مال دار نیز کثیر سواریوں اور غلاموں کا مالک ہے اور آپ کی حکومت کو اس شخص سے خطرہ ہے، اس دن خلیفہ کوفہ میں تھا۔ مامون کے خادم منارہ کا بیان ہے کہ خلیفہ نے مجھے بلایا اور کہا: اسی وقت سو غلاموں کے ساتھ دمشق روانہ ہو جاؤ اور فلاں اموی شخص کو میرے پاس لاؤ۔دمشق کے عامل کے نام یہ میراخط ہے ، یہ صرف اسی صورت میں اس تک پہنچانا جب کہ وہ اموی شخص تمہارے ساتھ آنے سے انکار کردے، اگر وہ مان جائے تو اسے قید کر کے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔وہاں تم جو بھی چیز دیکھو اور اس کے ساتھ جو گفتگو ہو وہ سب یاد رکھنا اور اس کے تمام حالات مجھ سے بیان کرنا۔میں تمہیں دمشق جانے کے لئے چھ دن ، واپس آنے کے لئے چھ دن اور وہاں ٹھرنے کے لئے ایک دن کا وقت دیتا ہوں ۔کیا تم سمجھ گئے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں ۔ کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے برکت کے ساتھ سفر کرو۔
منارہ کا بیان ہے کہ مامون الرشید کے دربار سے نکل کر میں دن رات سفر کرتا ہوا دمشق کی طرف روانہ ہوا، اس دوران میں صرف نماز اور قضائے حاجت کے لئے سواری سے اترتا تھایہاں تک کہ ساتویں رات میں دمشق کے دروازے پر جاپہنچا۔جب شہر کا دروازہ کھولا گیا تو میں اس اموی شخص کے گھر کی طر ف روانہ ہوا، وہ ایک عظیم الشان گھر تھا جس میں ہر نعمت موجود تھی، خادمین ومتعلقین کی کثیر تعداد تھی، ہر قسم کا ساز وسامان موجود تھا اور وسیع وعریض چبوترے تھے جن پر ملازمین بیٹھے ہوئے تھے۔میں بغیر اجازت اچانک گھر میں داخل ہوا تو گھر میں موجود ملازمین پریشان ہوگئے، انہوں نے میرے بارے میں پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ امیرالمؤمنین کا نمائندہ ہے۔ جب میں گھر کے وسط میں پہنچا تو کچھ باوقار لوگوں کو بیٹھا ہوا دیکھ کر یہ گمان کیا کہ میرا مطلوب شخص انہیں میں سے ایک ہے، میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ غسل خانے میں موجود ہے۔ وہ لوگ میرے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئے اور مجھے بٹھایا جبکہ میرے ساتھ آنے والے لوگوں کو دوسرے کمرے میں لے جانے کا حکم دیا۔میں گھر کا جائزہ لینے لگا اور اس کے حالات میں غور کرنے لگا، کچھ ہی دیر میں وہ شخص غسل خانے سے آگیا، اس کے ساتھ ایک جماعت موجود تھی جس میں بوڑھے، جوان، اس کےپوتےنواسےاورملازمین شامل تھے، اس شخص نےمجھےسلام کیااورمجھ سےامیرالمؤمنین کی خیریت دریافت کی۔میں نے اسے بتایا کہ امیرالمؤمنین بخیروعافیت ہیں تو اس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کیا۔
اتنے میں اس کے سامنے پھلوں کے برتن لائے گئے تو اس نے کہا: اے منارہ!آؤ!ہمارے ساتھ کھاؤ۔ میں نے منع کیا تو اس نے مجھے دوبارہ کھانے کا نہیں کہا، میں اس بات میں غور کرنے لگا کہ اس نے مجھے میری
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع