سموال کی وفاداری اور بیٹے کی قربانی:
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Deen o Dunya Ki Anokhi Baatein (Jild 1) | دین و دنیا کی انوکھی باتیں (جلداول)

book_icon
دین و دنیا کی انوکھی باتیں (جلداول)

احمد یتیم کی وفاداری:        

          حاکم احمد بن طولون نے اپنے تالاب کے قریب ایک بچے کواوندھا پڑے دیکھاتو اُس نے اُسے اٹھاکر اپنی کفالت میں لے لیا اوراُس کا نام احمد رکھا اور یہ بچہ یتیم کے نام سے مشہورہوا۔جب یہ بچہ بڑا ہوا تو اس میں ذہانت وفطانت کے آثار نمودار ہوئے اور یہ خوش شکل وصورت ہوا۔ابن طولون نے اسے زیورعلم سے آراستہ کیا تو یہ تہذیب وتمدن سے مالا مال ہوا۔جب ابن طولون کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹے ابوالْجَیش خُمارَوَیہ کو اس کے متعلق وصیت کی۔ ابن طولون کے انتقال کے بعد امیرابو الجیش حاکم بنا تو اس نے احمد یتیم کو بلایا اور کہا: میں تمہیں اپنے ہاں عزت والا مقام دوں گا لیکن میری عادت ہے کہ میں جسے بھی کچھ کام سپرد کرتا ہوں اُس سے یہ عہد لیتا ہوں کہ وہ مجھ سے خیانت نہیں کرےگا۔احمد یتیم نے اُس سے وعدہ کرلیا۔اس کے بعد احمد امیرابو الجیش کے تمام خدام پر حاکم بن گیا۔ابو الجیش اس کے ساتھ احسان کرتا اور اس کی خیرخواہی کے سبب اس کی طرف راغب ہوتا اور گھریلو معاملات میں اس پر اعتماد کرتا۔ ایک دن ابو الجیش نے کہا: اے احمد! فلانی خادمہ کے کمرے میں جاؤاوروہاں میری نشت گاہ کے قریب ایک اونی نفیس جوڑا رکھا ہوا ہے اسے لے آؤ۔احمد اس کے کمرے کی طرف گیا تو دیکھا کہ وہاں ابو الجیش کی ایک گانے والی لونڈی ایک نوجوان کے ساتھ موجود ہے۔ان دونوں نے جب احمدیتیم کو دیکھا تو نوجوان وہاں سے نکل کھڑا ہوااور لونڈی احمد یتیم کے پاس آکر اسے پھسلانے لگی اور اپنی جانب مائل کرنے لگی۔احمد یتیم نے جب یہ دیکھا تو کہا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی پناہ!میں اپنے امیر کے ساتھ خیانت نہیں کرسکتا، وہ میرے محسن ہیں اور میں نے اُن سے عہد لیا ہے جسے میں توڑ نہیں سکتا۔یہ کہہ کر احمد نے وہاں سےاونی  جوڑا اٹھا یا اور جاکر امیر ابو الجیش کو دے دیا۔ لونڈی بہت ڈر گئی اور اُس نےموقع پاکرابو الجیش سے کہا: احمد یتیم مجھے اپنی جانب راغب کرتا ہے۔امیر ابوالجیش نے یہ سنا تو وہ انتہائی غیظ وغضب میں آگیااور اس نے اسی وقت احمد یتیم کے قتل کا ارادہ کیا۔چنانچہ اُس نے اپنے ایک خادم خاص کو جس پر وہ اعتماد کرتا تھا بلایا اور کہا: جب میں تمہاری طرف کسی شخص کو بھیجوں جس کے ہاتھ میں سونے کا طباق ہواور وہ تجھ سے آکر یہ کہے کہ اس طباق کو مشک سے بھر دو تو تم اس کو قتل کردینا اور اس کا سر کاٹ کر اسی طباق میں رکھ دینا اوراسے ڈھانپ دینا۔پھر ابوالجیش نے محفل جام منعقد کی اور قریبی احباب کو بلایا ۔احمد یتیم بھی وہاں آکر امیر ابوالجیش کے سامنے کھڑا ہوگیا اوراسے امیر کے خفیہ منصوبے  کی خبر نہ تھی۔امیر ابوالجیش نے اُس سے کہا: اے احمد!یہ سونے کا طباق لواور اسے فلاں خادم کو دے کر یہ کہو کہ اسے مشک سے بھر دو۔احمد نے وہ طباق لیا اورامیر کے حکم کی تعمیل کے لئے چل پڑا۔راستے میں اس کا گزر گانے والوں پر ہوا جہاں امیر کے کچھ قریبی ہم نشیں بیٹھے تھے۔ انہوں نےجب احمد یتیم کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کا کہا۔احمد یتیم نے کہا: امیر نے مجھےطباق میں مشک لانے کا کہاہے۔انہوں نے کہا: مشک لانے کا کسی اور کو کہہ دو اور جب وہ مشک لے آئے تو تم اسے امیر تک پہنچادینا۔احمد یتیم نے نگاہ دوڑائی تو اسے وہ نوجوان دکھائی دیا جو امیر کی لونڈی کے ساتھ موجود تھاتو احمد نے وہ طباق اس کے حوالے کیا اور اس سے کہا: اسے فلاں خادم کے پاس لے جاؤاور اس سے کہو کہ اسے مشک سے بھر دے۔ نوجوان وہ طباق لے کر اُس خادم کے پاس گیااور اسے کہا کہ اس طباق کو مشک سے بھر دو۔اُس خادم نے اُس نوجوان کوقتل کردیا اور اس کا سر کاٹ کر طباق میں رکھ دیا اور اسے ڈھانپ کرامیر کی طرف چل پڑا۔ جب احمد یتیم نے طباق دیکھا تو اُس خادم سے وہ طباق لے لیا ۔احمد یتیم کو چونکہ اصل حقیقت کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ وہ طباق لئے امیر کے پاس حاضر ہو گیا۔امیر نے جب طباق سے کپڑا ہٹایا تو احمد سے کہا: یہ کیا ہے؟ احمد یتیم نے امیر کو پورے واقعے کی خبر دی اور لونڈی اورنوجوان والا واقعہ بھی بتایااور کہا کہ مجھے اس کے علاوہ باقی کسی چیز کی خبر نہیں کہ اس نوجوان کو کیسے قتل کیا گیا۔امیر ابوالجیش نے اُس لونڈی کو بلایا اور اس سے کہا: سچ سچ بتا۔لونڈی نے غلطی کا اعتراف کرلیا تو امیر ابوالجیش نے اُس لونڈی کو احمد یتیم کے حوالے کر دیا اورکہا کہ اسے قتل کردے ۔احمد یتیم نے اسے قتل کردیا اور اس واقعے کے بعد احمد کی قدرومنزلت امیر ابو الجیش کے ہاں اوربڑھ گئی ([1]) ۔  

باب نمبر38:                                                                                   رازچھپانا ، اس کی حفاظت کرنا اور کسی کےراز

                             کو ظاہر کرنے کی مذمت

          اللہ عَزَّ  وَجَلَّقرآن پاک میں حضرت سیِّدُنایعقوب عَلَیْہِ السَّلَامکا قول ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ  (پ۱۲، یوسف: ۵)                                 ترجمۂ کنزالایمان: اےمیرےبچےاپناخواب اپنےبھائیوں سےنہ کہنا۔

          رازکےمتعلق ان دوآیتوں میں بھی شواہدموجودہیں :

(1)

فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ (۱۰)   (پ۲۷، نجم : ۱۰)                                                      ترجمۂ کنزالایمان: اب وحی فرمائی اپنےبندےکوجووحی فرمائی۔

(2)

وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ (۲۴)   (پ۳۰، التکویر: ۲۴)                                                    ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔

          یعنی وحی بیان کرنے میں کمی بیشی نہیں کرتے ۔

          حدیث پاک میں ہے : حاجتیں پوری کرنے کے لئے نعمتیں چھپاکر مدد چاہوکیونکہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے۔ ([2])

          امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمارشاد فرماتے ہیں : راز تمہارے پاس ہے جب تک تم اسے دوسرے کونہ  بتاؤ اور جب تم نے اسے دوسرے کو بتا دیا تو اب یہ راز  تمہارانہ رہا بلکہ یہ دوسرےکا ہوگیا۔

          جان لو!رازداروں کے امین مال داروں کے امین سے کم ہیں اور مال کی حفاظت کرنا راز کی حفاظت کرنے سے زیادہ آسان ہے۔راز کو اٹھائے رکھنا مال کو اٹھانے سے زیادہ بھاری ہےکہ آدمی بھاری بوجھ اٹھاکر تو چل سکتا ہے لیکن راز کو چھپا نہیں سکتا کیونکہ جب تک راز اُس کے دل میں ہوتا ہے اُسے ایک بے چینی اور کرب رہتا ہے اور جب وہ اس راز کودوسرےسے بیان کردیتا ہےتو اس کے دل کو راحت ملتی ہے اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اُس نے نفس سے بہت بڑے بوجھ کو اتاردیاہے۔

زبان راز کی کنجی ہے:

          امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمربن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزفرماتے ہیں : قلوب برتن ہیں ، زبان اس کے تالے ہیں اور زبانیں اس کی کنجیاں ہیں اور ہرانسان کو چاہئے کہ وہ اپنے  راز کی کنجی کی حفاظت کرے۔

 



[1]   اسلام میں اتنی سی بات پرکسی کوقتل کرنےکی اجازت نہیں ۔اللہعَزَّ  وَجَلَّقتل ناحق کی مذمت میں ارشادفرماتاہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا (۹۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کرقتل کرے تواس کابدلہ جہنم ہےکہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔ (پ۵،النساء:۹۳) حضورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:ایک مومن کاقتل کیاجانااللہ عَزَّ وَجَلَّکےنزدیک دُنیاکےتباہ ہوجانےسےزیادہ بڑا ہے۔ (نسائی ،کتاب تحریم الدم،باب تعظیم الدم ،ص۶۵۲،حدیث:۳۹۹۲)

[2]   معجم کبیر، ۲۰/ ۹۴، حدیث: ۱۸۳

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن