30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اسے دے دو اور میں نہیں سمجھتا کہ ان سے اس کے احسان کا بدلہ پورا ہوگیا ہو۔
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا حضرت سیِّدُناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس آئے تو آپ نے انہیں نوروز کے ہدایا میں سے بہت ساری عمدہ پوشاکیں ، مشک اور سونے چاندی کے ظروف دیئے اور اپنے دربان کے ساتھ ان چیزوں کو آپ کے پاس بھیجا۔دربان نے جب یہ چیزیں حضرت سیِّدُنا عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے پاس رکھیں تو انہوں نے دیکھا کہ دربان ان چیزوں کو دیکھ رہا ہے۔آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اُس سے کہا: کیا تمہارے دل میں ان چیزوں کی چاہت ہے؟ دربان نے کہا: ہاں بخدا!میرے دل میں ان چیزوں کی ایسی چاہت ہے جیسی حضرت سیِّدُنا یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے دل میں حضرت سیِّدُنایوسف عَلَیْہِ السَّلَامکی چاہت تھی۔یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مسکرا پڑے اور کہا: اسے لے لو یہ سب تمہارا ہوا۔دربان نے کہا: میری جان آپ پر قربان!مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر حضرت سیِّدُناامیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو یہ معلوم ہوا تو وہ مجھ سے ناراض ہوں گے۔حضرت سیِّدُناابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا: تم اس مال پر اپنی مہر لگاکر خزانچی کے پاس جمع کرادو، جب میرا یہاں سے نکلنے کا ارادہ ہوگا تو میں یہ مال رات کو تمہارے پاس بھجوادوں گا۔دربان نے کہا: بخدا!سخاوت کے لئے یہ حیلہ تو سخاوت سے بھی بڑھ کر ہے۔
ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: اےمحمدِ مصطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےچچازاد!رات میرےیہاں بچےکی ولادت ہوئی ہےاورمیں نےآپ سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام آپ کے نام پر رکھا ہے مگر اس بچے کی ماں فوت ہوگئی ہے۔حضرت سیِّدُناابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانےفرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہارے اس تحفے (یعنی بیٹے) میں تمہیں برکت عطا فرمائے اور تمہاری مصیبت (یعنی بیوی کی موت) پرتمہیں اجر عطا فرمائے، پھر اپنے وکیل کو بُلاکرفرمایا: اسی وقت جاکربچےکےلئےایک لونڈی خریدوجواس کی پرورش کرے اور بچے کے باپ کو200دینار دے دو تاکہ انہیں بچے کی تربیت پر خرچ کرسکے۔اس کے بعدآپ نےانصاری سےفرمایا: چنددنوں کےبعددوبارہ ہمارےپاس آناکیونکہ فی الحال ہماری حالت تنگ اورمال میں کمی ہے۔انصاری نے عرض کی: میں آپ پر قربان ہوجاؤں !اگر آپ حاتم طائی سے ایک دن بھی پہلے ہوتے تو عرب اس کا تذکرہ نہ کرتے۔
معن بن زائدہ جن دنوں عراق پر حاکم ہونے کی وجہ سے بصرہ میں تھا تو اس کے دروازے پر ایک شاعر آیا وہ معن بن زائدہ کے پاس جانے کے لیے ایک عرصہ تک وہاں مقیم رہا لیکن اسے کامیابی نہ ہوسکی، ایک دن اس نے معن بن زائدہ کے خادم سے کہا: جب امیر باغ میں داخل ہو تو مجھے بتادینا جب امیر باغ میں داخل ہوا تو خادم نے اسے اطلاع دے دی۔ شاعر نے لکڑی پرایک شعر لکھا اور باغ میں داخل ہونے والے پانی میں ڈال دیا، امیرمعن بن زائدہ پانی کے کنارے ہیبیٹھا تھا جب لکڑی کودیکھا تواٹھا کر اس پر لکھی تحریر پڑھنے لگاکہ ’’ اے معن کی سخاوت تو ہی اس سے میری حاجت کہہ دے، معن کے پاس تیرے سوا میرا کوئی سفارشی نہیں ۔“ معن بن زائدہ نے پوچھا یہ کس نے لکھا ہے؟ چنانچہ اس شخص کو بُلایاگیااوراس سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ شعر کیوں کہا؟ اس نے وجہ بتائی تو امیرنے اسے10ہزار درہم کی دس تھیلیاں دینے کا حکم دیا اس نے وہ تھلیاں لے لیں اورامیر نے لکڑی اپنے بچھونے کے نیچے رکھ لی۔ جب دوسرا دن آیاتو اس نے اسے بچھونے کے نیچے سے نکال کر پڑھا اور اس شاعر کو بلاکر اسے ایک لاکھ درہم دیئے اس نے لے لئےلیکن سوچنے لگا کہ کہیں امیراس سے یہ درہم واپس نہ لے لے یہ سوچ کر وہ وہاں سےکہیں چلا گیا جب تیسرا دن ہوا تو امیر معن بن زائدہ نے پھر وہ شعر پڑھا اور اس شاعر کو بلایا اسے ڈھونڈا گیا لیکن وہ نہ ملا۔ معن بن زائدہ نے کہا : مجھ پر لازم ہے کہ میں اسے اتنا دوں کہ میرے گھر میں ایک درہم اور ایک دینار بھی باقی نہ رہے۔
ابویَقْظان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ یزید بن مُہَلَّب نے جب حج کیا تو سر منڈانے کے لئے کسی حَجّام کو طلب کیا۔ایک حجام کو لایا گیا جس نےاس کا سر مونڈا تواس نے اسے پانچ ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔یہ سن کر حجام ہکا بکا رہ گیا اور کہنےلگا: یہ پانچ ہزار لے کر میں اپنی بیوی کے پاس جاکر اسے بتاؤں گا کہ میں غنی ہوگیا ہوں ۔یزید نے کہا: اسےپانچ ہزار درہم مزید دے دو۔حجام نے کہا: اگر میں آپ کے بعد کسی اور کی حجامت کروں تو میری بیوی کو طلاق ہے ([1]) ۔
منقول ہے کہ یزید بن مُہَلَّب پر لازم ہونے والے ایک لاکھ درہم خراج (ٹیکس) کی وجہ سے حجاج بن یوسف نے اسے قید کروادیا۔یزید جیل خانے میں تھا کہ اتنی رقم جمع ہوگئی۔ فرزدق شاعر اس سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور داروغہ سے کہا کہ میرے لئے ان سے اجازت طلب کرو۔داروغہ نے جواب دیا: وہ ایسی جگہ موجود ہیں جہاں ان سے ملاقات ممکن نہیں ہے۔فرزدق نے کہا: میں ان کی تکلیف پر افسوس کا اظہار کرنے آیا ہوں نہ کہ ان کی تعریف کرنے۔داروغہ نےیزید سے اجازت لے لی، جب فرزدق نے یزید کو دیکھا تو یہ اشعار کہے:
اَبَا خَالِدٍ ضَاقَتْ خُرَاسَانَ بَعْدَكُمْ وَقَالَ ذَوُو الْحَاجَاتِ اَيْنَ يَزِيْدُ
فَمَا قَطَرَتْ بِالشَّرْقِ بَعْدَكَ قَطْرَةٌ وَلَا اخْضَرَّ بِالْمَرْوِيْنَ بَعْدَكَ عُوْدُ
وَمَا لِسُرُوْرٍ بَعْدَ عِزِّكَ بَهْجَةٌ وَمَا لِجَوَادٍ بَعْدَ جُوْدِكَ جُوْدُ
ترجمہ: (ا) …اےابوخالد!آپ کے بعد خراسان تنگ ہوگیا ہے اور حاجت مند لوگ پوچھتے ہیں کہ یزید کہاں ہیں ؟ (۲) …تمہارے بعد مشرق میں ایک قطرہ بھی نہیں برسا اور نہ ہی آپ کے بعد مروین کے کسی درخت میں سبزہ اگاہے۔ (۳) …تمہاری غیرموجودگی میں کسی خوشی میں مزہ نہیں اور نہ ہی تمہاری سخاوت کے بعد کسی کی سخاوت ہے ۔
یزید بن مہلب نے داروغہ سے کہا: میرے جو ایک لاکھ درہم جمع ہوئے ہیں وہ اسے دے دو اور حجاج میرے ساتھ جو کرنا چاہتا ہے اسے کرنے دو۔داروغہ نے فرزدق سے کہا: اسی بات کے خوف سے میں نے تمہیں ان سے ملاقات کرنے سے منع کیا تھا، پھر داروغہ نے وہ ایک لاکھ درہم اسے دیئے اور وہ انہیں لے کر واپس چلا گیا۔
یزیدبن مہلب حضرت سیِّدُناعُمَربن عبْدُالعزیزرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی جیل سےنکل کر ایک اعرابی بڑھیا کے پاس سے گزرا تو اس نے اس کے لئے ایک بکری ذبح کی۔یزید نے اپنے بیٹے سے کہا: تمہارے پاس کتنی رقم ہے؟ اس نے جواب دیا: ایک سو دینار۔کہا: وہ سب اسے دے دو۔بیٹے نےکہا : اس بڑھیا کو تو تھوڑی سی رقم بھی راضی کردے گی اور یہ آپ کو جانتی بھی نہیں ہے۔کہا : اگرچہ اسے تھوڑی رقم بھی راضی کردے گی لیکن میں اسے کثیر رقم دیئے بغیر راضی نہیں ہوں گا اور اگرچہ یہ مجھے نہیں جانتی لیکن میں تو اپنے آپ کو جانتا ہوں ۔
مروان بن ابوحبوب شاعر نے کہا: ایک مرتبہ متوکل نے مجھےایک لاکھ 20 ہزار درہم، 50جوڑے اور کثیر سواریاں دیں ، میں نے اس کے شکرانے میں کچھ اشعار کہے پھر جب میں اس بات پر پہنچا کہ ’’ اب بس
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع