30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حساب کرتے ہوئے فرمائے: یا عبدی (یعنی اے میرے بندے) ! اور میں اس کے جواب میں لَبَّیْک کہوں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مجھےاپنا بندہ کہنا میرے نزدیک دنیا اور اس میں موجود تمام اشیا سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس کے بعد وہ میرے ساتھ جو چاہے سلوک فرمائے۔
ایک شخص نے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کی بدولت مجھے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا قرب حاصل ہو جائے۔ ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ولیوں سے محبت کرو تاکہ وہ بھی تم سے محبت کریں کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے اولیا کے دلوں پر نظر فرماتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے کسی ولی کے دل پر تمہارا نام دیکھے تو تمہاری مغفرت فرمادے۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے محبت کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا: محبت یہ ہے کہ اپنی طرف سے زیادہ کو بھی تھوڑا سمجھا جائے جبکہ محبوب کی جانب سے قلیل کو بھی کثیر جانا جائے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۲۶۱ھ میں وصال فرمایا۔
سیِّدُناابو القاسم جنید بغدادی عَلَیْہِ الرَّحمَہ:
گروہِ اولیا کے سردار حضرت سیِّدُنا ابوالقاسم جنید بغدادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِیاپنے زمانے کے عظیم بزرگ اور نادر ویگانہ شخصیت تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے آباء واجداد نہاوند سے تھے جبکہ آپ کی ولادت و پرورش بغداد میں ہوئی۔اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی ایک جماعت کی صحبت سے فیض یاب ہوئے، اپنےماموں حضرت سیِّدُنا سری سقطی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِینیز حضرت سیِّدُنا حارث محاسبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی کے فیضانِ صحبت سے بھی مستفید ہوئے ۔حضرت سیِّدُنا ابوثور رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عِلمِ فقہ حاصل کیا اور 20سال کی عمر میں ان کی مجلس میں ان کی موجود گی میں فتویٰ دینے لگے۔
سیِّدُناجنید بغدادی عَلَیْہِ الرَّحمَہکے ملفوظات:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بندے کو چھوڑدینے کی نشانی یہ ہے کہ اسے بے فائدہ چیزوں میں مشغول کردے۔ادب کی دو اقسام ہیں : پوشیدہ ادب اوراعلانیہ ادب، پوشیدہ ادب دلوں کی طہارت ہے جبکہ اعلانیہ ادب اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچانا ہے۔
ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر کسی نے عرض کی کہ آپ اس قدر فضیلت وبزرگی کے باوجود اپنے ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ایک ایسا سبب جس کے باعث ہمیں ایک مقام حاصل ہوا ہم اس سبب کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
حضرت سیِّدُنا حسن بن محمد سراج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کو فرماتے سنا: میں نے شیطان کو خواب میں برہنہ دیکھاتو کہا: کیا تمہیں انسانوں سے شرم نہیں آتی؟ اس نے کہا: کیا یہ لوگ آپ کے نزدیک انسان ہیں ؟ اگر یہ انسان ہوتے تو میں ان کے ساتھ اس طرح نہ کھیلتا جیسے بچے گیند کےساتھ کھیلتے ہیں ، میرے نزدیک تو صرف تین افراد انسان ہیں ۔میں نے پوچھا: وہ کون؟ شیطان نے جواب دیا: وہ مسجدِ شونیزیہ میں موجود ہیں ، انہوں نے میرے دل کو بیمار جبکہ جسم کو کمزور کردیا ہے۔جب بھی میں انہیں بہکانے کا ارادہ کرتا ہوں تو وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور میں جلنے لگتا ہوں ۔
حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کا بیان ہے کہ میں نیند سے بیدار ہوا، لباس پہنا اور راتوں رات مسجدِ شونیزیہ پہنچ گیا۔جب میں وہاں پہنچا تو ان تین میں سے ایک نے اپنا سر باہر نکالا اور کہا: اے ابوالقاسم!تم سے جو بھی بات کہی جاتی ہے تم اس پر بھروسا کرلیتے ہو؟
منقول ہے کہ مسجدِ شونیزیہ میں موجود وہ تین افراد حضرت سیِّدُنا ابوحمزہ، حضرت سیِّدُنا ابوالحسن ثوری اور حضرت سیِّدُنا ابوبکر دقاق رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی تھے۔
حضرت سیِّدُنا محمد بن قاسم فارسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی کا بیا ن ہے کہ حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی نے عید کی رات جنگل میں اس مقام پر گزاری جہاں آپ کا رات گزارنے کا معمول تھا۔جب سحر کا وقت ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جبے میں لپٹے ہوئے ایک نوجوان کو ملاحظہ فرمایا جو روتے ہوئے اشعار پڑھ رہا تھا (جن میں ایک شعر یہ تھا) :
سُرُوْرُ الْعِيْدِ قَدْ عَمَّ النَّوَاحِي وَحُزْنِي فِي اِزْدِيَادِ لَا يَبِيْد
ترجمہ: ہر طرف عید کی خوشی منائی جارہی ہے لیکن میرا غم ختم نہیں ہورہا بلکہ بڑھتا جارہا ہے۔
حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کا انتقال۲۹۷ھ بغداد میں ہوا اورتقریباً60ہزار افراد نے آپ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
سیِّدُنا ابوبکر بن عمر مالکی عَلَیْہِ الرَّحمَہ:
(مؤلف کہتے ہیں : ) میں جن بزرگانِ دین کی صحبت میں رہا، ان کے قُرب سے نفع اٹھایا اور ان کی برکت سے مجھے خیر وبھلائی حاصل ہوئی ان میں سے ایک عالمِ باعمل، ابوالمعالی ابوالصداق حضرت سیِّدُنا ابوبکر بن عمر طرینی مالکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیہیں ۔آپ زہد وتقوی میں اپنے زمانے کی بے مثال شخصیت اور گمراہوں کا قلع قمع فرمانے والے تھے۔عرب وعجم کے لوگوں نے آپ کے حکم کی اطاعت کی اور مشرق ومغرب میں آپ کا ذکرِ خیر عام ہوگیا، بادشاہ آپ کے دولتِ خانے پر حاضر ہوکر خوشہ چینوں کی فہرست میں شامل ہوا کرتے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں کوئی مصیبت زدہ حاضری دیتا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی پریشانی کو دور فرمادیتا جبکہ حاجت مندوں کی حاجت روائی ہوتی تھی۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نوافل کی پابندی کرتے اور فرائض وواجبات کو لازم پکڑتے تھے، اکثر آپ کا کھانا زمین پر اُگنے والی مباح گھاس پھونس ہوتی تھی، اپنے نفس کو دنیا کے لذیذ کھانے پینے سے مستفید ہونے کا موقع نہ دیتے تھے۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے نفس پر غضب ناک ہوئے تو کئی مہینے تک نفس کو سزاد ینے کے لئے پانی نوش نہ فرمایا۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے ہم نشینوں پر بہت زیادہ شفقت و مہربانی فرماتے جبکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تمام مخلوق کی خیر خواہی فرمانے والے تھے چاہے وہ آپ کے احباب میں سے ہوں یا دشمنوں میں سے ۔بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا توانتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ اس سے ملاقات فرماتےاور جب وہاں سے نکلتا تو آپ اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوتے۔
حلم وبردباری اور پردہ پوشی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا شیوہ تھا، نہ تو کسی مسلمان کی پردہ دری فرماتے اور نہ ہی اُسے ذلیل ورسوا کرتے، کوئی آپ سے مشورہ طلب کرتا تو بھلائی کی طرف اس کی رہنمائی فرماتے۔
میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی صحبتِ بابرکت سے 15سال تک مستفیض ہوا اور یہ میری زندگی کے بہترین سال تھے۔اس عرصے میں آپ نے ایک دن کے لئے بھی اپنے فیوض وبرکات کو مجھ سے منقطع نہ فرمایا
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع