30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سیِّدُنا معروف کرخی عَلَیْہِ الرَّحمَہکے ارشادات:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ جب کسی بندے کے ساتھ خیروبھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لئے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے اور سستی وکاہلی کا دروازہ بند کردیتا ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرماتے تھے: اے مسکین!تو کب تک روتا دھوتا رہے گا، اخلاص اختیار کر نجات پاجائے گا۔
حضرت سیِّدُنا سری سقطی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُنا معروف کرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے سوال کیا: ”اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اطاعت گزار بندےکس سبب سے اس کی اطاعت وفرمانبرداری پر قادر ہوتے ہیں ؟ “ارشاد فرمایا: ”ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل جانے کے باعث وہ اس پر قدرت پاتے ہیں ، اگر ان کے دلوں میں دنیا کی محبت ہوتی تو وہ ایک سجدہ بھی صحیح طرح نہ کرپاتے۔“
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اشعار میں سے ایک شعر درج ذیل ہے:
اَلْمَاءُ يَغْسِلُ مَا بِالثَّوْبِ مِنْ دَرِنٍ وَلَيْسَ يَغْسِلُ قَلْبَ الْمُذْنِبِ الْمَاءُ
ترجمہ: پانی کپڑے کا میل کچیل دھودیتا ہے، لیکن گناہ گار کے دل کو پانی صاف نہیں کرتا۔
حضرت سیِّدُناابراہیم اَطْرُوشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکابیان ہےکہ حضرت سیِّدُنامعروف کرخیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیایک دن بغدادشریف میں دریائےدجلہ کےکنارےتشریف فرماتھےکہ ایک کشتی میں سوارچندنوجوان ہمارے پاس سےگزرےجوگانے بجانےاورشراب نوشی میں مصرو ف تھے۔آپ کےساتھ والوں نےعرض کی: کیا آپ نہیں دیکھتےکہ یہ لوگ پانی پراللہ عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی میں مشغول ہیں ، ان کے لئے بددعا فرمائیے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےآسمان کی طرف ہاتھ بلندفرمائےاور بارگاہِ خداوندی میں عرض گزار ہوئے: ’’ اے میرے مالک ومولی!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح تو نے انہیں دنیا میں خوش رکھا ہے اسی طرح انہیں آخرت میں بھی خوش وخرم رکھنا۔“ساتھیوں نے عرض کی: ہم نے تو آپ سے ان کے لئے بددعا کرنے کی گزارش کی تھی نہ کہ دعا کرنے کی۔ارشاد فرمایا: ”اللہ عَزَّ وَجَلَّاگر انہیں آخرت میں خوش رکھنا چاہے گا تو دنیا میں توبہ کی توفیق مرحمت فرمائے گا اور اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔“
رہوں مست وبے خود میں تیری وِلا میں :
حضرت سیِّدُنا سری سقطی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُنا معروف کرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو خواب میں دیکھا گویا کہ آپ عرش کے نیچے موجود ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے: یہ کون ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!تو بہتر جانتا ہے۔اللہعَزَّ وَجَلَّارشاد فرماتا ہے: یہ معروف کرخی ہے جو میری محبت (کے نشے) میں مدہوش ہے، اسے صرف میری ملاقات سے ہی افاقہ ہوگا۔
مرنے کے بعد میری قمیض صدقہ کردینا:
مرضِ وفات میں آپ سے کسی نے کہا کہ کوئی وصیت فرمائیے تو ارشاد فرمایا: ”جب میں مرجاؤں تو میری یہ قمیض صدقہ کردینا۔میں چاہتا ہوں کہ جس طرح بغیر لباس کے دنیا میں آیا تھا اسی طرح دنیا سے رخصت ہوجاؤں ۔ “
حضرت سیِّدُنا ابوبکر خَیّاط رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے: میں نے خواب دیکھا کہ میں قبرستان میں داخل ہوا توقبرستان کے مردے اپنی قبروں پر بیٹھے ہوئے ہیں ، ان کے سامنے پھول موجود ہیں اورحضرت سیِّدُنا معروف کرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیان کے درمیان یہاں وہاں آجا رہے ہیں ۔میں نے عرض کیا: اے ابومحفوظ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ کیا آپ وفات نہیں پاچکے؟ ارشاد فرمایا: بے شک (میں وفات پاچکا ہوں ) پھر یہ شعر پڑھا:
مَوْتُ التَّقِيِّ حَيَاةٌ لَا نَفَادَ لَهَا قَدْ مَاتَ قَوْمٌ وَهُمْ فِي النَّاسِ اَحْيَاء
ترجمہ: متقی شخص کی موت اصل میں زندگی ہوتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، کچھ لوگ ایسے ہیں جو اگرچہ مرچکے ہیں لیکن لوگوں کے درمیان زندہ ہیں ۔
سیِّدُنا قاسم بن عثمان کرخیعَلَیْہِ الرَّحمَہ:
حضرت سیِّدُنا ابوعبدالملک قاسم بن عثمان کرخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اکابر مشائخ میں سے ایک ہیں ۔آپ حضرت سیِّدُنا ابوسلیمان دارنی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی اور دیگر بزرگوں کے صحبت یافتہ ، حضرت سیِّدُنا سری سقطی اورحضرت سیِّدُنا حارث محاسبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کے ہم عصر ہیں جبکہ حضرت سیِّدُنا ابوتراب نخشبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیجیسے عظیم بزرگ بھی آپ کی صحبت سے فیض پایا کرتے تھے۔
سیِّدُناقاسم کرخی عَلَیْہِ الرَّحمَہکے ملفوظات:
جو اپنی بقیہ زندگی میں نیک عمل کرنے پر کمر بستہ ہوجائے اس کے گزشتہ اور آئندہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور جو اپنی آئندہ زندگی میں نافرمانیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اس کے گزشتہ اور آئندہ گناہوں کا محاسبہ کیا جائے گا۔سلامتی تمام کی تمام لوگوں سے کنارہ کشی میں جبکہ خوشی ومسرت پوری کی پوری اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ خلوت اختیار کرنے میں ہے۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے توبہ کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا: حق والوں کے حقوق واپس کرنے، گناہوں کو چھوڑدینے، رزقِ حلال طلب کرنے اور فرائض کی ادائیگی کا نام توبہ ہے۔
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاپنےاصحاب سےارشادفرمایاکہ میں تمہیں پانچ باتوں کی نصیحت کرتاہوں : (۱) …اگرتم پر ظلم کیاجائےتوجواباً تم ظلم نہ کرو (۲) …اگر تمہاری تعریف کی جائی تو خوش نہ ہو (۳) …مذمت کی جائے تو غم نہ کرو (۴) …اگر تم سے جھوٹ بولا جائے تو غصے میں مت آؤ (۵) … اور اگر کوئی تمہیں دھوکا دے تو تم دھوکا مت دو۔
حضرت سیِّدُنا محمد بن فرج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُنا قاسم بن عثمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کو ارشاد فرماتے سنا: اللہ عَزَّ وَجَلَّکے کچھ بندے ایسے ہیں جو اپنی پوری ہمت صرف کرکے اس کا قرب پانے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کی طاعت وبندگی بجالاتے ، صرف اسی پر بھروساکرتے اور ان کے دلوں پر جو بھی دنیوی خیالات گزرتے ہیں اس کے بدلے صرف اس کی یاد پر راضی ہوجاتے ہیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا ان کا کوئی محبوب نہیں اور اس کا قرب دلانے والے اعمال کے علاوہ کوئی چیز ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں ہے۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایا کرتے تھے کہ معرفت کے ساتھ تھوڑا عمل بغیر معرفت کثیر عمل سے بہتر ہے۔ پھر فرماتے: معرفت حاصل کرو اور سر رکھ کر سوجاؤ کیونکہ مخلوق نے معرفت سے افضل کسی چیز سے اللہ عَزَّ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع