30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
وضو کرتے ہیں اور وہ منع نہیں کرتا یا سقا یہ قدیم ہے اور ہمیشہ یوں ہی ہوتا چلا آیا ہے یا پا نی اس درجہ کثیر ہے جس سے ظاہِر ہے کہ صرف پینے کو نہیں مگر جبکہ ثابت ہو کہ اگر چِہ کثیر ہے صرف پینے ہی کی اجازت دی ہے فَاِنَّ الصَّرِیْحَ یَفُوْقُ الدَّلَالَۃَ (یعنی صراحت کو دلالت پر فوقیت حاصل ہے )اور شخصِ خاص کے لئے یوں کہ اس میں اور مالکِ آب میں کمالِ اِنبساط واِتحاد ہے یہ اس کے ایسے مال میں جیسا چا ہے تصرُّف کرے ، اُسے ناگوار نہیں ہوتا ۔ ‘‘( فتاوٰی رَضَویّہ مُخرَّجہ ج۲ص۴۸۱ مرکزالاولیاء لاہور)
اسی کی مثل چند مسائلِ فِقْہِیَّہ ذکرکرنے کے بعدجلد2 صَفْحَہ 489پر فرماتے ہیں : ’’خلاصہ یہ ہے کہ اصل دارومدار عرف پر ہے ‘‘ ۔
بَہَرحال اِجازت کی جو صُورت بھی ہو اس کے مطابق ہی پانی اِسْتِعمال کرسکتے ہیں یعنی جس کام کے لئے ، جتنے اِسْتِعمال کی اجازت ہو، اسی قَدر اسی کام میں صَرف کیاجاسکتاہے جیسے پانی پینے کے لئے ہے تو کپڑا وغیرہ نہیں دھوسکتے یا کسی بڑے برتن یاواٹرکولر وغیرہ میں بھر کر دوسری جگہ نہیں لیجا سکتے ۔ اِسی طرح اِسْتِعمال عُرف و عادت سے ہٹ کر ہوتو بھی مالِک سے اِجازت لئے بِغیر اِسْتِعمال نہیں کر سکتے ۔ پھریہ اِجازت ہوٹل کے مالِک سے یا اس کے قائم مقام سے لی جائے ۔ صِرف ’’بَیرے ‘‘ یعنی ہوٹل کے ملازِم کی اِجازت بھی کافی نہیں ۔
مالِک کی اجازت کے بِغیرپتّھراُٹھانے کاحکم
سُوال : کیاہم اَمیرُالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُناصدِّیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ادا کو اپنانے کے لئے سڑک پر پڑے ہوئے پتّھروں کے ڈھیر میں سے گول پتّھر چُن سکتے ہیں ؟ ([1])
جواب : اس اَدا کو اپنانا اگرچِہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ اَمیرُالْمؤمنین حضرتِ سیِّدُناصدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ غیر ضَروری گفتگو سے بچنے کے لئے اپنے مبارَک مُنہ میں پتّھر لئے رہتے تھے ۔ (کِیمِیَائے سَعادَت ج۲ص۵۶۳ انتشارات گنجینہ تہران)
سڑک پر پڑے ہوئے پتھر اٹھانے کی مختلف صورتیں ہیں : مَثَلاً(۱) اگر کسی جگہ اِستِعمال میں آنے والے قیمتی پتھروں کا ڈھیر ہو وہاں سے اُٹھانا منع ہے کہ تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھر کسی جگہ جمع شدہ رکھے ہوں ان میں سے لینا کسی کی ملکیت میں ناجائز تَصرُّف ہے ۔ (۲) اگر پتھر قیمتی نہ ہوں یعنی ایسے نہ ہو ں جو بکتے ہوں ، عام راستے پر پڑے ہوں ان کو اٹھانے میں حرج نہیں کہ وہ کسی کی ملکیت میں نہیں ۔ (۳) یونہی تعمیراتی کم قیمت پتھروں میں سے کوئی ایک آدھ پتھر عام راستے پر پڑا ہوا نظر آئے تو اسے اٹھانے میں بھی حرج نہیں کہ معمولی بے قیمت سی چیز ہے ، مالک کی طرف سے ایسی معمولی سی بے قیمت چیزیں اگر کہیں پڑی ہوں تو دَلالۃً اِباحت ہوتی ہے جو چاہے اِستِعمال کرلے ۔ جیساکہ علّامہ ابنِ نُجَیْم مِصْرِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’کوئی ایسی چیز پائی جو بے قیمت ہے جیسے کھجور کی گٹھلی، اَنار کا چھلکا ایسی اشیا میں اعلان کی حاجت نہیں کیونکہ معلوم ہوتا ہے اِسے چھوڑدینا اِباحت (یعنی دوسروں کیلئے جائز کر دینا) ہے کہ جو چاہے لے لے اور اپنے کام میں لائے اور یہ چھوڑنا تَمْلِیک(مالِک بنانا) نہیں کہ مَجہُول(نامعلوم) کی طرف سے تَمْلِیک(مالک بنانا) صحیح نہیں لہٰذا وہ اب بھی مالِک کی مِلک میں باقی ہے اور( بعض فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام یہ فرماتے ہیں کہ) یہ حکم اُسوقت ہے کہ وہ مُتَفَرَّق(منتشر) ہوں اور اگر اکٹھّی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ مالِک نے کام کے لئے جمع کر رکھی ہیں لہٰذا مَحفوظ رکھے ۔ ‘‘(اَلْبَحْرُالرَّائِق ج۵ص۲۵۶مُلْتَقَطًا کوئٹہ)
سُوال : پُرانی قبض دُور کرنے کے لئے چند آسان نُسخے ارشاد فرما دیجئے ۔
[1] حضرت ِسیِّدُناصدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اس ادا کواپنانے کیلئے اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مکتبۃ المدینہ پر قُفلِ مدینہ کے پتّھر دستیاب ہیں، جو ھدیّۃً طلب کئے جاسکتے ہیں ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع