30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
فرماتے ہیں: ”بعدِ مَرگ (موت کے بعد) سَمْع وبَصر (سننا دیکھنا)، علم وفَہْم (جاننا سمجھنا) وغیرہ تمام افعال کہ حقیقتاً رُوح کے تھے (یہ افعال) برقرار رہتے ہیں بلکہ اور زیادہ ترقی پاتے ہیں، جن کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک پَرَند قَفَس میں محبُوس (یعنی پرندہ پنجرے میں قید) ہے اس کی پَرافشانی (پھڑپھڑاہٹ) اسی پنجرے کے لائق ہوگی، جب اسے نکال دیجئے تو اس کی پروازیں دیکھئے (کہ اب کتنی اونچی اڑان اڑتا ہے)۔“(فتاویٰ رضویہ، 26/601)
#**(3)مالِ حرام پر نیاز:
**#
بارگاِ رضوی میں سوال ہوا:”زید کہتا ہے حضور سرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی نیاز اگرچہ حرام مال پر دیتا ہے مگر پھر بھی حضور قبول فرمالیتے ہیں ( مَعَاذَ اللہ ) جیسے کسی امیر کا لڑکا پیدا ہوا تو بھاٹ بھکاری وغیرہ جو گھاس کا پودا یا اور کچھ ڈھوئی کے (لاد کے) لے جاتے ہیں وہ اسے خوشی سے قبول کرلیتا ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے زید کے خبیث بہتان کا سختی سے رد کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ قول اس کا غلطِ صریح وباطلِ قبیح اور حضور سیّدِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم پر اِفتِراءِ فَضِیح ہے۔“ شرعی مسئلہ واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”زِنْہار (ہرگز) مالِ حرام قابلِ قبول نہیں، نہ اُسے راہِ خُدا میں صَرف کرنا رَوا (جائز)، نہ اُس پر ثواب ہے بلکہ نِرا وبال ہے۔“ امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کئی آیات و احادیث کے ساتھ اس بہتان کا ردِّ بلیغ کیا، گھاس کے پودے والی مثال کی قباحت واضح کرنے کے بعد امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”ٹھیک مثال یوں ہے کہ جشنِ سلطانی میں کوئی اَحْمَق بےباک نذرِ شاہی کو پیشاب کا قارُورَہ (بوتل) لے جائے پھر دیکھے کہ مقبول ہوتاہے یا اُس مَرْدَک (ذلیل آدمی) کے منہ پر مارا
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع