30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کرامت کی اقسام
فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے کہ کرامت دو قسم پر ہے :محسوس ظاہری ومعقول معنوی۔ عوام صرف کراماتِ محسوسہ کو جانتے ہیں جیسے کسی کو دل کی بات بتا دینا، گزشتہ وموجودہ وآئندہ غیبوں کی خبر دینا، پانی پر چلنا، ہوا پر اڑنا، صدہا منزلِ زمین ایک قدم میں طے کرنا، آنکھوں سے چھپ جانا کہ سامنے موجود ہوں اور کسی کو نظر نہ آئیں اور کراماتِ معنویہ کو صرف خواص پہچانتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اپنے نفس پر آدابِ شرعیہ کی حفاظت رکھے ، عمدہ خصلتیں حاصل کرنے اور بری عادتوں سے بچنے کی توفیق دیا جائے تمام واجبات ٹھیک اداکرنے پر التزام رکھے۔1
اسی طرح اَولیائے کِرام سے صادِر وظاہِر ہونے والی کرامتیں کتنی اقسام کی ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے؟اس بارے میں علامہ تاج الدین سبکی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں فرماتے ہیں:میرے خیال میں اولیائے کرام سے جتنی قسموں کی کرامتیں صادر ہوئی ہیں ان کی تعداد ایک سو سے بھی زائد ہے۔2جبکہ حضرت امام یُوسُف بن اسماعیل نبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے جامع کراماتُ الاولیا میں اَولیائے کِرام سے ظاہِر ہونے والی کرامتوں کی تقریباً 25 اقسام ذِکْر کی ہیں،جو درج ذیل ہیں:
(1)مُردوں کو زندہ کرنا (2)مُردوں سے کلام کرنا
(3)دریاؤں پر تَصَرُّف(دَرْیَا کا پھٹ جانا،خشک ہونا،پانی پر چلنا )
(4)اِنْقِلاب مَاہِیَّت(کسی چیز کی حقیقت کو تبدیل کر دینا) (5)زمین کا سمٹ جانا
(6)حیوانات اور نباتات کا گفتگو کرنا (7)شفائے اَمْرَاض
(8)جانوروں کا اولیائے کرام کیلئے فرماں بردار ہوجانا
(9)زمانے اور وقت کا مختصر و مَحْدُود ہوجانا (10)زمانےاور وقت کا پھیل جانا
(11) دعاؤں کا قبول ہونا
(12)زبان کا بات کرنے سے رُک جانا یا کھُل جانا
(13)انتہائی نَفْرَت کرنے والے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لینا
(14)غیب کی خبریں دینا (15)حَرام کھانے سے مَحْفُوظ رہنا
(16)مقامِ تَصَرُّف پر فائز ہو کر تَصَرُّف کرنا (17)زِیادَہ کھانا کھانے پر قدرت ہونا
(18)پردے کے پیچھے سے دُور کی چیزوں کو دیکھ لینا
(19)طویل مُدَّت تک بغیر کچھ کھائے پئے زندہ رہنا
(20)ایسی ہیبت جو اولیائے کرام کو عطا ہوتی ہے کہ انہیں دیکھنے والا دیکھتے ہی مرجاتا ہے
(21)جب اولیائے کرام سے کوئی شَر کا اِرَادہ کرے تو اس وقت اللہ پاک کی طرف سے اولیائے کرام کے لئے كِفَایَت و حِمَایَت کاحُصُول اور شر کے اِرَادے کا خیر میں بدل جانا
(22)مختلف اطوار وکیفیات کا تَصَوُّر
(23)اللہ پاک کا اولیائے کرام کو زمین کے ذخیروں کی اِطِّلَاع دینا
(24) مختصر سے دور میں علمائے کرام کیلئے کثیر تصانیف کا آسان ہوجانا
(25)زہر اور ہَلاکَت خیز اَشیا کا اولیائے کرام پر اَثَر نہ کرنا۔3
صحابیات و صالحات کی کرامات
اللہ پاک نے نبوَّت کو صرف مَردوں کے ساتھ خاص رکھا ہے لیکن وِلایت جس طرح مَردوں کو عطا کی گئی ہے اسی طرح عورتوں کو بھی عطا گئی ہے۔ اللہ پاک کی بے شُمار صالحات وِلایت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئیں اور ان سے مختلف کرامات کا ظُہُور بھی ہوا،آیئے!ان کی بعض کرامات مُلَاحَظہ کیجئے:
:ڈوبا ہوا بچہ زندہ نکل آیا
حضرت عَلّان رحمۃُ اللہِ علیہ سے منقول ہے کہ حضرت سَری سَقَطِی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ایک مریدنی کا لڑکا مدرسے جاتا تھا۔ایک دن استاذ نے آٹا پسوانے کیلئے اسے چکی پر بھیجا۔ راستے میں نہر تھی۔ جب وہ نہر سے گزرنے لگا تو اس میں گرا اور ڈوب گیا۔ جب استاذ کو اس کے ڈوبنے کی اِطِّلَاع ملی تووہ بہت پریشان ہوا اور حضرت سَرِی سَقَطِی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس حاضِر ہوکر سارا واقعہ کہہ سنایا۔ آپ نے فرمایا: آؤ میرے ساتھ چلو! ہم چل دئیے۔ آپ نے وہاں پہنچ کر اس عورت کو صبر کے فضائل بتائے۔پھر اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنے کی ترغیب دلائی۔ عورت نے کہا: حضور!آج آپ مجھے صبر ورضا کے متعلق خاص طور پر نصیحت کررہے ہیں،اس میں کیا حِکْمَت ہے؟ آپ نے فرمایا:تمہارا بیٹا نہر میں ڈوب گیا ہے۔اس نے تعجب سے پوچھا:میرا بیٹا؟فرمایا:ہاں۔عرض کرنے لگی:بے شک میرے رب نے ایسا نہیں کیا ہو گا۔اس پر حضرت سَرِی سَقَطی رحمۃُ اللہِ علیہ نے اسے پھر صبر و رضا کی تلقین فرمائی تو اس نے عرض کی:آئیے! میرے ساتھ چلیں۔ تمام لوگ اس کے ساتھ چل دئیے۔ جب نہر پر پہنچے تو اس نے لوگوں سے پوچھا:بتاؤ!میرا بیٹا کہاں ڈوبا ہے؟ لوگوں نے بتایا: اس جگہ۔عورت نے بلند آواز سے پکارا:اے میرے بیٹے محمد! فوراً نہر سے اس کے بیٹے نے پکار کر کہا:اَمی جان! میں یہاں ہوں،عورت فوراً نہر میں اتری اور اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑکر باہَر لے آئی اور خوشی خوشی اپنے گھر چلی گئی۔
حضرت عَلّان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضرت سَرِی سَقَطی رحمۃُ اللہِ علیہ نے حضرت جنید بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت میں حاضِر ہو کر عرض کی:یہ کیا مُعَامَلہ ہے اور ایسا کیونکر ہوا؟تو انہوں نے اِرشَاد فرمایا:کہو!قُل۔آپ نے قُل کہا۔پھر حضرت جنید بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:بات دراصل یہ ہے کہ وہ عورت اللہ پاک کے اَحکام کو پورا کرنے والی تھی اور جو شخص اللہ کے احکامات پر عَمَل پیرا ہو اسے کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آتا جسے وہ نہ جانتا ہو۔ جب اس عورت کا بیٹا ڈوبا تو اسے معلوم نہ تھا، اس لئے اسے یقین نہ آیا اور اس نے کہا:بے شک میرے رب کریم نے ایسا نہیں کیا۔وہ چونکہ اللہ کی ذات پر یقینِ کامل رکھتی تھی، اس لئے اس کا بیٹا اسے واپس کر دیا گیا۔4
کیا بندہ مردہ زندہ کرسکتا ہے؟
پیاری اسلامی بہنو!زندگی و موت بلاشبہ اللہ پاک کے اختیار میں ہے، لیکن اگر کوئی اللہ پاک کا نیک بندہ یا بندی اپنے رب کریم کی عطا سے کسی مردے کو زندہ کر دے تو یہ ناممکن بھی نہیں، بلکہ پارہ 3، سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 49میں ہےحضرت عیسیٰ علیہ السَّلام نے فرمایا:
وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِۚ ترجَمۂ کنز العِرْفان: اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔
لہٰذا مذکورہ حکایت میں اللہ پاک کی ایک نیک بندی کا اللہ پاک پر یقینِ کامل کے صَدْقے اپنے ڈوبے ہوئے بیٹے کو دوبارہ زندہ سَلامَت پانی سے نکال لینا بعید از قیاس نہیں۔ البتہ! عام طور پر ایسا نہیں ہوتا، لہٰذا یہ خلافِ عادت کام ہے اور اسے ہی کَرَامَت کہتے ہیں، تاریخ میں اگرچہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں اللہ پاک کے اولیائے کرام نے مُردوں کو دوبارہ زندہ فرمایا۔ چونکہ یہاں مقصود صحابیات و صالحات کی کرامات ذکر کرنا ہے، لہٰذا ذیل میں ایسی مزید تین مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
:بیٹا زندہ ہوگیا
حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت فریعہ انصاریہرضی اللہُ عنہا سے فرمایا:تیرا بیٹا ابراہیم وفات پاچکا ہے۔ وہ عرض کرنے لگیں: یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا وہ مرگیا ہے؟فرمایا:ہاں مرگیا۔کہنے لگیں، اَلحمدُ لِلّٰہ!اے میرے پر وردگار! تجھے پتا ہے کہ میں نے تیری اور تیرے رسول کی طرف اس اُمِّید پر ہجرت کی کہ ہر مصیبت و سختی کے وقت میری مَدَد کی جائے گی۔اے اللہ! مجھے اس مصیبت میں مبتلا نہ فرما! اور مجھ سے یہ بوجھ نہ اُٹھوا۔راوی کہتے ہیں کہ اسی وقت ان کے بیٹے ابراہیم نے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا اور وہ اس کے بعد بھی زندہ رہا۔5
1…فتاویٰ رضویہ ، 21/ 549
2…طبقات الشافعیۃ الکبری للسبکی، 2/ 344
3…جامع کرامات الاولیا، 1/41 مفہوماً
4 …عیون الحکایات، ص 234
5…جامع کرامات اولیا، 1/132
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع