30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
: حیا کی پیکر
حضرت ابنِ زیات رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار رمضان المبارک میں فُضَلا کی جماعت کے ساتھ مراکش میں رباط شاکر حاضر ہوا، ہم ستائیسویں رات تک وہیں ٹھہرے رہے، دن میں گرمی کی شدت کی وجہ سے ہم نے رات کے تیسرے پہر واپسی کا ارادہ کیا، واپسی میں قافلے میں کئی مرد و عورت تھے ، جن میں ایک بزرگ ایسے تھے جن کی آواز بہت خوبصورت تھی، ہم سب نے ان سے کوئی قصیدہ سنانے کے لئے عرض کی، جب وہ اس شعر پر پہنچے:
اِذَا لَاحَ وَجْهُ الْحَقِّ لَمْ يَبْدُ غَيْرُه وَمَنْ لِىْ بِوَجْهِ الْحَقِّ اِنْ غَابَ اَنْ يَّبْدُو
یعنی جب جلوہ حق رونما ہوتا ہے تب کچھ اور سوجھتا بھی نہیں ، اور کون ہے کہ جلوہ حق غائب ہو جانے پر پھر سے میرے لئے ظاہر کر دے؟
تو ایک نور آسمان کی جانب بلند ہوا، جس سے رات کی تاریکی دور ہو گئی اور سب کچھ دکھائی دینے لگا، اسی نور کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ کچھ دور اس شعر کے سنتے ہی ایک بزرگ خاتون اپنی سواری کے جانور سے زمین پر گر کر تڑپنے لگی ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں عموماً لوگ تہبند پہنا کرتے تھے، لِہٰذا ہم فوری ان کی مدد کے لئے نہ جا سکے مبادا ان کا ستر نہ کھل گیا ہو ، پھر ہم نے ایک خاتون کو ان کا جسم ڈھانپنے کا کہا تو اس نے قریب جا کر ہمیں بتایا کہ انہوں نے تو شلوار پہنی ہوئی ہے، پھر ہم نے بھی ان کے جسم پر خالص سفید شلوار دیکھی، جو ان کے ٹخنوں تک کو ڈھانپے ہوئے تھی، ہم کچھ دیر ٹھہرے رہے تا کہ وہ ٹھیک ہوں تو ہم سفر دوبارہ شروع کر سکیں، تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر اپنے جانور پر سوار ہوئیں تو ہم بھی پلٹ آئے، ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ نَمازِ فجر کا وقت ہو گیا، نماز کے بعد صبح کے اجالے میں ہمیں رات والی وہ بزرگ خاتون دکھائی دیں تو معلوم ہوا کہ ان کی جلد کمزوری کی وجہ سے ہڈیوں سے لگی ہوئی ہے اور حیران کن بات یہ تھی کہ انہوں نے ایک بوسیدہ سی چادر کا تہبند باندھا ہوا تھا اور جو شلوار ابھی کچھ دیر پہلے ہم نے ان کے جسم پر دیکھی تھی اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ باب اغمات کی رہنے والی ایک نیک صالحہ اور باکرامت خاتون ہیں۔1
سبحانَ اللہ ! اللہ پاک کی شان ہے کہ وہ جسے چاہے عزتوں سے نوازے، اس حکایت سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے خاص بندوں اور بندیوں کی لاج رکھتا ہے، جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما نے حضرت عطا بن ابو رَباح رحمۃُ اللہِ علیہ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں ؟میں نے عرض کی: ضرور دکھائیے۔ فرمایا: یہ حبشی عورت، اس نے آخری نبی، محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضِر ہوکر عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !مجھے مرگی کا مَرَض ہے جس کی وجہ سے میں گر جاتی ہوں اور میرا پردہ کھل جاتا ہے، لہٰذا اللہ پاک سے میرے لئے دعا کیجئے ۔ ارشاد فرمایا: اگر تم چاہو تو صبرکرو اور تمہارے لئے جنّت ہے اور اگر چاہو تو میں اللہ پاک سے دُعا کروں کہ وہ تمہیں عافیت عنایت فرما دے۔ عرض کی : میں صَبْر کروں گی۔ پھر عرض کی: (جب مرگی کا دورہ پڑتا ہے) میرا پردہ کھل جاتا ہے، اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ میرا پردہ نہ کُھلا کرے ۔پھر آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔ 2
: مستور الحال صالحہ
حضرت ابو بکر حویری رحمۃُ اللہِ علیہ نامی ایک بزرگ حضرت تِینُ السَّلَامَہ رحمۃُ اللہِ علیہا کی خِدْمَت میں رہا کرتے تھے، ایک دن انہوں نے عرض کی: میں 8 سال سے آپ کی خِدْمَت میں ہوں، مگر میں نے آج تک آپ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ تو انہوں نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرو اور روزے رکھو۔ فرماتے ہیں کہ چند دن بعد ایک رات مجھ سے فرمانے لگیں: دیکھو! رات کتنی باقی رہ گئی ہے؟ میں دیکھنے کے لئے اٹھا، کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی چیز پرندے کی طرح ہوا میں اڑتے ہوئے ان کے خیمہ میں داخل ہو رہی تھی، مجھے فکر ہوئی اور میں نے اندر جھانک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہا کے داماد حضرت ابو سجمات رحمۃُ اللہِ علیہ ہیں۔ جو عرض کر رہے تھے: آپ کے تمام شاگردوں میں شاید میں اکیلا ہی ایسا شخص ہوں جو آپ کی قدر ومنزلت سے آگاہ ہے۔ اس کے بعد وہ اور بھی گفتگو کرتے رہے، پھر جس طرح آئے تھے ویسے ہی لوٹ گئے۔3
معلوم ہوا! اللہ کا ولی ہونے کے لئے کرامت کا ظہور ضروری نہیں، بلکہ مشہور مقولہ ہے:اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ، استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے اور استقامت یہ ہے کہ خلافِ شرع کوئی بات اس سے سرزد نہ ہو، جیسا کہ حضور غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ کا فرمان ہے: ولی کی کرامت یہ ہے کہ اس کا فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے قانون پر ٹھیک اترے۔4
جب حضرت ابو بکر حویری رحمۃُ اللہِ علیہ کو حضرت تِینُ السَّلَامَہ رحمۃُ اللہِ علیہا کے باکرامت ہونے میں شک گزرا تو چند دن بعد ہی اللہ پاک نے ان کی یہ خواہش یوں پوری کر دی کہ ان کے داماد پرندے کی شکل میں اڑتے ہوئے ان کی خدمت حاضر ہوتے ہیں اور حضرت ابو بکر حویری کھلی آنکھوں سے انہیں دیکھ لیتے ہیں۔
: بارش میں نہ بھیگنا
حضرت نفیسہ رحمۃُ اللہِ علیہاکی جوہرہ نامی ایک خادمہ تھی جو رات کو اٹھ کر آپ کےوضو کے لیے پانی لینے باہر جاتی۔ایک رات وہ پانی لینے کے لیے اٹھی تو دیکھا کہ اس رات موسلا دھار بارش ہو رہی ہے وہ بارش میں ہی پانی لینے باہر چلی گئی جب واپس آئی تودیکھا کہ اس کے قدم بھی گیلے نہ ہوئے تھے۔5
: دودھ اور شہد دینے والی بکری
حضرت شیخ ابو ربیع مالقی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:میں نے ایک نیک عورت کی شُہْرَت سنی کہ وہ فلاں بستی میں رہتی ہیں اور صاحبِ کَرَامَت بھی ہیں،ہماری عادَت تھی کہ ہم غیر محرم عورتوں کو نہیں دیکھتے تھےلیکن اس کی کَرَامَت دیکھنے کے شوق سے حاضِر ہوئے،وہ ”فضّہ“کے نام سے مشہور تھیں،ہم اُس بستی میں پہنچے تو ہمیں لوگوں نے کہا:حضرت فضّہ کے پاس بکری ہے جو دودھ اور شہد دیتی ہے،ہم نےایک نیا پیالہ خریدا اور اس عورت کے پاس جا کر سلام کیا اور کہا: ہم اس بکری کی بَرَکَت دیکھنا چاہتے ہیں جس کا چرچا لوگوں میں مشہورہے۔ وہ بکری آپ کے پاس ہے تو وہ بکری لے آئیں۔ہم نے اس بکری کا دودھ اور شہد دوھ کر پیا پھر بکری کے قصے کے متعلق سوال کیا،تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہا نے بتایا:ہم غریب لوگ تھے،ہمارے پاس ایک ہی بکری تھی،میرا خاوند ایک صالح مرد تھا،اس نے مجھ سے عید کے دن کہا: ہم اس بکری کی قربانی کرتے ہیں۔میں نے کہا:نہیں،کیونکہ ہمیں قربانی نہ کرنے کی رخصت دی گئی ہے اور اللہ پاک ہماری حاجَت کو جانتا ہے کہ اس بکری کی ہمیں ضَرورت ہے۔اتفاقاً اسی دن ایک مہمان آ گیا، میں نے شوہر سے عرض کی: ہمیں اللہ پاک نے مہمان کی عزّت کرنے کا حکْم دیا ہے،اُٹھئے اور اس بکری کو ذبح کیجئے،لیکن ہمیں یہ فِکْر لاحِق ہوئی کہ اگر ہمارے بچوں نے دیکھ لیا تو وہ روئیں گے تو میں نے شوہر سے عرض کی:بکری کو گھر سے نِکال کر دیوار کے پیچھے لے جائیے اور ذَبْح کر دیجئے، جب اس نے بکری کا خون بہایا تو بکری دیوار پر چھلانگ لگا کر گھر میں آ گئی،میں ڈر گئی کہ شاید وہ بکری شوہر کے قابو سے نکل گئی ہے،میں نے باہَر نکل کر دیکھا تو وہ بکری کی کھال اتار رہا تھا،میں نے متعجب ہو کر شوہر کو بتایا تو اس نے کہا:شاید اللہ پاک نے ہمیں اس بکری سے بہتر بدل عطا فرما دیا ہو،وہ صرف دودھ دیتی تھی اور یہ دودھ کے ساتھ ساتھ شہد بھی دیتی ہے اور یہ مہمان کی عزّت کرنے کی بَرَکَت سے ہے۔ پھر عورت نے کہا:اے میرے بیٹو!ہماری یہ بکری مریدوں کے دلوں میں چرتی ہے، لِہٰذا اگر ان کے دل پاکیزہ ہوں گے تو بکری کا دودھ بھی عُمْدَہ ہو گا اور اگر ان کے دل میں تغیر ہو گا تو دودھ بھی خراب ہو جائے گا، اس لیے تمہیں اپنے قُلُوب کو پاکیزہ رکھنا چاہئے۔6
1 …التشوف الی رجال التصوف، ص 385
2 …بخاری ، ص 1433 ، حدیث: 5652
3 …التشوف الی رجال التصوف،ص387
4 … بھجۃ الاسرار، ص 39
5 … جامع کرامات اولیا، 2/421
6 …روض الریاحین، ص79
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع