my page 26
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Ba Karamat Khawateen | باکرامت خواتین

book_icon
باکرامت خواتین
            

فرشتوں اور جنّوں کے متعلق ہمارا عقیدہ

فرشتے اجسامِ نوری ہیں، اللہ پاک نے اُن کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں، کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں۔و ہ و ہی کرتے ہیں جو حکْمِ خداوندی ہے، اللہ پاک کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے، نہ قصداً، نہ سہواً، نہ خطاً، وہ اللہ پاک کے معصوم بندے ہیں، ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ ان کو مختلف خدمتیں سپرد ہیں: بعض کے ذمّے حضراتِ انبیا ئے کرام کی خدمت میں وحی لانا، کسی کے متعلق پانی برسانا، کسی کے متعلق ہوا چلانا، کسی کے متعلق روزی پہنچانا، کسی کے ذمّہ ماں کے پیٹ میں بچہ کی صورت بنانا، کسی کے متعلق بدنِ انسان کے اندر تصرّف کرنا،کسی کے متعلق انسان کی دشمنوں سے حِفَاظَت کرنا،کسی کے متعلق ذاکرین کا مجمع تلاش کرکے اُس میں حاضر ہونا، کسی کے متعلق انسان کے نامۂ اعمال لکھنا، بہتوں کا دربارِ رسالت میں حاضر ہونا، مسلمانوں کی صلاۃ و سلام پہنچانا، بعضوں کے متعلق مُردوں سے سوال کرنا، کسی کے ذمّہ قبضِ روح کرنا، بعضوں کے ذمّہ عذاب کرنا، کسی کے متعلق صُور پُھونکنا اور اِن کے علاوہ اور بہت سے کام ہیں جو فرشتے انجام دیتے ہیں۔یہ فرشتے نہ مرد ہیں، نہ عورت۔اُن کو قدیم ماننا یا خالق جاننا کفر ہے۔انکی تعداد وہی جانے جس نے ان کو پیدا کیا اور اُس کے بتائے سے اُس کا رسول۔ چار فرشتے بہت مشہور ہیں: جبریل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل اور یہ سب ملائکہ پر فضیلت رکھتے ہیں۔ کسی فرشتہ کے ساتھ ادنیٰ گستاخی کفر ہے، جاہل لوگ اپنے کسی دشمن یا مبغوض کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ملک الموت یا عزرائیل آگیا، یہ قریب بکلمہ کُفر ہے۔فرشتوں کے وجود کا انکار یا یہ کہنا کہ فرشتہ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں، یہ دونوں باتیں کُفر ہیں۔جبکہ جن آگ سے پیدا کیے گئے ہیں۔اِن میں بھی بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں، اِن کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں، اِن کے شریروں کو شیطان کہتے ہیں، یہ سب انسان کی طرح ذی عقل اور ارواح و اجسام والے ہیں، اِن میں توالد و تناسل ہوتا ہے، کھاتے، پیتے، جیتے، مرتے ہیں۔اِن میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی، مگر اِن کے کفّار انسان کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں اور اِن میں کے مسلمان نیک بھی ہیں اور فاسق بھی، سُنّی بھی ہیں، بد مذہب بھی اور اِن میں فاسقوں کی تعداد بہ نسبت انسان کے زائد ہے۔ اِن کے وجود کا انکار یا بدی کی قوت کا نا م جنّ یا شیطان رکھنا کفر ہے۔1

:بعض خواتین کا مقام

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک صاحِب اَجِلَّہ(یعنی جلیل القدر) اَولیائے کرام سے کسی نے پوچھا: حضرت خضر علیہ السّلام زندہ ہیں؟ فرمایا: ابھی ابھی مجھ سے مُلَاقَات ہوئی تھی۔ فرماتے تھے:میں نے جنگل میں ٹیلے پر ایک نُوردیکھا جب میں قریب گیا تو معلوم ہوا کہ وہ کمبل کا نور ہے۔ ایک صاحب اُسے اوڑھے سو رہے ہیں۔ میں نے پاؤں پکڑ کر ہلایا اور جگا کر کہا: اُٹھئے! اللہ پاک کو یاد کیجئے۔وہ بولے:آپ اپنے کام میں مشغول رہیں مجھے میری حَالَت پر رہنے دیجئے۔ میں نے کہا: میں مشہور کئے دیتا ہوں، یہ اللہ پاک کے ولی ہیں۔ کہا: میں مشہور کردو ں گا کہ یہ حضرت خضر (علیہ السّلام ) ہیں۔ میں نے کہا:میرے لئے دعا کیجئے۔ بولے:دعا تو آپ ہی کا حق ہے۔ میں نے کہا: آپ کو دُعا کرنی ہو گی۔ کہا:وَفَّرَ اللهُ حَظَّكَ مِنْه۔ اللہ پاک اپنی ذات میں آپ کا نصیبہ (یعنی حِصّہ) زائد کرے اور کہا: میں اگر غائب ہو جاؤں تو مَلَامَت نہ فرمائیے گا اور فوراً نَظَر سے غائب ہو گئے حالانکہ کسی ولی کی طَاقَت نہ تھی کہ میری نِگاہ سے غائب ہوسکے۔ وہاں سے آگے بڑھا ایک اور اِسی طر ح کا نور دیکھا کہ نِگاہ کو خِیر ہ کرتا(یعنی آنکھ کو چندھیاتا) ہے۔ قریب گیا تو دیکھا ٹیلے پر ایک عورت کمبل اوڑھے سو رہی ہے۔ وہ اس کے کمبل کا نور ہے۔ میں نے پاؤں ہلاکر ہوشیار کرنا چاہا۔ غیب سے ندا آئی:اے خضر (علیہ السّلام)!احتیاط کیجئے۔ اُس بی بی نے آنکھ کھولی اور بولیں: حضرت نہ رُکے یہاں تک کہ روکے گئے۔ میں نے کہا:اٹھئے! اللہ پاک کو یاد کیجئے۔ بولیں: حضرت اپنے کام میں مشغول رہیں، مجھے اپنی حَالَت پر رہنے دیں۔ میں نے کہا: تو میں مشہور کئے دیتا ہوں: یہ اللہ پاک کی ولیہ ہیں۔کہا:میں مشہور کر دوں گی کہ یہ حضرت خضر ہیں۔میں نے کہا: میرے لئے دُعا کیجئے۔ بولیں:دُعا تو آپ کا حق ہے۔ میں نے کہا:آپ کو دُعا کرنی ہو گی۔ کہا:وَفَّرَ اللهُ حَظَّكَ مِنْه اللہ پاک اپنی ذات میں آپ کا نصیبہ زائد کرے۔ پھر کہا: اگر میں غائب ہو جاؤں تو مَلَامَت نہ فرمائیے گا۔ میں نے دیکھا یہ بھی جاتی ہے، کہا:یہ تو بتائیے کیا آپ اُسی مرد کی بی بی ہیں؟ بولیں: ہاں! یہاں ایک ولیہ کا انتقال ہو گیا تھا، اس کی تجہیز وتکفین کا ہمیں حکْم ملا تھا۔ یہ کہا اور میری نگاہ سے غائب ہو گئیں۔ حضرت خضر علیہ السّلام سے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: یہ لوگ اَفراد2 ہیں۔میں نے کہا: وہ بھی کوئی ہے جس کی طرف یہ رُجُوع لاتے ہیں۔فرمایا:ہاں! شیخ عبدالقادر جیلانی۔3

:روحوں کی باہم پہچان

بے شمار حکایات و روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ اللہ پاک کے نیک بندوں اور بندیوں نے مخاطب کو اس کے نام سے پکارا، حالانکہ اس سے پہلے بظاہر ان کی مُلَاقَات تک نہیں ہوئی ہوتی۔ جیسا کہ اسی رسالے کی ابتدائی حکایت میں بھی بیان ہوا کہ حضرت میمونہ سوداء رحمۃُ اللہِ علیہا نے حضرت عبدالواحد بن زید رحمۃُ اللہِ علیہ کا جب نام لے کر انہیں مخاطب فرمایا تو انہوں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں ابن زید ہوں تو انہوں نے فرمایا: آپ کو معلوم نہیں کہ روحیں ایک اِکٹھا لشکر تھیں، جو ایک دوسرے سے مُتَعَارِف ہو گئیں،وہ باہَم مَحبَّت کرتی ہیں اور جنہوں نے ایک دوسرے کو نہ پہچانا وہ الگ رہتی ہیں۔4 ایسا ہی ایک واقعہ حضرت ذُوالنُّون مصری رحمۃُ اللہِ علیہ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، آپ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں بنی اسرائیل کے تِیہ نامی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ میری ملاقات ایک سیاہ فام لونڈی سے ہوئی۔ وہ مَحبَّتِ الٰہی میں ایسی مگن تھی کہ اسے آس پاس کی خبر ہی نہ تھی۔ وہ مسلسل آسمان کی جانب دیکھے جارہی تھی۔ میں نے کہا:اے میری بہن! اَلسَّلَامُ عَلَیْكِ۔اس نے کہا: وَعَلَیْكَ السَّلَام اے ذُوالنُّون! میں نے اس سے اپنا نام سنا تو حیران ہو کر پو چھا: اے اللہ کی بندی! تو نے میرا نام کیسے جانا؟اس نے کہا:بے شک اللہ پاک نے جسموں کی تخلیق سے دو۲ ہزار سال قبل روحوں کو پیدا فرمایا،پھر وہ روحیں عرشِ مُعَلّٰی کے ارد گرد گھومتی رہیں۔ان میں سے جن روحوں نے ایک دوسرے کو وہاں پہچانا وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے اُنس رکھتی ہیں اور جنہوں نے وہاں نہ پہچا نا ان میں آپس میں اِخْتِلاف ہے۔ میری روح نے آپ کی روح کو عرشِ مُعَلّٰی کے گرد پہچان لیا تھا اسی لئے آج بھی وہ آپ سے واقف ہے۔5

بن ملے نام سے پکارنا

بن ملے کسی کو اس کا نام لے کر مخاطب کرنے کی وضاحت گویا کہ حضرت امام شرف الدین طیبی رحمۃُ اللہِ علیہ(سال وفات 743ھ) کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ پاک کے برگزیدہ بندوں کے نفوسِ قدسیہ جسمانی آلائشوں وغیرہ سے جدا ہوتے ہیں تو معراج کا شرف پاتے ہیں اور ملأ اعلیٰ تک جا پہنچتے ہیں، ان کے سامنے کوئی حجاب باقی نہیں رہتا، وہ ہر ایک شے کو اس طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے وہ اپنے آپ کو دیکھ رہے ہوں، اگر وہ ہر شے کو اس طرح نہ بھی دیکھ رہے ہوں تو ہر شے کا خالق و مالک انہیں اس سے (بوقتِ ضرورت)آگاہ فرما دیتا ہے۔ مگر یہ ایک ایسا راز ہے جسے صرف وہی ہستیاں جانتی ہیں جن کے لئے اللہ پاک کی طرف سے آسانی پیدا کر دی گئی ہو۔6 یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حکایات میں اللہ پاک کے نیک بندوں اور نیک بندیوں نے ایک دوسرے کو پہچان کر نام سے مخاطب بھی کیا۔ عام طور پر چونکہ ایسا نہیں ہوتا، اس لئے بلاشبہ اسے کرامت کہا جا سکتا ہے۔ ذیل میں اس طرح کی چند مزید کرامتیں جو صالحات سے مروی ہیں۔ پیشِ خدمت ہیں:
1…بہارِ شریعت، حصہ اول، 1/ 90 تا 97 2…افراد کون ہیں، اس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکی ہے۔ 3…ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص 179 4…حلیۃ الاولیا، 6/ 170، رقم: 8181 5 … عیون الحکایات، ص345،مختصراً 6…شرح طیبی علی مشکاۃ، 2/435،تحت الحدیث:926

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن