30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
:نابینا صحابیہ کا بیٹا زندہ ہو گیا
سبحانَ اللہ ! ایک ماں کی دعا کی بَرَکَت سے اس کا مردہ بیٹا زندہ ہو گیا، ایسا ہی ایک واقعہ حضرت اُمِّ سائب رضی اللہُ عنہا کے متعلق بھی مروی ہے، وہ ایک بوڑھی نابینا صحابیہ تھیں جو محض دیْنِ اسلام، اللہ پاک اور اس کے حبیبِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مَحبَّت میں اپنے وطن سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ چلی آئی تھیں۔ حضرت اَنْس بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت اُمِّ سائب رضی اللہُ عنہا کا بیٹا نوعمری میں اچانک انتقال کر گیا۔ہم لوگوں نے اس لڑکے کی آنکھوں کو بند کر کے اس پر ایک کپڑا ڈال دیا اور آپ رضی اللہُ عنہا کو لڑکے کی موت کی خبر سنائی اور تَعْزِیَت و تسلّی کے کلمات کہنے لگے۔آپ رضی اللہُ عنہا اپنے بیٹے کی موت کی خَبَر سن کر چونک گئیں اور آبدیدہ ہوگئیں، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر بارگاہِ خداوندی میں اس طرح دعا مانگی: یااللہ! میں تجھ پر اِیمان لائی اور میں نے اپنا وطن چھوڑ کر تیرے رسول کی طرف ہجرت کی ہے،جب مجھ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو میں تجھ سے دعا کرتی ہوں وہ مصیبت دور ہو جاتی ہے، اس لئے اے میرے اللہ!میں تجھ سے دُعا کرتی ہوں کہ میرے لڑکے کی موت کی مصیبت مجھ پر مت ڈال۔یہ دُعا ختم ہوتے ہی جب ان کے بیٹے سے کپڑا ہٹایا گیا تو وہ زندہ تھا ہم وہیں تھے، یہاں تک کہ ہم نے کھانا کھایا تو اس لڑکے نے بھی ہمارے ساتھ كھانا کھایا۔1
سبحان اللہ! اس حکایت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضرت اُمِّ سائب رضی اللہُ عنہا کی دُعا کی بَرَکَت سے ان کا فوت شدہ بیٹا زندہ ہو کر صحابۂ کِرام علیہمُ الرّضوان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا۔وہیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ عام حالات میں اور بالخصوص جب کوئی مصیبت یا مشکل آ جائے تو ہمیں اپنے رحیم و کریم پروردگار سے دُعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہی دعاؤں کو قبول فرمانے والا ہے۔جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:
اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ (پ2،البقرة:186) ترجمۂ کنز الایمان:دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے۔
غریبوں کے آقا،بےکسوں کے داتا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ یعنی دعا عِبَادَت کا مغز ہے۔2 کسی نے کیا خوب کہا:
جو وَجد کے عالم میں نکلے لَبِ مومن سے وہ بات حقیقت میں تقدیرِ الٰہی ہے
مذکورہ دونوں حکایات میں ماں کی دعا کی بَرَکَت سے ان کے بیٹوں کا دوبارہ زندہ ہو جانا خلافِ عادَت ہے کہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا جو ایک بار مر جائے دوبارہ زندہ نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے تو عُلَمائے کرام نے اس طرح کے خلافِ عادَت کام کے وُقُوع کو کرامت شُمار کیا ہے۔یاد رکھئے! تاریخ میں اس کے علاوہ بھی کئی واقعات مروی ہیں۔
:مردہ اونٹ زندہ ہو گیا
ایک مرتبہ حضرت رَابعہ عدویہ رحمۃُ اللہِ علیہا اونٹ پر سوار ہو کر حج کرنے تشریف لے گئیں، حج سے واپسی پر گھر پہنچنے سےقبل ہی اونٹ مر گیا،آپ رحمۃُ اللہِ علیہا نے بارگاہِ الٰہی میں دُعا کرتے ہوئے عرض کی:اے اللہ پاک!اسے زندہ کر دے،تو اللہ پاک نےاسے زندہ کر دیا،آپ اس پر سوار ہوئیں،جب اپنے مکان کے دروازے پر پہنچیں تو وہ اُونْٹ دوبارہ مر گیا۔3اللہ پاک کی اُن پر رَحْمَت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری بے حِساب مغفرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ہاتھ اُٹھتے ہی بر آئے ہر مدعا وہ دعاؤں میں مولیٰ اثر چاہئے
مذکورہ حکایات میں اگرچہ یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ پاک کی نیک بندیوں نے بارگاہِ خُداوندی میں مُردوں کو زندہ کرنے کی دعائیں مانگیں تو اللہ پاک نے ان کی دعاؤں کو شرفِ قبولِیَّت عطا فرمایا، مگر یہ ضروری بھی نہیں کہ کوئی رب سے دعا مانگے تو ہی کرامت کا ظُہُور ہو، کیونکہ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں اللہ پاک کی نیک بندیوں نے بارگاہِ خداوندی میں نہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے نہ کسی شے کا مُطَالَبہ کیا، اس کے باوُجُود اللہ پاک نے ان پر اپنا خصوصی کرم فرمایا اور ان کی وجہ سے ایسے خلافِ عادت افعال جاری فرمائے جو عام طور پر واقع نہیں ہوتے۔
: بے موسمی پھل کھانا
اللہ پاک کی ان نیک بیبیوں میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کا ذِکْر قرآنِ کریم میں بھی آیا ہے۔ ان میں ایک حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی مریم رحمۃُ اللہِ علیہا بھی ہیں، جن کی ایک کرامت گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکی ہے، ان کی ایک اور کرامت مُلَاحَظہ فرمائیے جو قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔ پارہ تین سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 37 میں آپ رحمۃُ اللہِ علیہا کے متعلق اِرشَاد ہوتا ہے:
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزْقًاۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَاؕ قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنۡدِ اللہِؕ
(پ3،اٰل عمران:37) ترجمۂ کنز الایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے، کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے۔
حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ مُبارَکہ کے تحت تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں:اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے،ایک یہ کہ کرامَت ِ ولی بَرحق ہے کیونکہ حضرت مریم (رضی اللہُ عنہا)کو بے موسم غیبی پھل ملنا ان کی کَرَامَت تھی۔دوسرے یہ کہ بعض بندے مادر زاد ولی ہوتے ہیں،وِلایَت عَمَل پر موقوف نہیں،دیکھو!حضرت مریم (رضی اللہُ عنہا)لڑکپن میں ولیہ تھیں۔تیسرے یہ کہ ولی کو اللہ پاک،عِلْمِ لَدُنِّی اور عَقْلِ کامِل عَطا فرماتا ہے کہ حضرت مریم (رضی اللہُ عنہا)نے زکریا علیہ السّلام کے سوال کا جواب ایسا اِیمان افروز دیا کہ سبحانَ اللہ۔ چوتھے یہ کہ بعض اللہ والوں کے لئے جنّتی میوے آئے ہیں،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کو یہ پھل جَنَّت سے ملتے تھے۔ پانچویں یہ کہ حضرت مریم (رضی اللہُ عنہا)کی پرورش جنّتی میووں سے ہوئی نہ کہ ماں کے دودھ یا دنیاوی غذاؤں سے۔4جبکہ اسی آیتِ مُبارَکہ کے تحت تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں: حضرت مریم نے کسی عورت کا دودھ نہ پیا اور بچپن میں نہایت فصیح و بلیغ کلام فرمایا اور آپ کی پرورش کی یہ کیفیت تھی کہ آپ ایک دن میں اتنا بڑھتی تھیں جتنا دوسرے بچے ایک سال میں اور آپ کو جنتی پھل ملا کرتے تھے، جس کا ذکر اس آیتِ کریمہ میں ہے۔5
حضرت امام ابن کثیر رحمۃُ اللہِ علیہاس آیتِ مُبارَکہ کے تَحْت فرماتے ہیں:یہ آیت اللہ پاک کے ولیوں کی کرامات پر دلالت کرتی ہے۔6 جبکہ حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ یہاں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حضرت مریم کی دو۲ کرامتیں بیان ہوئیں: جنت کے پھل کھانا اور بچپن میں کلام کرنا۔ نیز آپ نے ان تمام بچوں کا بھی اس مقام پر ذکر فرمایا ہے جنہوں نے بچپن میں کلام فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں: کل 11 بچوں نے گہوارے میں کلام کیا:
(1)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم (2)حضرت یحییٰ علیہ السّلام
(3)حضرت ابراہیم علیہ السّلام (4) حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
(5)حضرت مریم رحمۃُ اللہِ علیہا (6) جریج کی گواہی دینے والا بچہ
(7)یُوسُف علیہ السّلام کا گواہ (8)کھائی والوں کا بچہ
(9) اس لونڈی کا بچہ جسے زمانۂ اسرائیل میں زنا کی تہمت لگائی گئی
(10)حضرت آسیہ (فِرْعَون کی بیوی)کی خادمہ کا وہ بچہ جسے کھولتے ہوئے تیل میں جلایا گیا۔
(11)یہود کا وہ بچہ جو اپنے ماں باپ کو لے کر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔7
، :غیب سے پانی ملنا
جس طرح حضرت مریم رحمۃُ اللہِ علیہا کی چند کرامتیں بیان ہوئیں جن میں آپ رحمۃُ اللہِ علیہا کو مُقَفَّل(تالا لگی ہوئی) کوٹھڑی میں بے موسمی پھل غیب سے عَطا ہونا بھی ہے۔اسی طرح اس اُمَّت کی کئی نیک بیبیوں کو بھی غیب سے کھانا پانی ملتا رہا ہے۔ جیسا کہ حضرت اُمِّ اَیْمَن رضی اللہُ عنہا8 کی کَرَامَت مشہور ہے کہ جب آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کے لئے روانہ ہوئیں تو اس وقت آپ کے پاس زادِ راہ نہیں تھا، سَفَر کرتے ہوئے جب مقامِ رَوْحَا پہنچیں تو آپ کو شدید پیاس لگی،فرماتی ہیں:اتنے میں مجھے سر کے اوپر کچھ آہٹ محسوس ہوئی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ چمکدار رسی سے بندھا ہوا پانی کا ایک ڈول آسمان سے زمین پر اُتَر رہا ہے،میں نے لپک کر اُسے پکڑا اور خوب جی بھر کر پانی پیا۔اُس کے بعد میرا یہ حال ہو گیا کہ میں سخت گرمیوں میں روزے رکھتی ہوں اور روزہ کی حالت میں شدید چِلچِلاتی ہوئی دُھوپ میں کعبہ معظمہ کا طواف کرتی ہوں تاکہ مجھے پیاس لگے مگر پھر بھی کبھی پیاس نہیں لگی۔9
سبحانَ اللہ!کیا شان ہے حضرت اُمِّ اَیْمَن رضی اللہُ عنہا کی!ان کو اللہ پاک کی طرف سے پانی کا غیبی ڈول عطا ہوتا ہے اور پیاس بجھا دی جاتی ہے،عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ آسمان سے پانی کا ڈول اتر آئے،رسی کے ساتھ لٹکا ہوا ہو اور ہم پی لیں،یہ خرقِ عادَت ہے عادتاً ایسا نہیں ہوتا، یہ آپ رضی اللہُ عنہا کی کَرَامَت ہے، یہ کرامت ایک اور صحابیہ سے بھی مروی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت اُمِّ شریک رضی اللہُ عنہا مکہ میں تھیں۔ان کے دل میں اسلام کی عَظَمَت پیدا ہوئی اور اسلام لے آئیں۔ان کا تَعَلّق قریش کے قبیلہ بنی عامر بن لُوَی سے ہے اور ابو عسکر دوسی کے نکاح میں تھیں۔قبولِ اسلام کے بعد خُفْیَہ طور پر قریش کی عورتوں سے ملتیں اور انہیں اسلام کی دَعْوَت دے کر قبولِ اسلام کی ترغیب دلاتیں حتی کہ اَہْلِ مکہ پر ظاہِر ہو گیا کہ یہ ایمان لا چکی ہیں۔ اَہْلِ مکہ نے آپ رضی اللہُ عنہا کو پکڑ کر کہا:اگر ہمیں تمہارے قبیلے کا لِحَاظ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سخت سزا دیتے لیکن اب ہم تمہیں مسلمانوں کی طرف لوٹا کر ہی دم لیں گے۔آپ خود بیان کرتی ہیں کہ اَہْلِ مکہ نے مجھے بغیر کجاوے کے اونٹ پر سوار کیا کہ میرے نیچے کوئی کپڑا اور زین وغیرہ بھی نہ تھی۔تین دن تک مجھے اسی حَالَت میں چھوڑے رکھا نہ کچھ کھلاتے نہ پلاتے۔مجھ پر تین دن ایسے گزرے کہ میں نے زمین پر چلنے والی کسی چیز کی آواز نہ سنی۔اَہْلِ مکہ جب بھی کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے تو مجھے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیتے اور خود سائے میں جا کر بیٹھ جاتے اور مجھے کھانے پینے کو بھی کچھ نہ دیتے۔میں اسی حَالَت میں رہتی یہاں تک کہ وہاں سے کوچ کا وقت ہو جاتا۔اسی سفر کے دوران انہوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور مجھے باندھ کر دھوپ میں ڈال کر خود سائے میں چلے گئے۔
اچانک میں نے اپنے سینہ پر کسی چیز کی ٹھنڈک محسوس کی، دیکھا تو وہ پانی کا ایک ڈول تھا۔ میں نے اس میں سے تھوڑا سا پانی پیا پھر اسے اوپر اٹھا لیا گیا،کچھ دیر بعد ڈول پھر آیا میں نے اس میں سے پیا، اسے پھر اٹھا لیا گیا پھر اسی طرح تیسری بار آیا میں نے اس میں سے تھوڑا سا پانی پیا تو اسے پھر اٹھا لیا گیا، کئی بار ایسا ہوا، پھر وہ ڈول میرے حوالے کر دیا گیا،میں نے سیر ہو کر پیا اور بقیہ پانی اپنے جسم اور کپڑوں پر انڈیل لیا۔جب وہ لوگ بیدار ہوئے اور مجھ پر پانی کا اثر محسوس کیا اور مجھے اچھی حالت میں دیکھا تو کہنے لگے:کیا تم نے ہمارے مشکیزوں سے پانی پیا ہے؟میں نے کہا:نہیں!بخدا!میں نے ایسا نہیں کیا بلکہ میرے ساتھ یوں یوں مُعَامَلہ پیش آیا ہے۔ انہوں نے کہا:اگر تم سچی ہو تو پھر تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔جب انہوں نے اپنے مشکیزوں کو دیکھا تو انہیں ایسے ہی پایا جیسے انہوں نے چھوڑے تھے۔اس وقت وہ (مجھ پر)ڈھائے ہوئے ظلم پر افسوس کا اظہار کرنے لگے۔10
حضرت اُمِّ شریک رضی اللہُ عنہا کے متعلق مذکورہ واقعہ امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیا میں حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما کے حوالے سے نَقْل کیا ہے، جبکہ تاریخ کی بعض دیگر کتب میں یہ واقعہ اس طرح بھی مروی ہے کہ حضرت اُمِّ شریک رضی اللہُ عنہا نے جب اپنے قبیلہ دَوس سے ہجرت کی تو تنہا تھیں، راستے میں ایک یہودی کے مکان پر قیام کیا، آپ روزے سے تھیں، مگر یہودی نے اپنی بیوی کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ آپ کو پانی تک نہ دے۔ لِہٰذا یہودی کی بیوی نے آپ کو پانی تک نہ دیا،یہاں تک کہ جب رات کا آخری پہر ہوا تو آپ کو محسوس ہوا کہ غیب سے آپ کے سینے پر ایک ڈول اور زنبیل موجود ہے،آپ نے اس سے کھا پی کر اپنے رب کا شکر ادا کیا۔11
1…البدایۃ والنہایہ، المجلد الثالث،6/536
2…ترمذی، ص777،حدیث:3371
3…جامع کرامات اولیا، 2/59
4…تفسیر نور العرفان، اٰل عمران،تحت الآیۃ:37 ،ص 66
5…تفسیر نعیمی، اٰل عمران،تحت الآیۃ:37 ،3/400
6…تفسیر ابن کثیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 37 ، الجزء 3، 1/777
7…تفسیرنعیمی،پ3،اٰل عمران،تحت الآیۃ:37، 3/400
8…آپ کا نام ’’بَرَکَہ ‘‘ہے۔یہ حُضُور اَقْدَس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کےوالد ماجد حضرتِ عبد اللہ کی باندی تھیں جو حُضُور کو والد ماجد کی میراث سے ملی تھیں۔ انہوں نے حُضُور کی بچپن میں بہت زِیادَہ خدمت کی۔اعلانِ نبوَّت کے بعد جلد ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا، پھر آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرتِ زید بن حارثہ رضی اللہُ عنہ سے ان کا نِکاح کر دیا۔ (اسد الغابہ، 7 /290،ماخوذاً)
9…دلائل النبوۃ للبیہقی، 6/125
10…حلیۃ الاولیا، 2/79،رقم:1530
11…حجۃ اللہ علی العالمین، ص623
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع