30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعلَمِیْنَ وَالصَّلوۃُ وَالسَّلَامُ عَلی خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطنِ الرَّجِیْمِ بسم اللہ الرَّحْمنِ الرَّ حِیْم
اوراقِ مقدسہ کے آدابُ و مسائل
درود شریف کی فضیلت
تاجدارِ رِسالت،شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جسے کوئی سخت حاجت در پیش ہو تو اسے چاہئے کہ مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھے کیونکہ یہ مصائِب و آلام کو دور کرتا اور رزق میں اضافہ کرتا ہے۔(1)
صَلُّوا علی الحبیب! صلی اللہ ُ علی محمد
کاغذکی اہمیتImportance of Paper
اے عاشقانِ رسول!کاغذ(Paper) اللہ پاک کی نعمت اور نہایت اہم چیز ہے اس کا استعمال صدیوں سے ہو رہا ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی صورت اس کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ دورِ جدید میں اگرچہ معلومات کےحصول و تبادلہ کے نئے نئے طریقے آ چکے ہیں مگر پھر بھی کاغذ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ ہر طرح کی کتب،رجسٹر،نوٹ بک وغیرہ کے عِلاوہ کاغذ سے مختلف اقسام کی ضروریاتِ زندگی کی چیزیں مثلاً لفافے،ٹشو پیپرز،کاغذی شاپنگ بیگ،ڈیکوریشن کا سامان وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں۔
کا غذ کی ایجاد سے پہلے لکھنا پڑھنا اور کسی بھی چیز کو ضبطِ تحریر میں لانا بے حدمشکل تھا۔ تحریر کرنے کے لئے لکڑیوں،ہڈیوں،پتھروں اور درخت کے پتوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جبکہ تحریر کو محفوظ کرنے کیلئے ان چیزوں کی حفاظت کا ایک اور کام تھا۔مگر کاغذ کی ایجاد نے لکھنا پڑھنا اور تحریر کو محفوظ کرنا بہت آسان بنا دیا۔اِسی بنا پر قرآن پاک اور کتب احادیث نیز مُقَدَّس تحریروں تک لوگوں کی رسائی آسان ہو گئی ہے لیکن قابلِ نفع نہ رہنے کی صورت میں ان کے ادب و احترام کو بر قرار رکھنا اور بے ادبی سے بچانا ہر مسلمان کا ایمانی فریضہ ہے جس میں کوتاہی کی وجہ سے دِین کا درد رکھنے والےمسلمان فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔
کاغذ کی نا قدریInvaluation of paper
بلا شُبہ آج کے الیکٹرانک دور نے کاغذ کے بے پناہ استعمال میں اور بھی زیادہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ کاغذ کی قدر و اہمیت اور اس کے اَدَب میں کمی واقع ہوئی ہے۔دورِ حاضِر میں کاغذ کا استعمال جس قدر بڑھ چکا ہے ایسا لگتا ہے اتنا ہی اس کی بے قدری میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ اب اکثر لوگوں کا کاغذ کے اَدَب کے متعلق ذہن ہی نہیں ہے،کاغذ سادہ ہو یا پھر اس پر کچھ تحریر ہو سب ہی کو کچرے میں ڈال دیتے ہیں۔اب حالت تو یہ ہے کہ اخبارات اور دیگر لکھائی والے کاغذات کے ساتھ ساتھ مُقَدَّس کلمات و دِینی مضامین والے کاغذات و اخبارات بھی جا بجا سڑکوں اور عوامی مقامات پر بکھرے دکھائی دیتے ہیں اور یہ المناک داستان اِسی پر بس نہیں بلکہ یہ اخبارات و کاغذات بے ادبیوں کے مختلف مراحِل مثلاً گھر کےکچرا دان،گلیوں میں قدموں تلے روندے جانے، گندگیوں اور طرح طرح کی آلودگیوں سے دو چار ہونے کے بعد بالآخر کچرا کونڈی کی نذر ہو جاتے ہیں،بعض اَوقات تو ان اخبارات میں بچوں کا گند وغیرہ لپیٹ کرپھینکا جاتا ہے ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے نیز جب کاغذ اور اخبارات کی Recyclingہوتی ہے(تاکہ کاغذ دوبارہ استعمال میں آ سکےتو)اس وقت بھی یہ کاغذات پاؤں تلے روندے جاتے ہیں حالانکہ اس بے ادبی سے بچنے کی کوشش کی جائے تو بچنا ممکن ہے لہذا ہر ایک کو حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ تحریر جس طرح کی بھی ہو بہر حال نَفْسِ حروف قابلِ ادب ہیں۔
حروف ِتہجی کا ادب ضروری ہے
فتاوی رضویہ میں ہے:ہمارے عُلَما واضِح طور پر فرماتے ہیں:نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جُدا جُدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وَصلی(کاغذ)پر خواہ ان میں کوئی بُرا نام لکھا ہو جیسے فرعون، ابو جہل وغیرہما۔تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائِقِ اِہانت و تذلیل ہے )2 (یعنی خود ابو جہل کی کوئی تعظیم نہیں کہ وہ خود تو سخت کافر تھا مگر چونکہ لفظِ ابو جہل کے تمام حروفِ تہجی(اب و ج ہ ل)قرآنی ہیں۔اس لئے لکھے ہوئے لفظِ ابو جہل کی (نہ کہ شخصِ ابو جہل کی )ان معنوں پر تعظیم ہےکہ اس کو ناپاک یا گندی جگہوں پر ڈالنے اور جوتے مارنے وغیرہ کی اِجازَت نہیں۔
اے عاشِقانِ رسول! بسم اللہ الرحمن الرحیم اور دیگر اَسما و اوراقِ مقدسہ کو ایسی جگہ ہرگز مت لکھئے یا رکھئے جہاں ان کی بے حُرمتی ہونے کا اندیشہ ہو بلکہ کسی بھی زبان میں زمین پر کچھ نہ لکھا جائے ہر زبان کے حروفِ تہجی یعنیALPHABETS))کی تعظیم کی جائے۔ لکھائی کسی بھی زبان میں ہو اس پر پاؤں نہ رکھا جائے مثلاً
*ایسے پائیدان(DOOR MATE)دروازے کے باہَر نہ رکھے جائیں جن پر WELL COME لکھا ہوتا ہے۔
*اکثر مُصَلّوں کے ساتھ چِٹ لگی ہوتی ہے جس پرعربی اردو یا انگلش میں فیکٹری وغیرہ کا نام لکھا ہوتا ہے،نیز پلاسٹک کی چٹائی،لحاف و تولیہ وغیرہ میں بھی اکثر تحریری چِٹ ہوتی ہے،لِہذا ایسی چِٹ کو جُدا کر کے ٹھنڈا کر دینا چاہئے۔
*پلنگ پر بچھے ہوئےفوم کے گدیلوں کے اَستَر پر عموماً کچھ نہ کچھ لکھا ہوتاہے۔بہارِ شریعت میں ہے:بچھونے یا مُصَلّے پر کچھ لکھا ہوا ہو تو اس کو استعمال کرنا ناجائز ہے یہ عبارت اس کی بناوٹ میں ہو یا کاڑھی گئی ہو(یعنی کڑھائی کی گئی ہو)یا روشنائی(INK)سے لکھی ہو اگرچِہ حُرُوفِ مُفْرَدہ((ALPHABETSلکھے ہوں کیوں کہ حروفِ مفردہ (یعنی جدا جدا لکھے ہوئے حروف)کا بھی احترام ہے۔
*اکثر دسترخوان پر عبارت لکھی ہوتی ہے ایسے(کمپنی کانام یا اَشعار لکھے ہوئے) دسترخوانوں کو استعمال میں لانا،ان پر کھانا نہ کھانا چاہئے۔
*بعض لوگوں کےتکیوں پر اشعار لکھے ہوتے ہیں ان کا بھی استعمال نہ کیاجائے۔ )3 (بَہَر حال مُصَلّے ہوں یا چادریں،قالین ہوں یا ڈیکوریشن کی دریاں،تکیہ ہو یا گدیلا جس چیز پر بھی بیٹھنے یا پاؤں رکھنے کی ضَرورت پڑتی ہو اُس پرکسی بھی زَبان میں کچھ بھی نہ لکھا جائے نہ ہی چھپی ہوئی چِٹ سلائی کی جائے۔خوبصورت مکمل قالین(One piece carpet) کے پیچھے عام طور پر کمپنی کا نام و پتا لکھا ہوا اسٹیکر چَسپاں ہوتا ہے،اس اسٹیکر پر پانی لگا دیجئے پھر چند منٹ کے بعد اُتار لیجئے۔عربی تحریروں کا تو خاص طور پر ادب کرنا چاہئے کہ پیارے عربی آقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی مبارک زبان عربی ہے قرآنِ پاک کی زبان عربی اور جنّت میں اہلِ جنّت کی زبان بھی عربی ہے۔عربی تحریریں خواہ کھانے پینے کے پیکٹ پر ہی کیوں نہ ہوں اس کو پھینک دینا یا معاذ اللہ کچرا کونڈی میں ڈال دینا سخت بے ادبی و بد نصیبی ہے۔(4)
شیخِ طریقت،امیرِ اہل سنت با نئ دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:کاغذ اللہ پاک کی نعمت اور بہت ہی اہم چیز ہے۔اس کے موجِد کا تو علم نہیں کہ مسلمان ہے یا نہیں مگر جس نے بھی اس کو ایجاد کیا اس نے اللہ پاک کی دی ہوئی عقل ہی سے کیااور اس میں دن بدن بہتری ہی آتی رہی ہے۔چونکہ کاغذ پر اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا نام اور شَرْعِی مسائل لکھے جاتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے بزرگانِ دِین رحمۃُ اللہ علیہم کورے کاغذ کا بھی بہت ادب کیا کرتے تھے حتّی کہ جو کاغذ لکھنے کے کام آ سکتا اس کو بے وُضو چھوتے تک نہیں تھے۔کاغذ کا ادب کرنے کی کیسی برکتیں ہیں آئیے ملاحظہ کیجئے!
مقدس اور اق کے احترام کی برکتیں
نام کی بلندی کا سبب
فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہے:جو کوئی زمین سے ایسا کاغذ اُٹھائے جس میں اللہ پاک کے ناموں میں سے کوئی نام ہوتو اللہ پاکاُس کا (اٹھانے والے)نام سب سے ا علی درجے میں بلند فرمائے گا اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کرے گا اگرچِہ وہ کافِر ہی کیوں نہ ہوں۔(5)
حکمت کے دروازے کھل گئے
حضرتِ مَنْصُور بن عَماّر رحمۃُ اللہ علیہ کی تَوبہ کا سَبَب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتَبہ اِن کو راہ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا مِلا۔جس پر بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھا تھا۔انہوں نے اسے اٹھا لیا مگر ادب سے رکھنے کی کوئی مُناسِب جگہ نہ پائی تو اُسے نِگل لیا۔رات خواب دیکھا،کوئی کہہ رہا ہے:اس مُقَدَّس کاغذ کے احترام کی برکت سے اللہ پاک نے تجھ پر حِکمت کے دروازے کھول دیئے۔(6)
اوراق واسمائے مقدسہ کا ادب اور بزرگان ِدِین
پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے بزرگانِ دِین رحمۃُ اللہ علیہم بھی اوراقِ مقدسہ کا خوب ادب و احترام بجا لاتے تھے،آیئے! بزرگوں کے اوراقِ مقدسہ کے ادب کے چند واقعات ملاحظہ کیجئے۔
(1) اسمِ جلالت لفظ”اللہ“ کا ادب
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ مُجدِّد اَلْفِ ثانی شیخ احمدسرہندی رحمۃُ اللہ علیہ نے ایک دن عام بیتُ الْخَلا میں بھنگی کا صَفائی کیلئے رکھا ہوا گندگی سے آلودہ کونا ٹوٹا ہوا بڑا سا مٹی کا پِیالہ ملاحظہ فرمایا،غور سے دیکھا تو بیتاب ہو گئے کیونکہ اُس پیالے پر لفظِ اللہ کَنْدَہ تھا ! لپک کر پِیالہ اٹھا لیا اور خادم سے پانی کا آفتابہ(یعنی ڈھکَّن والا دَستہ لگا ہوا لوٹا)منگوا کر اپنے دستِ مبارک سے خوب مَل مَل کر اچھی طرح دھو کر اس کو پاک کیا،پھر ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر ادب کے ساتھ اونچی جگہ رکھ دیا۔آپ اسی پیالے میں پانی پیا کرتے۔ایک دن اللہ پاک کی طرف سے آپ کو الہام فرمایا گیا،جس طرح تم نے میرے نام کی تعظیم کی میں بھی دنیا و آخِرَت میں تمہارا نام اونچا کرتا ہوں۔آپ فرمایا کرتے تھے، اللہ کے نامِ پاک کا ادب کرنے سے مجھے وہ مقام حاصل ہوا جو 100سال کی عبادت و ریاضت سے بھی حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ (7)
آپ رحمۃُ اللہ علیہ سادہ کاغذ کابھی احترام فرماتے تھے،چنانچِہ ایک روز اپنے بچھونے پر تشریف فرما تھے کہ یکایک بے قرار ہو کر نیچے اُتر آئے اور فرمانے لگے:معلوم ہوتا ہے، اس بچھونے کے نیچے کوئی کاغذ ہے۔ (8)
(2) مفتئِ اعظم ہند اور مقدس اوراق کا ادب
عالِم با عَمَل،تاجدارِ اہلِ سنت،شہزادہ ا علی حضرت مولانا الحاج محمد مصطفے رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ المعروف حضور مفتئِ اَعْظَم ہند سادہ کاغذات اور حروفِ مُفْرَدَہ کی بھی تعظیم بجا لاتے تھے کیونکہ وہ قرآن و حدیث اور شریعت کی باتوں کو لکھنے میں کام آتے ہیں۔1391 ھ میں دار العلوم ربانیہ،باندہ(ہند)کےسالانہ جلسہ دستار بندی میں حضور مفتئِ اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ تشریف لائے۔سواری سے اُتر کر چند ہی قدم چلے تھے کہ آپ کی نظر اردو لکھائی والے کاغذ کے چند بوسیدہ ٹکڑوں پر پڑی آپ نے فوراً ان کو زمین سے اٹھایا اور فرمایا:کاغذات اور عربی حروف(کہ اردو کے بھی چند کے عِلاوہ سبھی حروف عربی ہیں ان)کا احترام کرنا چاہئے اس لئے کہ ان سے قرآن عظیم و احادیثِ مُقَدَّسہ اور تفاسیر وغیرہ مُرَتَّب ہوتی ہیں۔(9)
(3) امیر اہل سنت اور مقدس تحریروں کا ادب
حيدر آباد(سندھ)کے ايک اسلامی بھائی کا بيان ہے کہ 8 شوال المکرم 1427ھ بمطابق يکم اکتوبر 2006 ء بروز بدھ اشراق و چاشت کے نوافل کی ادائیگی کے بعد شیخ طریقت، اميرِ اہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی نظر ايک دِینی کتاب پر پڑی جس پر کسی نے وائٹو (whito، لفظ مٹانے والاقلم)رکھ ديا تھا،آپ نے بڑھ کرقلم اس کتاب سے ہٹاتے ہوئے اس طرح ارشاد فرمايا: دِینی کتاب پر کسی چیز کا رکھنا ادب کے خلاف ہے اس کا خیال رکھنا سعادت مندی ہے ورنہ جو اس طرف توجہ نہیں دیتا ہے اس کی بے احتياطياں بڑھ جاتی ہيں، پھر فرمانے لگے :دعوتِ اسلامی کے قيام سے پہلے کی بات ہے کم و بيش 27سال قبل میں ايک صاحب سے ملاقات کیلئے پہنچا دورانِ گفتگو انہوں نے ہاتھ میں لی ہوئی احادیث مبارکہ کی مشہور کتاب مشکوۃ شریف کو اس طرح اوپر سے میز(Table)پر ڈالا کہ اچھی خاصی دھمک (Sound) پیدا ہوئی،مجھے اس بات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آج کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی جب وہ واقعہ ياد آتا ہے تو اس دھمک کا صدمہ محسوس ہوتا ہے۔(10)
(1)...بستان الواعظین،الصلاة تحل العقد،ص241، دار الکتاب العربی
(2)...فتاویٰ رضویہ،23/336
(3)...بہار شریعت،3/420،حصہ16
(4)...فیضان سنت،ص127تا 129بتغیر قلیل
(5)...معجم صغیر،ص302،حدیث:403
(6)...رسالہ قشیریہ،ص48
(7)...فیضانِ سنت، ص 117
(8)...زبدة المقامات،(اردو)ص194
(9)...مفتی اعظم کی استقامت وکرامت،ص 124 ملخصاً
(10)...تذکرہ امیر اہلسنت،شوق علم دین(قسط:4)،ص34
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع