30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ
ان بزرگوں میں سے ایک حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں جو امامُ الْحَرمین تھے، شام وعراق اور حجاز مقدس میں مشہور ومعروف تھے، مشرق ومغرب میں ان کا مذہب پھیلا، کامل عقل وبصیرت والے اور حدیث رسول کے وارث تھے، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے احکام و اصولِ دین کا علم اس امت میں پھیلایا، فتنہ و آزمائش میں مبتلا کئے گئے مگر تقوٰی وپرہیزگاری پر ثابت قدم رہے۔
فتوے سے رجوع نہ کیا:
(8849)…حضرت سیِّدُنامحمد بن احمد بن راشد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو داؤد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے
سنا کہ والی مدینہ جعفر بن سلیمان نے مکرہ (یعنی مجبور کئے گئے) کی طلاق کے مسئلے میں حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو مارا۔(ان کا فتوی یہ تھا کہ مجبور کئے گئے کی طلاق واقع نہیں ہوتی جبکہ خلیفہ وقت چاہتا تھا کہ یہ اعلان کریں کہ مجبور کی طلاق واقع ہو جاتی ہے)حضرت سیِّدُنا ابنِ وہب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ پہلے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو مارا گیا پھرآپ کا سر مونڈھ کر ایک اونٹ پر سوار کیا گیا اور کہا گیا کہ آپ اپنے فتوے کے خلاف اعلان کریں تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:سنو! جو مجھے جانتا ہے وہ تو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ سن لے کہ میں مالک بن انس بن ابو عامر اَصبحی ہوں اور میں یہ کہتا ہوں کہ مجبور کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔(1)جب یہ بات جعفر بن سلیمان تک پہنچی کہ وہ تو اپنا فتوٰی بیان کر رہے ہیں تو اس نے کہا: جاؤ اور ان کو اُونٹ سے اتار دو۔
(8850)…حضرت سیِّدُنافضل بن زِیاد قَطَّان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےپوچھاکہ حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو کس نے مارا تھا؟ انہوں نے فرمایا:بعض حکومتی عہدہ داروں نے مارا تھا مگر میں ان کو جانتا نہیں ہوں ، حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مکرہ (مجبور) کی طلاق کو نافذ نہیں مانتے تھے چنانچہ اسی وجہ سے انہیں مارا گیا۔
70 علما کی گواہی:
(8851)…حضرت سیِّدُنامصعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کوفرماتےسنا:میں نےاس وقت تک فتوٰی نہیں دیاجب تک70علمائےکرام نےیہ گواہی نہ دے دی کہ میں فتوی دینے کا اہل ہوں ۔
فتویٰ دینے کی اہلیت:
(8852)…حضرت سیِّدُناخلف بن عمرو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو فرماتے سنا: میں نے اس وقت تک فتوٰی نہیں دیا جب تک اپنے سے بڑے علمائے کرام سے یہ نہ پوچھ لیا کہ کیا میں اس کا اہل ہوں ؟ میں نے حضرت سیِّدُناربیعہ اور حضرت سیِّدُنایحییٰ بن سعید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے فتوی دینے کا حکم دیا۔حضرت سیِّدُناخلف بن عمرو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں : میں نے عرض کی: اے ابو عبداللہ ! اگر وہ حضرات آپ کو منع کر دیتے تو؟ انہوں نے فرمایا: اگر وہ مجھے منع کر دیتے تو میں بالکل فتوٰی نہ دیتا، کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو کسی کام کا اہل سمجھنا اس وقت تک مناسب نہیں ہے جب تک وہ اپنے سےزیادہ علم والے سے نہ پوچھ لے۔
کرمِ مصطفٰے:
حضرت سیِّدُناخلف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا: میرے مصلے یا (فرمایا:)میری چٹائی کے نیچے دیکھو کیا ہے؟ میں نے دیکھا تو وہاں ایک مکتوب رکھا تھا۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ اسے پڑھو، میں نے جب اسے پڑھا تو اس میں آپ کے ایک دوست کا خواب تحریر تھا جو اس نے آپ کے بارے میں دیکھا تھا، وہ خواب یہ تھا: ’’ میں نے دیکھا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی مسجد میں جلوہ فرما ہیں اور لوگ آپ کےپاس جمع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے منبر کے نیچے تمہارے لیے علم چُھپا رکھا ہے اور میں نےمالک بن انس کو حکم دیا ہے کہ وہ اس علم کو لوگوں میں پھیلائیں ، اس کے بعد لوگ وہاں سے یہ کہتے ہوئے اُٹھے کہ جب یہ بات ہے تو پھر مالک بن انس اسی بات کو جاری کریں گے جس کا حکم انہیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دیا ہے۔“ یہ خواب سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ رونے لگے اور میں وہاں سے چلا آیا۔
بارگاہِ رسالت میں مقبولیت:
(8853)…حضرت سیِّدُناابنِ مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ایک عبادت گزاردوست کا بیان ہے کہ میں نے
خواب میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کی تو میں نےعرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !آپ کے بعد ہم کس سے پوچھا کریں ؟ ارشاد فرمایا: مالک بن انس سے۔
(8854)…حضرت سیِّدُناابو عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ حضور نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد میں تشریف فرما ہیں ، لوگ آپ کے گرد جمع ہیں اور حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آپ کے سامنےدَسْت بَسْتہ کھڑے ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے مشک رکھی ہوئی ہے اور آپ اس میں سے مٹھیاں بَھر بَھر کے امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دے رہے ہیں اور امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اسے لوگوں میں تقسیم فرما رہے ہیں ۔
حضرت سیِّدُنامُطَرِّف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے اس کی تعبیر یہ نکالی کہ آپ علم پھیلائیں گے اور سنت کی پیروی کریں گے۔
ہررات دیدار مصطفٰے:
(8855)…حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جس میں مجھے دیدارِ مصطفٰے نہ ہوتا ہو۔
(8856)…حضرت سیِّدُنامحمدبن رُمْح تُجِیْبِیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :مجھےخواب میں مُعلّمِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت نصیب ہوئی تومیں نےعرض کی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم !ہمارےدرمیان اس بات میں اختلاف ہوگیاہےکہ حضرت سیِّدُناامام مالک اورحضرت سیِّدُنالیث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَا لٰی عَلَیْہِمَا میں سےبڑاعالِم کون ہے؟آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:مالک میرےعلم کےوارث ہیں ۔
حصولِ حدیث میں ادب:
(8857)…مدینہ منورہ کے قاضی حضرت سیِّدُناابراہیم بن عبداللہ بن قریم انصاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناابو حازم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ وہاں سے حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ گزرےاورآگے بڑھ گئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے وہاں حدیث
کیوں نہ سنی؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: مجھے وہاں بیٹھنے کی کوئی جگہ نظر نہیں آئی اور میں کھڑے ہو کر حضورپُرنور، صاحبِ یوم النشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حدیث سننا پسند نہیں کرتا۔
حدیث رسول کی تعظیم:
(8858)…حضرت سیِّدُناابنِ ابواویس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب حدیث شریف کا درس دینے کا ارادہ کرتے تو پہلے وضو کرتے، اپنی داڑھی میں کنگھی کرتے، انتہائی اطمینان ووقار اور ادب کے ساتھ اپنی مسند پر بیٹھتےپھر حدیث بیان کرتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اس اہتمام کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: میں حدیثِ رسول کی تعظیم کرنے کو پسند رکھتا ہوں اور اطمینان وسکون کے ساتھ باوضو ہو کر ہی حدیث بیان کرتا ہوں ۔
آپ راستے میں کھڑے کھڑے یا جلد بازی میں حدیثِ مبارکہ بیان کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ آپ نے خود فرمایا کہ ’’ مجھے یہ پسند ہے کہ میں جو بھی حدیثِ رسول بیان کروں اسے اچھی طرح سمجھ لوں ۔ ‘‘
باوضوحدیث بیان کرنا:
(8859)…حضرت سیِّدُناابو مصعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حدیثِ رسول کی تعظیم کی وجہ سے حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہمیشہ باوضو ہو کر حدیث بیان کرتے تھے۔
(8860)…حضرت سیِّدُنامعن بن عیسٰی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حدیث مبارکہ میں ’’ با ‘‘ اور ’’ تا ‘‘ جیسی غلطی سےبھی بچتے تھے۔
درخشندہ ستارے:
(8861)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علما کے درمیان درخشندہ ستارے کی مثل ہیں ۔ مزیدفرماتے ہیں : حضرت امام مالک اور حضرت سُفیان بن عُیَیْنَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما ایک دوسرے کے ہم نشین ہیں ۔
(8862)…حضرت سیِّدُناعبد الرحمن بن مہدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : خطہ زمین پر حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بڑھ کر حدیثِ رسول کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں رہا۔
منظوم تعریفی کلمات:
(8863)…حضرت سیِّدُناابو یونس مدنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک مدنی دوست نے حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شان میں یہ اشعار سنائے:
يَدَعُ الْجَوَابَ فَلَا يُرَاجَعُ هَيْبَةً وَالسَّائِلُونَ نَوَاكِسُ الْاَذْقَانِ
اَدَبُ الْوَقَارِ وَعِزُّ سُلْطَانِ التُّقَى فَهُوَ الْمُطَاعُ وَلَيْسَ ذَا سُلْطَانِ
ترجمہ:(۱)ان کے جواب نہ دینے پر ہیبت کے سبب دوبارہ سوال نہیں کیا جاتا اور پوچھنے والے گردنیں جھکائے رکھتے ہیں ۔(۲)متقی بادشاہ کی طرح ان کا ادب واحترام ، عزت اور اطاعت کی جاتی ہے حالانکہ وہ بادشاہ نہیں ہیں ۔
(8864)…حضرت سیِّدُناشعبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا نافع رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے وصال کے ایک سال بعد میں مدینہ شریف گیا تو وہاں لوگ حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گِرد جمع تھے۔
اہل مدینہ کے امام:
(8865)…حضرت سیِّدُناقتیبہ بن سعید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی حیات میں مدینہ شریف گیا تو وہاں ایک غَلہ فروش کے پاس جا کر پوچھا: تمہارے پاس شراب والا سرکہ ہے؟اس نے تعجب سے کہا: رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حرم میں وہ کیسے ہو سکتا ہے۔ پھر حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے وصال کے بعد میں مدینہ شریف گیا اور لوگوں سے اس سرکہ کے بارے میں پوچھا تو اب کی بار انہوں نے انکار نہیں کیا۔
اہل سے حدیث لینے کی نصیحت:
(8866)…حضرت سیِّدُناخالد بن خداش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےپاس سے جانے لگا تو میں نے عرض کی:اے ابو عبداللہ ! مجھے کوئی نصیحت کیجئے۔ فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنا اور حدیثِ مبارکہ اس سے لینا جو اس کا اہل ہو۔
(8867)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: علم ایک نورہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جہاں چاہتا ہے رکھتا ہے یہ بہت زیادہ روایتیں کرنے سے نہیں آتا۔
لاعلاج بیماری:
(8868)…حضرت مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا گیا کہ لاعلاج بیماری کونسی ہے؟ فرمایا: دین میں خرابی۔
(8869)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بروز قیامت جو سوالات انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے ہوں گے وہ علما سے بھی کئے جائیں گے۔
(8870)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی گئی کہ آپ طلب علم کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا: علم طلب کرنا بہت اچھا ہے مگر تم یہ دیکھو کہ صبح سے شام تک تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے لہٰذاپہلے اس کا اہتمام کرو۔
(8871)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے مجھ سے کہا: تم کھیلنے والے نہیں ہو لہٰذااپنے دین سے ہرگز مت کھیلنا۔
(8872)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص دعا میں ’’ یَاسَیِّدِی ‘‘ کہتا ہے؟ آپ نےفرمایا:میرےنزدیک پسندیدہ یہ ہےکہ وہ انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی طرح دعامیں ’’ یَا رَبَّنَا، یَارَبَّنَا ‘‘ کہے۔
حکمت کی کانیں :
(8873)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتےہیں کہ حضرت سیِّدُناعیسٰی رُوْحُاللہ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: حضرت محمد مصطفٰے، احمد مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت میں علما حکمت کی کانیں ہوں گے گویا وہ فقہ میں انبیاکی مانند ہیں ۔ حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میرے خیال میں وہ علما اس اُمَّت کےابتدائی زمانہ میں تھے(یعنی صحابَۂ کرام وتابعین)۔
علم کی تذلیل:
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مزید فرماتے ہیں : طالب علم کے لیے اطمینان وسکون، وقار اور خوفِ خدا کا ہونا ضروری ہے۔جسے علم کی بھلائی نصیب ہو گئی اس کے لیے علم بہت اچھا ہے یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ایک تقسیم ہے لہٰذاس کے ذریعے خود کو لوگوں سے بڑا مت جانو۔ آدمی کی بدبختی یہ ہے کہ وہ مسلسل غلطی کرتا رہے اور علم کی تذلیل وتوہین یہ ہے کہ آدمی اس کے سامنے علمی بات کرے جو اس پر عمل کرنے والا نہ ہو۔
سیِّدُنا لقمانرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی بیٹے کو نصیحتیں :
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزید فرماتے ہیں :مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت سیِّدُنا لقمان حکیم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْحَکِیْم نے اپنے بیٹےسےفرمایا:اےمیرےبیٹے!صحت سےبڑھ کرکوئی دولت نہیں اور خوش دلی سےبڑھ کرکوئی نعمت نہیں ، اے میرےبیٹے!لوگوں سےجس چیزکاوعدہ کیاگیاہےوہ اسےبہت دورسمجھتےہیں حالانکہ وہ آخرت کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں ، جب سے تم پیدا ہوئے ہو کتنی زیادہ دنیاپیچھے چھوڑ چکے ہو کس قدر آخرت کی طرف بڑھ چکے ہو، بےشک وہ گھرجس کی طرف تم جارہےہووہ اس گھرسےزیادہ قریب ہےجس سےتم جارہے ہو۔
طویل مُدَّت تحصیل علم:
(8874)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک آدمی 30سال تک ایک شخص کے پاس علم سیکھنے جاتا رہا ہے(یعنی امام مالک نے 30 سال حضرت سیِّدُناابنِ ھرمز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَا سے علم حاصل کیا)۔
(8875)…حضرت سیِّدُنا نافع بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں : میں 35 یا 40 سال تک صبح، دوپہر اور شام حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضرہوتارہا، میں نے انہیں کبھی کسی کے سامنے کچھ پڑھتے ہوئے نہ سنا۔(2)
حضرت سیِّدُنا معن بن عیسٰی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں جوبھی حدیث حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےحوالےسےبیان کرتاہوں میں نےوہ حدیث30یااس سےبھی زیادہ مرتبہ اُن سےسنی ہوتی ہے۔
(8876)…حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:جس شخص میں اپنے لیے خیرخواہی نہ ہو اس میں لوگوں کے لیے بھلائی وخیر خواہی کبھی نہیں ہوتی۔
لوگوں کی زبانوں کے پیچھے چلنے سے پناہ:
(8877)…حضرت سیِّدُنامُطَرِّف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
نےمجھ سے پوچھا: لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا: جو دوست ہے وہ تعریف کرتا ہے اور جو دشمن ہے وہ بُرائی کرتا ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کے دوست اور دشمن نہ ہوں لیکن ہم لوگوں کی زبانوں کے پیچھے چلنے سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پناہ چاہتے ہیں ۔
(8878)…حضرت سیِّدُناعبد الرحمن بن قاسم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں دینی معاملےمیں صرف دو لوگوں کی پیروی کرتا ہوں ، حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ان کے علم کی وجہ سے اور حضرت سیِّدُنا سلیمان بن قاسم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ان کے ورع وتقوٰی کی وجہ سے۔
دین میں بڑا مقام:
(8879)…حضرت سیِّدُنا عبیداللہ بن عمر قَواریری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت سیِّدُنا حماد بن زید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاس بیٹھے تھے کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے وصال کی خبر آئی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ ابو عبداللہ امام مالک پر رحم فرمائے، دین میں ان کا بہت بڑا مقام ومرتبہ تھا۔
وصال کی خبر سن کر غمگین ہونا:
(8880)…حضرت سیِّدُنا قَعْنَبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس آئے تو وہ غمگین تھے، پتا چلا کہ انہیں حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے وصال کی خبر پہنچی ہے جس پر وہ غمزدہ ہیں پھر حضرت سیِّدُنا سفیان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان نے فرمایا:ان کے جیسا اب زمین پر کوئی نہیں رہا۔
(8881)…حضرت سیِّدُنایحییٰ بن سعید قطّان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان فرماتے ہیں : میں حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زندگی میں ان پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا تھا۔
(8882)…حضرت سیِّدُنا احمد بن عبد الرحمٰن بن وہب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا سے سنا کہ حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میرے پاس ایسی احادیث بھی ہیں جنہیں میں نے کبھی بیان کیا نہ ہی مجھ سے کسی نے سنیں اور میں مرتے دم تک انہیں بیان بھی نہیں کروں گا۔
احادیث زُہری کے محافظ:
(8883)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا گیا: حضرت سیِّدُناابن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس تو حضرت سیِّدُناامام زُہری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی وہ احادیث بھی ہیں جنہیں آپ بیان نہیں کرتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:اگر میں حضرت امام زہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے سنی ہوئی تمام احادیث بیان کردوں تو پھر میں انہیں ضائع کرنے والا ہوں گا۔
تفسیر بالرائے کا ناپسند جاننا:
(8884)…حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اگرقرآن پاک کی تفسیر کرنے والے پر مجھے غلبہ ہوتا تو میں اس کا سر پھاڑ دیتا۔(3)
(8885)…حضرت سیِّدُناابو عمار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنااحمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاب(موطا امام مالک) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جس نے اس پر عمل کیا اس نے بہت اچھا کیا۔
(8886)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی نے فرمایا: جب حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی روایت سے کوئی حدیث آئے تو اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔
شک والی روایت چھوڑ دیتے:
(8887)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی فرماتے ہیں :حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جب کسی حدیث میں شک ہوتا تو اسے بالکل چھوڑ دیتے ۔
(8888)…(الف)حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی نے فرمایا: اگر حضرت سیِّدُنا امام مالک اور حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا نہ ہوتے تو حجازِ مقدس سے علم رُخصت ہو جاتا۔
(8888)…(ب)حضرت سیِّدُناسفیان بن عُیَیْنہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ حدیث شریف اسی سے لیتے تھے جو اچھی طرح حدیث کا علم رکھنے والا ہو۔
(8889)…حضرت سیِّدُناعبدالرحمٰن بن مہدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں :میرے نزدیک صحتِ حدیث میں حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔
حدیث لینے میں احتیاط:
(8890)…حضرت سیِّدُناسفیان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لوگوں کی خوب کانٹ چھانٹ کرتے تھے اور ہر ایک سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے۔
حضرت سیِّدُناعلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ان لوگوں کے لیے ضمانت ہیں جن سے انہوں نے احادیث روایت کی ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایا کرتے تھے:علم اسی سے حاصل کیا جائے جسے معلوم ہو کہ میں کیا کہہ رہاہوں ۔
(8891)…حضرت سیِّدُنااِسحاق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّزَاق فرماتے ہیں امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے حضرت سیِّدُناابنِ شہاب زُہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے ایسی احادیث بھی سنی ہیں جو ابھی تک بیان نہیں کیں ۔ میں نے پوچھا: اے ابو عبداللہ ! ایسا کیوں ہے؟ فرمایا:ان پر عمل ممکن نہیں تھا چنانچہ میں نے انہیں چھوڑ دیا۔
(8892)…حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےفرمایا: کیا عطاف بن خالد جیسے شخص سے بھی احادیث لکھی جاتی ہیں ؟ میں نے اس مسجد میں کم وبیش70شیوخ کو پایاہےمگران سےحدیث نہیں لکھی، حدیث مبارک تو حدیث کے اہل لوگوں سے لکھی جاتی ہے جن میں حدیث کا دور دورہ ہوتا ہے جیسے کہ حضرت سیِّدُنا عُبَـیْدُاللہ بن عَمرو اور ان جیسے دیگر حضرات عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃ ۔
(8893)…حضرت سیِّدُناحبیب بن زریق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا: آپ نے تَوْئَمَہ کے آزاد کردہ غلام صالح ، حزان بن عثمان اور غُفْرَہ کے آزاد کردہ غلام عمر سے حدیث مبارکہ کیوں نہ لکھی؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے اس مسجد میں 70 تابعین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کو پایا ہے مگر علم ان ہی لوگوں سے حاصل کیا ہے جو قابل اعتماد اور مامون تھے۔
(8894)…حضرت سیِّدُناابنِ وہب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر میں حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے فرامین اپنی تختیوں پر لکھوانا چاہوں تو مجھے نہیں لگتا کہ میں انہیں پورا کر پاؤں گا۔
جواب دینے میں احتیاط:
(8895)…حضرت سیِّدُناعبد الرحمٰن بن مہدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص چند دن تک حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس حاضر ہو کر ایک سوال کرتا رہا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا بالآخر ایک مرتبہ آیا اور عرض کی:اے ابو عبداللہ ! اب میں یہاں سے جانے والا ہوں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کافی دیر تک اپنا سر جھکائے رکھا پھر سر اٹھا کر کہا: مَاشَآءَ اللہ، اصل میں بات یہ ہے کہ میں صرف وہی گفتگو کرتا ہوں جس میں مجھے نیکی وبھلائی کا گمان ہو اور تمہارے اس سوال کا جواب میں اچھی طرح بیان کرنے پر قادر نہیں ہوں ۔
(8896)…حضرت سیِّدُناعبد الرحمٰن بن مہدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتےہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے ایک مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: میں اسے اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا۔ اس شخص نے کہا: میں بہت دورفلاں جگہ کا رہنے والا ہوں اور آپ کے پاس صرف یہ مسئلہ پوچھنے ہی آیا ہوں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جب تم اپنےعلاقے میں پہنچو تو ان لوگوں کو بتا دینا کہ مالک بن انس نے کہا ہے میں اسے اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا۔
(8897)…حضرت سیِّدُناسعید بن سلیمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب بھی کوئی فتوٰی دیا تو میں نے آپ کو یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کرتے سنا:
اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ(۳۲) ( پ ۲۵ ، الجاثیة: ۳۲) ترجمۂ کنز الایمان :ہمیں تو یونہی کچھ گمان سا ہوتا ہے اور ہمیں یقین نہیں ۔
مسائل بتانے میں محتاط:
(8898)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دوست اور بصرہ کے بزرگ حضرت سیِّدُنا عمرو بن یزید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا: اے ابو عبداللہ ! لوگ مختلف شہروں سے آپ کے پاس آتے ہیں ، اپنی سواریوں کو تھکاتے اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور مقصد صرف
یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ سے سوال کریں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو جو علم دیا آپ اس کے مطابق انہیں جواب دیں مگر آپ فرما دیتے ہیں کہ لَااَدْرِیْ یعنی میں نہیں جانتا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اے اللہ کے بندے! شامی شام سے، عراقی عراق سے اور مصری مصر سے میرے پاس آتے ہیں اور وہ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ شاید اس بارے میں جو جواب میں دے چکا ہوں اس کے علاوہ کوئی جواب میرے لیے ظاہر ہو جائے تومیں انہیں وہ جواب کہاں سے دوں ؟حضرت سیِّدُناعمرو بن یزید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے آپ کی یہ بات حضرت لیث بن سعد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو بتائی۔
سنتوں کی پیروی اور خلفا کے طریقے پر چلنا:
(8899)…حضرت سیِّدُنامُطَرِّف بن عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےپاس حضرت سیِّدُناابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اوردین کےمعاملےمیں دیگرمضبوط وراسخ لوگوں کاذکرہواتو انہوں نےفرمایا:حضرت سیِّدُناعمربن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کا بیان ہےکہ پیارےآقا صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں اور آپ کے بعد آپ کے خلفا کے طریقوں پر چلنا قرآن پاک کی پیروی، مکمل اطاعت الٰہی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دین پر مضبوطی ہے مخلوق میں سےکسی کےلیےبھی ان کو بدلنا یا ان کی مخالفت کی طرف نظر کرنا جائز نہیں ہے، جو ان کے راستے پر چلا وہ درست راہ چلنے والا ہے، جس نے ان کے طریقوں سے مدد چاہی اس کی مدد کی جائے گی اور جس نے ان کےطریقوں کو چھوڑا وہ مسلمانوں کی راہ سے ہٹ گیا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے اسی طرف پھیر دے گا جس طرف وہ پھرا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جہنم میں پھینک دےگا اور جہنم کتنا بُرا ٹھکانا ہے۔
(8900)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:جب بھی ہمارے پاس بہت جھگڑالو شخص (یعنی بحث ومباحثہ کرنے والا)آئے تواس کے جھگڑے کی وجہ سے کیا ہم اسے چھوڑ دیں جو حضرت سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےپاس لے کرآئے ؟(یعنی ایسا نہیں ہوسکتا۔)
طالبِ علم کے لئے کیاضروری ہے؟
(8901)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: طالب علم کے لیے وقار، دلی سکون، خوفِ خدا اوراپنے اسلاف کی پیروی ضروری ہے۔
(8902)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَا لٰی عَلَیْہ کےپاس جب اہل رائےمیں سےکوئی آتاتوآپ فرماتے:میرےپاس اپنےربّ عَزَّ وَجَلَّ اوراپنےدین کے معاملے میں واضح دلیل ہےجبکہ تم شک کرنےوالےہولہٰذااپنےجیسےکسی شکّی کےپاس جاؤاوراسی سےبحث ومباحثہ کرو۔
گستاخِ صحابہ کے لئےآپ کا فیصلہ:
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایاکرتے تھے: جو حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابہ کو بُرا کہے میرے نزیک مالِ غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ۔
(8903)…حضرت سیِّدُنامنصور بن ابو مزاحم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سامنے حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا تذکرہ ہوا تو میں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:ابوحنیفہ نے دین کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کیااور جو دین کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے وہ نا اہل ہے۔(4)
(8904)…حضرت سیِّدُناولید بن مسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے شہر میں ابو حنیفہ( رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ )کا تذکرہ کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا: تمہارےشہرمیں رہائش کی حاجت نہیں ہے۔
قرآن کو مخلوق کہنے والے کو قتل کا حکم:
(8905)…قابلِ اعتماد اور مسلمانوں کے عبادت گزاروں میں سے ایک عبادت گزارحضرت سیِّدُنایحییٰ بن خلف بن ربیع طَرسوسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور بولا: اے ابو عبداللہ ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو قرآن پاک کو مخلوق کہتا ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے لوگوں سے فرمایا: یہ بے دین ہے اسے قتل کر دو۔ اس شخص نے کہا: حضور والا! میں تو کسی سے سنی ہوئی بات آپ سے بیان کر رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا:”مگر میں نے تو صرف تم سے سنا ہے اور تو کسی سے نہیں سنا۔“مطلب یہ کہ آپ نے اس بات کو بہت زیادہ ناپسند جانا۔
قرآن مخلوق نہیں :
(8906)…حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا:قرآن پاک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کلام ہے، یہ مخلوق نہیں ہے۔
(8907)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: قرآن پاک کلامِ الٰہی ہے اور کلامِ الٰہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی صفت ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی کوئی بھی صفت مخلوق نہیں ہے۔
(8908)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا: جوشخص شرک کےسواسارےکبیرہ گناہ کر ڈالے پھر ان بدعات اورخواہشات(یعنی قرآن پاک کو مخلوق کہنے وغیرہ) سے دور رہے توبالآخروہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
بدعتی کو مجلس سے نکال دیا:
(8909)…حضرت سیِّدُناجعفر بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مجلس میں شریک تھےکہ ایک شخص آیا اوران سےکہا:اےابو عبداللہ !رحمن عَزَّ وَجَلَّ نے عرش پر استوا فرمایا ہے اس کا استوا کیسا ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اس کے اس سوال پر بہت غصہ آیا ، آپ
نے زمین کی طرف سر جھکا لیا اور اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی سے زمین کُریدنے لگے یہاں تک کہ آپ کی پیشانی پر پسینہ آگیا پھر اپنا سر اُٹھایا اور لکڑی کو پھینکتے ہوئے فرمایا: رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کے عرش پر استوا فرمانے کی کیفیت عقل میں آنے والی نہیں ، وہ استوا ہمارے علم سے بالا تر ہے اور اس پر ایمان واجب ہےاور تمہارا سوال بدعت ہے، میرے خیال میں تم بدعتی ہو۔ پھر آپ کے حکم پر اسے باہر نکال دیا گیا۔
آخرت میں دیدارِ الٰہی:
(8910)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں کہ اس فرمان باری تعالیٰ:
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲)اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ(۲۳) ( پ ۲۹ ، القیامة: ۲۲ ، ۲۳) ترجمۂ کنز الایمان :کچھ منہ اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے۔
کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ثواب کو دیکھیں گے۔ پھر فرمایا یہ لوگ جھوٹے ہیں کیا انہوں نے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کا کفار کے بارے میں یہ فرمان نہیں پڑھا کہ
كَلَّاۤ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَؕ(۱۵) ( پ ۳۰ ، المطففین: ۱۵)
ترجمۂ کنز الایمان :ہاں ہاں بے شک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہیں ۔(5)
(8911)…حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: لوگ بروز قیامت اپنی آنکھوں سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا دیدار کریں گے۔
تقدیر کے متعلق پوچھنے والے کو جواب:
(8912)…حضرت سیِّدُناابنِ وہب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو ایک شخص سےیہ کہتے سنا: تم نے کل مجھ سے تقدیر کے متعلق سوال کیا تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں ۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(۱۳) ( پ ۲۱ ، السجدة: ۱۳)
ترجمۂ کنزالایمان :اوراگرہم چاہتےہرجان کواس کی ہدایت عطافرماتےمگرمیری بات قرارپاچکی کہ ضرورجہنم کوبھر دوں گا ان جِنّوں اور آدمیوں سب سے۔
قدریہ کے متعلق رائے:
(8913)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : قدریہ کے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ اگر وہ توبہ کریں تو ان کی توبہ مان لی جائے اور اگر توبہ نہ کریں توانہیں قتل کر دیا جائے۔
قدریہ کے متعلق رائے:
(8914)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے قدریہ مذہب والوں کے ساتھ شادی کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی:
وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْؕ- ( پ ۲ ، البقرة: ۲۲۱)
ترجمۂ کنز الایمان :اور بے شک مسلمان غلام مشرک سے اچھا اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو۔
(8915)…حضرت سیِّدُناعثمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے ایک مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب میں کہا:حضورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس بارےمیں یہ ارشادفرمایاہے۔اس شخص نےکہا:آپ کی کیارائےہے؟توآپ نےیہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی:
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳)
( پ ۱۸ ، النور: ۶۳)
ترجمۂ کنز الایمان : تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا اُن پر درناک عذاب پڑے۔
اہل رائے سے بچو:
(8916)…حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےفرمایا:اہل رائےسےبچوکیونکہ وہ سنت کےدشمن ہیں ۔
(8917)…حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:ایمان قول اورعمل ہےجوگھٹتابڑھتا ہے۔(6)
(8918)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جو کسی بھی صحابی کی شان میں کمی کرے
یا کسی صحابی کے لیے دل میں کینہ رکھے تو مسلمانوں کو ملنے والے مال غنیمت میں اس کا کچھ حق نہیں ہے، پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان آیاتِ مبارکہ کی تلاوت کی:
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ- كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْؕ-وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷)لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ(۸)وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ
ترجمۂ کنز الایمان :جوغنیمت دلائی اللہ نےاپنےرسول کو شہر والوں سےوہ اللہ اوررسول کی ہےاوررشتہ داروں اور یتیموں اورمسکینوں اورمسافروں کےلیےکہ تمہارے اغنیا کا مال نہ ہو جائےاور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اورجس سےمنع فرمائیں بازرہواور اللہ سےڈروبے شک اللہ کا عذاب سخت ہے ان فقیرہجرت کرنے والوں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضاچاہتے اور اللہ ورسول کی مددکرتے وہی سچے ہیں اور جنھوں نے پہلے سے اس شہراور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتےہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے گئے اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتےاس چیزکی جو دیئے گئے اور اپنی جانوں پر
یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹)وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۰) ( پ ۲۸ ، الحشر: ۷ تا ۱۰)
ان کوترجیح دیتےہیں اگرچہ اُنھیں شدیدمحتاجی ہواور جواپنے نفس کےلالچ سے بچایاگیا تو وہی کامیاب ہیں اوروہ جواُن کے بعدآئے عرض کرتے ہیں اےہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔
لہٰذا جو کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی کرے یا پھر اس کے دل میں کسی صحابی کے لیے کینہ ہو تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔
(8919)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مجلس میں ایک شخص کا ذکر ہوا کہ وہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےصحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ-ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْــٴَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ- ( پ ۲۶ ، الفتح: ۲۹)
ترجمۂ کنز الایمان :محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے اور سجدے میں گرتے اللہ کا فضل ورضا چاہتے ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اُسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ اُن سے کافروں کے دل جلیں ۔
(8920)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : انتہائی تعجب کی بات ہے کہ جعفر اور ابوجعفر بھی حضرت سیِّدُناابو بکر اور حضرت سیِّدُناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔
عبادت وریاضت میں بڑھ کر:
(8921)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن وہب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:جب حضورنبی اکرم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےپیارےصحابہ پہلی مرتبہ ملک شام آئے تو ایک راہب سے سامنا ہوا، راہب نے انہیں دیکھ کر کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! حضرت سیِّدُناعیسٰی بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام کے حواری جنہیں سولی دی گئی اور آروں سے چیرا گیا وہ بھی مجاہدے میں اس مقام تک نہیں پہنچےجس مقام تک حضرت محمدعربی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابہ پہنچے ہیں ۔ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن وہب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی:آپ ان صحابہ کے نام بتا سکتے ہیں ؟تو انہوں نے حضرت سیِّدُناابو عبیدہ بن جراح، حضرت سیِّدُنا مُعاذ بن جبل، حضرت سیِّدُنا بلال اور حضرت سیِّدُنا سعدبن عُبادہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا نام لیا۔
(8922)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن وہب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جب حضرت سیِّدُنا صالح بن علی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی شام آئے تو انہوں نے لوگوں سے حضرت سیِّدُنا عمر بن العزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کی قبر کے بارے میں پوچھا مگر کسی کو کچھ معلوم نہ تھا بالآخر آپ کو کہا گیا کہ فلاں راہب کے پاس چلے جائیں تو وہ بتا سکتا ہے چنانچہ آپ نے راہب کے پاس جا کر اس سے پوچھا تو اس نے کہا: آپ صدّیق (یعنی بہت سچے)کی قبر کاپوچھ رہے ہیں ؟ وہ فلاں کھیت میں ہے۔
دلوں کی سختی کا سبب:
(8923)…حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت سیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام فرمایاکرتے: ذِکْرُاللہ کےعلاوہ زیادہ گفتگونہ کروورنہ دل سخت ہوجائیں گےاورسخت دل اللہ عَزَّ وَجَلَّ سےدور ہوتاہےلیکن تمہیں خبرنہیں ہوتی، خودکوآقا سمجھتے ہوئے لوگوں کے گناہوں کو نہ دیکھوبلکہ خود کو غلام سمجھتےہوئےان میں نظرکروکیونکہ لوگ دوطرح کےہیں :(۱)…مصیبت زدہ اور(۲)…امن وعافیت والے۔ پس مصیبت زدہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سےرَحم طلب کریں اورعافیت والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کاشکر بجالائیں ۔
(8924)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناعیسٰی رُوْحُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام فرمایاکرتے:اے بنی اسرائیل! خالص پانی، زمینی سبزی اور جو کی روٹی کو تھام لو اور خبردار! گندم کی روٹی سے بچو کیونکہ تم اس کا شکر ہرگز ادا نہیں کر سکتے۔
بلند مقام پر فائز ہونے کا سبب:
(8925)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت سیِّدُنا لقمان حکیم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا:آپ اس مقام ومرتبہ تک کیسے پہنچے؟ انہوں نے فرمایا: سچ کہنے، امانت ادا کرنے اور بیکار باتوں کو چھوڑ دینے سے۔
(8926)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: میں سفید لباس والے قاریِ قرآن کو دیکھنا پسند کرتا ہوں ۔
دنیاسے مایوسی مالداری ہے:
(8927)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس حضرت سیِّدُنا ہشام بن عروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا سےاوروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: لوگو! جان لو کہ (دنیا سے) مایوسی مالداری ہےکیونکہ جو شخص کسی چیز سے مایوس ہو جاتا ہے وہ اس سے بے پرواہو جاتا ہے۔
فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ عَنْہکی نصیحت:
(8928)…امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمربن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نےایک شخص کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا: بے کار کاموں کے پیچھے مت پڑنا، دشمن سے اجتناب کرنا اور اپنے دوست سے بھی بچنا، لوگوں میں وہی شخص سردار ہوتاہےجو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سےڈرتاہے، دوستی کےلئےصرف امانت دار شخص کا انتخاب کرنا کیونکہ امانت دار کے برابر قوم کا کوئی شخص نہیں ہوتا، فاسق وفاجر کی صحبت کبھی اختیار نہ کرنا کہ کہیں تم اس کے فسق وفجورکو اختیار نہ کرلو اور اپنا راز بھی اسے مت بتانا اور اپنے دینی مُعاملے میں اُن لوگوں سے مشورہ کرنا جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرتے ہیں ۔
بخل اور فضول گوئی کی آفت:
(8929)…حضرت سیِّدُنایحییٰ بن سعید عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمَجِیْد بیان کرتے ہیں کہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس عورتیں جمع تھیں کہ ان میں سے ایک عورت کہنے لگی: خدا کی قسم! میں ضرور جنت میں جاؤں گی کیونکہ میں مسلمان ہوں اور نہ میں نے کبھی زنا کیا ہے نہ کبھی چوری۔پھر جب وہ رات کو سوئی تو خواب میں اسے کسی نے کہا: تو نے قسم کھائی ہے کہ تو ضرور جنت میں جائے گی بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ تو اضافی مال میں بخل کرتی ہے اور فضول باتیں کرتی ہے۔ جب وہ صبح کو اٹھی تو حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنا خواب بیان کیا ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَا لٰی عَنْہَا نے فرمایا: کل جن عورتوں کے سامنے تم نے بات کی تھی ان سب کو جمع کرو چنانچہ سب عورتوں کو بلوایا گیا توسب جمع ہوگئیں پھر اس نے اپنا خواب سب کے سامنے بیان کیا۔
انگوٹھی کا نقش:
(8930)…حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی انگوٹھی پر ’’ حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل ‘‘ نقش تھا جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی:
وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ(۱۷۳)فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌۙ-
( پ ۴ ، اٰل عمرٰن: ۱۷۳ ، ۱۷۴)
ترجمۂ کنز الایمان :اور بولے اللہ ہم کو بس ہے اور کیا اچھا کارساز تو پلٹے اللہ کے احسان اور فضل سے کہ انہیں کوئی برائی نہ پہنچی۔
سیِّدُناامام شافعی اور امام محمدعَلَیْہِمَا الرَّحْمَہ:
(8931)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناامام محمد بن حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مجھ سے پوچھا: ہمارے اصحاب زیادہ علم والے ہیں یا آپ کے اصحاب؟میں نے کہا: آپ آپس میں بڑائی والی بات چاہتے ہیں یا انصاف والی؟انہوں نے فرمایا:انصاف والی۔میں نے کہا:آپ کے نزدیک دلیل کیا چیز ہے؟ انہوں نے فرمایا: قرآن پاک ، حدیث، اجماع اور قیاس۔ میں نے کہا: میں آپ کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کے اصحاب قرآنِ پاک کا زیادہ علم رکھتے ہیں یا ہمارے؟ فرمایا: تمہارے۔ میں نےپوچھا:
آپ کے اصحاب صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے اقوال کو زیادہ جانتے ہیں یا ہمارے؟ انہوں نے فرمایا: تمہارے۔ میں نے کہا: اب قیاس کے علاوہ کچھ بچا ہے؟ فرمایا: نہیں ۔میں نے کہا: جب یہ بات ہے تو پھر ہم آپ سے بڑھ کر قیاس کرنے والے ہیں کیونکہ قیاس اصول پر کیا جاتاہے تب ہی قیاس کی پہچان ہوتی ہے۔ حضرت سیِّدُناابنِ عبد الحکم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم فرماتے ہیں : اپنے اصحاب کہنے سےحضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی کی مراد حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تھے۔(7)
”موطا “کی عظمت:
(8932)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی نے فرمایا:قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ’’ موطا ‘‘ ہے۔
(8933)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سیِّدُناامام محمد بن حسن شیبانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے بتایا کہ میں مسلسل تین سال اور کچھ ماہ تک حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں رہا اور میں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے700سے زیادہ احادیث سنی ہیں ۔حضرت سیِّدُنا امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی سند سے حدیث بیان کرتے تو ان کا گھر بَھر جاتا یہاں تک کہ لوگوں کے لیے جگہ تنگ ہو جاتی اور جب ان کے علاوہ کسی اور کی سند سے حدیث بیان کرتے تو بہت تھوڑے لوگ آتے۔ پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرمایا کرتے: اپنے اصحاب کے ساتھ بُرائی کرنے والا میں نے تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا، جب میں تمہیں حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی سند سے حدیث بیان کرتا ہوں تو پورا گھر بَھر جاتا ہے اور جب تمہارے ہی اصحاب کی سند سےحدیث بیان کرتاہوں توبے دلی سے میرے پاس آتے ہو۔(8)
زمین کے بڑے عالِم:
(8934)…حضرت سیِّدُنامحمد بن ادریس شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی فرماتے ہیں :میں مَکۂ مکرمہ میں اپنی پھوپھی کے گھر تھا کہ ایک صبح وہ مجھ سے کہنے لگیں :میں نے رات ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ نےکیادیکھاہے:کہنےلگیں :خواب میں مجھےکسی نےکہاکہ فلاں رات زمین کےسب سےبڑےعالِم کاانتقال ہو گیا ہے۔میں نےاندازہ لگایاتووہ وہی رات تھی جس میں حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ہوا تھا۔
(8935)…حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو ایک حدیث بیان کی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: تم نے کس سے سنی ہے؟ اس نے منقطع سند بیان کی تو آپ نے فرمایا: حضرت عبد الرحمٰن بن زید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس جاؤ وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت نوح رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی سند سے تمہیں یہ حدیث بیان کریں گے۔
علم سے پہلے ادب:
(8936)…حضرت سیِّدُنا مالک بن اَنَس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےقریش کےایک نوجوان کوفرمایا:میرےبھتیجے علم سیکھنے سے پہلے ادب سیکھو۔
اچھی خلوت والے:
(8937)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بنِ مبارک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طرح بلند مرتبہ ہوتےکسی کو نہیں دیکھا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بہت زیادہ نفلی نماز روزہ والے نہیں تھے، ہاں ان کی خلوت بہت اچھی تھی۔
(8938)…حضرت سیِّدُناعبد الرحمٰن بن مہدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتےہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے جو کچھ سیکھا اسے اچھی طرح محفوظ کر لیا۔ ایک دن میں نےچاہا کہ آپ آج مسجد نبوی میں مجھ پر مہربانی وشفقت کریں لہٰذا میں نے ان سے عرض کی: اے ابو عبداللہ ! میں اپنے گھر والوں سے دور ہوں نہ جانے میرے بعد ان پر کیا بیتی ہو گی؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مسکراکرفرمایا:میں بھی ابھی اپنے گھر والوں سے دور ہوں جبکہ وہ سب گھر میں ہیں اور مجھے بھی نہیں معلوم کہ ان پر کیا گزررہی ہو گی۔
جنتی پھل کے مشابہ:
(8939)…حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا:کیلےسےبڑھ کرکوئی بھی چیزجنتی پھلوں کے مشابہ نہیں ہے، تم سردی گرمی میں جب بھی چاہوگےیہ تمہیں مل جائےگا، پھرآپ نےیہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی:
اُكُلُهَا دَآىٕمٌ ( پ ۱۳ ، الرعد: ۳۵) ترجمۂ کنز الایمان :اس کے میوے ہمیشہ۔
(8940)…حضرت سیِّدُناابوخلید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس ٹھہرا اور چار دن میں انہیں موطا پڑھ کر سنا دی۔ انہوں نے فرمایا: ایک شیخ نے 60 سال میں اسے جمع کیا اور تم نے چار دن میں پڑھ لی؟ تم لوگ کبھی فقیہ نہیں بن سکتے۔
(8941)…حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : علم کی بلندی کوکوئی بھی شخص اس وقت تک نہیں پہنچ سکتاجب تک اس کی خاطر فقر کی تکلیف برداشت نہ کرےاوراپنی ہر ضرورت پراسےترجیح نہ دے۔
مدینہ شریف بھٹی ہے:
(8942)…حضرت سیِّدُناابومُسْہر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتےہیں کہ خلیفہ ہارون الرشیدنےحضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا: آپ کے پاس گھر ہے؟آپ نے فرمایا: نہیں ۔خلیفہ نے تین ہزار
دینار دیئے اور کہا: ان سے اپنے لیے گھر خرید لیجئے گا۔ پھر جب خلیفہ مدینہ منورہ سے جانے لگا تو حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا: ہمارے ساتھ چلیے میرا ارادہ ہےجس طرح امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے لوگوں کو ایک ہی قرآن پاک پر جمع کیا ہے میں بھی لوگوں کو آپ کی موطا پر جمع کر دوں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےفرمایا: ایسی کوئی صورت ممکن نہیں کیونکہ پیارےآقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد آپ کےصحابَۂ کرام مختلف شہروں میں چلےگئےتھےاورانہوں نےاحادیث بیان کیں تھیں ، لہٰذاہرشہر والوں کے پاس علم ہے۔ رہی آپ کے ساتھ جانے کی بات تو میرے محبوب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے: ’’ اَلْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَّهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ یعنی مدینہ ان کے لیے بہتر ہے اگر وہ جانیں ‘‘ (9)اور ایک فرمان یہ بھی ہے کہ ’’ اَلْمَدِينَةُ تَنْفِيْ خَبَثَهَا كَمَا ينْفِى الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ یعنی مدینہ اپنے میل کو اس طرح دورکرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کا زنگ دور کرتی ہے(10)۔ ‘‘ (11) اور یہ رہے آپ کے دیئے ہوئے دینار چاہیں تو لے لیں چاہیں تو چھوڑ دیں ۔
(8943)…حضرت سیِّدُناعبد الرحمٰن بن مہدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُناسفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی روایتِ حدیث میں امام تھے اور حضرت سیِّدُناامام اَوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قواعدِ اسلاف کے امام تھے اور حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دونوں میں امام تھے۔
سیِّدُناامام مالک عَلَیْہِ الرَّحْمَہکی فراست:
(8944)…حضرت سیِّدُنامالک بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں :خلیفہ ہارون الرشید نےتین باتوں میں مجھ سے مشورہ کیا: (۱)…موطا کو کعبہ شریف میں لٹکا دیا جائے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے پر اُبھارا جائے۔ (۲)…پیارےآقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کا منبر شریف شہید کرکے اسے سونے، چاندی اور ہیروں سے بنایا جائے اور(۳)…امام نافع بن ابونعیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کومسجدنبوی کاامام مقررکردیاجائے۔میں نےکہا:امیرالمؤمنین!جہا ں تک موطا کو کعبہ شریف میں معلق کرنے کی بات ہے تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کےصحابہ کا کئی فروعی مسائل میں اختلاف ہے اور وہ زمین کے گوشے گوشے میں پہنچے ہیں اور ہر ایک کا طریقہ درست ہے۔ جہاں تک منبرِ رسول کو توڑ کر اس کی جگہ ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کا منبر بنانے کی بات ہے تومیرے خیال میں یہ ٹھیک نہیں ہےکہ آپ لوگوں کوپیارےآقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کےاثر وتبرک سےمحروم کر دیں اور جہاں تک نافع کو مسجد نبوی کاامام بنانےکی بات ہےتووہ قرأت کےامام ہیں ہوسکتاہےمحراب میں کھڑےہوکروہ کوئی نادرقرأت پڑھ لیں اورپھروہی یادکر لی جائے۔خلیفہ نےکہا: اےابو عبداللہ !آپ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سےتوفیق یافتہ ہیں ۔
سیِّدُناامام مالک بن اَنَس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی مرویات
(8945)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دُبَّاء اور مُزَفَّت(12)میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔(13)
(8946)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتےہیں :حضورنبی اکرم، رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لہسن، کُرَّاث (ایک قسم کی تیز بو والی سبزی) اور پیاز نہ کھاتےکیونکہ فرشتے آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے او ر آپ جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام سے گفتگو کرتے تھے۔(14)
راہِ خدا میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھانے والے:
(8947)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ محبوبِ خدا، تاجدارِ انبیاء صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: مَااُوْذِيَ اَحَدٌ مِثْلَ مَا اُوْذِيتُ فِي اللهِ یعنی راہِ خدامیں جتنی تکلیف مجھےدی گئی ہےاتنی کسی کو نہیں دی گئی۔(15)
(8948)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !آپ کم نیکیوں اور زیادہ گناہوں والے کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ہر انسان خطاکار ہے ، پس جس کی عادت میں عقلمندی اور یقین میں پختگی ہو گی اس کے گناہ اسے کوئی نقصان نہ دیں گے۔میں نےعرض کی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !یہ کیسے ہو گا؟ارشاد فرمایا: کیونکہ وہ جب بھی گناہ کرے گا فوراً توبہ کر لے گا جو اس کے گناہ کو مٹا دے گی اور اس کے پاس فضل باقی رہ جائے گا جس کے سبب وہ جنت میں چلا جائے گاپس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبرداری کرنے والے کے لیے عقل ایک آلہ ہے اور نافرمانی کرنے والے کے خلاف عقل دلیل و حجت ہے۔(16)
(8949)…حضرت سیِّدَتُنااُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان فرماتی ہیں کہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:جوقربانی کاارادہ رکھتاہووہ اپنےبال اورناخن نہ کاٹےجب تک کہ قربانی نہ کر لے۔(17)
اہل جنت کے چراغ:
(8950)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: عمر بن خطاب اہل جنت کا چراغ ہے۔(18)
(8951)…حضرت سیِّدُنا سہل بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے گوشت کے بدلے جانور کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے(19)۔ (20)
(8952)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ مالکِ کوثر، شافع محشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عطا کردہ مال میں بخل کرنے والے اور راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایک ساتھ نہیں رکھے گا۔(21)
غصہ نہ کرنا:
(8953)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! مجھے نصیحت کیجئے ۔ ارشاد فرمایا: لَاتَغْضَبْ غصہ نہ کرنا۔(22)
(8954)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتےہیں کہ پیارےآقا، مدینےوالےمصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: لوگ ان سواونٹوں کی طرح ہیں جن میں سےتم ایک بھی سواری کےقابل نہ پاؤ۔(23)
فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ عَنْہ کا جنتی محل:
(8955)…حضرت سیِّدُناجابربن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتےہیں کہ محبوبِ خدا، تاجدارِانبیا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے سونے کا ایک محل دیکھا، میں نے پوچھا: یہ کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: قریش کے ایک آدمی کا ہے۔ میں سمجھا وہ میرا ہے، پھر میں نے پوچھا: وہ آدمی کون ہے؟ فرشتوں نے کہا: عمر بن خطاب۔ پھر میں اندر داخل ہونے لگا تواے ابوحفص!مجھے تمہاری غیرت یاد آگئی۔ حضرت سیِّدُناعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ رو پڑے اور عرض کی:میری یہ مجال، بھلا میں آپ پر بھی غیرت کر سکتا ہوں ۔(24)
سب سے بُرے لوگ:
(8956)…حضرت سیِّدُناعُروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے مروی ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں :ایک شخص حضور نبی کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰ لِہٖ وَسَلَّم کے پاس آیا تو آپ
نے فرمایا:اپنے قبیلہ کا بُرا شخص ہے۔ جب وہ اندر آچکا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا کہ اسے تکیہ دو چنانچہ اسےتکیہ پیش کیا گیا، پھر جب وہ اُٹھ کر جا چکا تو سیِّدہ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی: پہلےتوآپ نے یہ فرمایا کہ ’’ اپنے قبیلہ کا برا شخص ہے۔ ‘‘ پھر آپ نے یہ بھی حکم دے دیا کہ ’’ اسے تکیہ دو۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سب سے بُرےوہ لوگ ہیں جن کی عزت ان کے شر سے بچنے کے لیے کی جاتی ہے۔(25)
(8957)…حضرت سیِّدُناجابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتےہیں کہ ہم نے پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ حُدیبیہ کے دن سات افراد کی طرف سے اونٹ کی قربانی کی۔(26)
گھریلو آداب:
(8958)…حضرت سیِّدُناجابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں رحمتِ عالم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے والدین سے بھلائی کرو تمہاری اولاد تم سے بھلائی کرے گی اورپاک دامن رہو تمہاری عورتیں بھی پاک دامن رہیں گی۔(27)
(8959)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا، شہنشاہِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: گناہوں میں کچھ گناہ ایسے بھی ہیں جنہیں نماز، روزہ اور حج وعمرہ نہیں مٹاسکتے۔ صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! پھر انہیں کیا چیز مٹاتی ہے؟ ارشاد فرمایا: رزق کی تلاش میں غمگین ہونا۔(28)
موت سببِ راحت ہے:
(8960)…حضرت سیِّدُناابوقتادہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضورنبیِ اکرم، رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ راحت پا گیا یا اس سے راحت ہو
گئی۔صحابَۂ کرام نےعرض کی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم !اس سے کیا مرادہے؟ارشادفرمایا:بندہ مؤمن انتقال کرکےدنیاکےدُکھ درد اورتکالیف سےنجات پاکررحمتِ الٰہی میں راحت پاتاہےجبکہ کافراور فاجر مرتا ہےتو لوگ، شہر، درخت اورچوپائےاس سےنجات پاکرراحت حاصل کرتے ہیں ۔(29)
70انبیائے کرام کی جائے پیدائش:
(8961)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرورِ انبیا، محبوبِ کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مشرق کی جانب اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:جب تم منٰی کے پاس دو پہاڑوں کے درمیان ہو تو یاد رکھنا وہاں سُرَرْ نامی ایک وادی ہے(جس میں ایک بڑا درخت ہے)اُس کے نیچے 70انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی ناف کاٹی گئی (یعنی وہ جگہ ان کی جائے پیدائش ہے)۔ (30)
(-638962)…حضرت سیِّدُنامحمد بن ابو بکرثقفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ عرفہ کی طرف جارہا تھا تو میں نے ان سے پوچھا: آپ حضرات اس دن جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےساتھ ہوتےتو کیا کرتےتھے ؟حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: ہم میں سے کوئی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہتا اور کوئی تکبیر(یعنی اَللہُ اَکْبَر ) کہتااور انہیں کوئی منع نہ کرتا تھا۔(31)
(8964)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ، سردارِ مکہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔(32)
(8965)…حضرت سیِّدَتُناجُدَامَہ اَسَدِیَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ رحمتِ عالَم، شَفیعِ اُمَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میرا ارادہ تھا کہ زمانہ حمل میں بچے کو دودھ پلانے سے منع کر دوں پھر مجھے یاد آیا کہ اہل روم وفارس ایساکرتے ہیں تو انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔(33)
(8966)…حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ میرے سرتاج، صاحبِ معراج
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فجر کی دوسنتیں اتنی مختصر پڑھتے تھے کہ مجھے شک ہو جاتا کہ آپ نے ان میں اُمُّ القرآن (یعنی سورہ فاتحہ) پڑھی بھی ہے یا نہیں ۔(34)
بہتر گھر:
(8967)…امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےروایت ہےکہ جانِ جہاں ، رحمتِ عالمیاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:تمہارےگھروں میں بہترگھروہ ہےجس میں یتیم ہواوراس پرشفقت کی جاتی ہو۔(35)
مبارک لعاب کا معجزہ:
(8968)…حضرت سیِّدُناقتادہ بن نعمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن میری آنکھیں زخمی ہو کرمیرےرخساروں پربہہ گئیں تومیں دونوں آنکھیں لیےاپنےمحبوب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا، آپ نے انہیں ان کی جگہ پر رکھ کر اپنا لعاب مبارک لگایا تو دونوں روشن ہو گئیں ۔(36)
ایک دوسری روایت میں ’’ بدر ‘‘ کے بجائے ’’ اُحد ‘‘ کا ذکر ہے۔
نظر برحق ہے:
(8969)…حضرت سیِّدُنامحمدبن ابواُمامہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنےوالدسےروایت کرتےہیں کہ حضرت سیِّدُنا سہل بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نہرمیں غسل کرنےگئے، اپنا جُبَّہ اُتارا تو حضرت سیِّدُنا عامر بن ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ انہیں دیکھ رہےتھے، حضرت سہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ گورےچٹےاورخوبصورت آدمی تھے، حضرت سیِّدُناعامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں دیکھا تو کہا:میں نے آج تک آپ جتنا حسین کسی کنواری لڑکی کوبھی نہیں دیکھا۔بس اسی وقت حضرت سیِّدُنا سہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو شدید بخار ہوگیا، کسی نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضرت سہل کوبخارہوگیاہےاوران میں آپ کےساتھ سفرکرنےکی سکت نہیں ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم خود حضرت سہل کے پاس تشریف لے گئے تو آپ کو حضرت عامر والی ساری بات بتائی گئی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے؟ تم نے اس کے لیے برکت کی دعاکیوں نہ کی؟نظربَرحق ہےلہٰذااس کےلیےوضوکرو۔چنانچہ حضرت سیِّدُناعامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے وضو کیا تو حضرت سیِّدُنا سہل بالکل تندرست ہوگئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ سفر کیا۔(37)
(8970)…ابراہیم بن عبدالرحمٰن کی اُمِّ ولدنےاُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنااُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے پوچھا : میرا دامن لمبا ہے اور میں گندگی کی جگہ میں چلتی ہوں ؟ اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جواب دیا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: اسے بعد والی زمین پاک کر دے گی(38)۔(39)
پسندیدہ باغ وقف کردیا:
(8971)…حضرت سیِّدُناانس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مدینہ منورہ میں بہت زیادہ باغات تھےاور آپ کو سب سے زیادہ اپنا بَیْرُحَا باغ پسند تھا جو کہ مسجد کے سامنے تھا، سرورِ انبیا، محبوب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس میں جایا کرتے اور اس کا صاف ستھراپاکیزہ پانی نوش بھی فرماتے، جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ ( پ ۴ ، اٰل عمرٰن: ۹۲)
ترجمۂ کنز الایمان :تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو۔
توحضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بارگاہِ رسالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے ’’ تم ہرگز بھلائی کو نہیں پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔ ‘‘ اور میرا سب سے پیارا مال باغِ بیرحا ہے میں اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس اس کا ثواب اور ذخیرہ چاہتا ہوں ، یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ اسے وہاں خرچ فرمائیں جہاں ربّ تعالیٰ آپ کی رائے قائم فرمائے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا:خوب خوب، یہ تو بڑےنفع کا مال ہے جو تم نےکہامیں نےسن لیامیری رائےیہ ہےکہ تم اسےاپنےقرابت داروں میں وقف کردو۔ انہوں نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! میں آپ کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں ، چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے عزیزوں اور چچازادوں میں وہ باغ تقسیم کر دیا۔(40)
قیامت کی انوکھی تیاری:
(8972)…حضرت سیِّدُناانس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! قیامت کب آئے گی؟ ارشاد فرمایا: تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا: اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔(41)
(8973)…(42)
(8974)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کام کی کوشش کرے گا وہ اس سے دور ہو جائے گا جس کی اسے اُمید ہے اور اس کے قریب ہو جائے گا جس سے وہ بچنا چاہتا ہے۔(43)
سحری میں برکت ہے:
(8975)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: سحری کرو کہ سحری میں برکت ہے۔(44)
(8976)…حضرت سیِّدَتُنااُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ جب حضور پُرنور، صاحبِ یومُ النشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادی کا وصال ہوا تو آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ غسل دینا اور جب فارغ ہو جاؤ تو مجھےاطلاع کردینا۔ جب ہم غسل دے کر فارغ ہوئیں تو ہم نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کواطلاع کردی، آپ نے ہمیں اپناتہبند دیتے ہوئے فرمایا: اسے اس کے کفن کے نیچے رکھ دو(45)۔(46)
بدن کے لیے تین مفید چیزیں :
(8977)…امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالَم، نُوْرِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:تین چیزیں ہیں جن سے بدن خوش ہوتا اور بڑھتا ہے: (۱)…خوشبو (۲)… نرم کپڑا اور (۳)…شہد پینا۔(47)
درختوں پر پھلوں کی بیع:
(8978)…حضرت سیِّدُناانس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےپھلوں کی تجارت سےمنع فرمایاحتّٰی کہ وہ رنگ پکڑلیں ۔عرض کی گئی:رنگ پکڑنا کیاہے؟ارشاد فرمایا:سرخ ہوجائیں ۔پھرارشادفرمایا:بتاؤاگر اللہعَزَّ وَجَلَّ پھل روک لےتم میں سےکوئی اپنے بھائی کامال کس کےعوض لےگا۔(48)
تمہارا گواہ کہاں ہے؟
(8979)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےروایت ہےکہ حضورنبی اکرم، رسولِ مُحْتَشَمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّم ایک انصاری مرداور عورت کی شادی میں تشریف لے گئے تو ارشاد فرمایا: تمہارا گواہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ہماراگواہ کیاہے؟ ارشادفرمایا:دَف۔چنانچہ دَف لایاگیاتوآپ نے حکم دیا: اسے اپنے ساتھی (دولھا)کے پاس بجاؤ۔(49) پھر کھانے کے تھال لاکر رکھے گئے، مگر لوگوں نے احترام نبوی میں کھانے کے لیے ہاتھ نہ بڑھائے، آپ نے فرمایا: یہ بُردباری بہت اچھی ہےمگرتم کھاتے کیوں نہیں ؟ لوگوں نےعرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم !کیاآپ نےہمیں لوٹنےسےمنع نہیں فرمایاتھا؟ ارشاد فرمایا: میں نےتمہیں جنگوں میں لوٹنےسے منع فرمایاتھاجبکہ یہ اوراس جیسی دعوتوں میں ایساکرنےسے منع نہ کیا(50)۔ (51)
(8980)…حضرت سیِّدُناابو عشراء دارمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: یارسولَاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !کس جگہ سےذبح کرناچاہیےکھوپڑی سےیاحلق سے؟ ارشاد فرمایا: اگر تم اس کی ران میں بھی نیزہ مار دو تو کافی ہے(52)۔(53)
جورَحم نہیں کرتا اس پر رَحم نہیں کیا جاتا:
(8981)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور جانِ عالَم، رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی گود میں وفات پا رہے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، حضرت عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ آپ نے تو ہمیں رونے سے منع کیا ہوا ہے؟ ارشاد فرمایا: میں نے تمہیں اس طرح کے رونے سے منع نہیں کیا، اِنَّ هٰذَا رَحْمَةٌ، مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَم یہ تو رحمت (یعنی شفقت ومحبت) ہے۔ جو رَحم نہیں کرتا اس پر رَحم نہیں کیا جاتا۔(54)
دنیا میں جنتی باغ:
(8982)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبیوں کے سلطان،
رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔(55)
(8983)…حضرت سیِّدُناابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم، رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بکری کا بازو تَناوُل فرمایا پھربغیر وضو کئے نماز پڑھی۔(56)
اعمال میں نیت کا کردار:
(8984)…حضرت سیِّدُناابوسعیدخُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ جناب سَیِّدُالْمُرْسَلِین، رَحْمَۃُ لِّلْعَالَمینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اعمال کا دارمدار نیتوں پرہےہر شخص کےلیےوہی ہےجس کی اس نے نیت کی، جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہوئی کہ اسے حاصل کرےیا عورت کی طرف ہوئی کہ اس سے نکاح کر ےتو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔(57)
رضائے رَبُّ الانام:
(8985)…حضرت سیِّدُناابو سعید خُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ محبوبِ خدا، تاجدارِ انبیا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ جنتیوں سےارشادفرمائےگا:اے جنتیو! وہ عرض کریں گے: اے ہمارے ربّ ہم حاضر ہیں ۔ رب تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: کیا تم راضی ہو؟ جنتی عرض کریں گے: ہم کیوں راضی نہ ہوں جبکہ تو نے تو ہمیں وہ کچھ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں کسی کو نہیں دیا۔ربّ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں
تمہیں اس سے بھی افضل دینے والا ہوں اور وہ یہ کہ میں تم سے راضی ہوں اور تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔(58)
(8986)…امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ صاحبِ عزت ووقار، شَفیعِ روزِ شمار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے وقار سیکھو۔(59)
عقلمندی، ورع اور شرافت:
(8987)…حضرت سیِّدُناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےمروی ہےکہ آقائےدوجہاں ، رحمتِ عالمیاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: رضائے الٰہی کے لیے غور وفکر کرنے سے بڑھ کر کوئی عقلمندی نہیں ، سب سےبڑھ کر ورع یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حرام کردہ اشیاء سےبچاجائےاورحُسنِ اخلاق سےبڑھ کرکوئی شرافت نہیں ۔(60)
(8988)…حضرت سیِّدُنامعاویہ بن قُرَّہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! میں بکری ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رَحم آتا ہے۔ ارشاد فرمایا: تمہیں بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی تم پر رحم فرمائے گا۔ (61)
قبولیتِ دعا کا وقت:
(8989)…حضرت سیِّدُناسہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم، رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: دو گھڑیاں ایسی ہیں جن میں آسمان کے دروازے کُھل جاتے ہیں اور کوئی دعا رَد نہیں کی جاتی، نماز کے وقت اور جب جہاد کے لیے لشکر آگے بڑھ رہا ہو۔(62)
(8990)…حضرت سیِّدُناسہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ، رءوف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بیابان میں دعا کی جستجو کرو اور تین موقعوں پر دعا رد نہیں ہوتی : (۱)…اذان کے وقت (۲)…راہِ خدا میں صف بندی کے وقت اور(۳)…بارش برسنے کے وقت۔(63)
دوسرے کے گناہ اپنے سر:
(92-8991)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ سرکارِمدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس شخص پر رَحم فرمائے جس پر مال یا زمین کی صورت میں اس کے
بھائی کا حق ہو اور وہ اس کے پاس جا کر معاف کروا لے قبل اس کے کہ اس سے حساب لیا جائے کیونکہ اس دن (یعنی قیامت میں )درہم ودینار نہیں ہوں گےپس اگر (اس نے معاف نہ کروایا) اور اس کے پاس نیکیاں ہوئیں تو اس کی نیکیوں میں سے حقدار کو بدلہ دیا جائے گا اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو حقدار کے گناہ لے کر اس کے اوپر ڈال دیئے جائیں گے۔(64)
اللہ عَزَّ وَجَلَّکی خاطر محبت رکھنے والوں کا انعام:
(8993)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:بروزِقیامت اللہعَزَّ وَجَلَّ ارشادفرمائےگا:میری عظمت کی خاطرآپس میں محبت کرنےوالے کہاں ہیں ؟آج میں انہیں اپنےسایہ رحمت میں رکھوں گاآج کےدن میرےسایہ رحمت کےسواکوئی سایہ نہیں ۔(65)
شانِ عبدُاللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ عَنْہ:
(8994)…حضرت سیِّدُناسعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک زبان سے زمین پر چلنے والے کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ وہ اہل جنت سے ہے سوائے حضرت عبداللہ بن سلام کے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ وہی ہیں جن کے بارے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے یہ آیت نازل فرمائی:
وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ ( پ ۲۶ ، الاحقاف: ۱۰)
ترجمۂ کنز الایمان :اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس پر گواہی دے چکا۔(66)
(8995)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتےہیں کہ حضور سرورِ ذیشاں ، رحمتِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:سفرعذاب کاایک ٹکڑاہےجوتمہاری نینداورکھانےپینےکی لذت کوبھی تم سے روک دیتاہےلہٰذاتم میں سےجب کوئی اپناکام پوراکرلےتوجلدی سےاپنےگھروالوں کےپاس لوٹ آئے۔(67)
(8996)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تو کسی شخص کو یہ کہتے سنے کہ لوگ ہلاک ہو گئے، تو وہی ان میں سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔(68)
حضرت سیِّدُنااسحاق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا: اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: یا تو اس شخص نے لوگوں کو بے دین سمجھ کراور خود کو ان سے بڑا جان کر یہ کہایا پھر لوگوں میں دین سے دوری دیکھ کر اور نیک لوگوں کے دنیا سے چلے جانے پر غمگین ہوا اور یہ کہہ دیا۔ مجھے امید ہے اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں ۔
مسلمان کی فسخ بیع کو قبول کرنے کا انعام:
(8997)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ شفیق ومہربان آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کی فسخ بیع قبول کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اس کی غلطیاں معاف فرما دے گا(69)۔(70)
(8998)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدلہ نہیں دے سکتا مگر اس طرح کہ اسے غلام پائے تو خرید لے تاکہ آزاد کر دے(71)۔(72)
عقل مند کہلوانے کا نسخہ:
(8999)…حضرت سیِّدُناابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم، رَسولِ محتشم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے ربّ کی فرمانبرداری کرو تمہیں عقلمند کہا جائے گا اور اپنے ربّ کی نافرمانی نہ کرو ورنہ تمہیں جاہل کہا جائے گا۔(73)
(9000)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم، رَءُوْفٌ رَّحِیْم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جب امام سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهْ کہے تو تم اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد کہو کیونکہ جس کا کلام فرشتوں کے کلام کے ساتھ مل گیا اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(74)
حیا اسلام کی فطرت ہے:
(9001)…حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ پیکر شرم وحیا، صاحب جود وسخا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: لِكُلِّ دِيْنٍ خُلُقٌ وَخُلُقُ الْاِسْلَامِ اَلْحَيَاءُ یعنی ہر دین کی ایک فطرت وعادت ہوتی ہے اور اسلام کی فطرت حیا ہے۔(75)
(9002)…اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : سفر وحضر میں نماز دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھی پس سفرکی نماز تو وہی رہی البتہ حضر میں زیادہ کر دی گئی۔(76)
(9003)…حضرت سیِّدُنازید بن خالد جہنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: لَا تَسُبُّواالدِّيْكَ فَاِنَّهٗ يَدْعُوْ اِلَى الصَّلَاةِ یعنی مرغ کو گالی نہ دو کیونکہ وہ نماز کی طرف بلاتا ہے۔(77)
(9004)…اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ نبی رحمت، شَفیعِ اُمَّت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبرداری کی نذر مانے وہ اس کی فرمانبرداری کرے۔(78)
(9005)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن زید مازِنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ ساقِیِ کوثر، شافع محشر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: میرے گھراورمیرےمنبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔(79)
بہترین گواہ :
(9006)…حضرت سیِّدُنازیدبن خالدجُہَنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتےہیں حُضورسرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بہترین گواہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ گواہ جو گواہی مانگنے سے پہلے ہی گواہی دے دے۔(80)
چاند دیکھ کر روزہ اور عید:
(9007)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے رسولِ خدا، شفیع روزِ جزا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:مہینہ29دن کابھی ہوتاہے لہٰذاچاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے چھوڑو، اگر تم پر بادل چھا جائیں (یعنی آسمان پر بادل ہوں ) تو(30دن کی)مدت پوری کرو۔(81)
مزید ارشاد فرمایا: شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔(82)
مومن کم کھانے والا ہوتا ہے:
(9008)…حضرت سیِّدُناابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا روایت کرتے ہیں کہ تاجدار انبیاء، محبوبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مومن ایک آنت سے کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔(83)
(9009)…فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۶) ( پ ۳۰ ، المطففین: ۶)
ترجمۂ کنز الایمان :جس دن سب لوگ ربُ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔
حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:(میدان محشر میں )لوگ کھڑے رہیں گے یہاں تک کہ کوئی تو آدھے کان تک اپنے ہی پسینے میں کھڑا ہو گا۔(84)
(9010)…حضرت سیِّدُناابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان فرماتے ہیں کہ غیبوں کی خبر دینے والےمصطفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مشرق کی جانب ارشارہ کیا اور فرمایا: سنو! فتنہ یہاں ہے، سنو! فتنہ یہاں ہے یہیں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔(85)
(9011)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: نمازِمغرب دن کے وتر ہیں ۔(86)
پسندیدہ بندہ اور پسندیدہ عمل:
(9012)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ کون ساہے؟ ارشاد فرمایا: لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا۔ عرض کی گئی: کونسا عمل افضل ہے؟ ارشاد فرمایا: مومن کے دل میں خوشی داخل کرنا۔ پوچھا گیا: مومن کو خوش کرنا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: بھوک میں اس کا پیٹ بھرنا، اس کا غم وتکلیف دور کرنا اور اس کا قرض ادا کرنااور جس نے اپنے بھائی کے کسی کام میں اس کا ساتھ دیا گویااس نے ایک مہینے کے روزے رکھے اور اعتکاف کیا، جو کسی مظلوم کی مدد کرنے کو بڑھا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے قدموں کو اس دن
ثابت رکھےگاجس دن قدم پھسل رہےہوں گے، جس نےاپنےغصےکوقابومیں رکھا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی پردہ پوشی
فرمائے گا اور بے شک بُرے اخلاق اعمال کو ایسے خراب کر دیتے ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔(87)
دو رخے شخص کی مذمت:
(9013)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں بُرا وہ ہے جو دو چہروں والا ہے، ایک کے پاس ایک چہرہ لے کراور دوسرے کے پاس دوسرا چہرہ لے کر آتا ہے۔ (88)
بارگاہِ رسالت سے سلام کا جواب ملتاہے:
(9014)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم، رَسُوْلِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مشرق ومغرب میں جو بھی مسلمان مجھ پرسلام بھیجتا ہے میں اور میرے
ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے فرشتے اسے سلام کا جواب دیتے ہیں ۔کسی نےعرض کی: یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اہل مدینہ کا کیا حال ہے؟ ارشاد فرمایا:ایک کریم شخص کے متعلق اپنے پڑوس اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا کیا گمان کیا جاتا ہے؟یہ تو ایسی چیز ہے جس کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اسے حکم دیاہے۔(89)
(9015)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ مکی مدنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر واجب ہے(90)۔(91)
(9016)…اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور نبی کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حج افراد کیا تھا(92)۔(93)
(9017)… اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ رسول خدا، تاجدار انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے قرآن پاک کو صحیح طریقے سے پڑھا اس کے لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس ایک مقبول دعا ہے چاہے تو وہ دعا اسے جلد ہی دنیا میں عطا فرما دے چاہے تو آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ فرما دے۔(94)
یتیم کی کفالت کاانعام:
(9018)…حضرت سیِّدُنا ابوامامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم، رَسُوْلِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےشہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا اس طرح کہ دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا اور ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنےوالا (جنت میں ) ایسے ہوں گے۔(95)
اللہ عَزَّ وَجَلَّہر کام میں نرمی پسند فرماتا ہے:
(9019)…اُمُّ المؤمنین سیِّدَتُناعائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ آقائے نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْاَمْرِ كُلِّهٖ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔(96)
(9020)…ایک دن خلیفہ مامون الرشید نے اپنے دربان کو کہا:اپنے تمام کاموں میں نرمی برتنا تم پر لازم ہے۔
پھر اس نے دربان کومذکورہ حدیث مبارکہ سنائی۔
(9021)…حضرت سیِّدُناعطاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو زرد خضاب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
مومن کا قیدخانہ اور کافر کی جنت:
(9022)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتےہیں کہ سرکارِمدینہ، قرارِقلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُالْكَافِرِ یعنی دنیامومن کاقیدخانہ اورکافرکی جنت ہے۔(97)
نہرِ حیات:
(24-9023)…حضرت سیِّدُناابوسعیدخُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتےہیں کہ تاجدارِرِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:جب جنتی جنت میں اوردوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گےتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشادفرمائےگا:جس کےدل میں رائی کےدانےبرابربھی ایمان ہواسےنکال لو، پس لوگ دوزخ سےاس حال میں نکلیں گےکہ وہ بالکل سیاہ ہوچکےہوں گےپھرانہیں نہرِحیات میں ڈالاجائےگاتو(ان کےگوشت پوست) ایسے اُگیں گے جیسے بہتے پانی کے کنارے سبزہ اُگتا ہے ، کیاتمہیں معلوم نہیں کہ وہ زرد لپٹا ہوا نکلتا ہے۔(98)
با جماعت نماز کی فضیلت:
(9025)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حضورسرورِ عالَم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جماعت سے نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے 27 درجہ افضل ہے۔(99)
(9026)…سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ محسن کائنات، فخرِموجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا:جو اذان سنے اور جیسا مؤذن کہتا ہے ویسا ہی کہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔(100)
نور کے صفحات میں اندراج:
(9027)…حضرت سیِّدُناابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا:جب جمعہ کا دن آتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ملائکہ کو نور کے صفحات اور نور کے قلم دے کر بھیجتا ہے چنانچہ ملائکہ مساجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اورنماز کھڑی ہونے تک ہر آنے والے کا نام لکھتے ہیں ۔(101)
(9028)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتےہیں :پیارےآقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ظہر، عصر، مغرب، عشا (اورفجر)مِنٰی میں ادافرماتےپھراگلی صبح جب سورج طلوع ہوجاتاتوعَرَفہ تشریف لے جاتے۔(102)
نکاحِ شغَار:
(9029)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضورنبی کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا ہے(103)۔(104)
(9030)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :مُعلّمِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حمل کے حمل کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے(105)۔(106)
نجاشی کے جنازےپر چار تکبیریں :
(9031)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :سرورِ عالَم، نُوْرِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (نمازِ جنازہ میں )نجاشی پر چار تکبیریں کہیں ۔ (107)
(9032)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا روایت کرتے ہیں کہ سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے پاس کوئی چیز لائق وصیت ہو اسے یہ مناسب نہیں کہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔(108)
حیا ایمان سے ہے:
(9033)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو شرم وحیا کے متعلق نصیحت کر رہا تھا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے فرمایا: اسے چھوڑ دو کہ حیا ایمان سے ہے۔(109)
(9034)…حضرت سیِّدُناابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ محسن کائنات، فخرموجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا:بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میری امت سے خطا، بھول اور اس چیز کو معاف کر دیا ہے جس پر انہیں مجبور کیا گیا ہو۔(110)
(9035)…حضرت سیِّدُناابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: جو تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کرو جو شک میں نہ ڈالے، بے شک جس بھی چیز کو تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خاطر چھوڑ و گے اس سے ہرگز محروم نہیں ہو گے۔(111)
(9036)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضورنبی رحمت، شَفیعِ اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: ہر نشہ آور شے حرام ہے اور ہر نشہ آور شے شراب ہے۔(112)
مومن دنیا کی کمی سے نہیں گھبراتا:
(9037)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ رحمتِ عالَم، نُوْرِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نےحضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! بے شک دنیا مومن کا قیدخانہ ہے، قبر اس کی امان گاہ ہے اورجنت اس کاٹھکانا ہے، اےابوذر!بےشک دنیاکافرکی جنت ہے، قبراس کےلیےعذاب اور دوزخ اس کاٹھکاناہے، اےابوذر!مومن دنیاکی کمی سےنہیں گھبراتااورنہ اہل دنیااوردنیاکی عزت کی پرواکرتا ہے۔(113)
مسلمان کی حاجت پوری کرنے کی فضیلت:
(9038)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا روایت کرتے ہیں کہ محبوب ربِّ اکبر، شَفیعِ روزِ مَحشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا میں قیامت کے دن اس کے میزان کے پاس کھڑا رہوں گا اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا تو ٹھیک ورنہ میں اس کی شفاعت کروں گا۔(114)
اُمَّت محمدیہ کا افضل اور شریر:
(9039)…حضرت سیِّدُناابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اپنی امت کے سب سے افضل شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ صحابَۂ کرام نے عرض کی:کیوں نہیں ، یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !ضرور بتائیے۔ارشاد فرمایا: جس کی عمر طویل ہو، عمل اچھا ہو، اس سے بھلائی کی امیدہو اور اس کی شر سے امن ہو۔ کیا میں تمہیں اپنی امت کے سب سے شریر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ صحابَۂ کرام نے عرض کی: ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا: جس کی عمر
طویل، عمل بُراہو ، اس سےبھلائی کی امیدنہ ہواور اس کے شر سے بے خوفی نہ ہو۔(115)
(9040)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا روایت کرتے ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: جو کسی چیز کی قسم کھا لے پھر اپنی قسم کا خلاف کرنے میں بہتری نظر آئے تو وہ بہتری والا کام کر لے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے معافی مانگے(116)۔(117)
دنیا میں جنتی باغ:
(9041)…حضرت سیِّدُناابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ سرکارِ مَکَّہ مُکَّرَمہ ، سردارِ مدینہ مُنَوَّرَہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: جب تم جنتی باغوں کے پاس سے گزرو تو کچھ چن لیا کرو۔ صحابَۂ کرام نےعرض کی: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !جنتی باغ کیاہیں ؟ارشادفرمایا:ذکرکے حلقے۔(118)
مُردے کہاں دفنائیں ؟
(9042)…حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ محسن کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: اپنے مُردوں کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کرو کیونکہ میت کو برے پڑوسی سے ایسے ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے زندہ کو بُرے پڑوسی سے ہوتی ہے۔(119)
(9043)…اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان فرماتی ہیں کہ رحمتِ عالِم، نُوْرِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوتین سفید سُحُوْلی کپڑوں میں کفن دیاگیا، جس میں قمیص اورعمامہ شامل نہیں تھا۔(120)
(9044)…اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سےمروی ہےکہ پیارےآقا، مدینے
والےمصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سےپوچھاگیا:کون سی گردن(آزاد کرنا)افضل ہے؟ارشاد فرمایا: زیادہ قیمتی اور اپنے مالک کے نزیک بہت نفیس۔(121)
انصار کی فضیلت:
(9045)…حضرت سیِّدُناانس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں انصار کے بہترین گھروں کا نہ بتاؤں ؟ بنو نَجَّار پھر بنو عبدُ الْاشْہل پھر بنو حارِث بن خزرج پھر بنو ساعِدَہ اورپھراَنصار کے سارے گھرانوں میں خیر ہے۔(122)
لذتوں کو ختم کرنے والی:
(9046)…امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمربن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: اَكْثِرُوْاذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ یعنی لذتوں کوختم کرنےوالی کو زیادہ یاد کیاکرو۔ہم نےعرض کی: یارسولَاللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم !لذتوں کوختم کرنےوالی کیاہے؟ارشادفرمایا: موت۔(123)
(9047)…حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : ہمارے اسلام لانے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہمیں (ہنسنے پر)عتاب فرمانے کےدرمیان چار سال(124) کا عرصہ ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس آیتِ مبارکہ کے ذریعے ہمیں عتاب فرمایا:
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ( پ ۲۷ ، الحدید: ۱۶)
ترجمۂ کنز الایمان :ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ اُن کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے۔
(9048)… اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےدباغت کئے جانے کے بعد مردار کی کھال استعمال کرنے کی رخصت دی ہے۔ یا یہ
فرمایا کہ ’’ وہ پاک ہو جاتی ہے۔ ‘‘ (125)
(9049)…حضرت سیِّدُناعمرو بن رشید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِقلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےجُذَام میں مبتلالوگوں کی طرف دیکھاتوارشادفرمایا:یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے عافیت کیوں نہیں مانگتے۔(126)
1 احناف کےنزدیک: امام اعظم(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) کے ہاں مجبور کی طلاق ہوجاتی ہے،ان کی دلیل وہ حدیث ہے جوامام محمد نے حضرت صفوان ابن عمر طائی سے روایت کی کہ مدینہ پاک میں ایک عورت اپنے خاوند سے سخت نفرت کرتی تھی ایک دن دوپہر کو خاوند سورہا تھا،یہ چھری لے کر سر پر کھڑی ہوگئی اور بولی مجھے تین طلاقیں دو ورنہ ابھی ذبح کردوں گی وہ بہت چیخا چلایا آخر کار تین طلاقیں دے دیں ، پھر یہ مسئلہ بارگاہ رسالت میں پیش ہوا تو حضور نے فرمایا’’لَا قَیْلُوْلَۃَ فِی الطَّلَاقِ‘‘امام شمنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام عقیل نے بھی اپنی کتاب میں نقل کی۔اس سے معلوم ہوا کہ مجبور کی طلاق ہوجاتی ہے رہی وہ حدیث کہ’’رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِیعنی میری امت سے خطاء بھول اور مجبوری کی چیزیں اٹھائی گئی۔“ وہاں اخروی گناہ مراد ہے کہ ان چیزوں پر آخرت میں گناہ نہ ہوگا دنیاوی احکام جاری ہونا مراد نہیں ،اگر کوئی کسی کو جبرًا قتل کردے تو اسے قاتل مانا جائے گا۔ (مراٰۃ المناجیح،۵/۱۱۵،۱۱۶)
2 حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہایک عرصے تک احادیث بیان کرتے رہے بعد میں خود بیان کرنا چھوڑ دیا اب آپ کی مرویات آپ کے سامنے پڑھی جاتی تھیں ۔(ماخوذاز کتاب المجروحین، ۱/ ۴۴)
3 امام ذَہبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : یہاں مراد تفسیر بالرائے ہے۔(سیر اعلام النبلاء،مالک الامام،۷/ ۴۱۳)
4 حضرت سیِّدُناامام حافظ محب الدین ابنِ نجار بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس روایت کو ذکر کرکے فرماتے ہیں : حضرت سیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے مروی یہ روایت درست نہیں کہ آپ تو خود حضرت سیِّدُناامام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَا لٰی عَلَیْہ کے مَدّاح تھے جیسا کہ ”تاریخ بغداد“میں ہے کہ حضرت سیِّدُناامام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : کسی نے حضرت سیِّدُناامام مالکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے پوچھا: کیا آپ نے امام ابو حنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو دیکھا ہے؟فرمایا: ہاں ،اگر وہ تمہارے سامنے اس ستون کے بارے میں گفتگو کریں کہ یہ سونےکاہےتوضروراس پردلیل قائم کردیں گے۔(الرد علی الخطیب البغدادی،۲۲/ ۷۰ ھامش ”تاریخ بغداد“)
حضرت سیِّدُنا امام محدث ابنِ دَراوَرْدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیبیان کرتےہیں : میں نے مسجد نبوی شریف میں دیکھا کہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ عَلَیْہِمَا الرَّحْمَہعشا کے بعد دینی مسائل میں مذاکرہ کررہے تھے اور ایک دوسرے کو خطاکار ٹھہرائے بغیر بحث ہوتی رہی حتّٰی کہ صبح ہوگئی تو دونوں بزرگوں نے وہیں فجر کی نماز ادا کی۔(اخبار ابی حنیفة واصحابہ،ص۸۱)
حضرت سیِّدُناابنِ مبارکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : حضرت سیِّدُناامام ابو حنیفہ حضرت امام مالکعَلَیْہِمَا الرَّحْمَہکے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے ان کی بہت قدر کی پھر ان کے چلے جانے کے بعد ارشاد فرمایا: تم لوگ جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ حاضرین نے کہا: نہیں ۔فرمایا: یہ ابو حنیفہ نعمان ہیں اگر اس ستون کو سونے کا فرماتے تو ان کے کہنے کے مطابق سونے کا ثابت ہوتااور فقہ ان کے لئے آسان کردی گئی ہے ۔(اخبارابی حنیفة واصحابہ،ص۸۱،الخیرات الحسان،ص۴۴)
ایک روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےامام اعظم ابو حنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: بخدا !میں نے ان کی مثل نہ دیکھا۔(الخیرات الحسان،ص۴۴)
5 اس آیت سےثابت ہوا کہ مومنین کو آخرت میں دیدار الٰہی کی نعمت میسر آئے گی کیونکہ محرومی دیدار سے کفار کی وعید میں ذکر کی گئی ہے اور جو چیز کفار کے حق میں وعید وتہدید ہو وہ مسلمان کے حق میں ثابت ہو نہیں سکتی تو لازم آیا کہ مومنین کے حق میں یہ محرومی ثابت نہ ہو۔ حضرت امام مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایاکہ جب اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے دیدار سے محروم کیا تو دوستوں کو اپنی تجلی سے نوازے گا اور اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گا۔(خزائن العرفان، پ۳۰،المطففین،تحت الآية: ۱۵)
6 فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت سیِّدُنا شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیتحریر فرماتے ہیں : ایمان کے سلسلے میں کثیر اختلافات ہیں ۔ان میں بنیادی اختلاف دو ہیں : اعمال واقوال ایمان کے جزہیں یا نہیں ؟ایمان گھٹتا بڑھتا ہے یا نہیں ؟امام مالک،امام شافعی،امام احمد وجمہور محدثین اعمال واقوال کو ایمان کا جز مانتے ہیں اور امام اعظم اور جمہور متکلمین ومحققین محدثین اعمال واقوال کو ایمان کاجز نہیں مانتے ۔اسی کی فرع ایمان کے گھٹنے بڑھنے کا بھی مسئلہ ہے ۔فریق اول کے نزدیک اعمال واقوال کی زیادتی سے ایمان بڑھتا ہے اور کمی سے گھٹتا ہے اور فریق ثانی کے نزدیک ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے۔صحیح اور راجح یہی ہے کہ اعمال واقوال ایمان کے جز نہیں اور ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے۔ (نزہۃ القاری ،۱/۲۹۱)
7 یہ واقعہ ”تاریخ بغداد“کے علاوہ دیگر ماخذ میں بھی مذکور ہے لیکن جملہ مصادر میں اس کا بیان راویوں اور الفاظ کے لحاظ سے مختلف ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کی صحت مشکوک ہے ۔اگر مان لیا جائے کہ یہ من گھڑت نہیں تو بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ واقعے کی اصل صورت بگاڑ کر اسے نقل کیا گیا ہے۔چنانچہ امام قاضی ابو عاصم محمد بن احمد عامری اپنی کتاب”مبسوط“
میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے حضرت سیِّدُناامام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے پوچھا: امام مالک علم میں بڑے ہیں یا امام ابو حنیفہ ؟ پوچھا: کس چیز میں ؟امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینےکہا: علم قرآن میں ؟فرمایا: ا مام ابو حنیفہ۔ پھرامام شافعیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینےپوچھا: اچھا!رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے طریقے کو کون زیادہ جانتے ہیں ؟فرمایا: امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاحادیث کے معانی کوزیادہ جانتے ہیں جبکہ امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ الفاظ احادیث کو خوب جانتے ہیں ۔
(تانیب الخطیب،ص۳۵۴)
امام شمس الدین ذہبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیاس روایت کو ذکرکرکےفرماتے ہیں : انصاف والی بات یہ ہے کہ امام اعظم و امام مالک عَلَیْہِمَا الرَّحْمَہ دونوں ہی قرآن پاک کا خوب علم رکھتے ہیں ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دونوں اماموں سے راضی ہو۔(سیر اعلام النبلاء،۷/۴۲۲)
حقیقت تو یہ ہے کہ امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیتو امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے شاگرد اور ان کی فضیلت کے معترف ہیں ۔ (الانتقاء فی فضائل الثلاثة،ص۱۷۴) اور امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےمداح ہیں ۔(انظر: الانتقاء فی فضائل الثلا ثة، ص۱۳۵)پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے اس طرح گفتگو کریں ۔ خلاصَۂ بحث یہ ہے کہ امام ابو نعیمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا روایت کردہ اور بعض مؤرخین سے نقل کردہ یہ واقعہ اپنے نقائص اور کمزوریوں کی بناء پر ناقابل تسلیم ہے۔
8 حضرت سیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی مرویات باآسان نہیں ملتی تھیں جبکہ کوفیوں کی مرویات با آسانی مل جاتی تھیں جبھی وہ لوگ دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔(ماخوذ از بلوغ الامانی،صلته بتدوین مذہب مالک...الخ، ص ۱۶)
9 مسلم،کتاب الحج،باب فضل المدینة،ص۷۱۰،حدیث: ۱۳۶۳
10 مُفَسِّر شہیر ،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمراٰۃ المناجیح،جلد4، صفحہ216 پراس کے تحت فرماتے ہیں : یہ زمین مدینہ کی تاثیر ہے کہ اس نے وہاں سے مشرکین و کفار کو یا تو مؤمن بنادیا اور یا وہاں سے نکال دیا۔چنانچہ اوس و خزرج تو مؤمن ہوگئے بنی قریظہ ہلاک اور بنی نضیر وہاں سے جلا وطن کردیئے گئے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خبیث وہاں مر کر دفن بھی ہوجائے تو فرشتے وہاں سے اس کی نعش کسی دوسری جگہ منتقل کردیتے ہیں اور اگر کوئی وہاں کا عاشق دوسری جگہ دفن ہو جائے تو اس کی نعش مدینہ منورہ پہنچادیتے ہیں ،غرضیکہ زمین مدینہ بھی بھٹی ہے۔
11 مسلم،کتاب الحج،باب فضل المدینة،ص۷۱۶،۷۱۷،حدیث: ۱۳۸۳،۱۳۸۱
12 اہْلِ عرب شراب کے بڑے عادی تھے،جب اسلام میں شراب حرام کی گئی تو شراب بنانے رکھنے پینے کے برتنوں کا استعمال بھی حرام کردیا گیا تاکہ یہ برتن دیکھ کر لوگوں کو شراب یاد نہ آوے اور لوگ پھر سے شراب نہ پینے لگیں ،بعد میں یہ حدیث منسوخ ہوگئی۔پختہ کدو جو لمبا ہوتا ہے اسے کھکھل کرلیا جاتاتھا،اس سے جگ کی جگہ کام لیتے تھے کہ اسے دُبَّاء کہتے تھے۔شراب پینے کا پیالہ جس میں تارکول لگا ہوتا اسے مُزَفَّت کہتے تھے یعنی زفت لگا ہوا روغنی پیالہ۔(مراٰۃ المناجیح، ۶/۸۳ ملتقطا)
13 مسلم، کتاب الاشربة، باب النھی عن الانتباذ فی المزفت الخ،ص۱۱۰۱،حدیث: ۱۹۹۴،۱۹۹۲
14 التمھیدلما فی الموطا من المعانی والاسانيد،باب المیم، محمد بن شھاب الزھری،۳/۱۹۳،تحت الحدیث: ۱۵۰
15 ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فضل سلمان وابی ذر والمقداد،۱/۱۰۰،حدیث: ۱۵۱،نحوہ
16 الضعفاء للعقیلی،رقم۱۸۷۲،میسرة بن عبد ربہ،۴/۱۴۰۲ بتغیر قلیل
17 مسلم، کتاب الاضاحی، باب نھی من دخل الخ،ص۱۰۹۲،حدیث: ۱۹۷۷
18 الکامل لابن عدی، ۵/۳۱۵،رقم: ۱۰۰۳: عبد اللہ بن ابراھیم بن ابی عمرو الغفاری
19 دار قطنی، کتاب البیوع،باب الجعالة، ۴/۳۸،حدیث: ۳۰۵۶
20 مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : اس حدیث میں اُدھار بیع مراد ہے یعنی جانور کو گوشت کے عوض نقد بیچنا تو حلال ہے ادھار بیچنا حرام کہ جانور موٹا پتلا ہوتا رہتا ہے اور گوشت کا ادھار میں تعین مشکل ہوتاہے۔(مراٰۃ المناجیح،۴/۲۵۶)
بہارِ شریعت میں ہے: گوشت کو جانور کے بدلے میں بیع کرسکتے ہیں کیونکہ گوشت وزنی ہے اور جانور عددی ہے وہ گوشت اُسی جنس کے جانور کا ہو مثلاً بکری کے گوشت کے عوض میں بکری خریدی یا دوسری جنس کاہو مثلاً بکری کے گوشت کے بدلے میں گائےخریدی۔یہ گوشت اُتناہی ہوجتنااُس جانورمیں گوشت ہےیااُس سےکم یازیادہ بہرحال جائز ہے۔(بہارشریعت،حصہ۱۱،۲/۷۷۲)
21 مسند فردوس،۵/۱۳۲،حدیث: ۷۷۱۹
22 بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب،۴/۱۳۱،حدیث: ۶۱۱۶
23 بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الامانة،۴/۲۴۶،حدیث: ۶۴۹۸،عن ابن عمر
24 بخاری، کتاب التعبیر،باب القصر فی المنام،۴/۴۱۷،حدیث: ۷۰۲۴،بتغیرقلیل
25 بخاری،کتاب الادب،باب لم یکن الخ،۴/۱۰۸،حدیث: ۶۰۳۲
26 مسلم، کتاب الحج، باب الاشتراک فی الھدی الخ،ص۶۸۴،حدیث: ۱۳۱۸
27 مستدرک ، کتاب البر والصلة، بروا اباءکم تبرکم ابناؤکم،۵/۲۱۴،حدیث: ۷۳۴۱
28 معجم اوسط،۱/۴۲،حدیث: ۱۰۲
29 بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت،۴/۲۵۰،حدیث: ۶۵۱۲
30 سنن کبرٰی نسائی، کتاب الحج،ما ذکر فی منی،۲/۴۱۷،حدیث: ۳۹۸۶
31 مسلم،کتاب الحج، باب التلبیة والتکبیر الخ،ص۶۶۸،حدیث: ۱۲۸۵
ابن حبان،کتاب الحج، باب الخروج من مکة الی منی،۶/۵۹،حدیث: ۳۸۳۶
32 مسلم،کتاب المسافرین وقصرھا،باب الاقات التی نھی الخ،ص۴۱۳،حدیث: ۸۲۵
33 مسلم،کتاب النکاح، باب جواز الغیلة الخ،ص۷۵۷،حدیث: ۱۴۴۲
34 مسلم، کتاب المسافرین وقصرھا،باب استحباب رکعتی الخ،ص۳۶۵،حدیث: ۷۲۴
35 ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حق الیتیم،۴/۱۹۳،حدیث: ۳۶۷۹،عن ابی ھریرة
36 مسند ابی یعلٰی،مسند قتادة بن النعمان،۲/۷۶،حدیث: ۱۵۴۶،نحوہ
37 موطا امام مالک،کتاب العین،باب الوضوء من العین،۲/۴۲۸،حدیث: ۱۷۹۴
38 مفسر شہیر،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمراٰۃ المناجیح،جلد1، صفحہ330پر اس کی شرح میں فرماتے ہیں : یہ حدیث محدثین کے نزدیک صحیح نہیں کیونکہ ابراہیم کی اُمِّ ولد مجہول ہیں ۔علماءامت کا اس پر اجماع ہے کہ ناپاک کپڑا بغیر دھوئے پاک نہیں ہوسکتا۔چونکہ یہ حدیث صحت کو پہنچتی ہی نہیں ،نیز اجماع اُمَّت بھی اس کے خلاف ہے۔ لہذا احادیث میں تاویل کی ضرورت نہیں ۔اور ہوسکتا ہے کہ اس حدیث میں سوکھی ناپاکی مراد ہو یعنی اگر کپڑے سے سوکھا گوبر وغیرہ لگ گیا تو آگے جاکرجُدا ہوجائے گا کپڑا پاک ہوجائے گا۔
39 ابو داود، کتاب الطھارة،باب فی الاذی یصیب الذیل،۱/۱۷۰،حدیث: ۳۸۳
40 بخاری، کتاب الزکاة، باب الزکاة علی الاقارب،۱/۴۹۳،حدیث: ۱۴۶۱
41 مسلم، کتاب البر والصلة والاداب،باب المرء مع من احب،ص۱۴۱۸،حدیث: ۲۶۳۹
42 اس روایت کا عربی متن کتاب کے آخر میں دے دیا گیا ہے علمائے کرام وہاں سے رجوع کریں ۔
43 الفوائد لتمام رازی، الجزء الثالث،۲/۸۴،حدیث: ۱۹۳
44 بخاری، کتاب الصوم، باب برکة السحور من غیر ایجاب،۱/۶۳۳،حدیث: ۱۹۲۳
45 مفسرشہیر،حکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمراٰۃ المناجیح،جلد2،صفحہ461پراس کی شرح میں فرماتے ہیں : میرا تہبندشریف ان کےجسم سےملاہوارکھواورکفن اوپر۔یہ تہبندکفن میں شمارنہ تھابلکہ برکت اورقبر کی مشکلات حل کرنےکےلیےرکھاگیا۔اس سےتین مسئلےمعلوم ہوئے: ایک یہ کہ بزرگوں کے بال،ناخن،ان کے استعمال کےکپڑے تبرک ہیں جن سے دنیا،قبروآخرت کی مشکلات حل ہوتی ہیں ،قرآن شریف میں ہےکہ یوسف عَلَیْہِ السَّلَامکی قمیض کی برکت سے یعقوب عَلَیْہِ السَّلَامکی نابینا آنکھیں روشن ہوگئیں ۔احادیث میں ثابت ہے کہ حضرت امیرمعاویہ،عمرو ابن عاص و دیگرصحابہ کرام نے حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکےناخن،بال وتہبندشریف اپنےساتھ قبرمیں لےجانےکےلیےمحفوظ رکھے۔دوسرےیہ کہ بزرگوں کے تبرکات اور قرآنی آیت یا دعا کسی کپڑے یا کاغذ پرلکھ کر میت کے ساتھ قبر میں دفن کرنا جائز بلکہ سنت ہے۔تیسرے یہ کہ ان چیزوں کے متعلق یہ خیال نہ کیا جائے کہ جب میت پھولے پھٹے گی تو ان کی بے حرمتی ہوگی،دیکھو سورۂ فاتحہ لکھ کر دھوکر بیمار کوپلاتے ہیں ،یونہی آبِ زمزم برکت کے لیے پیتے ہیں حالانکہ پانی پیٹ میں پہنچ کر کیا بنتا ہے سب کو معلوم ہے۔
46 بخاری، کتاب الجنائز،باب غسل المیت الخ،۱/۴۲۵،حدیث: ۱۲۵۳
47 المجروحین لابن حبان،باب الیاء،۲/۴۹۴،رقم: ۱۲۴۲: یونس بن ھارون الاردنی
48 بخاری، کتاب البیوع،باب اذا باع الثمار الخ،۲/۴۳،حدیث: ۲۱۹۸
49 بہار شریعت میں ہے: شادیوں میں دف بجانا جائز ہے جبکہ سادے دف ہوں ، اس میں جھانج نہ ہوں اور قواعد موسیقی پر نہ بجائے جائیں یعنی محض ڈھپ ڈھپ کی بے سری آواز سے نکاح کا اعلان مقصود ہو۔(بہارِ شریعت، حصہ۱۶، ۳/ ۵۱۰)
50 معجم اوسط،۱/۴۷،حدیث: ۱۱۸
51 بہارِ شریعت میں ہے: نکاح میں چھوہارے لُٹائے جاتے ہیں ایک کے دامن میں گرے تھے اور دوسرے نے اُٹھا ليے اس کی دوصورتیں ہیں جس کے دامن میں گرے تھے اگر اُس نے اسی غرض سے دامن پھیلائے تھے تو دوسرے کو لینا جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔(مزید ہے کہ) شادیوں میں روپے پیسے لٹانے کے لیے جس کو ديے وہ خود لٹائے دوسرے کو لٹانے کے لیے نہیں دے سکتا اور کچھ بچا کر اپنے ليے رکھ لے یا گراہوا خود اُٹھا لے یہ جائز نہیں ۔ اور شکر چھوہارے لٹانے کو ديے تو بچا کر کچھ رکھ سکتا ہے اور دوسرے کو بھی لٹانے کے ليے دے سکتا ہے اور دوسرے نے لٹائے تو اب وہ بھی لوٹ سکتا ہے۔(بہارِ شریعت، حصہ۱۰، ۲/ ۴۷۹،۴۸۰)
52 مُفَسِّر شہیر ،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمراٰۃ المناجیح،جلد5، صفحہ648پر اس کی شرح میں فرماتے ہیں : سوال کا مقصد یہ ہے کہ کیا ذبح کی یہ ہی صورت ہے کہ گلے اور سینے کے درمیان ہو،اگر یہ ہی ذبح ہے تو جو جانور قبضہ میں نہ ہو اور مر رہا ہواسے ذبح کیسے کیاجائے جیسے کنوئیں میں گری ہوئی بکری۔یہ اضطراری ذبح کا ذکر ہے جب جانور قبضہ میں نہ ہو اور اس کا ذبح کرنا ضروری ہو تو جہاں کہیں نیزہ بھالا مار دیا جائے اور خون بہہ جائے ذبح ہوجائے گا جیسے بھاگی ہوئی گائے،کنوئیں میں گرا ہوا جانور اور تیر سے مارا ہوا شکار۔ یعنی کنوئیں میں گرا ہوا جانور جب اس کے نکالنے کی کوئی صورت نہ ہو اور اس کے مرجانے کا اندیشہ ہو تب اس طرح ذبح کرلیا جائے۔
53 ابو داود، کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذبیحة المتردیة،۳/۱۳۷،حدیث: ۲۸۲۵
54 ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الرخصة الخ،۲/۳۰۶،حدیث: ۱۰۰۷
مصنف عبد الرزاق، کتاب الجنائز،باب الصبر والبکاء والنیاحة،۳/۳۶۳،حدیث: ۶۷۰۱
المجروحین لابن حبان،رقم۶۵۴،عمر بن ایوب المزنی،۲/۶۶
55 مسلم، کتاب الحج، باب ما بین القبر الخ،ص۷۱۹،حدیث: ۱۳۹۰
56 مسلم، کتاب الحیض،باب نسخ الوضوء مما مست النار،ص۱۹۱،حدیث: ۳۵۴
57 بخاری، کتاب بدء الوحی،باب کیف کان بدء الوحی الخ،۱/۵،حدیث: ۱،عن عمر بن الخطاب
58 مسلم، کتاب الجنة الخ،باب احلال الرضوان الخ،ص۱۵۱۷،حدیث: ۲۸۲۹
59 الزھد لاحمد، زھد عمر بن الخطاب،ص۱۴۸،حدیث: ۳۰۔معجم اوسط،۴/۳۴۲،حدیث: ۶۱۸۴
60 ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الورع والتقوی،۴/۴۷۶،حدیث: ۴۲۱۸،عن ابی ذر
الترغیب والترھیب لقوام السنة،باب الخاء،باب فی فضل الخ،۲/۸۵،حدیث: ۱۲۰۷
61 مسند احمد، مسند المکیین،حدیث معاویة بن قرة،۵/۳۰۴،حدیث: ۱۵۵۹۲
62 كتاب الدعاء ،فضل الدعاء بین الاذان والاقامة،ص۱۶۷،حدیث: ۴۸۹۔معجم کبیر، ۶/۱۵۹،حدیث: ۵۸۴۷
63 ابو داود، کتاب الجھاد، باب الدعاء عند اللقاء،۳/۲۹،حدیث: ۲۵۴۰
64 بخاری، کتاب المظالم والغصب،باب من کانت لہ مظلمة الخ،۲/۱۲۸،حدیث: ۲۴۴۹
65 مسلم، کتاب البر والصلة والاداب، باب فی فضل الحب فی اللہ ،ص۱۳۸۸،حدیث: ۲۵۶۶
66 بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مناقب عبد اللہ بن سلام،۲/۵۶۳،حدیث: ۳۸۱۲
67 مسلم، کتاب الامارة، باب السفر قطعة الخ،ص۱۰۶۳،حدیث: ۱۹۲۷
68 مسلم، کتاب البر والصلة، باب النھی من قول ھلک الناس،ص۱۴۱۲،حدیث: ۲۶۲۳
69 یعنی اگر خریدو فروخت مکمل ہوچکنے کے بعد خریدار چیز واپس کرنا چاہے یا بائع وہ چیز واپس لینا چاہے تو اگرچہ انہیں یہ حق تو نہیں مگر فریق آخر کو چاہیے کہ اسے منظور کرے اور سامنے والے پر مہربانی کرے جس کے بدلہ میں پروردگار اس کی خطائیں اور غلطیاں معاف فرمائے گا۔ (مراٰۃ المناجیح، ۴/۲۸۴)
70 ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الاقالة،۳/۳۶،حدیث: ۲۱۹۹
71 ماں باپ و دیگر خاص قرابتدار خریدتے ہی آزاد ہوجاتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی کتنی ہی خدمت کرے مگر اس کا حق ادا نہیں کرسکتا،اس کا حق ادا کرنے کی صرف یہ صورت ہے کہ اگر بیٹا آزاد اور مالدار ہو باپ غلام ہو تو بیٹا اسے خرید لے تاکہ وہ باپ اس کی ملکیت میں آتے ہی آزاد ہوجائے،یہ مطلب نہیں کہ پہلے باپ کو خرید کر اس کا مالک بن جائے پھر اپنے طور پر اسے آزاد کرے۔(مراٰۃ المناجیح،۵/ ۱۸۷)
72 مسلم، کتاب العتق،باب فضل عتق الوالد،ص۸۱۲،حدیث: ۱۵۱۰
73 مسند حارث، کتاب الادب، باب ما جاء فی العقل،۲/۸۱۳،حدیث: ۸۴۱
74 مسلم، کتاب الصلاة، باب التسمیع والتحمید التأمین،ص۲۱۷،حدیث: ۴۰۹
75 ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحیاء،۴/۴۶۰،حدیث: ۴۱۸۱
76 مسلم، کتاب صلاة المسافرین و قصرھا،باب صلاة المسافرین و قصرھا،ص۳۴۷،حدیث: ۶۸۵
77 ابو داود، کتاب الادب،باب ما جاء فی الدیک والبھائم،۴/۴۲۲،حدیث: ۵۱۰۱
78 بخاری، کتاب الأیمان والنذور،باب النذر فی الطاعة،۴/۳۰۲،حدیث: ۶۶۹۶
79 مسلم، کتاب الحج، باب ما بین القبر الخ،ص۷۱۹،حدیث: ۱۳۹۰
80 مسلم، کتاب الاقضیة،باب بیان خیر الشھود،ص۹۴۶،حدیث: ۱۷۱۹
81 مسلم، کتاب الصیام، باب وجوب صوم رمضان الخ،ص۵۴۴،حدیث: ۱۰۸۰
82 مسلم، کتاب الصیام، باب فضل لیلة القدر الخ،ص۵۹۲ ،حدیث: ۱۱۵۶
83 مسلم،کتاب الاشربة، باب المؤمن یأکل فی معی واحد الخ،ص۱۱۴۱،حدیث: ۲۰۶۱
84 مسلم، کتاب الجنة وصفةنعیمھا واھلھا،باب فی صفة یوم القیامة الخ،ص۱۵۳۱،حدیث: ۲۸۶۲
85 مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعة،باب الفتنة من المشرق الخ،ص۱۵۵۳،حدیث: ۲۹۰۵
86 ترمذی، کتاب السفر، باب ما جاء فی التطوع فی السفر،۲/۷۶،حدیث: ۵۵۲ موقوفاً عن ابن عمر
87 موسوعة ابن ابی الدنیا، کتاب قضاء الحوائج،باب فی فضل المعروف،۴/۱۶۸،حدیث: ۳۶،نحوہ
88 مسلم، کتاب فضائل الصحابة،باب خیار الناس،ص۱۳۶۷،حدیث: ۲۵۲۶
89 تخریج نہیں ملی۔
90 یہاں واجب تاکید کے لیے ہے شرعی واجب نہیں جس کے ترک پر گناہ ہو کیونکہ اس وقت لوگ محنت مزدوری کرتے تھے اور اون کا لباس پہنتے تھے، مسجد میں جگہ تنگ ہوتی تھی جس کے وجہ سے ارشاد فرمایا جمعہ کے دن غسل لازمی کر لیا کرو تاکہ نماز میں ساتھ والوں کو پسینے کی بو کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچے۔ (مرقاة المفاتیح،۲/۲۳۶،تحت الحدیث: ۵۳۸)
91 بخاری، کتاب الجمعة،باب فضل الغسل یوم الجمعة الخ،۱/۳۰۴،حدیث: ۸۷۹،عن ابی سعید الخدری
موطا امام مالک بروایة یحیی اللیثی، کتاب الجمعة،باب العمل فی غسل یوم الجمعة،۱/۱۰۹،حدیث: ۲۳۱
92 مُفَسِّر شہیر ،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمراٰۃ المناجیح،جلد4، صفحہ104 پراس کے تحت فرماتے ہیں : بعض راویوں نےحضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم) سے صرف عمرہ کی روایت کی ہے بعض نے صرف حج کی،بعض نے حج و عمرہ دونوں کی،حضرت ام المؤمنین(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا)نے یہاں صرف حج کی روایت کی، وجہ یہ ہے کہ حضور انور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم) نے قرآن کیا تھالہٰذاآپ تلبیہ میں کبھی صرف حج کانام لیتےتھےکبھی صرف عمرہ کااورکبھی حج و عمرہ دونوں کا جیساکہ قارن کو اختیار ہے،ہر راوی نےجو سنااسی کی روایت کی لہٰذااحادیث میں تعارض نہیں لہٰذااس حدیث سےیہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور انور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نےافراد کیا تھاجیساکہ شوافع نےسمجھااورنہ یہ امام اعظم(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم) کےخلاف ہے۔
93 مسلم، کتاب الحج، باب بیان وجوہ لاحرام الخ،ص۶۲۷،حدیث: ۱۲۱۱
94 معجم اوسط،۵/۶۹،حدیث: ۶۶۰۶،عن جابر بن عبد الله
95 ابو داود، کتاب الادب، باب فی من ضم الیتیم،۴/۴۳۶،حدیث: ۵۱۵۰،عن سھل
96 مسلم، کتاب السلام،باب النھی عن ابتداء الخ،ص۱۱۹۳،حدیث: ۲۱۶۵
97 مسلم، کتاب الزھد والرقائق،ص۱۵۸۲،حدیث: ۲۹۵۶
98 بخاری، کتاب الایمان، باب تفاضل اھل الایمان فی الاعمال،۱/۱۹،حدیث: ۲۲
99 مسلم، کتاب المساجد الخ ،باب فضل صلاة الجماعة الخ،ص۳۲۶،حدیث: ۶۵۰
100 جامع الاحادیث للسیوطی، ۷/۳۰۷،حدیث: ۲۲۶۱۷،نحوہ
101 مسلم، کتاب الجمعة،باب فضل التھجیر یوم القیامة،ص۴۲۶،حدیث: ۸۵۰،نحوہ عن ابی ھریرة
102 ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب الخروج الی منی،۳/ ۴۶۲،حدیث: ۳۰۰۵،۳۰۰۴
103 شِغَار یعنی ایک شخص نے اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح دوسرے سے کر دیا اور دوسرے نے اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس سے کردیا اور ہرایک کا مہر دوسرا نکاح ہے تو ایسا کرنا گناہ و منع ہے اورمہرِ مثل واجب ہوگا۔(بہارشریعت،حصہ۷ ،۲/۶۶)
104 مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ،ص۷۳۶،حدیث: ۱۴۱۵
105 مُفَسِّر شہیر ،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمراٰۃ المناجیح،جلد4، صفحہ271پر اس کی شرح میں فرماتے ہیں : اس جملہ شریف کے دو معنیٰ ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ حمل بیع یعنی کہ میری اونٹنی گیابھن (گابھن)ہے اس کے پیٹ کی بچی جب جوان ہو کر بچی دے گی اس کی بیع میں آج کرتا ہوں یہ بیع باطل ہے کہ معدوم چیز کی بیع ہے،نہ معلوم اونٹنی کے پیٹ میں مادہ ہے یا نر،دوسری یہ کہ کسی تجارت میں حمل کے حمل کی پیدائش سے ادائے قیمت یا ادائے سامان کی مدت مقرر کی جائے کہ اس کی قیمت میں جب دوں گا جب اس اونٹنی کے پیٹ کی بچی بچہ دے گی،یہ بیع فاسد ہے کہ وقت ادا مجہول ہے۔
106 بخاری، کتاب البیوع، باب بیع الغرر وحبل الحبلة،۲/۳۰،حدیث: ۲۱۴۳
107 ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی النجاشی،۲/۲۳۷،حدیث: ۱۵۳۸
108 مسلم،کتاب الوصیة،ص۸۸۲،حدیث: ۱۶۲۷
109 بخاری،کتاب الایمان، باب الحیاء من الایمان، ۱/۱۹،حدیث: ۲۴
110 ابن ماجہ ، کتاب الطلاق، باب طلاق المکروہ والناسی،۲/۵۱۳،حدیث: ۲۰۴۵،عن ابن عباس
111 تاریخ بغداد،رقم۱۲۲۱،محمدبن عبد ابوبکرالسغدی التمیمی،۳/۱۹۱
112 مسلم، کتاب الاشربة، باب بیان ان کل مسکر الخ،ص۱۱۰۹،حدیث: ۲۰۰۳
113 مسلم،کتاب الزھد والرقائق،ص۱۵۸۲،حدیث: ۲۹۵۶،بدون: یااباذر،عن ابی ھریرة۔مسند فردوس،۲/ ۴۸۵،حدیث: ۸۳۴۴ ،۸۳۴۵
114 التذکرة للقرطبی، ابواب المیزان،ص۲۹۹
115 ترمذی، کتاب الزھد، باب ما جاء فی طول العمر للمؤمن،۴/۱۴۸،حدیث: ۲۳۳۷ ،عن ابی بکرة
ترمذی، کتاب الفتن،باب: ۷۶ ،۴/۱۱۶،حدیث: ۲۲۷۰،عن ابی ھریرة
116 یعنی کفارہ ادا کرنے کے بعد جیسا کہ دیگر کئی احادیث میں صراحت ہے کہ کفارہ ادا کرے۔(علمیہ)
117 مسلم، کتاب الایمان والنذور،باب ندب من حلف یمینا الخ،ص۸۹۸،حدیث: ۱۶۵۰،نحوہ
118 ترمذی، کتاب الدعوات،باب: ۸۲ ،۵ /۳۰۴،حدیث: ۳۵۲۱،عن انس
119 مسند فردوس ، ۱/۶۸،حدیث: ۳۳۷
120 مسلم، کتاب الجنائز، باب فی کفن المیت، ص۴۶۹،حدیث: ۹۴۱
121 بخاری، کتاب العتق، باب ای الرقاب افضل،۲/۱۵۰،حدیث: ۲۵۱۸،عن ابی ذر
122 بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳/۴۹۶،حدیث: ۵۳۰۰
123 ترمذی، کتاب الزھد، باب ما جاء فی ذکر الموت،۴/۱۳۸،حدیث: ۲۳۱۴،عن ابی ھریرہ
تنبیہ الغافلین للسمرقندی،باب الزجر عن الضحک،ص۱۰۴،حدیث: ۲۴۰
124 حلیۃ الاولیاء میں اس مقام پر چار ماہ کا ذکر ہے جبکہ کتب تفاسیر و احادیث میں چار سال مذکور ہے،لہذاہم نے یہی لکھ دیا ہے۔(علمیہ)
125 مسند طیالسی، احادیث النساء،ص۲۱۹،حدیث: ۱۵۶۸
126 مسند بزار، مسند انس بن مالک،۱۳/۱۹۰،حدیث: ۶۶۴۳،عن انس
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع