30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرتِ سیِّدُنا عُبَیْدہ بن مہاجر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
حضرتِ سیِّدُناابوعَبْدِرَبّ عُبَیْدہ بن مُہاجِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تابعی بزرگ ہیں۔ آپ گوشہ نشین، دنیاوی مسائل سے دور رہنے والے اور نیکیوں میں سبقت کرنے والے تھے۔
مال سے بےرغبتی
(6768)…حضرتِ سیِّدُنا سعید بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز بیان کرتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدرب عبیدہ بن مہاجر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک مرتبہ دس ہزار یا دولاکھ دینار صدقہ کئے۔ آپ فرمایا کرتے تھے : ”اگر نہر بَرَد سونا اُگلنے لگے تو میں اس کی طرف بڑھنے میں لوگوں پر سبقت نہیں کروں گا لیکن اگر کہا جائے کہ اس لکڑی میں موت ہے تو کوئی مجھ پر سبقت نہیں لےجاسکتا سوائے مجھ سے زیادہ قوت والے کے۔“
(6769)…حضرتِ سیِّدُنا سعید بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز بیان کرتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدرب عبیدہ بن مہاجر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک مرتبہ فرمایا : اگر کہا جائے کہ اس لکڑی کو چھونے والا مرجائے گا تو میں اسے چھونے کے لئے کھڑا ہوجاؤں گا۔
ماں کا قبول اسلام
(6770)…حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن یوسف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدرب عُبیدہ بن مہاجر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عادت تھی کہ غلام باندی خرید کر آزاد کردیتے۔ ایک بار انہوں نے ایک رومی بوڑھی عورت کو خرید کر آزاد کردیا۔ بوڑھی عورت نے کہا : ”مجھے نہیں معلوم میں کہاں جاؤں؟“آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے اپنے گھر بھیج دیا۔ جب آپ عشا کے بعد مسجد سے گھر تشریف لائے تو اس بوڑھی عورت کو بلایا۔ اس نے کھانا کھایا۔ پھر آپ نے اسی کی زبان میں اس سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ آپ کی ماں ہیں۔ آپ نے ان سے اسلام کے متعلق پوچھا تو انہوں نے انکار کردیا۔ آپ ان کے ساتھ مسلسل بھلائی سے پیش آتے رہے(1)۔ جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لائے تو خبر ملی کہ آپ کی ماں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ آپ سجدے میں گرگئے اور سورج غروب ہونے تک سجدے میں رہے۔
اجنبی کی نصیحت آموز گفتگو
(6771)…حضرتِ سیِّدُنا ولید بن مسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرتِ سیِّدُنا ابن جابر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدِربّ عُبَیدہ بن مہاجر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر دِمَشق کے سب سے مالدار شخص تھے۔ تجارت کے سلسلے میں آذربائیجان کی طرف نکلے۔راستے میں ایک چراگاہ اور نہر کے پاس رات گزاری۔ فرماتے ہیں : میں نے چراگاہ کے ایک کونے سے بکثرت حمد کی آواز سنی۔ وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک شخص گڑھے کے اندر چٹائی میں لپٹا پڑا ہے۔ میں نے سلام کرکے پوچھا : ”اےبندۂ خدا! تم کون ہو؟“اس نے کہا : ”میں مسلمان ہوں۔“میں نے پوچھا : ”تمہاری ایسی حالت کیوں ہے؟“اس نے کہا : ”اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت ملنے پر شکر ادا کر رہا ہوں۔“میں نے پوچھا : ”یہ کیسا شکر ہے تم تو چٹائی میں لپٹے ہو؟“اس نے کہا : ”میں خدا تَعَالٰی کا شکر کیوں نہ کروں؟اس نے مجھےمسلمان گھرانے میں پیدا فرماکر اچھی صورت سے نوازا، میرے تمام اعضاء تندرست بنائے، جن چیزوں کا دوسروں پر ظاہر کرنا مجھے ناگوار گزرتا اُنہیں پردے میں رکھا اور اس سے بڑی نعمت کیا ہے کہ میں اس حال میں(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمد کرتے ہوئے) رات بسر کررہا ہوں؟“میں نے کہا : ” اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم پر رحم فرمائے! میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ میری رہائش تک چلو، میں یہیں نہر کے قریب ٹھہرا ہوں۔“اس نے کہا : ”کیوں؟“میں نے کہا : ”تاکہ تمہیں کچھ کھانا اور پہننے کے لئے کپڑے دےدوں۔“اس نے کہا : ”مجھے کسی چیز کی حاجت نہیں۔“
حضرتِ سیِّدُنا وَلید بن مسلمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں : غالباً اس نے یہ کہا کہ میرے لئے گھاس کھانا ابوعبدِربّ کی پیشکش سے بہتر ہے۔
حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدربّرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں : میں وہاں سے لوٹ گیا۔ اس وقت میں خود کو بہت کمترمحسوس کررہا تھا اور مجھے اپنےآپ سے نفرت ہورہی تھی کیونکہ دمشق میں کوئی مجھ سے زیادہ مال دار نہیں تھا اور میں مزید کا خواہاں تھا۔ پھر میں نے اپنی برائیوں سے رب تَعَالٰی کی بارگاہ میں توبہ کرلی۔ رات کسی طرح گزاری ، چونکہ میرے ارادوں کی خبر میرے بھائیوں کو نہیں تھی لہٰذا اُنہوں نے حسبِ معمول سحری کے وقت چلنے کا ارادہ کیا۔ وہ میری سواری کے پاس آئے تو میں نے اس کا رُخ دمشق کی طرف موڑدیا اور دل میں کہنے لگا : ”اگر میں پھر سے تجارت کے لئے نکل جاؤں تو میں سچی توبہ کرنے والا نہیں کہلاؤں گا۔“لوگوں نے لوٹ آنے کے بارے میں مجھ سے پوچھا تو میں نے اُنہیں اس بارے میں بتادیا۔ وہ مجھے ملامت کرنے لگے مگر میں نے ان کی بات پر توجہ نہ دی۔
حضرتِ سیِّدُناابن جابرعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِرفرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدرب عبیدہ بن مہاجر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر واپس لوٹے تو جمع کردہ تمام سونا چاندی صدقہ کردیا اوردیگرسامان تیارکرکے راہِ خدا میں دے دیا۔
بےمثال سخاوت
حضرتِ سیِّدُنا ابن جابر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر اپنے بعض دوستوں کے حوالےسےبیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدرب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ذکر فرمایا کہ میں کسی کپڑافروش سے جبَّہ خریدنےگیاتو قیمت کم کروانےلگاحتّٰی کہ اگر وہ سات بولتاتو میں اسے چھ دانق کہتا، جب بات زیادہ بڑھی تودکاندار نےپوچھا : آپ کہاں سے آئےہیں؟ میں نے دمشق کا نام لیا تو وہ کہنے لگا : آپ اس بوڑھے شخص کے ہمشکل ہیں جوکل میرے پاس آیا تھا۔ ان کانام ابوعبدرب تھا۔ اس نے مجھ سے سات سات دانق کے 700کپڑے خریدے۔ قیمت بالکل کم نہیں کروائی اور کپڑے اُٹھوانے کے لئے مجھ سے کہا تو میں نےاپنے مزدور پیش کردیئےپھرانہوں نے تمام کپڑے مستحقین میں تقسیم کردیئے حتّٰی کہ خالی ہاتھ گھر لوٹے۔
مزید فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدربّرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاپناتمام سوناچاندی صدقہ کردیا اوراپنی زمینی جائدادبھی بیچ کرصدقہ کردی، سوائےایک گھرکےجوکہ دمشق میں تھا۔آپ فرمایاکرتےتھے : اگرتمہاری یہ نہر(برد)سونا چاندی اُگلے اور ہرایک کو اختیار ہو کہ جو چاہے اسے لےلے تو میں ہرگز اس کی طرف نہیں بڑھوں گا اور اگر کہا جائے کہ اس لکڑی کو چھونے والا مرجائے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کے شوق کے سبب مجھے اسے چھونے میں خوشی ہوگی۔
آخری سہارا بھی صدقہ کردیا
حضرتِ سیِّدُنا ابن جابر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر مزید فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدربّ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، آپ حوض پر وضو فرمارہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو جواب دیتے ہوئے فرمایا : ”اے لمبے قدوالے! جلدی نہ کرو۔“میں انتظار کرنے لگا۔ جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو فرمایا : ”مجھے تم سے ایک مشورہ چاہئے، میری مدد کرو۔“میں نے عرض کی : جی فرمائیے۔تو فرمانے لگے : ”میں نے اپنا تمام مال وجائداد صدقہ کردیا، اب میرے پاس یہی ایک گھر باقی ہے، میں اسے بھی بیچنا چاہتا ہوں، تم کیا کہتے ہو؟“میں نے عرض کی : ”بخدا! آپ نہیں جانتے کہ آپ کی زندگی مزید کتنی ہے، مجھے خوف ہے کہ آپ لوگوں کے محتاج ہوجائیں گے، اس مکان کی آمدنی ہی آپ کے لئے کافی ہے اور اس کا ایک حصہ آپ کے رہنے کے لئے کافی ہے جو آپ کو لوگوں کے دَر سے بےنیاز کردے گا۔“انہوں نے کہا : ”یہی تمہاری رائے ہے؟“میں نے کہا : ”جی ہاں۔“توآپ نے کہا : وَاللہ!تم پرایک مثال صادق آرہی ہے۔میں نے عرض کی : کون سی؟فرمایا : ”لَا يُخْطِئُكَ مِنْ طَوِيلٍ حُمْقٌ اَوْ قُزْحَةٌ فِي رِجْلِهیعنی لمباآدمی حماقت سے بچ نہیں سکتایااس کےپاؤں میں چھالاہے۔“پھرکہا : کیا تم مجھے محتاجی سے خوفزدہ کررہے ہو؟
حضرتِ سیِّدُنا ابن جابر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر فرماتے ہیں : ”بالآخر حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدربّ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے وہ مکان بھی اچھی قیمت میں بیچ دیا اور قیمت صدقہ کردی۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو اس مال میں سے کفن خریدنے جتنی رقم ہی باقی تھی۔“
مزید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک شخص آیا جسے انہوں نے ہزار دینار دیئے تھے۔ آپ نے فرمایا : ”تم وہی ہو؟“اس نے کہا : ”جی ہاں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا بھلا کرے!کیا معاملہ ہے۔“فرمایا : ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم چار ہزار کے مالک ہوگئے ہو یا فرمایا : 40ہزار کے۔“اس نے کہا : ”بےوقوف ہے وہ شخص جس کے پاس عقل اور مال نہ ہو۔“
مسئلہ : لڑکیوں کےکان چھیدناجائزہے۔بعض لوگ لڑکوں کےکان بھی چھیدواتےہیں اوراس کےکان میں بالی پہناتےہیں، یہ ناجائزہے۔(ماخوذازبہارشریعت، حصہ۱۶، ۳/ ۵۹۶)
سیِّدُنا عبیدہ بن مہاجر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے مروی احادیث
عمل بھرےہوئےبرتن کی مثل ہے
(6772)…حضرتِ سیِّدُناابوعبدرب عُبَیدہ بن مہاجرعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِربیان کرتےہیں : میں نےحضرتِ سیِّدُنا امیرمُعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکوجامع مسجددِمشق کےمنبرپرفرماتےسناکہ مدینےکےتاجدار، اُمت کےغم خوار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشادفرمایا : ”دنیا میں آزمائش اورفتنےباقی بچےہیں، عمل(بھرے ہوئے) برتن کی طرح ہے اگر اس کا ظاہر اچھا ہوگا تو باطن بھی اچھا ہوگا اور اگر ظاہر خراب ہو گاتو باطن بھی خراب ہوگا۔“(2)
(6773)…حضرتِ سیِّدُنا امیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حبیب، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشادفرمایا : ” اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو نہ مغلوب کیاجاسکتاہےنہ دھوکادیاجاسکتاہے اوروہ سب جانتا ہے اسے کسی خبر کی حاجت نہیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطافرما دیتا ہے۔“(3)
نیکوں کے قُرب کے سبب مغفرت
(6774)…حضرتِ سیِّدُنا امیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ایک شخص گناہوں میں مشغول رہتا تھا، اس نے97 ناحق قتل کیے تھے۔ وہ عیسائیوں کے عبادت خانہ کے راہب کے پاس آیا اور کہا : ”اے راہب!جو گناہوں میں مشغول ہو حتّٰی کہ اس نے97ناحق قتل کیے ہوں تو اس کے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے؟“راہب نے کہا : ”اس کے لئے توبہ کی کوئی صورت نہیں۔“ اس نے اُسے بھی قتل کردیا۔ پھر دوسرے راہب کے پاس آیا اور اس سے وہی کچھ پوچھا جو پہلے سے پوچھا تھا۔ اس نے بھی مایوس کردیا تو اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ تیسرے کے پاس آیا، اس نے وہی جواب دیا تو اُسے بھی قتل کردیا۔ پھر کسی اور راہب کے پاس آیااور اس سے کہا : ”اے راہب!جو گناہوں میں مشغول ہو حتّٰی کہ اس نے100ناحق قتل کیے ہوں تو اس کے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے؟“اُس راہب نے کہا : ”خدا کی قسم!اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول نہیں فرماتا تو میں جھوٹا ہوں گا۔ فلاں جگہ جاؤ! وہاں ایک عبادت خانہ ہے، لوگ اس میں عبادت کرتے ہیں، تم ان کے ساتھ عبادتِ الٰہی میں مصروف ہوجاؤ۔“وہ توبہ کی غرض سے وہاں سے نکلا۔ آدھے راستے تک پہنچا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس کی طرف موت کا فرشتہ بھیجا جس نے اس کی روح قبض کرلی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتے اس کے بارے میں بحث کرنے لگے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ اُس نے اِن سے کہا : ”یہ جس عبادت خانہ سے قریب ہوگا اسی کا حق دار ہے۔“جب زمین ناپی گئی تو وہ توبہ کرنے والوں کی زمین کے ایک اُنگل قریب تھا۔ پس اُسے بخش دیا گیا۔(4)
٭…٭…٭…٭…٭…٭
1 کافر والدین کی بھی خدمت اولاد پر ضروری ہے ہاں ان کے دینی معاملات میں مدد نہ کی جائے۔ جیساکہ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی مراٰۃ المناجیح ، جلد6، صفحہ517 پر ایک حدیث کے تحت فرماتے ہیں : معلوم ہوا کہ کافر ومشرک ماں باپ کی بھی خدمت اولاد پر لازم ہے۔ فقہاء فرماتے ہیں کہ مشرک باپ کو بت خانہ لے نہ جائے مگر جب وہاں پہونچ چکا ہو تو وہاں سے گھر لے آئے کہ لےجانے میں بت پرستی پر مدد ہے اور لےآنے میں خدمت ہے۔
2 مسندامام احمد، مسند الشامیین، حدیث معاوية بن ابی سفیان، ۵/ ۱۸، حدیث : ۱۶۸۵۳
3 معجم کبیر، ۱۹/ ۳۶۹، حدیث : ۸۶۸
4 معجم کبیر، ۱۹/ ۳۶۹، حدیث : ۸۶۷
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع