30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کی سردار ہے۔ ‘‘ ([1])
بات دوزخ میں اوندھے منہ گرائے گی
حضرت سیِّدُناعُبادہ بن صامِت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمایک روز گھر سے باہَر تشریف لائے اور ُسواری پرسُوار ہوئے توحضرت سیِّدُنامُعاذبن جَبَل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرکے ارشادفرمایا: ’’ نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا۔ ‘‘ عرض کی: ہم زبان سے جوکچھ بولتے ہیں کیااس پراللّٰہعَزَّوَجَلَّ ہماری پکڑ فرمائے گا؟ تو سرکارِ دوجہانصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے ارشادفرمایا: ’’ اے مُعاذ! تمہیں تمہاری ماں روئے! ([2]) زبانوں کاکہا ہوا ہی لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔پس جو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا بُری بات سے خاموش رہے۔ (پھرارشاد فرمایا :) اچھی بات کہو فائدے میں رہو گے اور بُری باتوں سے خاموش رہو سلامت رہو گے۔ ‘‘ ([3])
40ہزاراولاد کا اجتماع! (حکایت)
حضرت سیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نورکے پیکر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’ اللّٰہعَزَّوَجَلَّنے جب حضرت آدم (عَلَـیْہِ السَّلَام) کوزمین پراتاراتو جتنا اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) نے چاہا اتنا عرصہ آپ زمین پررہے۔ایک روزآپ کی اولادنے آپ سے کہا: اے والدِمحترم! ہم سے گفتگو کیجئے۔ آپ (عَلَـیْہِ السَّلَام) نے اپنے بیٹوں ،پوتوں اور پَڑپوتوں کے40ہزار کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) نے مجھے حکم دیاہے کہ اے آدم! گفتگو کم کرو یہ عمل تمہیں میرے قُرْب (یعنی جنّت) کی طرف لَوٹا دے گا۔ ‘‘ ([4])
ابّاجان! آپ بولتے کیوں نہیں ؟ (حکایت)
حضرت سیِّدُناعبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت آدمعَلَـیْہِ السَّلَام جب زمین پر بھیجے گئے تو آپ کی خوب اولاد ہوئی۔ ایک دن آپ کے بیٹے،پوتے اور پڑپوتے سب آپ کے پاس جمع ہو کرباتیں کرنے لگے جبکہ آپ عَلَـیْہِ السَّلَام خاموش رہے اورکوئی گفتگو نہ فرمائی۔ اولاد عرض گزارہوئی: اباجان! کیابات ہے ہم گفتگوکررہے ہیں اورآپ خاموش ہیں ؟ حضرت سیِّدُناآدمعَلَـیْہِ السَّلَامنے ارشادفرمایا: اے میرے بیٹو! جب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے مجھے اپنے قُرْب (یعنی جنت) سے زمین پراُتاراتومجھ سے یہ عہدلیاتھاکہ اے آدم! گفتگو کم کرنایہاں تک کہ میرے قُرْب میں لوٹ آؤ۔ ([5])
حضرت سیِّدُناابوذَرغِفاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ مکی مدنی مصطفٰیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مجھ سے ارشادفرمایا: ’’ تم پرنیکی کی بات کے علاوہ طویل خاموشی لازم ہے کیونکہ یہ شیطان کوتم سے دورکردے گی اوردینی معاملات میں تمہاری مددگار ہو گی۔ ‘‘ ([6])
حکمت کے 10حصے
حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’ حکمت کے10 حصے ہیں
[1] مسندالفردوس، ۲ / ۳۶، حدیث:۳۶۶۶
[2] اس کاظاہری معنیٰ تویہ ہیں کہ’’ تمہیں موت آجائے‘‘ مگراہلِ عرب یہ جملہ ادب سکھانے، غفلت سے بیدارکرنے اوراپنی بات کی اہمیت وعظمت بیان کرنے کے لئے بولاکرتے تھے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، الفصل الاول، ۱ / ۱۹۶، تحت الحدیث:۲۹)
[3] مستدرک حاکم، کتاب الادب، قولواخیراتغنموا۔۔۔الخ، ۵ / ۴۰۷، حدیث:۷۸۴۴، بتغیرقلیل
[4] تاریخ بغداد، ۷ / ۳۳۸، رقم:۳۸۴۳:ابوعلی مؤدب حسن بن شبیب
[5] تاریخ بغداد، ۷ / ۳۳۹، رقم:۳۸۴۳:ابوعلی مؤدب حسن بن شبیب
[6] صحیح ابن حبان، کتاب البروالاحسان، ذکرالاستحباب للمرء۔۔۔الخ، ۱ / ۲۸۷، حدیث:۳۶۲
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع