اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی سفرِ طائف سے واپسی پر مقامِ “ نخلہ “ میں تشریف فرما ہوئے۔ رات میں جب آپ نمازِ تہجد میں قرآن پڑھ رہے تھے تو “ نصیبین “ کے جنوں کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور قرآن سن کر یہ سب جن مسلمان ہو گئے۔ پھر ان جِنّات نے واپس جا کر اپنی قوم کو تبلیغ کی تو مکہ شریف میں جِنّات کے بڑے بڑے گروہوں نے اسلام قبول کیا۔ قرآنِ پاک میں سورۂ جن کی ابتدائی آیات میں اﷲ پاک نے اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے۔
مکہ شریف سے جانبِ شمال ایک شہر “ یثرب “ تھا جو بعد میں مدینہ قرار پایا۔ آپ کے یہاں تشریف لانے کے بعد اس کا نام “ مدینہ “ ہوا۔ آپ کے اعلانِ نبوت کے وقت یہاں دو قبیلے “ اوس “ و “ خزرج “ کے ساتھ کچھ یہودی بھی رہتے تھے۔ یہ لوگ اگرچہ بت پرست تھے مگر یہودیوں سے سن سن کر انہیں معلوم تھا کہ عن قریب اﷲ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد ہوگی یوں گویایہ منتظر تھے کہ کب ان کی آمد ہوتی ہے اور ہم ان پر ایمان لا کر اپنا مقدر سنواریں۔
اعلانِ نبوت کے گیارہویں (11th)سال رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حج کے موقع پر آنے والے قبیلوں کو دعوتِ اسلام دینے کیلئے منیٰ تشریف لے گئے۔ منیٰ میں جو گھاٹی ہے جہاں آج مسجد العقبہ (عربی میں عقبۃ گھاٹی کو کہتے ہیں)ہے وہاں آپ تشریف فرما تھے کہ قبیلہ خزرج کے چھ آدمی آپ کے پاس آ گئے۔ آپ نے ان لوگوں سے ان کا نام و نسب پوچھا۔ پھر قرآن کی چند آیتیں سنا کر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس سے یہ لوگ بے حد متاثر ہوئے۔ واپسی میں یہ آپس میں کہنے لگے کہ یہودی اﷲ پاک کے جس آخری نبی کی بات کرتے رہے ہیں یقیناً وہ نبی یہی ہیں۔ لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم سے پہلے اسلام کی دعوت قبول کر لیں۔ یہ کہہ کر سب ایک ساتھ مسلمان ہو گئے اور مدینہ جا کر اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔
اگلے برس یعنی اعلانِ نبوت کے بارہویں (12th) سال حج کے موقع پر مدینہ کے مزید 12 افراد منیٰ کی گھاٹی میں چھپ کر اسلام لائے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ تاریخِ اسلام میں اس بیعت کو “ بیعتِ عقبہ اولیٰ “ (گھاٹی کی پہلی بیعت) کہتے ہیں۔ اس بیعت کو بیعت ِ عقبہ اس وجہ سے کہتے ہیں کیونکہ یہ بیعت مِنٰی کی پہاڑی میں عقبہ کے قریب ہوئی جسے جمرۃُ العقبہ بھی کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ اسلام کے احکام سکھانے کیلئے کوئی مُعَلِّم بھی ان کو دیا جائے۔ آپ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ان کےساتھ مدینہ شریف بھیج دیا۔ انہوں نے وہاں جا کر گھر گھر دین کی دعوت دی اور روزانہ کئی کئی افراد ان کی دعوت پر اسلام قبول کرنے لگے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ہر طرف دین پھیلنے لگا۔ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی ان کی دعوت پر اسلام لائے ، ان کے اسلام لاتے ہی ان کا پورا قبیلہ “ اوس “ مسلمان ہوگیا۔
اس بیعت کے ایک سال بعد یعنی اعلانِ نبوت کے تیرہویں (13th)سال حج کے موقع پر مدینہ کے تقریباً 72 افراد نے منیٰ کی اسی گھاٹی میں اپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کراللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی اور یہ عہد کیا کہ ہم لوگ آپ کی اور اسلام کی حفاظت کے لئے اپنی جان اور مال سب قربان کر دیں گے۔
مدینہ شریف میں اتنے لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے گویا مسلمانوں کو ایک پناہ گاہ مل گئی۔ آپ نے صحابَۂ کرام کو عام اجازت دے دی کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ چلے جائیں ۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد دوسرے لوگ بھی مدینہ روانہ ہونے لگے۔ جب کفار کو پتہ چلا تو انہوں نے ہجرت کرنے والوں کو روکنے کی کوششیں شروع کر دیں مگر چھپ چھپ کر لوگوں نے ہجرت کا سلسلہ جاری رکھایہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصے میں بہت سے صحابَۂ کرام مدینہ شریف ہجرت کر گئے۔ اب مکہ شریف میں صرف وہ لوگ رہ گئے جو یا تو کافروں کی قید میں تھے یا پھر غربت کی وجہ سے ہجرت نہیں کر سکتے تھے۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ابھی تک اﷲ کریم کی طرف سے ہجرت کا حکم نہیں ہوا تھا تو آپ مکہ میں ہی رہے۔ آپ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ابھی تک مکہ شریف میں رکے ہوئے تھے۔
قریش کے کافر اس تمام صورتحال سے بڑے پریشان ہوئے ، یہ دیکھ کر کہ مدینہ کے لوگ اسلام لا چکے ہیں اوربڑھتے جا رہے ہیں جبکہ مکہ کے لوگ بھی وہاں ہجرت کر رہے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ حضور علیہ السَّلام بھی مدینہ چلے جائیں اور وہاں سے اپنے حامیوں کی فوج لے کر مکہ پر چڑھائی کر دیں۔ یہ خطرہ محسوس کر کے کفارِ مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے “ دارُا لندوہ “ میں ایک مشورہ کیا۔ کفار کے تمام بڑے بڑے دانشور اس اجتماع میں شریک تھے۔ مختلف تجاویز دی گئیں جن میں سے ابوجہل کی دی گئی تجویز پر سب کا اتفاق ہوا۔ اس کا مشورہ یہ تھا ہر قبیلے سے ایک ایک جوان کو تلوار دی جائے وہ سب ایک ساتھ آپ پر حملہ کر کے مَعَاذَ اللہ آپ کو شہید کر دیں۔ تمام قبائل کے لوگ اس میں شریک ہوں گے تو بنوہاشم کسی سے بھی جنگ نہ کر سکیں گے اور خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا اور ان کی مجلس ختم ہوگئی۔ حضرت جبریل امین اﷲ کریم کا حکم لے کر نازل ہو گئے اور اس واقعے کی خبر دی اور کہا کہ آج رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جائیں۔
کافروں نے رات کے وقت اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق آپ کے مکانِ عالیشان کو گھیر لیا اور انتظار کرنے لگے کہ آپ سو جائیں تو وہ حملہ آور ہوں۔ اس وقت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے۔ کافر اگرچہ آپ کے دشمن تھے مگر انہیں آپ کی امانت و دیانت پر پورا بھروسہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے۔ اس وقت بھی کئی امانتیں آپ کے مکانِ عالیشان میں موجود تھیں۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی سے فرمایا : تم میری چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سوجاؤ! میرے چلے جانے کے بعد یہ تمام امانتیں ان کے مالکوں کو سونپ کر تم بھی مدینہ چلے آنا۔ آپ نے خاک کی ایک مٹھی لی اور اس پر سورۂ یس شریف کی ابتدائی کچھ آیات تلاوت فرما کر وہ خاک کفار کی طرف پھینک دی اور اس مجمع میں سے صاف نکل گئے ، کسی نے بھی آپ کو نہ پہچانا۔ پھر آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غارِ ثور پہنچے اور تین دن اور تین راتیں وہاں قیام فرمایا۔ اس کے بعد آپ مدینہ شریف تشریف لے گئے۔
نواں باب
ہجرت
تا
صلحِ حدیبیہ
From Migration
Till
The Treaty of Hudaybiyyah
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی خبر اہلِ مدینہ کو مل چکی تھی اور وہ ان کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے ، مدینہ کی خواتین اور بچوں تک کی زبانوں پر آپ کی آمد کا ذکر ہوتا۔ مکہ شریف سے مدینہ کی مسافت عموماً 12 دن میں طے ہوتی تھی ، یہ دن تو انہوں نے انتظار کرتے ہوئے گزار دیئے۔ اس کے بعد ان سے رہا نہ گیا اور وہ اپنے شوق کی تکمیل کیلئے بےقرار ہو کر اجتماعی شکل میں اپنے آقا کے استقبال کیلئے مدینہ سے باہر ایک میدان میں جمع ہوجاتے اورجب دھوپ تیز ہو جاتی تو حسرت کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔ ہر نئے دن ان کا یہی معمول تھا کہ نئے عزم و یقین کے ساتھ آتے اور راستے میں سراپا شوق بن کر استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے۔ ایک دن اپنے معمول کے مطابق اہلِ مدینہ آپ کی راہ دیکھ کر واپس جا چکے تھے۔ اچانک ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا کہ کچھ افراد کا قافلہ آرہا ہے تو وہ سمجھ گیا اور اس نے زور سے پکار کر کہا : اے مدینہ والو! تم جس کا روزانہ انتظار کرتے تھے وہ کاروانِ رحمت آگیا۔ یہ سن کر تمام انصار بدن پر ہتھیار سجا کر خوشی کے عالم میں اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا استقبال کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے ۔ مدینہ شریف سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج’’مسجدقبا ‘‘ہے آقا کریم عَلَیْہ السَّلَام وہاں 12 ربیع الاول کو تشریف لائے اور قبیلۂ عمرو بن عوف وہ خوش بخت قبیلہ تھا جسے سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سب سے پہلے اپنی میزبانی کا شرف بخشا۔ اس قبیلے کے ایک سردار حضرت کلثوم بن ہِدْم رضی اللہ عنہ کے مکان میں آپ نے قیام فرمایا۔ اکثر صحابَۂ کرام جو پہلے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے وہ لوگ بھی اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی قریش کی امانتیں لوٹا کر کچھ دن بعد مکہ سے چل پڑے تھے اور وہ بھی اسی مکان میں قیام فرماہوئے۔
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قبا شریف میں سب سے پہلا کام یہ فرمایا کہ وہاں مسجد تعمیر فرمائی۔ حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کی ایک ناکارہ زمین تھی جہاں کھجوریں خشک کی جاتی تھیں آپ نے وہ زمین لے کر وہاں مسجد کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد آج بھی “ مسجدِ قبا “ کے نام سے مشہور ہے۔ دوہفتوں سے کچھ زائد یہاں رہ کر آپ شہرِ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں قبیلۂ بنی سالم کی مسجد میں پہلا جمعہ ادا فرمایا۔ پھر آپ شہرِ مدینہ تشریف لائے۔
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب قبا سے مدینہ تشریف لائے تو کئی انصاری صحابہ نے عرض کی : ہمارے ہاں قیام فرمائیں۔ مگر آپ ارشاد فرماتے کہ جس جگہ خدا کو منظور ہوگا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ جہاں آج مسجدِ نبوی ہے یہاں پر آپ کی سواری بیٹھی۔ اسی کے قریب حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مکان تھا۔ حضرت ابوایوب انصاری آپ کی اجازت سے آپ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ سات مہینے تک حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے آپ کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔ جب مسجدِ نبوی اور اس کے آس پاس کے حجرے تیار ہو گئے تو آپ اپنی ازواج کے ساتھ وہاں قیام فرما ہوئے۔
مدینہ شریف میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں مسلمان باجماعت نماز پڑھ سکیں اس لیے مسجد کی تعمیر وہاں بہت ضروری تھی۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قیام گاہ کے قریب ہی “ بنونجار “ کا ایک باغ تھا۔ اس کی زمین اصل میں دو یتیموں کی تھی آپ نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلایا ، انہوں نے زمین مسجد کے لئے نذر کرنی چاہی مگر اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے پسند نہیں فرمایا اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے آپ نے اس کی قیمت ادا فرمائی۔ زمین ہموار کرکے خود آپ نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی اور کچی اینٹوں کی دیوار اور کھجور کے ستونوں پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنائی جو بارش میں ٹپکتی تھی اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خود رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے تھے۔ یہیں پر اذان کی ابتدا ہوئی۔ شروع میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو نماز کیلئے بلایا کرتے تھے پھر حضرت عبداﷲ بن زید انصاری اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے خواب میں اذان کے الفاظ سنے۔ آپ کے حکم سے حضرت عبداﷲ بن زید نے وہ الفاظ حضرت بلال کو سکھائے اور وہ اذان دینے لگے۔ اسی دن سے شرعی اذان کا طریقہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔
اس وقت تک مدینہ شریف میں مہاجرین کی تعداد 45یا 50تھی۔ حال ان کا یہ تھا کہ بےسرو سامانی تھی ، اہل و عیال ، مال اسباب سب مکہ میں رہ گئے تھے ، انصار نے اگرچہ ان کی بڑی مہمان نوازی کی تھی لیکن مہاجرین دیر تک دوسروں کے سہارے زندگی گزارنا پسند نہیں کرتے تھے ، اس لیے اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا یہ حل نکالا کہ مہاجرین و انصار کے درمیان رشتہ اخوت قائم کر کے انہیں آپس میں بھائی بھائی بنا دیا جائے تاکہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔ چنانچہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور علیہ السلام نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین صحابہ کو جمع فرمایا۔ آپ نے انصار کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں۔ پھر مہاجرین و انصار میں سے دو دو لوگوں کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ آپ کے ارشاد فرماتے ہی یہ رشتہ اخوت بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔ چنانچہ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کو ساتھ لے جاکر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اس لئے ہمارے گھروں کا سامان بھی آدھا آپ کا ہوا اور آدھا ہمارا۔
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب تک مکہ میں رہے کعبہ شریف کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ ہجرت کے بعد آپ مدینہ شریف میں حکمِ الٰہی سے سب نمازوں میں “ بیت المقدس “ کو قبلہ بناتے۔ اسی طرح 16یا 17 مہینے گزر گئے۔ آپ کے دل میں یہی تمنا تھی کہ کعبہ ہی کو قبلہ بنایا جائے۔ چنانچہ ایک دن اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قبیلۂ بنی سلمہ کی مسجد میں نمازِ ظہر پڑھا رہے تھے کہ حالت نماز ہی میں یہ وحی نازل ہوئی :
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ- (پ2 ، البقرہ : 144)
ترجمہ کنز الایمان : ہم دیکھ رہے ہیں بار بار آپکا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ہم ضرور آپ کو پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں آپ کی خوشی ہے تو ابھی آپ پھیر دیجیے اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف۔
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ہی میں اپنا چہرہ بیت المقدس سے پھیر کر خانہ کعبہ کی طرف کر لیااور تمام مقتدیوں نے بھی آپ کی پیروی کی۔ اس مسجد کو جہاں یہ واقعہ پیش آیا ’’مسجد قبلتین‘‘ کہتے ہیں اور آج بھی یہ مسجد اور اس کے دونوں محراب موجود ہیں۔ یہ مسجد شہر مدینہ سے تقریباً دوکلو میٹر دور شمال مغرب کی طرف واقع ہے۔ اسی واقعے کو “ تحویلِ قبلہ “ کہتے ہیں۔ تحویلِ قبلہ سے یہودیوں اور منافقین کے گروہ کو بہت تکلیف ہوئی۔
مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ آ گئے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مکہ کے کفار اب اطمینان سے بیٹھے رہتے مگر ان کا غصہ مزید بڑھ گیا۔ اب یہ لوگ اہلِ مدینہ کے بھی دشمن ہو گئے۔ انصار کے رئیس عبداللہ بن ابی کے پاس انہوں نے خط لکھا کہ تم مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دو ، یا تم ان کو قتل کر دو ورنہ ہم تم پر حملہ کر کے تمہیں اپنی تلواروں کا مزہ چھکائیں گے۔ اسی طرح قبیلہ اوس کے سردار جب عمرہ کرنے مکہ گئے تو انہیں بھی مکہ کے کافروں نے دھمکیاں دیں۔ کافروں نے صرف دھمکیوں پر بس نہیں کیا بلکہ مدینہ شریف پر حملے کی باقاعدہ تیاریاں شروع کر دیں۔ انہوں نے تمام قبائل میں یہ بات پہنچا دی کہ ہم مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو ختم کر دیں گے۔ ان حالات کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنی حفاظت کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اب تک حکمِ الٰہی کے مطابق صرف دلائل اور نصیحت سے دوسروں کو دین کی دعوت دیتے رہے اور کافروں سے ملنے والی ایذاؤں پر صبر کا مظاہرہ فرماتے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب سارا عرب اور یہودی مسلمانوں کے دشمن ہو گئے اور انہیں مٹانے کیلئے طرح طرح کی سازشیں کرنی شروع کردیں تو اللہ کریم نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ جنگ کی ابتدا کریں تم بھی ان سے جنگ کر سکتے ہو۔
ان حالات میں آقا کریم علیہ السلام نے دو باتوں کی طرف توجہ فرمائی۔
(1)اہلِ مکہ کے جو تجارتی قافلے شام جاتے تھے انہیں روکا جائے اور یہ راستہ بند کیا جائے تاکہ وہ لوگ صلح پر راضی ہوں۔
(2)اطراف کے جتنے بھی قبائل ہیں ان سے صلح کے معاہدے کئے جائیں تاکہ کفار مدینہ شریف پر حملہ کی جرأت نہ کر سکیں۔
اسی وجہ سے آپ خود بھی اطراف کے قبائل کی طرف تشریف لے جاتے اور چھوٹے چھوٹے لشکربھی بھیجتے جو کفارِ مکہ کی نقل و حرکت پر نظر بھی رکھتے اور قبائل سے امن و امان کے معاہدے بھی کرتے۔ اسی سلسلہ میں کفارِ مکہ اور ان کے حلیفوں سے مسلمانوں کا ٹکراؤ شروع ہوا اور چھوٹی بڑی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہی لڑائیوں کو تاریخِ اسلام میں “ غزوات و سرایا “ کا نام دیا جاتا ہے۔