Ghazwah or Sariya Ka Farq
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Aakhri Nabi Ki Piyari Seerat | آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری سیرت

Ghazwah or Sariya Ka Farq

book_icon
آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری سیرت

غَزوہ اور سَرِیَّہ کا فرق

وہ جنگی لشکر جس میں اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بذاتِ خود تشریف لے جاتے اسے “ غَزْوَۃ “ کہتے ہیں۔  جبکہ وہ لشکر جس میں آپ شامل نہیں ہوئے اسے “ سَرِیَّۃ “ کہتے ہیں۔ غزوہ کی جمع “ غزوات “ اورسریہ کی جمع “ سَرایا “ آتی ہے۔   
غزوات و سرایا کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے ، امام بخاری کی روایت کے مطابق غزوات کی تعداد 19 ہے۔ ان میں سے صرف 9 ایسی غزوات ہیں جن میں جنگ کی نوبت پیش آئی جبکہ اکثر ایسی تھیں جن میں لڑائی کی ضرورت ہی نہ ہوئی۔    جبکہ سرایا کی تعداد 47 یا  56  ہے۔  

غزوۂ بدر کے اسباب

مسلمانوں کی کافروں کےساتھ جو پہلی سب سے بڑی جنگ ہوئی اسے “ غزوۂ بدر “ کہتے ہیں۔ بدر  مدینہ شریف سے کچھ فاصلے پر ایک گاؤں کا نام ہے۔ وہاں ایک کنواں تھا جس کے مالک کا نام بدر تھا۔ اسی وجہ سے اس جگہ کا نام بدر مشہور ہوگیا۔  غزوۂ بدر سے پہلے بھی مسلمانوں اور کافروں کی چھوٹی موٹی کچھ لڑائیاں ہوئیں تھیں۔ ایک دفعہ کافروں کی ایک ٹولی نے تو مدینہ شریف کی چراگاہوں میں آ کر بھی لوٹ مار مچائی۔ جبکہ ایک لڑائی میں ایک کافر بھی مارا گیا۔ اس کی موت سے مکہ کے کفار آپے سے باہر ہونے لگے۔ انہی کے ردعمل کی وجہ سے جنگِ بدر کا معرکہ پیش آیا۔ جنگ بدر کا ایک سبب یہ بھی  بنا کہ مدینہ شریف میں یہ خبر پہنچی  کہ کافروں کا ایک بڑا قافلہ ملکِ شام سے واپس مکہ جانے والا ہے۔ اس قافلے میں کافروں کے بڑے بڑے سردار بھی شریک ہیں اور مالِ تجارت بھی خوب ہے۔ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا کہ کافروں کی ٹولیاں ہماری تلاش میں بھی رہتی ہیں اور ان کی ایک ٹولی تو شہرِ مدینہ میں ڈاکہ ڈال کر گئی ہے لہٰذا کیوں نہ ہم قریش کے اس قافلے پر حملہ کر دیں۔ اس طرح ان کی شامی تجارت کا راستہ رک جائے گا اور وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لیں گے۔ آپ کی یہ تجویز سن کر مہاجرین و انصار سب تیار ہوگئے۔ چنانچہ آپ 12 رمضان 2ہجری کو بنا کسی خاص بڑی جنگی تیاری کے چل پڑے ، جو جس حال میں تھااسی حال میں روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں مسلمانوں کے ساتھ نہ زیادہ ہتھیار تھے ، نہ فوجی راشن کی کوئی بڑی مقدار تھی کیونکہ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ اس سفر میں کوئی بڑی جنگ ہوگی۔  
اہلِ مکہ کو جب خبر پہنچی کہ مسلمان مدینہ سے نکل چکے ہیں تو انہوں نے بھی جنگ کیلئے تیاری شروع کر دی۔ جب آپ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے مشورہ فرمایا اور انہیں بتا دیا کہ ممکن ہے اس سفر میں جنگ کی نوبت آجائے۔ مہاجرین و انصار دونوں نے آپ کی اطاعت اور حفاظت    کے عزم کا اظہار کیا۔ مدینہ شریف سے ایک میل دور آپ نے لشکر کا جائزہ لیا اور چھوٹے بچوں کو واپس جانے  کا حکم فرمایا۔ کچھ ضروری اقدامات فرما کر آپ بدر کے میدان کی طرف چل پڑے جہاں سے کفارِ مکہ کے آنے کی خبر تھی۔ اب کُل فوج کی تعداد 313 تھی۔ جن میں 60 مہاجر باقی انصار تھے۔ ادھر ابو سفیان کو بھی مسلمانوں کے نکلنے کی خبر مل گئی تو اس نے دو کام کئے۔ ایک تو اس نے فوراً ایک شخص کو مکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس کی خبر کر دے تاکہ وہ اپنے قافلہ کی حفاظت کا انتظام کریں اور خود راستہ بدل کر قافلہ کو سمندر کی جانب لے کر روانہ ہو گیا۔  ابو سفیان کا پیغام پہنچتے ہی قریش اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ 
قریشی سردار ایک ہزار کی تعداد کا ایسا لشکر لے کر نکلے جس کا ہر سپاہی مسلح تھا۔ فوج کی خوراک کا یہ انتظام تھا کہ قریش کے مالدار لوگ باری باری روزانہ دس دس اونٹ ذبح کرتے تھے اورپورے لشکر کو کھلاتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے بڑا رئیس تھا اس پورے لشکر کا سپہ سالار تھا۔  راستے میں انہیں ابو سفیان نے خبر بھیجی کہ ہم نے اپنا قافلہ محفوظ کرلیا ہے لہٰذا باقی لوگ واپس چلیں جائیں۔ اب کسی قسم کی جارحیت کی ضروری نہیں ہے۔  قریش کے بعض لوگ واپس جانے پر راضی ہوگئے لیکن کچھ نے جنگ کرنے پر اصرار کیا اور بعض قبائل کو اس پر راضی کر لیا۔ 
 کفارانِ قریش مسلمانوں سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ گئے اور بہترین اور مناسب جگہوں پر قبضہ کرلیا۔ جبکہ مسلمانوں کو جنگی اعتبار سے بہتر جگہ نہ مل سکی۔ خدا کی شان کہ اس دوران بارش ہو گئی جس سے میدان کی گرد اور ریت جم گئی جس پر مسلمانوں کے لئے چلنا پھرنا آسان ہو گیا اور کفار کی زمین پر کیچڑ ہو گئی جس سے ان کو چلنے پھرنے میں مشکل ہو گئی۔ 

جنگِ بدر میں کون کہاں مرے گا؟

اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ رات کے وقت میدانِ جنگ کا معائنہ کرنے کیلئے تشریف لائے اور چھڑی سے زمین پر لکیریں بناتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ فلاں کافر اس جگہ قتل ہوگا ، فلاں کی لاش یہاں ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، جس جگہ آپ نے فرمایا تھا ہر کافر کی لاش اسی جگہ پائی گئی۔ 

غزوۂ بدر کا واقعہ و نتائج

17 رمضان 2ہجری مطابق 13مارچ 624عیسوی کو جمعہ کے دن آپ نے  مجاہدین کو صف بندی کا حکم دیا۔ جنگ کی ابتدا  ہوئی مگراس بے سرو سامانی کے باوجود صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے شجاعت اور جانبازی کے جوہر دکھائے۔ اسی غزوہ میں ابو جہل کو دو کم عمر صحابہ حضرت معاذ  اور حضرت معوذ رضی اللہ عنھما نے جہنم واصل کیا۔ میدانِ جنگ میں کافروں کے بڑے بڑے سرداروں جیسے ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ وغیرہ کی ہلاکت سے کفارانِ مکہ کی کمر ٹوٹ گئی۔ انہوں نے حوصلہ ہار دیا ، ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے کافروں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اس جنگ میں کفار کے 70آدمی قتل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنے۔ ابو سفیان کا قافلہ تو بچ نکلا مگر مسلمانوں نے اس جنگ میں شاندار کامیابی حاصل کی ، جس سے مسلمانوں کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا ، اس جنگ میں شکست کی وجہ سے کفارِ مکہ کی ساری عزت خاک میں مل گئی ، ان کی جنگی طاقت فنا ہوگئی اور ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ فتح کے بعد تین دن تک آپ نے بدر ہی میں قیام فرمایا اس کے بعد قیدیوں اور اموالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ شریف کی طرف روانہ ہوئے۔  

شہدائے بدر

جنگ ِ بدر میں کل 14مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ان میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔ 13 صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان تو میدانِ بدر ہی میں مدفون ہوئے  جبکہ ایک صحابی حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ  کا وصال راستے میں ہوا اور آپ کا مزار شریف “ صفرا “ کے مقام پر ہے۔   اسی مقام پر آپ نے مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم فرمایا۔ وہ صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے وہ خصوصی شرف  اور مرتبے کے مالک ہیں۔ ان تمام کے بڑے فضائل ہیں جن میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : بے شک اللہ پاک اہلِ بدر سے واقف ہے اور اس نے یہ فرمادیا ہے کہ تم اب جو عمل چاہو کرو بلاشبہ تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے یا(یہ فرمایا) کہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔     

قیدیوں کا انجام

اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بدر کے قیدیوں کو صحابَۂ کرام میں تقسیم فرما دیا کہ وہ ان کے آرام اور ضروریات کا خیال رکھیں۔ ان قیدیوں کے بارے میں مشاورت کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ان قیدیوں سے چارچار ہزار درہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ دیا جائے۔ جو لوگ مفلسی کی و جہ سے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دئیے گئے۔ ان قیدیوں میں جو لوگ لکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصار کے دس لڑکوں کو لکھنا سکھا دیں۔ 

غزوہ احد کے اسباب اور لشکروں کی تعداد

جنگ بدر سے جاتے ہی کافروں نے انتقام لینے کیلئے اگلی جنگ کی تیاری شروع کر دی تھی۔ پورا ایک سال انہوں نے جنگ کی تیاری کی۔ ہجرتِ نبوی کے تیسرے سال شوال کے مہینے میں کفارانِ قریش پوری تیاری کر کے  ایک بڑا اور ہر لحاظ سے مضبوط لشکر لے کر جنگ کے ارادے سے نکلے۔ ابو سفیان (جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے وہ )اس لشکر کے  سپہ سالار بنے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ  جو خفیہ طور پر ایمان قبول کر چکے تھے اور مکہ میں رہتے تھے انہوں نے ایک خط لکھ کر  کافروں کے لشکر کی خبر دی۔  
 جب آپ نے تحقیقات کروائیں تو معلوم ہوا کہ  کافروں کا لشکر مدینہ کے بہت قریب آ چکا ہے۔ اس صورتحال میں آپ نے صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے مشورہ فرمایا۔ بزرگ صحابہ نے یہ رائے دی کہ شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے لیکن نوجوان میدان میں نکل کر لڑنا چاہتے تھے۔ آپ نے یہ رائے سن کر ہتھیار سجائے  اور باہر تشریف لائے۔ اتنے میں تمام لوگ شہر کے اندر رہ کر ہی کافروں سےجنگ لڑنے پر متفق ہوگئے۔ مگر آپ نے فرمایا کہ  اللہ کے نبی کیلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ ہتھیار پہن کر اتار دے یہاں تک کہ اﷲ پاک اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ لہٰذا اب نامِ خدا لے کر میدان میں نکل پڑو۔ آپ اس جنگ میں ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ سے باہر نکلے۔ راستے میں عبداللہ بن اُبَی منافق بہانے سے اپنے 300 لوگوں کولے کر اسلامی لشکر سے الگ ہوگیا۔ اب اسلامی لشکر کی تعداد 700 ہوگئی۔ آپ نے لشکر کامعائنہ فرمایا اور کم عمر صحابہ کو واپس لوٹا دیا۔   

لشکروں کا آمنا سامنا

مشرکین 12شوال کو ہی مدینہ شریف کے قریب اُحد پہاڑ  پر پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جمعہ کے دن 14 شوال کو مدینہ سے روانہ ہوئے اور 15 شوال کو ہفتے کے دن فجر کے وقت احد پہنچے۔ نمازِ فجر کے بعد آپ نے صف بندی فرمائی۔  صف بندی کے وقت آپ نے اپنی پشت پر اُحُد پہاڑ کو رکھا۔ لشکر کے پیچھے پہاڑ میں ایک درہ یعنی تنگ راستہ تھا جس میں سے گزر کر کفارِ قریش مسلمانوں کی صفوں پر پیچھے سے حملہ آور ہو سکتے تھے۔ اس لیے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس درہ کی حفاظت کیلئے 50 تیراندازوں کا ایک دستہ مقررفرمایا۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو اس دستے کا افسر بنا دیا اور یہ حکم دیا کہ ہماری شکست ہو یا فتح مگر تم لوگ اپنی اس جگہ کو مت چھوڑنا۔  

جنگ کا معرکہ

جب جنگ کا آغاز ہوا اور مسلمانوں نے شجاعت و بہادری کے ایسے ایسے جوہر دکھائے کہ کفار شکست کھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اسی دوران ایک غلطی سے جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ وہ تیر انداز جنہیں پہاڑی پر مقرر کیا گیا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ جیت مل چکی ہے تو وہ بھی دیگر صحابہ کے ساتھ مالِ غنیمت جمع کرنے آ گئے۔ ان کے سربراہ  نے  روکا لیکن انہوں نے سوچا کہ اب تو جنگ ختم ہوچکی اب رکنے کا کیا فائدہ؟  حضرت خالدبن ولید جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے  انہوں نے جب وہ درہ پہرہ داروں سے خالی دیکھا تو پیچھے سے حملہ کردیا۔ حضرت عبداﷲ بن جبیر  رضی اللہ عنہ نے اس درہ پر چند صحابہ کے ساتھ انتہائی دلیرانہ مقابلہ کیامگریہ سب کے سب شہید ہو گئے۔ جنگ کا نقشہ بدلتا ہوا دیکھ کر بھاگتی ہوئی کفارِ قریش کی فوج بھی پلٹ پڑی۔ اس اچانک حملے سے پورا منظر تبدیل ہوگیا۔  

غزوۂ احد کے کچھ واقعات

جنگ کے دوران ایک کافر نے آپ کے چہرهٔ انور پر تلوار ماری جس سے خود  کے کچھ ٹکڑے آپ کے مبارک چہرہ میں چبھ گئے۔ پتھر لگنے کی وجہ سے آپ کے مبارک دانتوں کے کچھ کنارے بھی شہید ہوئے۔ اور نیچے کا مقدس ہونٹ بھی زخمی ہو گیا۔  کافروں نے اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شہید کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اپنے ناپاک مقصد کو پورا نہ کرسکے۔ بعد میں صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے بڑھ چڑھ کر آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دفاع فرمایا  ۔ جب جنگ ختم ہوئی تو کافر وہاں سے چلے گئے جبکہ مسلمانوں نے اپنے شہدا کی تلاش شروع کر دی اور شہدا کو دیکھ کر مسلمان بڑے پریشان ہوئے۔ اس غزوہ میں شہدا کی تعداد 70 تھی۔ جن میں سے چار مہاجر جبکہ 66انصاری صحابہ شامل تھے۔ ان تمام شہدا کو احد پہاڑ کے دامن میں دفن کیا گیا۔ دو دو شہید ایک ایک قبر میں دفن کئے جاتے۔ اس جنگ میں تیس کافر بھی مارے گئے۔    

واقعَۂ رجیع

ہجرت کے چوتھے سال یہ دردناک واقعہ پیش آیا۔  قبیلہ عَضَل وَقَارَہ کے چند آدمی اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ہمارے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا ہے آپ کچھ صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو بھیج دیں جو انہیں اسلام سکھائیں۔ آپ نے دس صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی ایک جماعت کو ان کے ساتھ کر دیا۔ جب یہ قافلہ رجیع  کے مقام پر پہنچا تو کافروں نے بد عہدی کر ڈالی۔ اور دھوکے سے ان میں سے آٹھ مسلمانوں کو شہید کر ڈالا جبکہ دو کو کفار نے مکہ لے جا کر فروخت کر ڈالا۔  

واقعۂ بئر معونہ

ماہِ صفر 4 ہجری میں “ بیرمعونہ “  کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ عامر بن مالک جو بہادری میں مشہور تھا وہ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ  نے اس کو اسلام کی دعوت دی ، نہ تو اس نے قبول کی اور نہ  ہی نفرت کا اظہار کیا۔ بلکہ اپنے ساتھ چند منتخب صحابہ کو  بھیجنے کی درخواست کی۔ آ پ نے فرمایا کہ مجھے نجد کے کافروں کی طرف سے خطرہ ہے۔ اس نے کہا کہ میں آپ کے اصحاب کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوں۔ آپ نے 70صحابہ کو  بھیج د یا۔ 
جب یہ صحابہ مقامِ بئر معونہ پر پہنچے توان کے قافلہ سالار آپ کا خط لے کر  عامر بن طفیل کے پاس گئے جو عامر بن مالک کا بھتیجا تھا۔ اس نے انہیں بھی دھوکے سے شہید کروا دیا اور قریب کے قبائل کو ملا کر ان صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان پر حملہ کردیا۔ صرف ایک صحابی حضرت عمرو بن امیہ کو انہوں نے چھوڑ دیا باقی تمام صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو شہید کر دیا۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر جب یہ تمام واقعہ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سنایا تو آپ کو شدید صدمہ ہوا۔ 

غزوۂ بنو نضیر

حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنه نے مقامِ بئر معونہ سے واپسی پر دو ایسے کافروں کو قتل کر دیا تھا جنہیں اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پناہ دے چکے تھے۔ یہ سمجھے کہ انہوں نے بئرمعونہ پر شہید ہونےو الے صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کا بدلہ لے لیا ہے لیکن بعد میں انہیں حقیقت معلوم ہوئی۔ رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان دو کافروں کا خون بہا دینے کا اعلان فرمایا۔    اسی بارے میں گفتگو کرنے آپ قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ آپ کا معاہدہ انہی سے تھا۔ انہوں نے بظاہر بڑے اخلاق کا مظاہرہ کیا مگر یہ چال چلی کہ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو صحابَۂ کرام کے ساتھ ایک دیوار کے نیچے بڑے احترام سے بٹھایا اور ایک شخص کو اوپر بھیجا کہ وہ اوپر سے ایک وزنی پتھر ان پر گرا دے تاکہ یہ سب شہید ہو جائیں۔ اللہ کریم نے آپ کو اس منصوبے کی خبر دی ، آپ فوراً وہاں سے چپ چاپ اٹھے اور صحابہ کے ہمراہ واپس چلے آئے اور مدینہ شریف تشریف لا کر یہودیوں کی اس سازش کے بارے میں صحابَۂ کرام کو بتایا۔ انصار و مہاجرین سے مشورے کے بعد آپ نے ان یہودیوں کو پیغام بھجوایا کہ تم نے سازش کر کے معاہدہ توڑ دیا ، اس لیے اب دس دن کے اندر مدینہ شریف سے نکل جاؤ۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا تو آپ لشکر لے کر نکلے اور یہودیوں کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ 15 دن تک رہا۔ اس دوران آپ نے قلعے کے آس پاس کے کچھ درختوں کو بھی کٹوا دیا تاکہ ان میں چھپ کر یہودی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ تنگ آ کر  وہ یہودی اس بات پر تیار ہوگئے کہ وہ اپنا مکان اور قلعہ چھوڑ  دیتے ہیں۔ لیکن اپنا جتنا سامان اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے ہیں وہ لے جائیں گے۔ آپ نے ان کی یہ شرط منظور فرمائی  اورسوائےدو افراد کے جو مسلمان ہوگئے تھے بنو نضیر کے سب یہودی 600اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں گاتے بجاتے مدینہ سے نکلے  اور کچھ تو خیبر میں جبکہ کچھ ملک شام میں جا کر آباد ہو گئے۔   

غزوۂ بنو مصطلق و واقعۂ افک

شہر مدینہ سے کافی دور قبیلۂ خزاعہ کا ایک خاندان “ بنومصطلق  “ آباد تھا۔ ماہِ شعبان سن 5 ہجری میں اس قبیلے کے سردار نے مدینہ شریف پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو آپ لشکر لے کر اس کے مقابلے کیلئے نکلے۔ جب ان لوگوں کو آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو ان کا سردار ڈر کر بھاگ گیا ، قبیلہ کے دوسرے لوگوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر جب مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کر حملہ کیا تو دس کافر مارے گئے۔ ایک مسلمان نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جبکہ کثیر مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔  اسی غزوہ میں قیدیوں کے ساتھ ام المومنین جویریہ بنت حارث بھی تھیں جنہیں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنی زوجیت میں قبول فرمایا اور مسلمانوں نے اس خوشی میں تمام قیدیوں کو رہا کردیا۔ 
اسی غزوہ سے جب آپ واپس آنے لگے تو ایک مقام پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکسی سبب پیچھے رہ گئیں۔ بعد میں اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آکر مل گئیں۔ اس کو بنیاد بنا کر منافقین نے معاذاللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگائے اور اللہ پاک نے خود قرآنِ کریم کی سورۂ نور کی آیت نمبر 11 تا 20 میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکی بیان کی اور منافقین کے بہتانوں کو جھوٹ قرار دیا۔ 

غزوۂ خندق اور اس کا سبب

سن5 ہجری میں غزوۂ خندق کا واقعہ پیش آیا۔ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے   بنو نضیر کے یہودیوں کو معاہدوں کی خلاف ورزی کی بنا پر مدینہ پاک سے نکال دیا تھا۔ ان میں سے کچھ خیبر جا کر آباد ہوگئے تھے۔  وہاں جاکر خیبر کے یہودیوں کو ساتھ ملا کر انہوں نے عرب کے مشرکین کو آپ کے خلاف جنگ پر ابھارا اور ہر طرح کی امداد کا یقین دلایا۔ تمام کفارِ عرب نے اتحاد کر کے مسلمانوں سے جنگ لڑنے کا ارادہ کر لیا اسی وجہ سے اسے غزوۂ احزاب (تمام جماعتوں کی جنگ)بھی کہتے ہیں۔ دشمن کی تعداد 10ہزار تھی ، اس لیے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر دفاع کیا جائے۔ جس طرف سے کافروں کی چڑھائی کا خطرہ ہے اس طرف ایک خندق کھود لی جائے۔ مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا۔ صرف ایک طرف کا علاقہ تھا جو کھلا ہوا تھا لہٰذا یہ طے ہوا کہ اسی طرف گہری خندق کھودی جائے۔ چنانچہ 8ذوالقعدہ  سن 5 ہجری کو  اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے۔ آپ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرما دی۔ تقریباً بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔ خندق 300 میٹر لمبی اور 9 میٹر چوڑی تھی جبکہ خندق کی گہرائی 5 میٹر تھی۔ 
  اس زمانے میں خندق کا جنگ میں استعمال اہلِ عرب کے لئے ایک نیا تجربہ ثابت ہوا اور اس غزوہ میں کامیابی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ خندق بنی۔ کافروں کا لشکر جب آگے بڑھا تو سامنے خندق دیکھ کر کافر حیران رہ گئے۔ انہوں نے مدینہ شریف کا محاصرہ کر لیااور تقریباً ایک مہینے تک گھیرا ڈالے رہے۔ یہ محاصرہ اس سختی کے ساتھ قائم رہا کہ اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اورصحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے کئی کئی فاقے کئے۔ 
چند کافروں نے ایک جگہ سے خندق پار کر لی مگر جب ان کے بڑے بڑے لڑاکے قتل کر دیئے گئے تو باقی واپس بھاگ گئے۔ اس جنگ میں مسلمانوں میں سے چھ افراد نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ابوسفیان جو اس وقت کافروں کے لشکر کے سالار تھے ، شدید سردی ، طویل محاصرے اور فوج کے راشن کے ختم ہو جانے سے تنگ آگئے۔ ایسے میں اللہ پاک نے ان پر ایسی آندھی مسلط فرمادی جن سے کافروں کے لشکر کی دیگیں الٹ پلٹ ہوگئیں ، خیمے اکھڑ گئے۔ اَلْغَرَض!ایسی صورتحال پیش آئی کہ کافروں کے پاس سوائے بھاگنے کے اور کوئی راستہ نہ بچا۔   

غزوۂ بنی قریظہ

غزوۂ خندق کے دوران ہی بنوقریظہ نے معاہدہ توڑ کر کافروں کا ساتھ دیا۔ اس کی سزا دینے کیلئے آپ غزوۂ خندق کے فوراً بعد بنو قریظہ کی طرف لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ 25دن کےمحاصرے کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور کہا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے وہ یہ تسلیم کریں گے۔ حضرت سعد کے فیصلے کے مطابق ان کے لڑنے والوں کو قتل کر دیا گیا ،  خواتین اور بچوں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کے اموال کو مجاہدین میں تقسیم کر دیاگیا۔ یاد رہے کہ بنو قریظہ نے خود ہی حضرت سعد بن معاذ کو بطور ثالث منتخب کیا تھا اور پھر ان کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا ، جبکہ حضرت سعد کا فیصلہ بنوقریظہ کی مذہبی تعلیمات کی روشنی میں تھا۔ 

عمرہ کا ارادہ اور عجیب معجزہ

ہجرت کے چھٹے (6th)سال ذوالقعدہ   کے مہینے میں اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 1400 صحابَۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ کو اندیشہ تھا کہ کفارِ مکہ ہمیں عمرہ ادا کرنے سے روکیں گے اس لئے آپ نے پہلے ہی قبیلۂ خُزاعہ کے ایک شخص کو مکہ بھیج دیا تھا تاکہ وہ کفارِمکہ کے ارادوں کی خبر لائے۔ جب آپ کا قافلہ مقام ’’عسفان ‘‘کے قریب پہنچا تو وہ شخص یہ خبر لے کر آیا کہ کفارِمکہ نے تمام قبائل عرب کے کافروں کو جمع کرکے یہ کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو ہرگز ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ کفارِقریش نے اپنے ساتھ ملے ہوئے تمام قبائل کو جمع کرکے ایک فوج تیار کرلی اور مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لئے مکہ سے باہر نکل کر ایک مقام پر پڑاؤ ڈال دیا۔ جس راستے پر کافروں کی فوج تھی اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اس راستے سے ہٹ کر سفر فرمانے لگے اور عام راستہ سے کٹ کر آگے بڑھے اور مقامِ “ حدیبیہ “  میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پانی کی بے حد کمی تھی۔ ایک ہی کنواں تھا۔ وہ چند گھنٹوں ہی میں خشک ہوگیا۔ جب صحابَۂ کرام  رضی اللہ عنہم پیاس سے بے تاب ہونے لگے تو  آپ نے ایک بڑے پیالہ میں اپنا دست مبارک ڈال دیا اور آپ کی مقدس انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ پھر آپ نے خشک کنویں میں اپنے وضو کا غسالہ اور اپنا ایک تیر ڈال دیا تو کنویں میں اس قدر پانی ابل پڑا کہ پورا لشکر اور تمام جانور اس کنویں سے کئی دنوں تک سیراب ہوتے رہے۔ 

بیعتُ الرضوان

مقامِ حدیبیہ میں پہنچ کر اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیکھا کہ کفارِ قریش لشکر لے کر جنگ کے لئے آمادہ ہیں جبکہ آپ اور آپ کے صحابہ حالتِ احرام میں ہیں۔ اس لیے آپ نے مناسب سمجھا کہ ان سے صلح کی گفتگو کی جائے۔ اسی کام کیلئے آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا۔ یہ شہرِ مکہ تشریف لے گئے اور کفارِ قریش کو صلح کی دعوت دی۔ کافروں نے ان سے کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ کعبہ کا طواف کریں ، صفا و مروہ کی سعی کریں  لیکن ہم محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ) کو ہرگز کعبہ میں نہ آنے دیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بغیر میں کبھی بھی عمرہ نہیں کروں گا۔ بات بڑھ گئی اور کافروں نے آپ کو مکہ میں روک لیا۔ حدیبیہ کے میدان میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ کفارِ قریش نے حضرت  عثمان رضی اللہ عنہ  کو شہید کردیا۔ آپ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔ یہ فرماکر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابَۂ کرام  رضی اللہ عنھم سے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کرو کہ آخری دم تک تم لوگ میرے وفادار رہوگے۔ تمام صحابہ نے  یہ عہد لے کر آپ کی بیعت کی۔ یہی وہ بیعت ہے جس کا نام تاریخِ اسلام میں “ بیعتُ الرضوان “   ہے۔ اس درخت اور اس کے نیچے ہونے والی بیعت کا ذکر قرآنِ پاک میں دو مقامات سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 7 اور سورۃفتح کی کئی آیات میں آیا ہے۔ یہ بیعت ہو جانے کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط تھی ، وہ حیات تھے اور ٹھیک تھے۔ 

صلح حدیبیہ اور اس کی وجوہات

اللہ کے آخری نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کے صحابہ عمرہ کے ارادے سے چلے تھے۔ اسی وجہ سے قربانی کے جانور بھی آپ کے ساتھ تھے۔ مگر کافروں نے قسمیں اٹھا لیں کہ ہم اپنے جیتے جی مسلمانوں کو کعبہ شریف تک نہیں پہنچے دیں گے۔ جب آپ کی طرف سے صلح کا پیغام لے کر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ  مکہ تشریف لے گئے تو قریش نے بھی آپ کی خدمت میں کچھ لوگ بات چیت کیلئے بھیجے مگر بات نہ بن سکی۔ پھر قریش نے سہیل بن عمرو کو صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے بھیجا جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی کچھ شرائط یہ ہیں : 
1۔   مسلمان اس سال بغیر عمرہ کے واپس چلے جائیں۔ 
2۔   آئندہ سال عمرہ کیلئے آ سکتے ہیں مگر مکہ میں صرف تین دن رکیں۔ 
3۔   آئندہ 10 سال تک کوئی لڑائی نہیں کی جائے گی۔       
4۔   قبائل عرب جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کر سکتے ہیں۔ 
5۔   مکہ سے کوئی مسلمان مدینہ چلا گیا تو اسے واپس کرنا ضروری ہوگا۔ 
قرآنِ پاک میں اس صلح کو “ فتحِ مبین “ فرمایا گیا۔ بظاہر یہ معاہدہ مسلمانوں کے خلاف تھا مگر اس کے بعد ہونے والے واقعات نے بتا دیا کہ یہی صلح بعد میں ہونے والی فتوحات  کی کنجی ثابت ہوئی۔ 

دسواں باب

بعد از حدیبیہ 
تا
رحلت شریف
After Hudaybiyyah
Till
Blessed Apparent Demise

سلاطین کے نام دعوتِ اسلام

صلحِ حدیبیہ کے بعد ہر طرف امن و سکون کی فضا ہوگئی۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چونکہ تمام جہان کی طرف نبی ہیں ، اس لیے  آپ نے ارادہ فرمایا کہ اسلام کا پیغام تمام دنیا میں پہنچایا جائے۔ چنانچہ آپ نے مختلف بادشاہوں کی طرف قاصدوں کے ذریعے مکتوب روانہ فرمائے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے : 
قاصد کا نام شہر / ملک بادشاہ / امیر رویہ و نتیجہ
حضرت دحیہ کلبی بیت المقدس ہرقل (قیصر روم) اسلام کی حقانیت کا قائل ہوا مگر سلطنت کی لالچ میں کلمہ پڑھنے سے محروم رہا۔  
حضرت عبداللہ بن حذافہ طیسفون کسریٰ (خسرو پرویز) مکتوب کو پھاڑ ڈالا ، اس کے بیٹے نے اسے قتل کر ڈالا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے دور میں اس کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔  
حضرت عمرو بن امیہ اکسوم اصحمہ نجاشی مکتوب کی تعظیم کی  اور اسلام قبول کر لیا۔  
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اسکندریہ مقوقس (شاہِ مصر) مکتوب کی تعظیم کی ، مگر مسلمان نہ ہوا ، قیمتی تحائف   آپ   عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف بھیجے ۔  
حضرت علا  بن حضرمی بحرین منذر بن ساویٰ مکتوب کی تعظیم کی اور قوم کے اکثر افراد کے ساتھ اسلام قبول کیا۔   
حضرت عمرو بن عاص عمان جُلَنْدی کے دو بیٹے جَیفَراور  عبد مکتوب کی تعظیم کی دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔   
حضرت سلیط بن عمرو یمامہ ہوذہ بن علی مکتوب کی تعظیم کی ، قاصد کا بھی احترام کیا ، مگر حکومت کے بدلے میں اسلام قبول کرنے کی شرط رکھی جو منظور نہ فرمائی۔   
حضرت شجاع بن وہب غوطہ (دمشق) حارث بن ابی شمر غسانی مغرور خط کو پڑھ کر برہم ہوگیا اور اپنی فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ اس وجہ سے “ غزوہ موتہ “ اور “ غزوہ تبوک “  جیسے معرکے پیش آئے۔  

غزوۂ خیبر اور اس کے اسباب

محرم الحرام کے مہینے میں غزوۂ خیبر  کا معرکہ ہوا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ سات ہجری کا واقعہ ہے۔ “ خیبر “ عرب میں یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں کے یہودی بڑے دولت مند ، مالدار اور جنگوں کے ماہر تھے۔ انہوں نے یہاں بہت سے مضبوط قلعے بنا رکھے تھے ، جن میں سے آٹھ قلعے بڑے مشہور ہیں۔ ان آٹھ قلعوں کے مجموعے کو “ خیبر “ کہا جاتا ہے۔   
جنگِ خندق میں جن کافروں نے مدینہ شریف پر حملہ کیا تھا ان میں خیبر کے یہودی سب سے آگے تھے۔ یہی اس جنگ کو بھڑکانے والے اور اس جنگ کی بنیاد رکھنے والے تھے۔ انہوں نے ہی مکہ کے کافروں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کر نے پر ابھاراتھا اور ان کی مالی امداد کی تھی۔ غزوۂ خندق میں ہونے والی رسوائی نے انہیں مزید غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے دوسرے قبائل کو ساتھ ملا کر پھر سے مدینہ شریف پر حملہ کی سازشیں شروع کردیں۔    اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب ان کی سازشوں       کا علم ہوا تو سولہ سو صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے لشکر کے ساتھ   خیبر روانہ ہوئے۔  
رات کے وقت آپ خیبر کی حدود میں داخل ہوئے ، آپ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ رات کے وقت کسی بھی قوم پر حملہ نہیں فرماتے تھے ، نمازِ فجر کے بعد شہر میں داخل ہوئے۔ یہودیوں نے قلعوں میں رہ کر جنگ لڑنے کی ٹھانی۔ آہستہ آہستہ تمام قلعے فتح ہو گئے۔ خیبر کا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ “ قموص “ تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فتح فرمایا۔ خیبر میں ہونے والے معرکوں میں 93 یہودی قتل ہوئے جبکہ 15 صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان شہید ہوئے۔   فتح کے بعد یہودیوں نے درخواست کی کہ انہیں خیبر سے نہ نکالا جائے اور زمین بھی ان کے قبضے میں رہنے دی جائے ، یہاں کی پیداوار کا آدھا حصہ ان سے لے لیا جائے۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی درخواست منظور فرمائی۔ جب غلہ تیار ہوگیا تو  آپ نے حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو اس کی تقسیم کیلئے بھیجا۔ انہوں نے غلہ کو دو حصوں میں برابر برابر تقسیم کیا   اور یہود سے کہا جو حصہ چاہو لے لو۔ اس تقسیم پر وہ حیران ہوکر کہنے لگے : زمین و آسمان اسی عدل کی وجہ سے قائم ہیں۔   خیبر کی فتح کے ساتھ دیگر کئی علاقے بھی فتح ہوئے ، بعض مقامات پر جنگ ہوئی اور بعض علا قے بغیر جنگوں کے فتح ہوئے۔  

عُمرۃ ُالقضا کی ادائیگی

حدیبیہ کے مقام پر جو صلح ہوئی تھی اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اگلے سال آ کر عمرہ کریں گے اور تین دن تک مکہ شریف میں ٹھہریں گے۔  ایک سال مکمل ہونے پر ماہِ ذوالقعدہ سن 7ہجری میں اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلان کردیا کہ جو لوگ گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب چلیں۔ شہید ہونے والوں کے سوا باقی تمام  صحابہ نے یہ سعادت حاصل کی۔ آپ 2ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ شریف روانہ ہوئے۔ 60 اونٹ بھی قربانی کیلئے ساتھ تھے۔   جب اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حرمِ مکہ میں داخل ہوئے تو بعض کفار قریب کے پہاڑوں پر چڑھے یہ منظر دیکھ رہے تھے ، آپس میں کہنے لگے : یہ بھلا کیسے طواف کریں گے ان کو تو بھوک اور بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ آپ نے حرمِ مکی میں پہنچ کر  چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گیا۔        اور آپ نے فرمایا :  خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔ پھر آپ نے صحابَۂ کرام کے ساتھ شروع کے تین پھیروں میں شانوں کو ہلا ہلاکر اور خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔   یہ سنت آج بھی باقی ہے ، ہر طواف کرنے والاشروع کے تین پھیروں میں اس پر عمل کرتا ہے۔ 
پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صفا مروہ کی سعی فرمائی اور قربانی کے جانور ذبح فرمائے۔ تین دن تک آپ مکہ شریف میں تشریف فرما رہے ، اس کے بعد واپس مدینہ شریف تشریف لے گئے۔ چونکہ یہ عمرہ ایک سال پہلے والے عمرہ کہ وجہ سے تھا اس لیے  اسے عمرۃ القضا کہتےہیں۔  

غزوۂ موتہ کے اسباب

“ موتہ “ ملکِ شام میں ایک مقام ہے۔ اس جنگ کا سبب یہ ہوا کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے “ بُصریٰ  “ کے بادشاہ قیصر کے نام خط لکھ کر حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ روانہ فرمایا۔ راستے میں شرحبیل بن عمرو نے قاصد کو شہید کردیا۔ جب آپ تک یہ اطلاع پہنچی تو آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ اس وقت آپ نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر تیار فرمایا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے سفید رنگ کا جھنڈا باندھ کر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا اور انہیں اس فوج کا سپہ سالار بنایا ۔ ساتھ ارشاد فرمایا : اگر یہ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابو طالب امیر ہوں گے۔ اگر وہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ امیر ہوں گے۔   

غزوۂ موتہ

حضرت زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جب  یہ لشکر روانہ ہوا تو انہیں خبر ملی کہ خود قیصرِ روم  ایک لاکھ فوج لے کر موجود ہے۔ اس کے ساتھ مزید ایک لاکھ عیسائی عرب بھی شریک ہورہےہیں۔ حضرت زید نے اس پر مشاورت کی کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خط لکھ کر مزید فوج کی درخواست کریں یا جنگ میں کود پڑیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہمارا مقصد فتح یا مال نہیں ہے۔ بلکہ ہمارا تو مقصود ہی شہادت ہے۔ یہ باتیں سن کر لوگ کہنے لگے : عبداللہ نے سچ کہا ، پھر انہوں نے آگے بڑھ کر “ موتہ  “ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ، لشکر کو ترتیب دیا گیا اور تمام لشکر لڑائی کیلئے تیار ہو گیا۔ 
انسانی تاریخ کا عجیب معرکہ یہاں پیش آیا کہ تین ہزار جانبازوں کے مقابلے میں دو  لاکھ کا لشکر تھا۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیش گوئی کے مطابق حضرت زید شہید ہوئے تو حضرت جعفر نے پرچمِ اسلام کو اٹھا لیا ، یہ شہید ہوئے تو حضرت  عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  نے پرچم سنبھال لیا۔ آقا علیہ السَّلام مدینہ شریف میں ہی یہ تمام واقعات دیکھ رہے تھے اور بیان فرما رہے تھے۔    ان کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید  نے جھنڈا لیا اور اس قدر بہادری سے لڑے کے ان کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹیں۔ انہوں نے کمال جنگی مہارت سے اسلامی فوج کو دشمنوں کے محاصرے سے نکالا اور مدینہ واپس لے آئے۔ یہ مسلمانوں کی فتح ہی تھی کہ ایک لاکھ   کے لشکر کے مقابلے میں صرف 12 صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان   شہید ہوئے ، باقی سب صحیح و سالم واپس آگئے۔ جبکہ دشمن کا نقصان اس سے کہیں زیادہ تھا۔   

فتح ِ مکہ کے اسباب

حدیبیہ میں ہونے والی صلح کے مطابق مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان 10 سال تک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔  اس معاہدہ کی رو سے قبیلہ بنو بکر نے قریش سے اتحاد کرلیا اور بنو خزاعہ مسلمانوں سے مل گئے۔   ان دونوں قبیلوں کے درمیان کافی عرصے سے دشمنی تھی۔ ایک دفعہ بنو بکر نے قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے اتحادی قبیلے بنوخزاعہ پر حملہ کر دیا۔ بنوخزاعہ کے لوگ بچنے کیلئے حرمِ کعبہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے وہاں بھی انہیں نہ چھوڑا۔ اس حملے میں بنو خزاعہ کے 23 لوگ قتل ہوئے۔ بنو خزاعہ نے رسول خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مدد کی درخواست کی۔   آپ نے قریش کی طرف پیغام بھیجاکہ تین میں سے کوئی بات مان لو۔ 
1۔   مقتولوں کی دیت ادا کرو!
2۔   یا پھر بنو بکر سے اتحاد ختم کردو!
3۔   یا پھر یہ اعلان کر دو کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ 
یہ شرائط سُن کر قریش کے نمائندے نے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قاصد کے واپس جاتے ہی قریش کو احساس ہوگیا کہ ان سے بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ انہوں نے فوراً ابو سفیان کو پہلے کی طرح نیا معاہدہ کرنے مدینہ شریف روانہ کردیا۔  مگر ان کی نہ سنی گئی۔ مایوس ہو کر ابو سفیان نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اپنی طرف سے معاہدہ کی تجدید کا اعلان کیا مگر کسی نے بھی جواب نہ دیا۔  انہوں  نے مکہ جاکر ساری صورت حال سردارانِ قریش کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے پوچھا : تمہارے اعلان کرنے کے بعد انہوں نے کوئی جواب دیا؟ ابوسفیان نے کہا : نہیں۔ تو کفار قریش کہنے لگے : یہ تو کچھ بھی نہ ہوا ، نہ تو یہ صلح ہے کہ ہمیں اطمینان ہو ، نہ یہ اعلانِ جنگ ہے  کہ ہم تیاری کریں۔ اسی دوران اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بڑی رازداری اور خاموشی سے جنگ کی تیاری فرمائی ، مقصد یہ تھا کہ اہلِ مکہ کو خبر نہ ہونے پائے اور بے خبری میں ان پر حملہ کیا جائے۔  

رسولِ خدا کا مکہ میں داخلہ

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہجرت کے آٹھویں (8th)سال رمضان المبارک کی  10تاریخ  کو کم و بیش دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض قبائل راستے میں ساتھ ہوئے تو لشکر کی تعداد بارہ ہزار تک پہنچ گئی۔     مکہ میں داخلے سے پہلے رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے  فوج کو دو حصوں میں  تقسیم فرمایا۔ ایک حصے میں آپ خود موجود تھے جبکہ دوسرا حصہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں دے کر اسے دوسرے راستے   سے مکہ میں داخلے کا حکم فرمایا۔    مکہ شریف کی زمین پر پہنچتے ہی آپ نے جو پہلا فرمان جاری فرمایا وہ  یہ تھا : 
*   جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کیلئے امان ہے۔ 
*   جو اپنا دروازہ بند کر لے اس کیلئے امان ہے۔ 
*   جو کعبہ میں داخل ہوجائے اس کیلئے امان ہے۔ 
*   جو ابوسفیان  کے گھر داخل ہوجائے اسے امان ہے۔  
آپ کے اس اعلانِ رحمت نشان  سے ہر طرف امن و امان کی فضا پیدا ہوگئی۔ خون کا ایک قطرہ بھی بہنے کا امکان نہ رہا۔ لیکن قریش کے بعض افراد نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے   لشکر پر حملہ کردیا جس سے تین مسلمان شہید ہوئے اور کم و بیش 12 کافر بھی قتل ہوئے۔ آپ نے جب دیکھا کہ تلواریں چل رہی ہیں اور تیر پھینکے جارہے ہیں تو اس بارے میں پوچھا کہ جنگ سے منع کرنے کے باوجود تلواریں کیوں چل رہی ہیں تو  عرض کی گئی : پہل کفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا : رب کی تقدیر یہی ہے ، خدا نے جو چاہا وہی بہتر ہے۔   
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فاتحِ مکہ بن گئے مگر آپ کی شانِ تواضع کا یہ عالم تھا کہ سورۂ فتح کی آیات تلاوت فرماتے اس طرح سرِ مبارک جھکا کر اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے  کہ آپ کا سر اونٹنی کے پالان سے لگتا تھا۔   آپ نے اونٹنی کو بٹھایا ، طواف کیا اور حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ پھر حکم دیا کہ بیتُ اللہ شریف سے تمام بت نکال دیئے جائیں۔ جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہوگیا تو آپ اندر تشریف لے گئے اور بیت اللہ کے تمام گوشوں میں تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔   

رسولِ خدا کا کریمانہ برتاؤ

اس کے بعد آپ نے حرمِ کعبہ میں دربارِ عام لگایا ، جس میں افواجِ اسلام کے ساتھ ہزاروں کافر بھی موجود تھے۔ ان کافروں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ پر اور آپ کے صحابہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، راہ میں کانٹے بچھائے ، جسمِ اطہر پر نجاستیں ڈالیں ، قاتلانہ حملے کئے ، آپ کے صحابہ کو شہید کیا ، مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا ، آپ پر بہتان لگائے اور گالیاں دیں ، اَلْغَرَض!وہ کونسا ظلم تھا جو انہوں نے نہ کیا ہو۔ آج وہ سب کے سب مجرموں کی حیثیت سے آپ کے سامنے تھے۔   آپ چاہتے تو ان سے زبردست انتقام لیتے مگر اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کوئی انتقامی کاروائی نہ فرمائی ، اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا : لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ آج تم پر کوئی الزام نہیں ہے ، جاؤ! تم سب آزاد ہو۔    طرح طرح کی ایذائیں دینے والے دشمنوں پر فتح پا کر ایسا حسنِ سلوک کرنا اس کی مثال نہیں ملتی۔ 
فتحِ مکہ کے دوسرے دن بھی آپ نے خطبہ ارشاد فرمایاجس میں حرمِ کعبہ کے احکامات بیان فرمائے اور قیامت تک کیلئے حرم میں جنگ اور لڑائی کو حرام فرمایا۔ اس موقع پر آپ کے حسنِ سلوک کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی جماعت نے اسلام قبول کیا۔ آپ نے مکہ کے اطراف میں موجود دوسرے بت بھی ختم کروا دیئے۔   

غزوۂ حنین

فتحِ مکہ سے اسلام کا حق ہونا پورے عرب پر ظاہر ہوگیا۔ یوں کئی قبائل اسلام قبول کرنے لگے۔ مگر اس خبر کے بعد قبیلہ ہوازَن کے لوگ دیگر چند چھوٹے قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملے کی نیت سے نکل پڑے۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب خبر ملی تو آپ 12 ہزار فوج لے کر روانہ ہوئے۔  مکہ اور طائف کے درمیان میں “ حنین  “ نامی جگہ پر اسلامی لشکر کا کافروں سے سامنہ ہوا۔ شروع میں مسلمانوں نے خوب ہاتھ دکھائے اور ایسا حملہ کیا کہ کافروں کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی۔ مگر ان کی وہ فوج جو گھات لگائے ہوئے تھی اس نے جب حملہ کیا تو اسلامی لشکر میں افراتفری مچ گئی۔ بالآخر مسلمان غالب ہوئے۔ اس غزوہ میں ہزاروں قیدی اور ڈھیروں ڈھیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔   
اس کے بعد اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم طائف کی طرف روانہ ہوئے ، طائف کے قلعے کا محاصرہ کیا ، محاصرہ دو ہفتے سے زائد جاری رہا مگر خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا  تو آپ نے محاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ! تُو ثقیف یعنی طائف والوں کو ہدایت عطا فرما۔ دعائے نبی کی برکت سے9 ہجری میں طائف کے لوگ مسلمان ہوگئے اور ان کی درخواست پر تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ طائف سے واپسی پر غزوۂ حنین کے مالِ غنیمت کو آپ نے مسلمانوں میں تقسیم فرمایا۔ آپ نے دوہفتوں سے زائد مکہ شریف میں قیام فرمایا اور اس کے بعد واپس مدینہ شریف تشریف لے گئے۔    

غزوۂ تبوک

ہجرت کے نویں سال ماہِ رجب میں غزوۂ تبوک کا معرکہ پیش آیا۔  مدینہ اور شام کے درمیان ایک جگہ ہے جس کا نام “ تبوک “ ہے۔ اسے جیش العسرۃ  (تنگ دستی کا لشکر) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ بنا کہ مدینہ میں خبر پہنچی  کہ رومیوں اور عرب عیسائیوں  نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے ایک بڑی فوج تیار کر لی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فوج کی تیاری کا حکم فرمایا۔ اس وقت پورے حجاز میں شدید قحط تھا ، شدت کی گرمی تھی اور گھر سے نکلنا دشوار تھا۔ 
یہ وہی غزوہ ہے جس میں حضرت ابوبکر نے گھر کا پورا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے گھرکا آدھا سامان لشکر کی تیاری کیلئے پیش کیا۔    جبکہ حضرت عثمانِ غنی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے خصوصی تعاون فرمایا۔ آپ تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک روانہ ہوئے۔ تبوک پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا ،  دور تک رومی لشکر کا کوئی پتا نہیں تھا۔ پھر معلوم ہوا کہ جاسوسوں نے قیصر کو جب لشکرِ اسلام کی شان و شوکت اور تعداد  کا بتایا  تو ہیبت اور رعب کی وجہ سے وہ لوگ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیس دن تک تبوک میں قیام فرما کر مدینہ واپس تشریف لائے۔ تبوک اور قریب کے کچھ علاقے اسلامی سلطنت میں داخل ہو گئے۔   

صدّیقِ اکبر بطور امیر حج

 غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہجرت کے نویں (9th)سال ذوالقعدہ کے مہینے میں تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ حج کیلئے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ  کو امیر حج ، حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو نقیبِ اسلام اور حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت جابر بن عبداﷲ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم  کو مُعَلّمِ مقرر فرمایا۔ آپ نے اپنی طرف سے قربانی کیلئے 20 اونٹ بھی بھیجے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حرمِ کعبہ اور عرفات و منیٰ میں خطبہ پڑھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کھڑے ہوئے اور “ سورۂ براءت “ کی چالیس آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اعلان کر دیا کہ اب کوئی مشرک خانہ کعبہ میں داخل نہ ہو سکے گا اور نہ کوئی ننگا ہو کر طواف کر سکے گا۔   چار مہینے کے بعد کفار و مشرکین کے لئے امان ختم کر دی جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ اور دوسرے صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان  نے اس اعلان کی اس قدر زور زور سے منادی کی کہ ان کا گلا بیٹھ گیا۔ ان علانات کے بعد لوگ فوج در فوج آ کر مسلمان ہونے لگے۔ 

وفود کی آمد

9 ہجری کو وفود کا سال بھی کہا جاتا ہے۔ “ وفود “ عربی میں “ وفد “ کی جمع ہے۔ وفد ایک سے زائد افراد کے گروہ کو کہتے ہیں۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تبلیغِ اسلام کیلئے ہر طرف مبلغین  کو بھیجا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض تو مبلغین کے سامنے دعوتِ اسلام قبول کر کے مسلمان ہو جاتے جبکہ بعض قبائل اس بات کے خواہش مند ہوتے کہ براہِ راست بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر جمالِ نبوت کی زیارت کریں اور اپنے اسلام کا اظہار کریں۔ اسی لیے کچھ لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے نمائندے بن کر مدینہ شریف آتے اور خود بانیِ اسلام ، اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے دعوتِ اسلام کا پیغام سن کر اپنے اسلام کا اعلان کرتے  اور پھر واپس اپنے اپنے قبیلوں میں جا کر انہیں بھی مسلمان کرتے۔ اس طرح کے وفود مختلف زمانوں میں مدینہ شریف آتے رہے مگر فتحِ مکہ کے بعد تو گویا سارے عرب میں اسلام کا ڈنکہ بج اٹھا۔ 

کثرت سے وفود آنے کی وجہ

بہت سے قبائل پہلے ہی اسلام کی حقانیت کے قائل ہو چکے تھے مگر قریش کے ڈر اور دباؤ کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کر  سکتے تھے۔ فتحِ مکہ نے اس رکاوٹ کو دور کردیا۔ اب اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے مقدس پیغام نے ہر ایک کے دل پر سکہ بٹھا دیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جو پہلے اسلام کی بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے اب پروانوں کی طرح شمعِ رسالت ، مصطفےٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    پر نثار ہونے لگے۔ سچے نبی کی تعلیمات اور کردار سے متاثر ہو کر یہ لوگ گروہ در گروہ آپ   کی خدمت میں دور دراز  سے وفود کی صورت میں حاضر ہوتے اور اپنی خوشی سے قبولیتِ اسلام کی سعادت پا کر شرفِ صحابیت کا تاج سر پر سجا کر ہمیشہ کی سعادتیں اپنے مقدر میں لکھواتے۔ فتحِ مکہ کے بعد 9 ہجری میں تو اتنی کثرت سے وفود آئے کہ اس سال کا نام ہی “ سَنَۃُ الْوُفُود “ یعنی وفود کے آنے کا سال پڑ گیا۔ ایک قول کے مطابق اس سال تقریباً 60 وفود حضور علیہ السَّلام  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپ قبائل  سے آنے والےوفود کے استقبال اور ان سے ملاقات کیلئے خاص اہتمام فرماتے۔ ہر وفد کے آنے پر آپ نہایت عمدہ کپڑے زیب تن فرما کر تشریف لاتے ، ان سے ملاقات کیلئےمسجد نبوی میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر نشست فرماتے ، پھر ہر ایک وفد سے خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور ضروری عقائد و احکامِ اسلام کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے۔  ان مہمانوں کو اچھے سے اچھے  مکانوں میں ٹھہراتے ، ان کی مہمان نوازی کا خاص خیال فرماتے اور ہر وفد کو تحائف بھی  عطا فرماتے۔  

وفدِ کندہ

ان وفود میں سے ایک وفدِ کندہ تھا۔ یہ لوگ یمن کے اطراف میں رہتے تھے ، اس قبیلے کے 70 یا80 افراد بہت سج دھج کے مدینہ آئے ، بالوں میں کنگھی ، ریشم کےجبوں میں ملبوس ، جسم پر ہتھیار سجائےیہ مدینہ شریف کی آبادی میں داخل ہوئے ، جب یہ لوگ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پوچھاکہ کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟ سب نے عرض کی : “ جی ہاں “  آپ نے فرمایا : پھر تم نے ریشمی لباس کیوں پہن رکھا ہے؟ یہ سنتے ہی ان لوگوں نے ریشمی جبوں کو جسموں سے اتار دیا اور ریشم کے بقیہ ٹکڑے بھی لباسوں سے پھاڑ کر جدا کر ڈالے۔   

وفدِ فزارہ

ان میں سے ایک وفدِ فزارہ تھا۔ یہ بیس افراد کا وفد تھا ، یہ حاضرِ خدمت ہوئے اور اپنے اسلام کا اعلان کیا اور بتایا کہ یَارَسُوْلَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہمارے علاقے میں سخت قحط ہے ، اب فقرو فاقہ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے ، آپ کرم فرمائیں اور بارش کی دعا فرمائیں۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جمعہ کے دن منبر پر دعا فرما دی ، فوراً بارش برسنے لگی اور ایک ہفتے تک جاری رہی۔ دوسرے جمعہ کو جب اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو ایک اعرابی نے عرض کیا : یَارَسُوْلَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بارش کی کثرت کی وجہ سے چوپائے ہلاک ہونے لگے ، بال بچے بھوک سے بےقرار ہونے لگے اور تمام راستے بند ہوگئے۔ دعا فرمائیں کہ یہ بارش پہاڑوں پر برسے اور کھیتوں پر نہ برسے۔ آپ نے دعا فرما دی تو بادل شہرِ مدینہ سے کٹ گئے۔ یوں آٹھ دن کے بعد مدینہ میں سورج نظر آیا۔   

وفدِ قبیلہ سعد بن بکر

ان میں سے ایک وفد قبیلہ سعد بن بکر کے سردار حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا۔ یہ سرخ و سفید رنگت  اور لمبے بالوں   کے مالک ہونے کے ساتھ بڑے خوبصورت آدمی تھے۔ یہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے اور کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا اور سوالات میں سختی کروں گا۔ آپ مجھ سے ناراض مت ہوجائیے گا۔ آپ نے فرمایا : تم جو چاہو مجھ سے پوچھ سکتے ہو۔ پھر اس طرح سے مکالمہ ہوا :  ضمام بن ثعلبہ :     میں آپ کو اس خدا کی قسم دے کر جو آپ اور تمام انسانوں کا پروردگار     ہے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ پاک  نے آپ کو ہماری طرف اپنا رسول  بنا کر بھیجا ہے؟
آپ نے فرمایا :    “ ہاں “ 
ضمام بن ثعلبہ :    میں آپ کو خدا کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ اللہ پاک  نے ہم پر فرض کی ہے؟
آپ نے فرمایا :    “ ہاں “ 
ضمام بن ثعلبہ :    آپ نے جو کچھ فرمایا میں اس پر ایمان لایا اور میں ضمام بن ثعلبہ    ہوں۔
 میری قوم نے مجھے اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں         آپ کے دین کو اچھی طرح سمجھ کر اپنی قوم بنی سعد بن بکر تک اسلام         کا پیغام پہنچا دوں۔ 
پھر یہ اپنے وطن پہنچے اور ساری قوم کو جمع کرکے  پہلے بتوں کی مذمت بیان کی پھر اسلام کی حقانیت پر ایسی زبردست تقریر فرمائی کہ رات بھر میں قبیلے کے تمام مرد و عورت مسلمان ہوگئے اور ان لوگوں نے بتوں کو اپنے ہاتھوں سے پاش پاش کر ڈالا ، اپنے قبیلے میں مسجد بنا لی اور تمام اسلامی احکامات پر عمل کرنے والے پکے مسلمان بن گئے۔       
اور بھی کئی وفد اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دولتِ ایمان سے مشرف ہوئے۔  

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن