30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہوں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ آپ کے طفیل، اب آسمان پر بھی مجھے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی حکومت نظر آرہی ہے۔(تجلیاتِ امام احمد رضاعلیہ الرحمۃ ، مطبوعہ کراچی، ۱۹۸۷، ص۴۹)
جانتے تھے تجھے قُطْب و اَبدال سب
کرتے تھے مجذوب وسلک اَدَب
تیری چوکھٹ پہ خَمْ اَہلِ دل کی جبین
سیِّدی مرشدی شاہ اَحمدرضا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ واقعات سے پتہ چلا کہ ہمیں ہر معاملہ میں شَرِیْعَت ہی کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور اگرکسی خوش نصیب کو اس پُرفتن دور میں کسی پیرِ کامل کے دامن سے وابستگی کی سعادت مل جائے، تواس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ طریقت سے متعلق علم حاصل کرکے مرشدِ کامل کے حْقوق کو بھی پیشِ نظر رکھے تاکہ وہ ’’یک در گیر محکم گیر‘‘ یعنی ’’ایک دروازہ پکڑ اور مضبوطی سے پکڑ‘‘ پرمضبوطی سے کار بند رہ کر دنیاو آخِرت کی بھلائیاں حاصل کرسکے، ورنہ شَرِیْعَت و طریقت سے ناواقفیت ایک مرید کیلئے نہ صرف دنیا اور آخِرت کے عظیم نقصان بلکہ ایمان کے لئے بھی سخت خطرہ کا باعث بن سکتی ہے۔کامل مُریدین کے دوسچے اورعبرتناک واقعات اپنے لفظوں میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے مُلاحظہ فرمائیں ۔
ایک اسلامی بھائی جو دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ تھے، سر پر سبز عمامے کا تاج اور چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی بھی تھی۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں میں مصروف رہتے ۔وہ قبلہ شیخِ طریقت امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مرید بھی تھے، انہوں نے بتایا کہ ہمارے گھر میں چونکہ دُنیوی ماحول تھا، لہٰذا ایک دن بڑے بھائی گھر میں کسی عامل کو لے آئے، جو پیر بھی کہلاتا تھا۔شروع شروع میں اس نے میرے اور میرے گھر والوں کے سامنے دعوتِ اسلامی اور امیرِ اَہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعالیہکی خوب تعریفیں کیں ۔
مگرآہستہ آہستہ میری غیر موجودگی میں گھر والوں کو دعوتِ اسلامی اور قبلہ شیخِ طریقت امیرِ اَہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعالیہسے بدظن کرنے کی کوشش کرناشروع کردی ۔ جس کے نتیجے میں گھر والے میرے دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام کرنے اور امیرِ اَہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعالیہپر بے جا اعتراضات کرنے لگے۔ میں نے انہیں بہت سمجھایا مگر وہ نام نہاد پیر نما عامل گھر والوں کو اپنے دامِ تَزویر (یعنی مکرو فریب کے جال)میں پھانس چکا تھا۔
گھر والے ایک عرصہ سے چند گھریلو مسائل کی بنا پرسخت پریشان تھے۔ایک دن اس نام نہاد پیر نے گھر والوں کو بتا یا کہ میں نے رات چلہ کھینچا تو مجھے معلوم ہوا کہ تم لوگوں پرکسی نے زبردست کالا علم کرا رکھا ہے ، تم سب کی معیاد رکھی جاچکی ہے، علاج انتہائی دشوار ہے اور تم سب کی جان سخت خطرے میں ہے، مگرآپ لوگ مت گھبرائیں ۔ میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر بھی تمہاری مشکل کے حل کے لئے کوشش کر ونگا۔ اس طرح گھر والوں کو اس نے الٹی سیدھی باتیں بتا کر اپنا گرویدہ کرلیا۔ اب توگھر والے مجھے مَدَنی ماحول سے سختی سے روکنے لگے۔میں بڑا پریشان تھا کہ کیا کروں ؟ دن بدن گھر والوں کے دل میں اس نام نہاد عامل کی عقیدت و مَحبت بڑھتی ہی جارہی تھی۔
چندماہ بعداتفاقاً گھروالوں کے سامنے یہ بات کھلی کہ وہ عامل جسے یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مقبول بندہ سمجھ بیٹھے تھے، بڑے بھائی سے مسائل کے حل کے بہانے کم بیش 80,000 روپے لے چکا ہے۔یہ سن کر گھر والوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ ایک توہم ویسے ہی بہت پریشان تھے مزید یہ آفت!انہوں نے بھائی سے پوچھا کہ اس عامل کوپیسے دیتے وقت تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں ؟ تو اس نے بتایا کہ عامل نے سختی سے منع کیا تھاکہ کسی کو مت بتانا ورنہ سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔
خیر جب اس عامل سے بات کی گئی اور رقم واپسی کا مطالبہ کیا گیاتو وہ نادم ہونے کے بجائے سخت طیش میں آگیااور دھمکیاں دینے لگا کہ مجھے تنگ مت کرو میں نے یہ پیسے تمھارے لیئے ہی خرچ کئے ہیں ۔اگر میری باتیں اور لوگوں سے کروگے تو ایسا عمل کرونگا کہ تمہارے بچے پاگل یا معذور ہوجائیں گے۔
اس طرح کی ڈرانے والی باتیں سن کر تمام گھر والے خوفزدہ ہوگئے اور یہ فیصلہ کیاکہ جو پیسے چلے گئے ، انہیں بھول جائیں اور اسے آئندہ اپنے گھرنہ بلایا جائے ۔مگر وہ بن بلائے آنے اور مزید پیسوں کا مطالبہ کرنے لگا ۔پیسے نہ ملنے پر دھمکیاں دیتا، ہم بڑے پریشان تھے۔ میں نے موقع غنیمت جان کر گھروالوں کا ذہن بنایا اور تمام گھر والوں کو امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا مرید بنوادیا، اورمجلسِ مکتوبات و تعویذاتِ عطّاریہ کے بستے سے رابطہ کیا، تعویذاتِ عطّاریہ لئے اور کاٹ کروائی جس سے گھر والوں کی گھبراہٹ میں کمی ہوئی اور غیر متوقع طور پر تعویذاتِ عطّاریہ کی بَرَکت سے اس نام نہادعامل پیر نے خود ہی آنا چھوڑدیا۔ اس طرح امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مرید ہونے کی بَرَکت سے ہم سب گھر والوں کی اس آفت سے جان چھوٹ گئی۔
ایک 20سالہ نوجوان نے بتایا کہ کم و بیش 4سال پہلے میں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو کر امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا مرید بن گیا، اوراجتماع میں پابندی سے آنے لگا۔ روزانہ درس دیتااور مدرسۃ المدینہ (بالغان)میں شرکت بھی کرتا، اورپابندی کے ساتھ مَدَنی انعامات کاکارڈ بھی پُر کرتا، رمضان المبارک میں سنتوں بھرا اجتماعی اعتکاف کرنے کی سعادت بھی پائی، اور وہاں مجھے سرکار ِ مدینہ ، سرورِ قلب و سینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔
اس شخص کا کہناتھا کہ ہائے میری بد نصیبی کہ میں اللہ کے ایک ولی سے مرید ہونے کے باوجود طریقت کے اصولوں سے ناواقف ہونے کے باعث ادھر ادھر بھٹکنے کا عادی تھا۔کا ش کہ ’’یک دَرْ گیر مُحکَم گِیر‘‘ یعنی ایک دروازہ پکڑ مضبوطی سے پکڑ‘‘ پر کار بند رہتا اورصرف اپنے پیر و مرشد کی محبت اور جلوے دل میں بسائے رکھتاتو آج میں یوں برباد نہ ہوتا، کاش میری عقیدت کا مَحورصرف میرے مرشد ہوتے ، کاش! میں اپنی عقیدت تقسیم نہ کرتا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع