30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
۔اولیاء کرام تو فرماتے ہیں کہ مرشِد کامل کے حضور بیٹھ کر ذکر بھی نہ کیا جائے۔ کہ ذکر میں دوسری طرف مشغول ہوگا۔ اور یہ حقیقتاً ممانعَت ذکر نہیں بلکہ تکمیلِ ذکر ہے کہ وہ (جو اپنے طور پر) کرے گا، بِلا تَوَسُّل ہو گا۔ اور مرشِد کامل کی توجہ سے جو ذکر ہوگا ۔وہ مُتَوَسُّل ہوگا۔ یہ اس سے بدرجہا افضَل ہے۔(پھر فرمایا) اصلْ کار حُسنِ عقیدت ہے۔ وہ نہیں تو کچھ فائدہ نہیں اور اگر صرف حسنِ عقیدت ہے تو خیر۔اتصال تو ہے (پھر فرمایا) پر نالے کے مثل فیض پہنچے گا۔ بس حسن عقیدت ہوناچاہئے۔ (الملفوظ حصہ سوم ص۳۰۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ابو عمر اسماعیل بن نجید نیشا پوری رحمہم اللہ حضرت جُنید علیہ الرحمۃ کے اصحاب میں سے تھے۔آپ نے ۳۶۶ ھ میں مکہ معظمہ میں وصال فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے شروع میں حضرت ابو عثمان حیری قدس سرہ کی مجلس میں توبہ کی پھر کچھ عرصے اس توبہ پر قائم بھی رہا۔ مگر ایک دن اچانک پھر دل میں گناہ کا خیال آیا اور مجھ سے گناہ سرزد ہوگیا۔ چنانچہ میں نے مرشِدِ کامل کی صحبت سے(ندامت کی وجہ سے) منہ پھیر لیا(یعنی ان کی بارگاہ میں حاضر ی دینا چھوڑ دی)یہاں تک کہ آپ کو دور سے آتا دیکھتا۔تو شرمندگی کی وجہ سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ یا(چھپ جاتا) کہ ان کی نگاہ مجھ پر نہ پڑے۔
دشمن کی خوشیاتفاق سے ایک دن آپ سے سامنا ہوگیا۔ آپ مجھ سے فرمانے لگے بیٹا! اس وقت تک اپنے دشمن کی صحبت اختیار نہ کرو۔جب تک تمہارے اندر اس سے بچنے کی طاقت پیدانہ ہوجائے۔کیونکہ دشمن تیرے عیب دیکھتے(یعنی تلاش) کرتے ہیں ۔اگر تیرے اندر عیب ہوں گے تو (تیری بری حالت دیکھ کر) دشمن خوش ہونگے۔
دشمن کا غم اگرتو صاف (یعنی باعمل و متقی) ہوگا تو دشمن غمگین ہونگے۔ اگر (نفس و شیطٰن کے غلبے کی وجہ سے) گناہ کرنے ہی کو تیرا جی چاہتا ہے۔ تو میرے پاس آ، تاکہ تیرا بوجھ میں اٹھالوں (یعنی نفس و شیطان کے وار سے تیری حفاظت کروں ) اور تو دشمن کا مقصد (یعنی کہ وہ تجھے بے عمل او رگناہوں میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں ) پورا نہ کرے۔
ابو عمر علیہ الرحمۃ کا بیان ہے کہ ’’مرشِد کامل‘‘ کے یہ اصلاحی اور پر اثر جملے سنتے ہی گناہ سے میرا دل بھر گیا۔ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مجھے توبہ پر استقامت حاصل ہوگئی۔
(کشف المحجوب مترجم ، باب بار بار ارتکاب گناہ کا مسئلہ ، ص ۴۲۵)
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت علامہ قشیری علیہ الرحمۃ اپنے مرشِد کامل ابو علی دَقاق علیہ الرحمۃ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب کبھی وہ اپنے پیر و مرشِد نصرآبادی علیہ الرحمۃ کے پاس جاتے تو پہلے غسل فرماتے پھر ان کی مجلس میں جاتے۔
علامہ قشیری علیہ الرحمۃ تو اپنے مرشِد سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے تھے۔ آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اِبتَدائی زمانہ میں جب بھی میں اپنے مرشِد کریم( ابو علی دقاق علیہ الرحمۃ ) کی مجلس میں جانے کی سعادت پاتا تو اس دن روزہ رکھتا، پھر غسل کرتا۔تب میں اپنے پیرو مرشِد (ابو علی دقاق علیہ الرحمۃ ) کی مجلس میں جانے کی ہمت کرتا۔ کئی بارتو ایسا بھی ہوا کہ مدرسہ کے دروازہ تک پہنچ جاتا۔مگر مارے شرم کے دروازے سے لوٹ آتا۔اور اگر جرأت کرکے اندر داخل ہو بھی جاتا مگر جیسے ہی مدرسے کے درمیان تک پہنچتاتو تمام بدن میں ایسی سنسنی پیدا ہوجاتی۔( اور جسْم ایسا سُن ہوجاتا) کہ ایسی حالت میں اگر مجھے سوئی بھی چبھودی جاتی تو شاید میں مَحسوس نہ کرتا۔(الرسالۃ القشیریۃ ، باب الصحبۃ ، ص ۳۲۸)
ایسا غم دے مجھے ہوش بھی نہ رہے
مست اپنا بنا میرے مرشِد پیا
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت بایزید بِسطامی علیہ الرحمۃ ایک مدت تک حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہے ۔آپ علیہ الرحمۃ کو حضرت امام ِجعفر صادق رضی اللہ عنہ سے اکتسابِ فیض میں اس قدر محویّت تھی کہ کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی دوسری طرف توجہ نہ کی ۔ ایک دن حضرت امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔با یزید(علیہ الرحمۃ ) ذرا طاق سے کتاب اٹھالاؤ۔آپ علیہ الرحمۃ نے عرْض کی حضور طاق کہاں ہے ؟حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تمہیں یہاں رہتے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا۔ ابھی تک طاق کا بھی معلوم نہیں ۔ آپ نے عرْض کی، حضور ! مجھے تو آپکی زیارت اور صحبت با بَرَکت ہی سے فرصت نہیں ، طاق کا خیال کیسے رکھوں ۔ حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت مسرور ہوئے اور فرمایا اگر تمہارا یہ حال ہے تو بسطام چلے جاؤ۔ تمہارا کام پورا ہوچکا ہے۔ (شان ِاَولیاء ، حضرت بایز ید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ ، ص ۷۳)
بس آپ کی جانب ہی میرا دل یہ لگا ہو
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع