30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حامدمحمد بن محمد الغزا لی علیہ رحمۃ البارینے جن شرائط و اَوصا فِ مرشِد کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے اورمرشِدِ کامل کی پہچان کا طریقہ ارشاد فرما کر اُمّت کو صحیح رَہنمائی عطا کی ہے۔اسے پیشِ نظر رکھنا ضَروری ہے۔
مرشِد کامل کیلئے چار شرائط
سَیِّدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فتاویٰ افریقہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مرشِد کی دو قِسمیں ہیں
(۱)مرشِدِ اِتِّصال (۲)مرشِدِ اِیصال ۔
یعنی جس کے ہاتھ پر بَیْعَتْ کرنے سے انسان کا سلسلہ حضوُرِ پُر نور سَیِّد المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تک مُتَّصِل ہوجائے، اس کیلئے چار شرائط ہیں ۔
پہلی شَرْط ٭ مرشِد کا سلسلہ بِاِتّصالِ صحیح(یعنی دُرُست واسطوں کیساتھ تعلق) حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تک پہنچا ہو۔ بیچ میں مُنقَطع(یعنی جُدا) نہ ہو کہ مُنقَطع کے ذریعہ اِتِّصال(یعنی تعلق) نا ممکن ہے۔ ٭ بعض لوگ بِلا بَیْعَتْ(یعنی بِغیر مرید ہوئے)، مَحض بَزُعمِ وراثت(یعنی وارث ہونے کے گمان میں ) اپنے باپ دادا کے سَجادے پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یا بَیْعَتْ کی تھی مگر خلافت نہ ملی تھی، بِلا اِذْن(بِغیر اجازت)مرید کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یا ٭ سلسلہ ہی وہ ہوکہ قَطْع کردیاگیا ، اس میں فیض نہ رکھاگیا، لوگ برائے ہَوَس اس میں اِذْن و خلافت دیتے چلے آتے ہیں یا ٭ سلسلہ فی نفسہٖ صحیح تھا ۔مگر بیچ میں ایسا کوئی شخص واقعہ ہوا جو بوجہ اِنتِقائے بعض شرائط قابلِ بیعَت نہ تھا ۔ اس سے جو شاخ چلی وہ بیچ میں مُنْقَطِع(یعنی جُدا) ہے۔ان تمام صورتوں میں اس بَیْعَتْ سے ہر گز اِتِّصال(یعنی تعلق) حاصل نہ ہوگا۔ (بیل سے دودھ یابانجھ سے بچہ مانگنے کی مَت جدا ہے)۔
د وسری شَرْط ٭ مرشِد سُنّی صحیح العقیدہ ہو۔ بدمذہب گمراہ کا سلسلہ شیطان تک پہنچے گا نہ کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تک۔ آج کل بَہُت کھلے ہوئے بددینوں بلکہ بے دینوں کہ جو بَیْعَتْ کے سِرے سے منکر و دشمنِ اَولیاء ہیں ، مکاری کے ساتھ پیری مریدی کا جال پھیلا رکھا ہے۔ ہوشیار! خبردار! احتیاط! احتیاط!۔
تیسری شَرْط ٭ مرشِد عالم ہو۔ یعنی کم از کم اتنا علْم ضَروری ہے کہ بِلا کسی اِمداد کے اپنی ضَروریات کے مسائل کتاب سے نکال سکے ۔کُتب بینی (یعنی مطالَعَہ کرکے)اور اَفواہِ رِجال (یعنی لوگوں سے سن سن کر) بھی عالم بن سکتا ہے، (مطلب یہ ہے کہ فارغُ التحصیل ہونے کی سَنَد نہ شرْط ہے نہ کافی۔ بلکہ علْم ہونا چاہئے۔) ٭ علمِ فِقْہ(یعنی اَحکامِ شریعَت)اس کی اپنی ضَرورت کے قابل کافی۔ ٭ اور عقائدِ اَہلسنّت سے لازمی پورا واقف ہو۔ ٭ کُفْرو اسلام ، گمراہی و ہدایت کے فرق کا خوب عارِف (یعنی جاننے والا) ہو۔
چوتھی شرط ٭ مرشِد فاسِق مُعْلِن(یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا) نہ ہو۔ اس شرط پر حُصولِ اِتِّصال کا تَوَقُّف نہیں (یعنی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے تعلق کا دارومَدار اس شرط پر نہیں ، کہ فُجور و فِسْق باعثِ فَسخ(منسوخ ہونے کا سبب) نہیں ۔ مگر پیر کی تعظیم لازِم ہے اور فاسق کی توہین واجب اور دونوں کا اجتماع باطل۔(’’اسے امامت کیلئے آگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے اور شَرِیْعَت میں اس کی توہین واجب ہے۔‘‘)
(۲)مرشِدِ اِیْصال یعنی شرائطِ مذکورہ(یعنی جن شرائط کا ذکر کیا گیا) کے ساتھ(۱) مَفاسِدِ نَفْس (نفس کے فتنوں )(۲)مَکائدِ شیطان(یعنی شیطانی چالوں )اور(۳) مَصائدِ ہوا( نفس کے جالوں )سے آگاہ ہو۔(۴) دوسرے کی تربیت جانتا ہو۔اور(۵) اپنے مُتَوَسِّل پر شفقت نامہ رکھتاہو کہ اس کے عُیو ب پر اسے مطلع کرے ان کا علاج بتائے(۶)جو مشکلات اس راہ میں پیش آئیں انہیں حل فرمائے۔
(فتا وی افر یقہ ، ص ۱۳۸)
بَیْعَت کی بھی دو قسمیں ہیں ۔(۱) بَیْعَتِ بَرَکت(۲) بَیْعَتِ اِرادَت
یعنی صرف تبرک کیلئے بَیْعَت ہوجانا، آج کل عام بَیْعَتیں یہی ہیں ۔وہ بھی نیک نیتوں کی، ورنہ بہت سے لوگوں کی بَیْعَت دنیاوی اَغراضِ فاسدہ کیلئے ہوتی ہے وہ خارج اَز بَحث ہیں ۔ اِس بَیْعَت کیلئے شَیخِ اِتِّصال (جس کا تعارُف آگے گزرا) کافی ہے ۔یہ بَیْعَت بھی بیکار نہیں بلکہ بَہُت مفید ہے اور دنیا و آخِرت میں اس کے کئی فائدے ہیں ۔ مَحبوبانِ خدا کے غلاموں کے دفتر میں نام لکھ جانا اور ان سے سلسلہ مُتَّصِل ہوجانا بھی بڑی سعادت ہے۔
(اوّل)ان خاص خاص غلاموں اور سالِکان راہِ طریقت سے اس امْر میں مشابہت ہوجاتی ہے اورسیِّدِ عالم ، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں کہ’’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (ترجمہ)جو جس قوم سے مُشابَہَت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے‘‘ ( سنن ابو داؤد ، کتاب اللباس ، باب فی لبس الشھرۃ ، ر قم ۴۰۳۱ ، ج۴ ، ص ۶۲)
(دُوُم)ان اَربابِ طریقت کے ساتھ ایک سلسلہ میں منسلک ہوجانا بھی نعمت ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے، ان کا ربّ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے ، ’’ہُمُ الْقَوْمُ لَایَشْقِی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ ‘‘ (ترجمہ) وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بھی بدبخت نہیں رہتا۔( صحیح مسلم ، کتاب الذکر و والدعا ئ، باب فصل مجالس الذکر ، رقم ۲۶۸۹ ، ص ۱۴۴۴ )
اعلیٰ حضرت ، امام اَہلسنّت الشاہ امام اَحمد رضاخان علیہ رحمۃالرحمن فرماتے ہیں ، بَیْعَتِ اِرادَت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ واختیار ختْم کرکے خود کو شَیخ و مرشِد ہادیِٔ برحق کے بالکل سِپُرـ دکردے، اسے مُطْلَقاً اپنا حاکم و مُتَصَّرِف جانے، اس کے چلانے پر راہِ سُلوک چلے، کوئی قدم بِغیر اُس کی مَرَضی کے نہ رکھے ۔اس کے لئے مرشِدکے بعض اَحکام، یااپنی ذات میں خود اسکے کچھ کام، اگر اس کے
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع