30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دم توڑتے مریضِ عصیاں نے ہے پکارا
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سَیِّدی و مرشِدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب حضور سَیِّدنا غوثِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مریدوں میں سے تھے۔ انہوں نے (سوتے جاگتے) میں دیکھا کہ ایک ٹیلہ پر یاقوت کی کرسی بچھی ہے۔اس پر حضرت سَیِّدنا جُنید بَغْدادی رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہیں اور نیچے ایک مخلوق جمع ہے ۔ ہر ایک اپنی چٹھی دیتا ہے اور حضرت علیہ الرحمۃ اس کو بارگاہِ ربّ العزت عَزَّ وَجَلَّ میں پیش کرتے ہیں ۔یہ چپکے کھڑے رہے۔
حضرت جُنید بَغْدادی علیہ الرحمۃ نے بہت دیر انہیں دیکھا ۔جب انہوں نے کچھ نہ کہا تو خود فرمایا’’لاؤ میں تمہاری عرْضی پیش کروں ‘‘، عرْض کیا ، کیامیرے شَیخ کو معزول کردیا گیا ؟ فرمایا خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ان کو معزول نہیں کیا گیا اور نہ کبھی ان کو معزول کرینگے۔ انہوں نے عرْض کی تو بس میرا مرشِد میرے لئے کافی ہے۔ آنکھ کھلی تو سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دربار میں حاضر ہوئے کہ معاملہ عرْض کریں ۔قربان جائیے غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی فَراست پر، قبل اس کے کہ کچھ عرْض کریں ، سرکار غوثِ پاک، شَیخ صمَدَنی مَحبوب سبحانی الشَیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا’’لاؤ میں تمہاری عرْضی پیش کروں ‘‘، پھر فرمایا! اِرادَت یہ ہے ۔ ’’بمہ شیران جہاں بستہ ایں سلسلہ اندر‘‘ جب تک مرید یہ اعتقاد نہ رکھے کہ میرا شَیخ تمام اَولیاء زمانہ سے میرے لئے بہتر ہے نفع(یعنی فیض) نہیں پائے گا۔ (الملفوظ حصہ سوم ، ص۳۰۸)
مَحبّت دوسروں کی دل میں میرے آبسی ہے کیوں
ذرا دل پر توجہ ہو نظر دل پہ جمانا تم
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(7) مَحبّت نے منزل تک پہنچادیا
ایک بُزُرگ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک رومال مجھے میرے پیرو مرشِد نے عطا فرمایا۔ جس پر اتفاق سے میرے بھائی کا پاؤں پڑگیا۔ مجھے اس بات کا اس قدر افسوس ہوا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔یہی جذبۂ مَحبّت تھا کہ اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں مرشِدِ کامل کی نگاہ کرم سے اسی لمحہ منزلِ مراد تک پہنچ گیا۔(عوارفُ المعارِف)
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ تین درویش مَحبوبِ الہٰی قدس سرہ کے والد ماجد حضرت ’’نظامُ الحق والدین محبوبِ الٰہی قَدَّسَ سِرَّ ہٗ الْعَزِیز‘‘کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانا مانگا۔ خادم کو کھانا لانے کا حکْم فرمایا گیا۔ خادم نے جو کچھ اس وقت موجود تھا۔ ان کے سامنے لاکر رکھا۔ ان میں سے ایک نے وہ کھانا اٹھا کر پھینک دیا اور کہا، اچھا کھانا لاؤ۔ حضرت نے اس ناشائستہ حَرَکت کا کچھ خیال نہ فرمایا بلکہ خادم کو اس سے اچھا کھانا لانے کا حکْم فرمادیا۔خادم پہلے سے اچھا کھانا لے آیا۔انہوں نے دوبارہ پھینک دیا او ر اس سے اچھا مانگا۔حضرت علیہ الرحمۃ نے اور اچھے کھانے کا حکْم دیا۔غرض انہوں نے اس بار بھی پھینک دیا۔ اور اس سے بھی اچھا مانگا ۔
اس پر حضرت علیہ الرحمۃ نے اس درویش کو قریب بلایا او رکان میں ارشاد فرمایا کہ یہ کھانا اس مردار بیل سے تو اچھا تھا جو تم نے راستہ میں کھایا۔ یہ سنتے ہی درویش کا رنگ مُتَغَیَّر ہوا۔(کیونکہ راہ میں تین دن فاقوں کے بعد ایک مرا ہوا بیل جس میں کیڑے پڑ گئے تھے۔تینوں جان بچانے کیلئے اسکا گوشت کھا کر آئے تھے) درویش حضور علیہ الرحمۃ کے قدموں پر گر پڑا۔ حضور علیہ الرحمۃ نے اس کا سر اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور جو کچھ باطنی فُیوضات عطا فرمانا تھے عطا فرمادیئے۔اس پر وہ درویش وجد میں جھومنے لگا اور کہنے لگا کہ میرے مرشِدِ کامل نے مجھے نعمت عطا فرمائی ہے۔حاضرین (جو یہ سب معاملے دیکھ رہے تھے کہ اسے حضرت نظام الحق علیہ الرحمۃ نے نوازا ہے ) اس سے کہنے لگے کہ ! بیوُقوف جو کچھ تجھے ملا وہ تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا عطا کیا ہوا ہے۔ یہاں تک تو بالکل خالی آیا تھا۔ تو وہ قلندر (کیف و سرور کی مستی میں )بولا بے وقوف تم ہو۔
اگر میرے پیرو مرشِد نے مجھ پر نظر نہ کی ہوتی تو حضور علیہ الرحمۃ مجھ پر نظرِ کرم کب فرماتے۔ یہ اسی نظر(یعنی توجہ مرشِد ) کاسبب ہے ۔
اس پر حضرتِ نظامُ الحقعلیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا۔ یہ سچ کہتا ہے ۔ پھرفرمایا بھائیو! مرید ہونا اس سے سیکھو۔(الملفوظ حصہ اول ص ۱۶)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع