30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
(حالتِ ایمان) میں جان! جانِ آفرین کے سِپُرد کر دی۔ (الملفوظ حصہ چہارم صفحہ ۳۸۹)
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّو اعَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلیٰ مُحَمَّد
اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے شیطٰن کی شرارتوں سے پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مرشِدِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دے دینا چاہئے کہ ان کی باطنی توجہ وسوسہء شیطانی کو بھی دفعہ کرتی ہے اور ایمان کی حفاظت کا بھی ایک مضبوط ذریعہ ہے۔
آخِری وقت ہے اور بڑا سخْت ہے
میرا ایماں بچا میرے مرشد پیا
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ، بَیْعَت(یعنی مرید ہونا) اسے کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ کے ایک مرید دریا میں ڈوب رہے تھے۔ حضرتِ خِضَر علیہ السلام ظاہر ہوئے اور فرمایا، اپنا ہاتھ مجھے دے کہ تجھے نکال لوں ۔اس مرید نے عرْض کی یہ ہاتھ حضرت یحیٰی منیری علیہ الرحمۃ کے ہاتھ میں دے چکا ہوں اور اب دوسرے کو نہ دوں گا، حضرت خضر علیہ السلام غائب ہوگئے اور حضرت یحییٰ منیری علیہ الرحمۃ ظاہر ہوئے اور ان کو نکال لیا۔(انواررضا ، امام احمد رضا اور تعلیمات تصوف ، ص ۲۳۸)
امام شعرانی میزان الشریعۃ الکبریٰ میں فرماتے ہیں کہ جس طرح مذاہب اَرْبَعہ میں سے کسی ایک کی تقلید لازم ہے ۔اسی طرح مرید کیلئے بھی ایک ہی پیر سے وابستہ رہنا لازمی ہے ، مدخل شریف میں ہے کہ مرید کو چاہئے کہ اپنے زمانہ کے تمام مشائخ کے ساتھ نیک گمان رکھے، او ر(صرف)اپنے مرشِد کامل ہی کے دامن سے وابستہ رہے اور تمام کاموں میں اسی پر اعتماد کرے او ر(اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھانے)اوروقت ضائع کرنے سے بچے۔( فتاوٰی ، رضو یۃ جدید ، ج ۲۱ ، ص ۴۷۸)
پھر فرمایا ، اِرادَت (یعنی اعتقاد)اَہم ترین شرط ہے بَیْعَت میں ۔ بس مرشِد کی ذرا سی توجہُّ دَرکار ہوتی ہے۔( ملفو ظات اعلی حضرت ، حصہ سوم ، ص ۳۴۳)
تیرے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہے
تیرے ہاتھ ہے لاج یا غوثِ اعظم
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّو اعَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلیٰ مُحَمَّد
(3)ایک دروازہ پکڑ مگر مضبوطی سے
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے عرْض کی گئی کہ حضرت سَیِّدی اَحمدزروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے کہ جب کسی کو کوئی تکلیف پہنچے تو یازَرّوق ( رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ) کہہ کر نِدا کرے میں فوراً اس کی مدد کروں گا۔تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا ، میں نے کبھی اس قسم کی مدد طلب نہ کی ۔جب کبھی میں نے اِستِعانَت (یعنی مدد طلب کی) یاغوث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہی کہا ۔ ’’یْک دَر گیر محکْم گیر‘‘ (ایک ہی دَر پکڑ و مگر مضبوط پکڑو) (الملفوظ حصہ سوم ص ۳۰۷)
شیخِ طریقت ، امیرِ اہلسنت ، بانیِ دعوتِ اسلامی ، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیفِ لطیف فیضانِ سنّت کے منفرِد باب ’’فیضانِ بسم اللہ ‘‘ کے (ص ۸ تا ۱۱)پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی کرامت بیان فرمائی ہے کہ سرکارِ اعلٰیحضرت علیہ الرحمۃ جب 21برس کے نوجوان تھے اس وقت کا وا قعہ خود اُن ہی کی زَ بانی مُلاحَظہ ہو، چناچِہ فرما تے ہیں ، سَتْرَھو یں شریف ماہِ فاخِر ربیعُ الآخِر ۱۲۹۳میں کہ فقیر کو اکیسواں سال تھا ۔ اعلٰیحضرت مُصنِّف عَلّام سیِّدُناَلْوالِد قُدِّسَ سِرُّہُ الْماجِد و حضر ت مُحِبُّ الرسول جناب مولٰینا مولوی محمد عبدُالقادِر صاحِب بدایونی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ہمراہِ رِکاب حاضِرِ بارگاہِ بیکس پناہ ِ حضور پُرنُور مَحبوبِ الٰہی نظامُ الحقِّ وَالدّین سلطانُ الْاولِیا ء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہوا۔حُجرہ مُقدَّسہ کے چار طرف مجالِسِ باطِلہ لَہْو و سَرَور گرْم تھی۔ شور و غَوغا سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ دونوں حَضَرات ِعالِیّت اپنے قُلوب ِ مُطْمَئِنَّہ کے ساتھ حاضِرِ مُو َا جَہَئہ اَ قَدس(مُ۔وا۔ہَ۔ جَ۔ئِ۔اَقدس) ہو کر مشغول ہوئے۔اِس فقیرِ بے تَو قیر نے ہُجومِ شَوروشَر سے خاطِر (یعنی دل) میں پریشانی پائی۔ دروازۂ مُطَہَّرہ پر کھڑے ہو کر حضرتِ سُلطانُ الْا َ ولِیاء رحمۃ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے عرض کی کہ اے مولیٰ! غلام جس کیلئے حاضِر ہوا، یہ آوازیں اس میں خَلَل انداز ہیں ۔ (لفْظ یِہی تھے یا ان کے قَریب، بَہَرحال مضمونِ مَعْروضہ یِہی تھا) یہ عرض کرکے بِسْمِ اللّٰہ کہہ کر دَہنا پاؤں دروازۂ حُجرِۂ طاہِرہ میں رکھا بِعَونِ رَبِّ قدیر عَزَّ وَجَلَّ وہ سب آوازیں دَفْعَۃْ گُم تھیں ۔ مجھے گُمان ہوا کہ یہ لوگ خاموش ہورہے، پیچھے پھر کر دیکھا تو وُہی بازار گَرْم تھا۔ قدم کہ رکھا تھا باہَر ہٹایا پھر آوازوں کا وُہی جوش پایا۔ پھر بِسْمِ اللّٰہ کہہ کر دَہنا پاؤں اندر رکھا۔ بِحَمْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی پھر وَیسے ہی کان ٹھنڈے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ یہ مولیٰ عَزَّ وَجَلَّ کاکرم اور حضرتِ سُلطانُ الْا َولِیاء رحمۃ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کرامت اور اس بندۂ ناچیز پر رَحْمت و مَعُونَت ہے۔ شکر بجالا یا اور حاضِر مُواجَہَۂ عالِیہ ہو کر مشغول رہا۔ کوئی آواز نہ سنائی دی جب باہَر آیا پھر وُہی حال تھا کہ خانقاہِ اقدس کے باہَر قِیام گاہ تک پہنچنا دشوار ہوا۔ فقیر نے یہ اپنے اوپر گُزری ہوئی گزارِش کی، کہ اوّل تو وہ نعمتِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ تھی اور ربَّ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے، وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱)اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں کو لوگوں سے خوب بیان کر۔ مَع ھذٰا اِس میں غُلامانِ اولیائے کِرام رَحِمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی کیلئے بشارت اور مُنکِروں پر بَلا و حسرت ہے۔ الٰہی ! عَزَّ وَجَلَّ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع