30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مت سمجھ ۔کیونکہ بعض اوقات اس کلام کا ثمر(یعنی فائدہ) مرشِد کے انتقال کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی کھیتی ان شا ء اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ برباد نہیں ہوگی۔ پس اے بیٹے! ہر اس بات کو جو توُ اپنے مرشِد سے سنے اسکی خوب حفاظت کر اگرچہ اس بات کو سننے کے وقت تو اس کے فائدے کو نہ سمجھے۔
مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کے چہرے کوٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھے۔ بلکہ جہاں تک ہوسکے اپنی نظر نیچے رکھے اور اس بات کے لطفْ کو کتابوں میں نہیں لکھاجاسکتا ہے ۔سالک لوگ ہی اسے چکھتے ہیں ۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نبیِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم حیاء کی وجہ سے کسی کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتے تھے۔
(شرح العلّامۃ الزدقانی علی المواہب، الفصل الثانی فیما اکرمۃ اللہ تَعَالٰی النح ، ج ۶، ص ۹۲)
میرے سردار علی مرصفی رحمۃ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہاں ! اگر مرید اپنے مرشِد کے اَدَب کے مَقام میں ثابت قدم ہوجائے اور مرشِد کے چہرے مبارَک کی طرف اکثر نگاہ رکھنے سے اس کی اِہانَت لازم نہ آئے توپھر کوئی نقصان نہیں ہے۔ (کئی بااَدَب مریدین تومرشِد کامل کی موجود گی میں تو کسی اور طرف دیکھنے سے بھی بچتے ہیں )
(۳۱)اجازتِ مرشِد
میں (یعنی عبدالوہاب شَعرانی علیہ الرحمۃ ) نے اپنے سردار علی مرصفی علیہ الرحمۃ سے سنا، آپ فرماتے ہیں کہ مرید کو لائق نہیں کہ وہ اپنے مرشِد کی اجازت کے بِغیر کسی وظیفے یا کسی ہنر میں مشغول ہو جائے۔
مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کی طرف پاؤں کبھی نہ پھیلائے۔شَیخ زندہ ہو یا وفات پاگئے ہوں ۔ رات ہو یا دن، ہر وقت خواہ مرشِد حاضر ہوں یا غائب دونوں میں مرشِد کے اَدَب کی رعایت اور نگہبانی کرے۔
(۳۳)مرید پرحقّ
مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کے کپڑے اور جوتی مبارَک کو نہ پہنے اور مرشِد کے بستر پر نہ بیٹھے او رمرشِد کی تسبیح پر وظیفہ نہ پڑھے۔نہ مرشِد کی موجودگی میں اور نہ مرشِد کی غیرموجودگی میں ۔ہاں ! جب مرشِد ان چیزوں کے استعمال کی خود اجازت دے تو پھر دُرُست ہے۔(بہت سے عُشاق کو دیکھا گیا ہے کہ وہ نہ صرف مرشِد کے شہر میں اَدَباًننگے پاؤں رہتے ہیں بلکہ مرشِد کے سائے بلکہ چلتے وقت جہاں مرشِد قدم مبارَک رکھتے وہاں پر اپنے پیر رکھنے سے بچاتے ہیں ، مرشِدکی طہارت و وُضُو کی جگہ کوبھی اَدَباً استعمال نہیں کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ مرشِدکی موجودگی میں وُضُو قائم رہے۔جس طرف مرشِد کا گھر یا مزار ہواسطرف قصداً پیٹھ یا پاؤں بھی نہیں کرتے )۔
(۳۴)تحفۂ مرشِد
مشائخِ کِبار رحمہم اللہ نے فرمایا کہ جب مرشِد اپنے مرید کو کوئی کپڑا، عمامہ ، ٹوپی یا مِسواک مبارَک عطا فرمائے تو یہ ُدرُست نہیں کہ وہ اس کو کسی دُنیوی چیز کے بدلے میں بیچ ڈالے ۔کیونکہ بسا اوقات مرشِد اس چیز میں مرید کے لئے کامل لوگوں کے اخلاص(یعنی خُصوصی فُیوض وبَرَکات) ڈال کر اس کے سِپُرد کرتے ہیں ۔ جیسا کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حضرت ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو چادر لپیٹ کر دے دی او روہ زیادہ بھولنے والے تھے ۔پس انہوں نے فرمایا کہ پھر میں نے اس کے بعد جو سنا یا دیکھا اسے نہیں بھولا۔
( ۳۵)اِمداد کا دروازہ
مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے دل کو اپنے مرشِد کے ساتھ ہمیشہ مضبوط باندھے ہوئے رکھے اور ہمیشہ تابعداری کرتا رہے اور ہمیشہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تَعَالٰی نے اپنی تمام امداد کا دروازہ صرف اس کے مرشِد ہی کو بنا یا ہے اور یہ کہ اس کا مرشِد ایسا مظہر ہے کہ اللہ تَعَالٰی نے اس کے مرید پر فُیوضات کے پلٹنے کیلئے صرف اسی کو مُعَیّن کیا ہے اور خاص فرمایا ہے اور مرید کو کوئی مدد اور فیض مرشِد کے واسطہ کے بِغیر نہیں پہنچتا۔ اگر چہ تمام دنیا مشائخ عظام سے بھری ہوئی ہو۔ یہ قاعدہ اس لئے ہے کہ مرید اپنے مرشِد کے عِلاوہ او رسب سے اپنی توجُّہ ہٹادے ۔کیونکہ اس کی امانت صرف اس کے مرشِد کے پاس ہوتی ہے ، کسی غیر کے پا س نہیں ہوتی ۔
ایک مرتبہ حضرت بابا فریدُ الدین گنجِ شکْرعلیہ الرحمۃ اپنے مریدین و مُعْتَقِدین کے ہمراہ تشریف فرما تھے کہ ایک نام نہاددرویش نے آکر نعرہ بلند کیا اور آپ کی خدمت میں
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع