30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کشْف اور ان جیسی چیزوں کا مطالَبہ کرے۔
(۲۱)ناقِص مرید
جس مریدنے اپنے مرشِد سے اس نیت سے کرامت چاہی کہ پھر وہ اپنے مرشِد کی اچھی اتباع کرے گا۔ تو ایسے مرید کا اب تک اعتقاد صحیح نہیں اور نہ ہی اسے یقین حاصل ہوا ہے کہ اس کا مرشِد اَہلُ اللہ کے طریقے سے بخوبی واقف ہے ۔یعنی ایسا مرید اب تک ناقص مرید ہے۔
(۲۲) کرامت کی طلب
حضرت مرشِد ابو العباس مرسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں اے مرید! تواپنے مرشِد سے کرامت طلب کرنے سے بچ، تاکہ تو اس کرامت کی وجہ سے اس کے اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْـکَرِ کی اتباع کرے ۔کیونکہ یہ بے اَدَبی ہے اور دینِ اسلام میں تیرے شک کی علامت ہے۔ کیونکہ جس ذات نے تجھے اس راہ کی طرف دعوت دی ہے وہ تیرا(میٹھا میٹھا) مرشِد (ہی تو)ہے۔
اے مرید! تو اپنے مرشِد کی خَفگی اور عِتابوں کے وقت اپنے اوپر صبر کو لازم کرلے ۔ اگر وہ تجھے(تیری اصلاح کی خاطر) دھتکار ے تَو تُو جُدامت ہوجابلکہ تُو اس کی طرف دُزْدِیدہ نظر (یعنی چھپی نگاہ سے )دیکھتا رہ۔ او ریہ بھی جان لے کہ بُزُرگانِ دین رحمہم اللہ کسی ایک مسلمان کو ایک سانس برابر بھی ناپسند نہیں سمجھتے ۔اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب مریدین کی تعلیم ہی کی غَرَض سے کرتے ہیں (جس سے مریدین بے خبر ہوتے ہیں )۔بعض مرتبہ مرشِدِ کامل ا س طرح اپنے مریدین و مُعْتَقِدین کا امتحان بھی لیتے ہیں اور جو ثابِت قَدَمی کا مظاہَرہ کرتے ہیں وہ ہی فیضِ باطِنی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔
آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مرید کا اپنے مرشِد کے مَقام کو جاننا اللہ تَعَالٰی کی معرِفت سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ اللہ تَعَالٰی کا کمال، بُزُرگی اور قدرت مخلوق کو معلوم ہے اور مخلوق ایسی نہیں (کہ ہر ایک مریدکوپیر کا کمال و بُزُرگی بھی معلوم ہو)پس انسان اپنی طرح کی ایک مخلوق کے بلند مَقام کو کس طرح جان سکتا ہے۔ جو اس کی طرح کھاتا بھی ہو اور اس کی طرح پیتا بھی ہو۔
آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اے مرید! تم اپنے مرشِد کے اَدَب کو اپنے اوپر ہر دم لازم بناؤ، اگرچہ وہ تم سے کبھی خوش رُوئی و خَندہ پیشانی سے گفتگو فرمائیں ۔کیونکہ اَولیاء اللہ رحمہم اللہ کے قُلوب، مثلِ قُلوب بادشاہوں کے ہیں ۔ فوراً ہی حلْم و بُردباری سے ناراضگی(یعنی سزا دینے) کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں ۔یاد رکھو! جب ولی اللہ کا بازو تنگ ہوگیا، تو اس کا اِیذا دینے والا اسی وقت ہلاک ہوجائے گا، اور جب کشادہ رہا تو اس وقت ثَقَلین( یعنی تمام جنوں اور تمام انسانوں ) کی اِیذا رسانی کو بھی برداشت فرمائیں گے۔
آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مرشِد کو جائز ہے کہ وہ اپنے مرید کو ایک وظیفے کے ترْک کرنے اور دوسرے وظیفہ کے اختیار کرنے کا حکْم فرمائے، پھر جب مرشِد اسے کسی وظیفہ کے ترْک کرنے کا حکْم فرمائے تو مرید کو چاہئے کہ فوراً ہی امتثال امر(یعنی حکمِ مرشِد کی بجا آوری کرے) اور مرید کو اپنے دل میں بھی اعتراض لانا جائز نہیں ۔ مثلاً دل میں یوں کہے کہ وہ وظیفہ تو اچھا تھا، مرشِد نے مجھے اس سے کیوں روکا؟
کیوں کہ بَسا اوقات مرشِد اس وظیفہ میں مرید کا ضَرَر دیکھتا ہے ۔(جس سے مرید بے خبر ہوتا ہے) مثلا! اس وظیفہ سے مرید کے ا خلاص کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے ۔نیز بہت سے اعمال ایسے ہوتے ہیں جو عِنْدَالشّرع افضَل ہوتے ہیں ۔ لیکن جب ان میں نفْس کا کوئی عمل دخل ہو تو وہ عمل مَفضول (یعنی کم درَجہ والے) ہوجاتے ہیں اور مرید کو ان چیزوں کا پتا نہیں چلتا۔ (اسی طرح مرشِد سے اَوراد و وظائف کی اجازت طلب کرنے کے بجائے ان کے عطا کردہ شَجَرَہ میں موجود اَوراد وظائف پرھنے کا ہی معمول بنائے کہ اس میں عافِیت ہے)پس مرید کو چاہئے کہ وہ ہروقت! امتثال امر ( یعنی حکْم کی بجا آوری) کرتا رہے اور اپنے آپ کو خَطَرات و وَساوس کے آنے اور شُبہات کے پیدا ہونے سے بچائے۔
(۲۷)ضَروری احتیاط
آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جب کبھی مرشِد تمہارے سامنے بظاہر خوش خوش اور تبسم فرماتے ہوئے نظرآ ئیں ، تب بھی تم ان سے ڈرو اوران کے پاس اَدَب ہی سے بیٹھو، کیونکہ مرشِد کبھی کبھی بارش اور رَحمت کی صورت میں تلوار کی مانند ہوتا ہے ۔ (یعنی گرفت بھی فرماسکتے ہیں )
آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اے مرید! تیرا مرشِد جو کلام( بیانات، مَدَنی مذاکرات، تحریرات، ملفوظات، یا مکتوبات کے ذریعے) تیرے دل میں بَودے تَو اس کو بے ثَمَر(یعنی بے فائدہ) ہر گز
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع