Book Name:Ala Hazrat Ka Husn e Akhlaq

وَسَلَّمَ کی پیاری پیاری سنت ہے۔چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے: اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے بکری کا بازو بھی تحفۃً دیا جائے تو میں قبول کروں گا۔(بخاری، کتاب النکاح،باب من اجاب الی کراع،۴۵۵/۳،حديث:۵۱۷۸)

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آئیے!دعوت قبول کرنے سے مُتَعَلِّق دو (2) فرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنتے    ہیں ۔چنانچہ

1.    ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کسی کو اس کا بھائی شادی یا کسی اور موقع پر دعوت دے تو اسے چاہئے کہ قبول کرے۔(مسلم ،کتاب النکاح ،باب الأمر بإجابۃ الداعی…الخ،ص۵۷۵، حدیث: ۳۵۱۳)

2.    ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے ضَرور قبول کرے، پھر چاہے کھائے،چاہے نہ کھائے۔(مسلم ،کتاب النکاح،باب الأمر بإجابۃ الداعی…الخ،ص۵۷۵، حدیث: ۳۵۱۸)

      میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!ہمیں بھی چاہئے کہ اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ ایسی دعوت جو خلافِ شریعت نہ ہو قبول کریں اور اس میں امیرو غریب کے فرق کو مٹاتے ہوئے اپنے ہرمسلمان بھائی کا  دِل خوش کرنے کی نِیَّت سے ممکن ہوتو  شرکت بھی کریں ۔ایسا نہ ہو کہ مالدار یا صاحبِ منصب شخص ہمیں دعوت میں بُلائے تو ہم فوراً ہامی بھر لیں اور کوئی غریب خلوصِ نیت سے ہمیں دعوت دے تو ہمیں گھر کا ضروری کام یاد آجائے  یا مَعَاذَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ غرور وتکبُّر کی وجہ سے اس کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیں۔

                             حُجَّۃُ الاِسْلَام حضرت سَیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :دعوت قبول کرنے میں امیر و غریب کا فرق سامنے نہ ہو کہ یہ تکبُّر ہے جو کہ ممنوع ہے۔بعض متکبرین  حضرات صرف اَغْنِیا(مالداروں )کی دعوت قبول کرتے ہیں،فُقَرَاء کی نہیں یہ خلافِ سنّت ہے کہ پیارے