Book Name:Tazeem e Mustafa kay waqiat

اِعلائے کَلِمَۃُ اللّٰہ (یعنی اللہ کا کلمہ بُلند کرنے)کیلئے بہت سی جنگیں  لڑیں  اورکامیاب ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  شُجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عَظِیْم مَنْصَب پر بھی فائز تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے فرمانبردار غلام ایّازکا ایک بیٹا تھا، جس کا نام محمد تھا۔ حضرت محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہجب بھی اس لڑکے کو بُلاتے تو اس کے نام سے پُکارتے ، ایک دن آپ نے خِلافِ معمول اُسے اے اِبنِ ایاز ! کہہ کر مُخاطب کِیا۔ ایّاز کو گمان ہوا کہ شاید بادشاہ آج ناراض ہیں ،اس لئے میرے بیٹے کو نام سے  نہیں   پکارا ، وہ آپ کے دَربار میں  حاضِر ہوا اور عرض کی: حُضُور! کیا میرےبیٹے سے آج کوئی غلطی سَرزد ہوگئی جو آپ نے اس کا نام چھوڑ کر اِبنِ ایاز کہہ کر پکارا؟ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا :میں  اسمِ محمد کی تَعْظِیْم کی خاطِر تمہارے بیٹے کا نام بے وضو نہیں لیتا چُونکہ اس وَقت میں  بے وضو تھا،اس لئے لفظِ محمد کو بِلا وضو لبوں  پر لانا مُناسب نہ سمجھا ۔([1])

لب پر آ جاتا ہے جب نامِ جناب، مُنھ میں گُھل جاتا ہے شہدِ نایاب

وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب، اپنے لب چُوم لیا کرتے ہیں

(حدائقِ بخشش:۱۱۴)

شعر کی وضاحت:

اے میرے پیارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!جب بھی آپ کا اسمِ گرامی ہمارے لبوں  پہ آتا ہے، تو ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے ہمارے منہ میں خالص شہد ڈال دیا ہے۔ اسی کیفیت میں ہونٹ آپس میں مل جاتے ہیں اور ایک دوسرے کا بوسہ لے لیتے ہیں۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سرکار کے اَسمائے مُبارَکہ


 

 



[1]  روح البیان ،۷/۱۸۵،مفہوماً