Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Saba Ayat 14 Urdu Translation Tafseer

رکوعاتہا 6
سورۃ ﳣ
اٰیاتہا 54

Tarteeb e Nuzool:(58) Tarteeb e Tilawat:(34) Mushtamil e Para:(22) Total Aayaat:(54)
Total Ruku:(6) Total Words:(995) Total Letters:(3542)
14

فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰى مَوْتِهٖۤ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗۚ-فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِﭤ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیجا توجنوں کو اس کی موت زمین کی دیمک نے ہی بتائی جو اس کا عصا کھارہی تھی پھر جب سلیمان زمین پر آرہا تو جنوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت و خواری کے عذاب میں نہ رہتے۔


تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ: پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیجا۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں  دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّا ت پر ظاہر نہ ہوتا کہ انسانوں  کو معلوم ہوجائے کہ جن غیب نہیں  جانتے، پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام محراب میں  داخل ہوئے اور حسب ِعادت نماز کے لئے اپنے عصا کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے ۔جِنّا ت دستور کے مطابق اپنی خدمتوں  میں  مشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہیں  اورحضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عرصۂ دراز تک اسی حال پر رہنا اُن کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیں  ہوا، کیونکہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک ماہ، دوماہ اور اس سے زیادہ عرصہ تک عبادت میں مشغول رہتے ہیں  اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نماز بہت لمبی ہوتی ہے، حتّٰی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے پورے ایک سال بعد تک جنات آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات پر مُطَّلع نہ ہوئے اوراپنی خدمتوں میں مشغول رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیمک نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا کھالیااورآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک جو لاٹھی کے سہارے سے قائم تھا زمین پر تشریف لے آیا۔ اس وقت جِنّا ت کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا علم ہوا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۵۱۹)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقدّس اَجسام وفات کے بعد گلنے اور مٹنے سے محفوظ ہیں  ۔

{فَلَمَّا خَرَّ: پھر جب سلیمان زمین پر آیا۔} یعنی جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک زمین پر تشریف لایا تو جنوں  پر یہ حقیقت کھل گئی کہ وہ غیب نہیں  جانتے کیونکہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے مطلع ہوجاتے اور اس ذلت و خواری کے عذاب میں  نہ رہتے اور ایک سال تک عمارت کے کاموں  میں  تکلیف اور مشقتیں  اُٹھاتے نہ رہتے۔

            مروی ہے کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیتُ المَقْدِس کی بنیاداس مقام پر رکھی تھی جہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا ۔اس عمارت کے پورا ہونے سے پہلے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا وقت آگیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے فرزندِ اَرْجْمند حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کی تکمیل کی وصیت فرمائی ،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جِنّات کو اس کی تکمیل کا حکم دیا۔ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے دعا کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات جِنّا ت پر ظاہر نہ ہوتاکہ وہ عمارت کی تکمیل تک مصروفِ عمل رہیں  اور انہیں  جو علمِ غیب کا دعویٰ ہے وہ باطل ہوجائے۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف 53 سال ہوئی ،تیرہ سال کی عمر شریف میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سلطنت کے تخت پر تشریف فرماہوئے اور چالیس سال تک حکمرانی فرمائی۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۵۲۰، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۹۵۹، ملتقطاً)

جِنّات کو غیب کا علم حاصل نہیں  :

             اس آیت کے آخری حصے ’’تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ‘‘ سے معلوم ہوا کہ جِنّا ت کو غیب کا علم حاصل نہیں  ہے ۔فی زمانہ عوام کی اکثریت اس جہالت میں  مبتلا ہے کہ وہ عاملوں  کے ذریعے جِنّا ت سے آئندہ کے اَحوال معلوم کرتے ہیں ، اسی طرح بعض مرد اورعورتیں  بزرگوں  کی سواری آنے کا دعویٰ کرتے ہیں  اور لوگ عقیدت میں  ان سے اپنے معاملات کے بارے میں  دریافت کرتے اوران کی بتائی ہوئی باتوں  کو یقین کی حد تک سچا تصوّر کر لیتے ہیں ۔یاد رکھئے کہ جِنّا ت سے غیب کی بات پوچھنی حماقت اور اَشدحرام ہے اور ان کی دی ہوئی خبر پر یقین رکھنا کفر ہے ۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سوال کے جواب میں  فرماتے ہیں : ’’اور اگر غیب کی بات ان سے دریافت کرنی ہو جیسے بہت لوگ حاضرات کرکے موکلاں  جن سے پوچھتے ہیں : فلاں  مقدمہ میں  کیا ہوگا ؟فلاں  کام کا انجام کیا ہوگا؟ یہ حرام ہے ا ور کہانت کا شعبہ بلکہ اس سے بدتر ۔زمانۂ کہانت میں  جن آسمانوں  تک جاتے اور ملائکہ کی باتیں  سنا کرتے، ان کو جو احکام پہنچنے ہوتے اور وہ آپس میں  تذکرہ کرتے (تو) یہ چوری سے سن آتے اورسچ میں  دل سے جھوٹ ملا کر کاہنوں  سے کہہ دیتے ،جتنی بات سچی تھی واقع ہوتی، زمانۂ اَقدس حضور سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے اس کا دروازہ بند ہوگیا، آسمانوں  پر پہرے بیٹھ گئے، اب جن کی طاقت نہیں  کہ سننے جائیں ، جو جاتا ہے ملائکہ اس پر شِہاب مارتے ہیں  جس کا بیان سورۂ جن شریف میں  ہے ،تو اب جن غیب سے نِرے جاہل ہیں ، ان سے آئندہ کی بات پوچھنی عقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان کی غیب دانی کا اعتقاد ہو تو کفر ۔( فتاوی افریقہ،ص۱۷۷-۱۷۸)

             حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ’’ کسی مرد یا عورت پر کسی بزرگ کی سواری نہیں  آتی، یہ دعویٰ فریب ہے ۔ صرف جِنّا ت کا اثر ہوتا ہے وہ بھی کسی کسی پر۔(وقار الفتاوی، پیری مریدی، ۱ / ۱۷۷)

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links