Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Hud Ayat 12 Translation Tafseer

رکوعاتہا 10
سورۃ ﷷ
اٰیاتہا 123

Tarteeb e Nuzool:(52) Tarteeb e Tilawat:(11) Mushtamil e Para:(11-12) Total Aayaat:(123)
Total Ruku:(10) Total Words:(2140) Total Letters:(7712)
12

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآىٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌؕ-اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌﭤ(12)
ترجمہ: کنزالایمان
تو کیا جو وحی تمہاری طرف ہوتی ہے اس میں سے کچھ تم چھوڑ دو گے اور اس پر دل تنگ ہوگے اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں ان کے ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہ اترا یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ آتا تم تو ڈر سنانے والے ہو اور اللہ ہر چیز پر محافظ ہے


تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ:تو کیا تمہاری طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے تم اس میں سے کچھ چھوڑ دو گے۔} اس آیت کی تفسیر میں علماء نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسالت کی ادائیگی میں کمی کرنے والے نہیں اور اُس نے اُن کو اس سے معصوم فرمایا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں تبلیغِ رسالت کی تاکید فرمائی اور اس تاکید میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکینِ خاطر بھی ہے اور کفار کی مایوسی بھی کہ اُن کا مذاق اڑانا تبلیغ کے کام میں مُخِل نہیں ہو سکتا۔ شانِ نزول : عبداللہ بن اُمیہ مخزومی نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ سچے رسول ہیں اور آپ کا خدا ہر چیز پر قادر ہے تو اُس نے آپ پر خزانہ کیوں نہیں اُتارا یا آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جو آپ کی رسالت کی گواہی دیتا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۳۴۳، ملخصاً)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وحی میں خیانت کرنا ناممکن ہے:

            امام فخر الدین رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ تمام مسلمانوں کا اس پر اِجماع اور اتفاق ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاوحی اور تنزیل میں خیانت کرنا اور وحی کی بعض چیزوں کو ترک کر دینا ممکن نہیں ، کیونکہ اگر یہ بات ممکن مانیں تو اس طرح ساری شریعت ہی مشکوک ہو جائے گی اور نبوت میں طعن لازم آئے گا، نیز رسالت سے اصل مقصود ہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام بندوں تک پہنچا دیئے جائیں اور جب ایسا نہ ہو تو رسالت سے جو فائدہ مطلوب تھا وہ حاصل ہی نہ ہو گا، اس لئے اس آیت کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس آیت سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری وحی کی تبلیغ کریں گے تو کفار کی طرف سے طعن و تشنیع اور مذاق اڑانے کا خدشہ ہے اور اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بتوں کی مذمت والی آیات نہ بیان کریں گے تو کفار آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق تو نہ اُڑائیں گے لیکن اس طرح وحی میں خیانت لازم آئے گی اور جب دو خرابیوں میں سے ایک خرابی لازم ہو تو اس وقت بڑی خرابی کو ترک کر کے چھوٹی خرابی کو برداشت کر لینا چاہئے اور چونکہ وحی میں خیانت کرنے کے مقابلے میں کفار کے طعن و تشنیع کو برداشت کرلینا زیادہ آسان ہے اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وحی میں خیانت کی خرابی سے دور رہتے ہوئے کفار کے طعن و تشنیع کی خرابی کو برداشت کرلیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۳۲۳-۳۲۴)

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links