Home ≫ Al-Quran ≫ Surah An Nisa Ayat 84 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(92) | Tarteeb e Tilawat:(4) | Mushtamil e Para:(4-5-6) | Total Aayaat:(176) |
Total Ruku:(24) | Total Words:(4258) | Total Letters:(16109) |
{فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: تو اے حبیب! اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بدر صغریٰ (چھوٹا غزوہ بدر، اُس) کی جنگ جو ابوسفیان سے طے تھی جب اس کا وقت آپہنچا تو سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں جانے کے لئے لوگوں کو دعوت دی، بعض لوگوں پر یہ گراں ہوا تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ جہاد نہ چھوڑیں اگرچہ تنہا ہوں اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ناصرو مددگار ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا ہے۔ یہ حکم پا کر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بدرصغریٰ کی جنگ کے لئے روانہ ہوئے اور صرف ستّر سوار ہمراہ تھے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۲۴۲)
چنانچہ فرمایا گیا کہ آپ جہاد کیلئے جائیں اور آپ کو آپ کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جائے گی خواہ کوئی آپ کا ساتھ دے یا نہ دے اور اگرچہ آپ اکیلے رہ جائیں ، ہاں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اور بس۔ پھراللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اللہ کریم کافروں کی سختی کو روک دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں کے اس چھوٹے سے لشکرسے کفار ایسے مرعوب ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں میدان میں نہ آسکے ۔
سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکی شجاعت:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شجاعت میں سب سے اعلیٰ ہیں کہ آپ کو تنہا کفار کے مقابل تشریف لے جانے کا حکم ہوا اور آپ آمادہ ہوگئے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حبیبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی شجاعۃ النبی علیہ السلام وتقدّمہ للحرب، ص۱۲۶۲، الحدیث: ۴۸(۲۳۰۷))
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ کسی کو نہیں دیکھا۔ (الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الشجاعۃ والنجدۃ، ص۱۱۶، الجزء الاول)
حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بے مثل شجاعت و بہادری کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے: جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الشجاعۃ والنجدۃ، ص۱۱۶، الجزء الاول)
غزوۂ حنین کے دن جب ابتداء ًمسلمان کفار کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میدانِ جنگ سے فرار ہوئے تو ایسے نازک وقت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی جانب پیش قدمی فرماتے رہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب فی غزوۃ حنین، ص۹۷۸، الحدیث: ۷۶(۱۷۷۵))
غزوۂ اَحزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے ایک ایسی چٹان ظاہر ہوئی جو کسی سے نہ ٹوٹ سکی، سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وار سے وہ چٹان پارہ پارہ ہو گئی۔ (نسائی، کتاب الجہاد، غزوۃ الترک والحبشۃ، ص۵۱۷، الحدیث: ۳۱۷۳)
ایک رات اہلِ مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر دہشت زدہ ہو گئے تو اس آواز کی سمت سب سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے گئے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۰۳۳)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.