Qoul o Fail Ka Tazad

Book Name:Qoul o Fail Ka Tazad

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)(پ28،الصف:02)

ترجَمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو ! وہ بات کیوں  کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے اس آیت سے معلوم ہو اکہ قول اور فعل میں  تضاد نہیں  ہونا چاہئے بلکہ اپنے قول کے مطابق عمل بھی کرنا چاہئے ۔ یاد رہے کہ اِس تضاد کی بہت سی صورتیں  ہیں  جیسے لوگوں  کو اچھی باتیں  بتانا لیکن خود اُن پر عمل نہ کرنا ،یا کسی سے وعدہ کرنااور اُس وقت یہ خیال کرنا کہ میں  یہ کام کروں  گا ہی نہیں ،صرف زبانی وعدہ کر لیتا ہوں وغیرہ  یعنی ایک بات کہہ دیتا ہوں  لیکن پوری نہیں  کروں  گا۔([1])

قرآنِ کریم میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۴۴)(پ1،البقرۃ:44)

ترجَمۂ کنز العرفان: کیا تم لوگوں  کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں  عقل نہیں۔

یاد رہے کہ معمولی سی برائی بھی اُس  وقت ایک فتنے اور تباہی کی صورت اختیار کرلیتی ہے جب اس کا ارتکاب وہ لوگ کریں جو خود  تو دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہوں لیکن جب خود ان کے اعمال سے  پردہ ہٹے تو یہ حقیقت سامنے آئے کہ گناہوں میں سب سے زیادہ مبتلا وہی ہیں۔ لہٰذا یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ قول و فعل کا تضاد اور خلوت و جلوت کا فرق  دنیا وآخرت دونوں کے لئے تباہ کُن ہے ۔ دنیا میں اس کا نقصان یہ ہے کہ جب کسی شخص کا یہ تضاد ظاہر ہو جائے تو لوگ عمر بھر اُس پر اعتماد نہیں کرتے، بلکہ اُس کی حرکات دیکھ کر بہت سے لوگ دین سے ہی دور ہو جاتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کا کیا انجام


 

 



[1]... تفسیرصراط الجنان، پ28، الصف، تحت الآیۃ: 10،2/125