Book Name:Pukarne Ka Andaz
مخصوص حلقے میں کسی کو کسی خاص انداز یا نام سے پکارنا برا نہیں لگتا لیکن مجمعِ عام میں وہی انداز دل آزاری کا باعث بن جاتا ہے ۔ لہٰذا سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔
آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد23صفحہ 204پر لکھتے ہیں:کسی مسلمان بلکہ کافر ذِمّی کو بھی بلاحاجتِ شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شِکنی ہو، اُسے ایذاء پہنچے، شرعا ًناجائز وحرام ہے، اگر چہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو، ”فَاِنَّ کُلَّ حَقٍّ صِدْقٌ وَلَیْسَ کُلُّ صِدْقٍ حَقًّا “(ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں)۔ ([1])
جس کا جونام ہو اس کو اُسی نام سے پکارنا چاہئے ،اپنی طرف سے کسی کا اُلٹا سیدھا نام مثلاً لمبو، کالو وغیرہ نہ رکھا جائے ،عُمُوماً اس طرح کے ناموں سے دل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چِڑتا بھی ہے لیکن پکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کے لئے اسے اسی نام سے پکارتا ہے ،ایسا کرنے والوں کو سنبھل جانا چاہئے ۔کیونکہ کسی کو الٹے نام سے پکارنے والے پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں،چنانچہ؛
حضرتِ عُمَیْر بِن سَعْد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیوں کے تاجْوَر، مَحبوبِ رَبِّ اکبر صلی اللہ علیہ و اٰلِہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی شخص کوا س کے نام کے علاوہ نام سے بلایا اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔([2]) یعنی کسی ایسے لقب سے نہ پکارے جو اُسے برا لگے، ایسا نہیں